نیٹ ورک مارکیٹنگ کے متعلق چند سوالات کے جوابات| نیٹ ورک مارکیٹنگ حرام یا حلال

0

نیٹ ورک مارکیٹنگ کے متعلق چند سوالات کے جوابات۔

سوال ۱: نیٹ ورک مارکیٹنگ حلال ہے یا حرام؟


جواب: نیٹ ورک مارکیٹنگ اپنے اندر منفی اور مضر اثرات کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہے نیز اس میں استحصال سے پیسہ آ جاتا ہے۔ قرآن میں واضح ہیں ولا تأکلوا اموالکم بینکم بالباطل: یعنی استحصال سے آپس میں مال مت کھاؤ۔ 


سوال۲: نیٹ ورک مارکیٹنگ کیسے حلال بن (ہو) سکتی ہے۔


جواب: اگر آپ نیٹ ورک مارکیٹنگ کے طرزِ عمل سے واقف ہوں گے۔اس میں مصنوعات (پروڈکٹس) کی قیمت حد سے زیادہ ہوتی ہیں۔ جس کے باعث کمپنی کو بہت سارا استحصال کردہ پیسہ بچ جاتا ہے۔ جس کا قلیل حصہ یہ اپنے ڈسٹری بیوٹرس (دالالوں) میں ناجائز طریقے سے تقسیم کرتے ہے۔ اس لئے مصنوعات کی قیمت زیادہ نہ ہو گئی اور لوگوں سے پیسے سے پیسہ لینا نہ پایا جائے تو قلیل رقم بھی تقسیم نہیں ہوگی۔ جس کے باعث لوگ نہیں جھوڑیں گے ظاہرہے کمپنی بند، نیٹ ورک مارکیٹنگ کاروبار نا مکمل بیلنس ماڈل ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کی کوئی بھی شکل حلال نہیں ہو سکتی۔ واللہ اعلم۔


سوال ۳: کن وجوہات سے نیٹ ورک مارکیٹنگ حرام ہے۔

جواب: جن وجوہ سے کاروبار حرام کے دائرے میں داخل ہوتا ہے اُن سے نیٹ ورک مارکیٹنگ لبریز ہے۔ جیسے استحصال سے پیسہ آ جانا، پیسے سے پیسہ سرقہ کرنا، اور ان گنت  وجوہ ہے جن کی وجہ سے یہ حرام میں داخل ہوتی ہے۔ مزید معلومات کے لیے بندے کے مضامین کا مطالعہ کریں۔ 

نیٹ ورک مارکیٹنگ حرام کیوں ہے

نیٹ ورک مارکیٹنگ اور عظیم شخصیات اور دارالافتاؤں کے فتویٰ


Is Network Marketing halah in Islam

غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو| فاتحہ خلف الامام| رد غیر مقلدیت| غیر مقلد گمراہ کیوں

0

رد غیر مقلدیت نمبر ۱۹

غیر مقلد: عجیب معاملہ ہے ہمارے سیالکوٹی صاحب نے اپنی صلاۃ الرسول ؐ میں اس حدیث کو نہیں لکھا، نہ ہی ہمارے علما نے بھی اس حدیث کو اپنی تقریر میں بیان کیا۔


البتہ ہمارے علما نے اس حدیث کا مفہوم کچھ اور طرح بیان کیا ہے صلاۃ الرسول  ؐ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ وإذا قرأ فانصتوا سے مراد سورۃ فاتحہ کے بعد والی قرأت ہے ۔ (تسہیل الوصول ۱۷۵)

 نیز اقبال کیلانی نے کیا خوب ترجمہ کیا ہے ”اور جب امام(سورہ فاتحہ کے بعد ) قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو“ ( کتاب الصلاۃ ص:۸۰)


نیز ہماری تفسیر میں اسکا یہ مطلب لکھا ہے:’’جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قراءت خاموشی سے سنیں‘‘ ۔ ( احسن البیان ص:۲)


سنی: ذرہ حدیث کے الفاظ دیکھیں کہ کیا وہ اس مفہوم اور کیلانی بریکٹ یا صحافی مطلب کے متحمل میں یانہیں؟ وإذا قرأ فانصتوا کے بعد ہے وإذا قال ولا الضالین فقولوا   آمین‘‘ جب امام ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو گویا جس قرات کے وقت خاموش رہنے کا حکم ہے وہ ولاالضالین سے پہلے شروع ہو چکی ہے ۔الغرض حدیث کے مفہوم میں ولا الضالین سے پہلے والی قراءت کے وقت بھی خاموشی کا حکم ہے۔ جبکہ تمھارے مندرجہ بالا تینوں مصنفوں کے مفہوم کیمطابق ولا الضالین کے بعد والی قراءت کے وقت خاموشی کا حکم ہے ۔ اب تم حدیث والا مفہوم مانو گے یا اپنے مصنفوں والا مفہوم؟


غیر مقلد : ہمارے شیخ الحدیث جانباز صاحب اور شیخ الحدیث اسماعیل صاحب نے اس حدیث کا ایک اور جواب لکھا ہے کہ حدیث وإذا قرأ فأنصتوا کا بھی یہی مطلب ہے کہ جب امام پڑھ رہا ہو تو مقتدی کو بلند آواز سے نہیں پڑھنا چاہیے۔ ( صلاۃ المصطفی ﷺ ۱۶۲) نیز ( رسول اکرم   ؐ کی نماز صفحہ: ۷۰ ) پر بھی یونہی لکھا ہے ۔


سنی: مندرجہ بالا دونوں حضرات چونکہ شیخ الحدیث میں لہذا انہیں اچھی طرح پتہ تھا کہ یہ حدیث سابقہ تین مصنفوں والے مفہوم کی متحمل نہیں لہذا انہوں نے اس مفہوم کو نظر انداز کر کے ایک اور ہوم بیان کیا لیکن کہیں حدیث شریف کا لفظ واذا قرأ فأنصتوا  اس معنی و مطلب کا متحمل بیان کیا، لیکن کیا حدیث شریف کا واذاقرا فانصتوا کا یہ یعنی دکھا دو کہ جب امام قرات شروع کرے تو تم بلند آواز سے نہ پڑھو۔


سنی: تم عجیب قوم ہو کبھی تو صحیح مسلم کی حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہو۔ یہ تیر نہ چلے تو اپنے پاس سے اضافہ کرتے ہو کہ اس سے مراد فاتحہ کے بعد والی قرأت ہے اور کبھی فأنصتوا ‘‘ کا معنی ہی الٹ دیتے ہو۔ یوں تم تیر تکےّ چلاتے ہو۔

اس لیے ہم آپ لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ حکیم سیالکوٹی اور ان جیسے دوسرے مصنفین کی تحریر میں پڑھ کر اور کم علم ومتعصب واعظوں کی تقریر میں سن کر اتنے بڑے بڑے مسلکی فیصلہ نہ کیا کرو۔ اور لوگوں پر فتویٰ جاری نہ کیا کرو۔ یہ قیامت کے دن تمہیں کوئی نفع نہیں پہنچا سکیں گے۔


غیرمقلد: اچھا تو ایک اور حدیث ہے: لاصلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب مولانا صلاح الدین یوسف مدّظلہ لکھتے ہیں: اِس حدیث میں مَن کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے، (در) ہو یا امام، یا امام کے پیچھے مقتدی سرّی نماز ہو یا جہری ،فرش نماز ہو یا نفل ، ہر نمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ۔ (احسن البیان ص ۱)


سنی: آپنے موصوف مدّظلہ کا دعویٰ تو نقل کر دیا، انہوں نے اس دعوے پر کوئی دلیل دی ہے کہ من کا لفظ عام ہے .... ؟


غیر مقلد: یقیناً دلیل دی ہوگی چونکہ یہ تو ہماری بڑی معتبر تفسیر ہے ، لیکن یہاں تو اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ البتہ چونکہ وہ مفسر میں اسلئے وہ خود بھی تو دلیل ہیں۔


سنی: تم عجیب قوم ہوا ایک طرف تو صحابہ کرام  ؓ  کو دلیل نہیں مانتے اور دوسری طرف پندرھویں صدی کے موصوف مدّظلہ کو اور انکے قول کو دلیل مان لیتے ہو؟


غیر مقلد: چلیں آپ دلیل سے بتا دیں کہ یہ حدیث کس کے بارے میں ہے؟

سنی: ملاحظہ ہو۔اوّلاً:

محدثانہ مفہوم : مشہور محدّث کے امام تر ندی نے اپنی سنن ترمذی میں بخاری کے استاذ اور مشہور محدث امام احمد رحمہ اللہ نقل کیا ہے کہ لاصلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شخص اکیلا نمار پڑھ رہا ہو تو سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر اس کی نماز نہیں ہوگی۔۔۔۔۔جاری 

اگلا صفحہ

غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو| فاتحہ خلف الامام| رد غیر مقلدیت|

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۸


 سنی: ۔۔۔۔آئے میں آپ کو دلیل پیش کرنے کا ڈھنگ سکھاؤں ۔ ہمارا موقف ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی چپ رہے ۔ اس کی دلیل ملاحظہ ہو: حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی روایت بطریق حضرت قتادہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کر لیا کرو پھر تم میں سے کوئی ایک شخص امامت کرائے ، جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہو جاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولاالضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ (صحیح مسلم، التشھد فی الصلاۃ ،حدیث ۴۰۴ ) ۔

آپ نے ملاحظہ کیا:


(۱) اس میں نماز با جماعت کا ذکر ہے۔


(۲) امام اور مقتدی کی ذمہ داریاں متعین کر دی گئیں ۔ جس چیز میں امام اور مقتدی شریک ہیں اس کی وضاحت کر دی گئی کہ امام تکبیر کہے تو تم مقتدی بھی تکبیر کہو۔

(۳) جس کام میں امام اور مقتدی شریک نہیں بلکہ ہر ایک کی علیحدہ ڈیوٹی ہے اس کا بھی تعین کر دیا گیا ۔


(۴) کہ جب امام پڑھے تو تم مقتدی چپ رہو ، اور جب امام ولا الضالین کہے تو تم مقتدی آمین کہو ، اور جب امام تکبیر کہہ کر رکوع کرے تو تم مقتدی بھی تکبیر کہہ کر رکوع کرو۔

(۵) آ گے پھر ڈیوٹی مختلف ہے کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم مقتدی ربنا لک الحمد کہو۔

(۲) آ گے پھر امام اور مقتدی شریک ہیں، تو حکم ہوا کہ جب امام تکبیر کہہ کر سجدہ کرے تو تم مقتدی بھی تکبیر کہہ کر سجدہ کرو۔


الغرض آپ نے دیکھا کہ ہم اپنے دعوے کے مطابق دلیل پیش کرتے ہیں جس میں باجماعت نماز اور امام و مقتدی کا واضح ذکر ہے ۔ جس میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہمارے سر آنکھوں پر ہے کہ جب امام قراءت کرے تو تم چپ رہو ۔ جبکہ تم کہتے ہو کہ امام پڑھے تو مقتدی بھی پڑھے۔ اب میں اپنے پیارے نبی ﷺ کی بات مانوں یا تمہاری؟ بہر حال اب تم بھی صحیح بخاری ومسلم سے ایسی واضح دلیل پیش کرو جس میں ارشاد نبوی ہو کہ امام فاتحہ پڑھے تو تم مقتدی بھی پڑھو۔

غیر مقلد: خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہو جسے بہت بڑا تیر مارا ہے ۔ پہلے بھی معلوم کر لیتے کہ یہ حدیث صحیح بھی ہے کہ نہیں۔ دیکھئے یہ ہماری نمائند تفسیر احسن البیان‘‘میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں اسی روایت واذا قرأ فانصتوا کے بعد بریکٹ میں لکھا ہے:

بشرط صحت‘‘ (ص :۲) اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو ہمارے صحافی مفسر کو بشرط صحت کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ نیز نواب نور الحسن صاحب نے بھی اس کی سند میں کمزوری کی وجہ سے اس حدیث کو ناقابل استدلال قرار دیا ہے ( عرف الجادی ۳۸ ) ہماری کتاب امتیازی مسائل میں بھی اس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے(۳۹) پھر ہمارے مشہور عالم مولانا جئے پوری نے حقیقۃ الفقہ‘‘ میں اسی حدیث کی طرف متعین اشارہ کر کے لکھا ہے کہ اذا تکبر الامام فکبروا والی حدیث ضعیف ہے ( حقیقت الفقہ ص ۲۵۱ ) بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کی احادیث ضعیف ہیں ۔(ص ۲۵۱)۔


سنی: ویسے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ یہ حدیث ،مقتدی کے خاموش رہنے اور فاتحہ نہ پڑھنے پر بالکل واضح ہے کہ نہیں؟


غیر مقلد: ہے تو بالکل واضح لیکن اصل مسئلہ تو اس حدیث کے صحیح ہونے کا ہے،آخر ہمارے علماء کا بھی بڑا گہرا مطالعہ ہے، انہوں نے اسی ضعف کی وجہ سے اس حدیث کو نظر انداز کیا ہے ۔


سنی: آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ حدیث میں مسلم کی ہے۔

غیر مقلد: کیا کہا؟ صحیح مسلم میں؟ یا تم نیند میں ہو کہ ہم سور ہے ہیں؟


سنی: نہ ہم نیند میں ہیں نہ تم سور ہے ہو ۔ یہ لیجے میں مسلم حدیث نمبر ۴۰۴


غیر مقلد : ہاں بھئی حدیث تو صحیح مسلم میں موجود ہے ۔ پھر بھی ہمارے علماء نے اسے ( بشرط صحت ) کیوں لکھا ؟ اور ضعیف کیوں قرار دیا؟

سنی: یہ تو آپ اپنے علماء سے پوچھیں کہ وہ اہل حدیث کہلا کر لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ ہم حدیث پر عمل کرتے ہیں لیکن جب اس صحیح حدیث سے ان کے مسلکی موقف پر واضح زد پڑی تو تمہارے علما نے ہم مسلک عام لوگوں پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے انہیں تأثر دیا کہ یہ ضعیف ہے ۔ صبح شام صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راگ الاپنے والوں کا یہ طرز عمل انتہائی افسوناک ہے۔

غیر مقلد: عجیب معاملہ ہمارے سیالکوٹی صاحب نے اپنی صلوٰۃ الرسول ؐ میں اس حدیث کو نہیں لکھا، نہ ہی ہمارے علماء نے کبھی اس حدیث کو اپنی تقریر میں بیان کیا۔۔۔۔۔۔جاری 

اگلا صفحہ

رد غیر مقلدیت|غیر مقلد گمراہ کیوں| فاتحہ خلف الامام کا مسئلہ

0

ردِ غیر مقلدیت نمبر ۱۷

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ابتدائی

اہل حدیث حضرات امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی بابت اپنے سخت موقف کا اظہاربڑی جرات سے کرتے ہیں لیکن جب ان سے انکے موقف کے مطابق دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو نقشہ بدلنے لگتا ہے، اور سائے سمٹنے لگتے ہیں ۔ نیز جب ان سے سوال کیا جا تا ہے کہ مقتدی فاتحہ کب پڑھے؟ امام سے پہلے ، امام کے ساتھ ، امام کے بعد یا فاتحہ کے وقفوں میں تو کوئی تسلی بخش حتمی جواب نہیں ملتا ۔


بہر حال آئندہ صفحات میں اس مسئلہ کے بعض اہم پہلوؤں کو اجاگر کر نے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ واضح ہو سکے کہ ان حضرات کے اپنے دامن میں کیا کچھ ہے؟


اہل حدیث حضرات کے ہاں اونچی آمین کا جو تصور ہے اسکی تصدیق دلائل سے ہوتی ہے یا نہیں ؟ نیز آمین کے کچھ اہم پہلو جو اہل حدیث عوام کی نظروں سے اوجھل رکھے گئے ہیں انہیں واضح کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔


اہل حدیث حضرات کے ہاں مقتدی بعض آیات کا جواب دیتے ہیں اسکی دلیل دل کوا پیل کرتی ہے یا نہیں ؟ نیز خود علماء اہل حدیث نے اس موقف کی کمزوری اور بے ثبوتی پر جو آخری تحقیق پیش کی ہے اسکی ایک جھلک آئندہ تحریر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اگر اُنکی تمام مساجد میں اس کے مطابق عمل شروع ہو گیا تو ٹھیک ہے ورنہ واضح ہو جائے گا کہ وہ دلائل کی دنیا سے بے نیاز ایسے موقف سے چمٹے ہوئے ہیں جو حد یث سے ثابت نہیں ہے ۔


اور یہ سب کچھ انکی اپنی ہی کتابوں اور تحریروں کی روشنی میں۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


فاتحہ خلف الامام


غیر مقلد : یہ ہے نماز کا معرکۃ الآراء مسئلہ،اب آپ کو پتہ چلے گا کہ ایک طرف دلائل و احادیث کے انبار ہیں اور دوسری طرف تمہارے امام کا قول ہے ۔ ایک طرف بخاری ومسلم ہے اور دوسری طرف ضعیف حدیثیں ہیں ۔


سنی: محترم جب آپ اپنی نماز کی بسم اللہ ہی دلائل سے ثابت نہیں کر سکے تو آ گے کیا کر یں گے؟ تو فرمایئے سورۃ فاتحہ کی بابت آپ کا کیا موقف ہے؟


غیر مقلد: ہما را دعوی ہے کہ سرّی اور جہری ہر نماز میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض اور رکن ہے ۔ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ ہم اس مسئلہ کو قرآت فاتحہ خلف الامام کا عنوان دیتے ہیں۔ دیکھئے : (فتاوی ستاریہ ۱۲۶/۴)۔ ( صلاۃ المصطفیٰ ص۱۶۱) ۔ ( رسول اکرم ﷺ کی نمازی ۲۷ ) ۔ ( خاتمہ اختلاف ص ۳۴)؟

 سنی: آپ اپنے اس دعوے کے مطابق کوئی دلیل پیش کر یں گے ۔؟ غیر مقلد : جی ہاں دلائل کا انبار لگا دوں گا ۔ دیکھیئے صحیح بخاری میں ہے لاصلوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب ، جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اسکی نماز نہیں۔


سنی: جناب آپ دلائل کے انبار نہ لگائے بس اپنے دعوے کے ثبوت میں صرف ایک حدیث صحیح بخاری ومسلم سے پیش کر دیجئے ۔ چونکہ آپ کے دعوے میں خلف الامام اور با جماعت نماز کا تذکرہ ہے جبکہ مندرجہ بالا دلیل میں باجماعت کا تذکرہ نہیں ۔ آپ کے دعوے میں ہے کہ باجماعت نماز میں مقتدی بھی سورۃ فاتحہ پڑھے جبکہ اس حدیث میں با جماعت نماز اور مقتدی کی صراحت نہیں ۔ آئے میں آپ کو دلیل پیش کرنے کا ڈھنگ سکھاؤں ۔ ہمارا موقف ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی جب رہے ۔اس کی دلیل ملاحظہ ہو: حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی روایت بطریق۔۔۔۔۔۔جاری 


اگلا صفحہ

ماں کی لازوال محبت| والدین کے حقوق |ماں کی اہمیت

0


ماں: کا لفظ جب تلفظ و تصور میں آ جاتا ہے، تو محبت کی لہریں، آپ کے ذہن کو لبریز کرتی ہے۔ ماں انسان کی شکل میں وہ فرشتہ ہے۔ جو انسان کیلئے عیاں ہے۔ لبرل ازم (مغربیت) کو چھوڑ کر باقیہ تمام مذاہب و مکاتبِ فکر میں ماں کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ماں اُن عظیم نعمتوں میں سے ہیں۔ جس کا احترام کر کے، جنت کی مفتاح حاصل کر سکتے ہیں۔ ماں وہ شخصیت ہے، جو اپنا دورِ زرین  کو بچے کی تربیت و پرورش پر نچھاور کرتی ہیں۔ اِن کا رتبہ اتنا سرفراز ہیں، خود مالکِ کائنات نے اس کا اعتراف کروایا ہیں۔ جیسے اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے ۔ وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً رَّبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوسِکُمْ إِن تَکُونُواْ صَالِحِیْنَ فَانَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوراً․


ترجمہ : اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آو ، اگر وہ یعنی ماں، باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ان کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ”ہوں “ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا ، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے(صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا ) تمھارا رب تمھارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔

قرآن مجید کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہیں کہ جب اللہ تعالا حکمِ عبادت کے ساتھ کسی اور امر کی تاکید کرتا ہے، تو مؤیَد حکم کسی توثیق کا مستمد نہیں رہتا ہے۔ اس کا اندازہ آپ بلا آیات سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنی عبادت کے حکم کے بعد صراحت کے ساتھ نقشہ کھینچا ہے۔

ماں کی تکلیفات: ہمارے حروف کتنے ہی وسیع و بسیط کیوں نہ ہو ہم ماں کے اٹھائے ہوئے تکلیفات کا نقشہ نہیں کھینچ سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ دور نبوت میں،  نبی صلی اللہ علیہ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کتنے تکلیفات سہنے پڑے ہیں۔ واحد شخصیت ماں ہے، جس کی تکلیفات کی صراحت قرآن مجید میں ملتی ہیں۔


ماں کے تکلیفات کا ذکر قرآن میں: وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ إِحْسَاناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَوَضَعَتْہُ کُرْہاً

ترجمہ : اس ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ۔حمل کے نوماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف، یہ سب ماں برداشت کرتی ہے۔

اللہ تعالی نے جب ”اف“ کرنے سے گریز کرنے کا حکم بھی وارد کیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں فرمایا اگر والدین کی بے ادبی میں ”اف“ سے کم درجہ ہوتا تو اللہ جلہ شانہ اسے بھی حرام فرما دیتے۔(الدالمنثور: ۵/ ۲۲۴)


والدین کا ادب واحترام کا تذکرہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں: رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شخص حاضر ہوا، ان کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی تھا، نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب عرض کیا یہ میرے والد ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: لا تمش امامہ، ولاتقعد قبلہ، ولاتدعہ باسمہ ولاتستب لہ (معجم الأوسط، للطبرانی:۴/۲۶۷) یعنی ان کے آگے مت چلو، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا۔


ادب سے بات کرنا، انسان کی پہچان ہیں، پر اللہ تعالیٰ قرآن میں خصوصاً ذکر فرمایا ہے وقل لہما قولاً کریما یعنی ان کا ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا۔ قول کریم کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: خطا کار اور زر خرید غلام سخت مزاج اور ترش روی آقا سے جس طرح با ت کر تا ہے، اس طرح بات کر نا قول کریم ہے (الدر المنثور: ۵/۲۲۵)




اختصار کے ساتھ، دور حاضر میں امت رشتوں کے ساتھ، رشتوں کے حقوق کو فقدان کر کے پر سکون زندگی سے عاری ہے۔ اس لیے انسانیت خصوصاً اہلِ اسلام کو رشتوں کے واجبات کو بھولنا نہیں چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو رشتوں کے ساتھ، رشتوں کے حقوق خصوصاََ ماں، باپ کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔


ماجد کشمیری

غیر مقلد اور سنی درمیان مناظرے کا اتمام فیصلہ کمیٹی، غیر مقلد گمراہ کیوں

0

ردِ غیر مقلدیت نمبر ۱۶


 فیصلہ کمیٹی: جانبین کی گفتگو سننے کے بعد ہم متفقہ طور پر اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ:

(۱) اہل حدیث ساتھی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری پر اعتماد کرتے ہوئے دعوی کیا کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایات بخاری ومسلم میں ہیں لیکن صحغ بخاری ومسلم میں سے وہ ایسی کوئی روایت نہیں دکھا سکا۔

(۲) ہم نے خصوصی گنجائش دی کہ چلوکسی اور کتاب سے کوئی صحیح حدیث پیش کر دو تو اس نے ابن خزیمہ کی ایک روایت پیش کی جس کی سند کو اسی کتاب کے

حاشیہ نگار نے ضعیف قرار دیا۔

(۳) حکیم سیالکوٹی نے حضرت بلب کی روایت کا جو حشر کیا اس پر ہمیں انتہائی دکھ اور افسوس ہوا۔ نیز اس کی سند میں بھی ساک بن حرب کمزور ہے ۔

(۴) پھر حضرت ابن عباس کی روایت کے استدلال کیا گیا ہے جبکہ خود اہل حدیث حضرات قول صحابی کو حجت نہیں سمجھتے، نیز اس میں واردمفہوم پر ان کا اپناعمل

بھی نہیں نیز اس کی سند میں تین راوی بہت ہی کمزور ہیں ۔

الغرض ’’صلاۃ الرسول " ‘‘میں بیان کردہ پانچ حدیثوں کی سند کی حیثیت دیکھنے کے بعد واضح ہوا کہ سینے پر ہاتھ باندھتے کا مدعی صحیح بخاری ومسلم کی حدیث تو کجا کوئی ایک روایت بھی پیش نہیں کر سکا جس کی سند صحیح ہو۔

(۵) غیر مقلد مدعی نے آخر میں مولانا اسماعیل سلفی صاحب کی جو عبارت پیش کی ہے اگر یہ شروع میں پیش ہو جاتی تو ہمیں اس موضوع پر بی طویل گفتگو سننے کی ضرورت ہی نہ پڑتی کہ جب دونوں طرح نماز ہو جاتی ہے اور ان کے بقول صحابہ کا عمل دونوں طرح ہے تو پھر ایک دوسرے پر اعتراض کی گنجائش ہی نہیں۔


اگلا صفحہ

غیر مقلد اور سنی کے درمیان مناظرے، صلاۃ الرسول ؐ جو ہمارے مسلک کی مرکزی کتاب تھی اس کی تقریباً ایک سو پچپن حدیثوں کو ضعیف مان لیا

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۵


 غیر مقلد: یہ جو آپ نے ابن خزیمہ میں حضرت وائل بن حجر ؓ کی حدیث پر جرح کی ہے تو واقعی اس کی سند ضعیف ہے لیکن دیگر احادیث ضعیفہ اس کی شاہد ہیں ۔لہذا ان کی تائید کی وجہ سے یہ حدیث بھی صحیح ہو جائے گی ۔


سنی: ایک دفعہ ریل گاڑی میں چند نوجوان بغیر ٹکٹ سوار ہو گئے ، کچھ دیر بعد ٹکٹ چیکر کرنے والا آفیسر آ گیا اور چیکنگ کرتے ہوئے ان میں سے ایک نوجوان کے پاس پہنچا تو اس نے اشارہ کیا کہ ٹکٹیں وہ پچھلے ساتھیوں کے پاس ہیں ۔ جب چیکر پچھلے نوجوان تک پہنچا تو اس نے اپنے سے پیچھے والے نوجوان کی طرف اشارہ کیا۔ یوں ہر نوجوان بڑی سنجیدگی اور متانت سے اپنے سے پچھلے والے ساتھی کا اشارہ کرتا رہا۔ جب چیکر ڈبہ کے آخر میں پہنچا تو ان نوجوانوں کا اسٹاپ آ چکا تھا وہ سب اتر گئے اور چیکر بیچارا ان کا منہ تکتارہ گیا۔

غیر مقلد: یہ علمی گفتگو کی مجلس ہے یا لطیفوں کی؟

سنی: محترم ! حضرت وائل بن حجر ؓ   کی حدیث کو صحیح قرار دینے گچھیا یہی کچھ ہوا ہے ۔ اس کی سند کو تو تم بھی ضعیف مانتے ہوں۔ رہا دیگر شواہد کی وجہ سے اس کو صحیح قرار دینا تو اس کی تفصیل ملاحظہ ہو :


مولانا صادق سیالکوٹی صاحب، نے سینہ پر ہاتھ باندھنے گچھیا پانچ دلیلیں پیش کی ہیں ۔


(۱) حضرت وائل بن حجر  ؓ  کی ابن خزیمہ والی روایت۔


اس کی بابت صلاۃ الرسول کا حاشیہ نگار لکھتا ہے: یہ سند ضعیف ہے لیکن بعد میں آنے والی احادیث اس کی مؤید ہیں جن کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ۔(القول المقبول ۳۴۰)


(۲) اس کے بعد سیالکوٹی صاحب نے طاؤس کی مرسل روایت ذکر کی۔ اور خود اہل حدیث مرسل کی ضعیف کہتے۔ملاحظہ ہو: (نماز نبوی ص ۲۷۳﴾

(۳) پھر حضرت ہلب  ؓ کی روایت سیالکوٹی صاحب نے ذکر کی اس کی بانت اسی کتاب صلاۃ الرسول کا حاشیہ نگار لقمان سلفی لکھتا ہے: اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر شواہد میں یہ قابل ذکر ہے (ص:۱۱۵) اسی کتاب صلاۃ الرسول کا دوسرا حاشیہ نگار بھی یہی لکھتا ہے کہ: اس حدیث کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر شواہد میں یہ قابل ذکر ہے ( القول المقبول ص: ۳۴۱) 

(۴) پھر سیالکوٹی صاحب نے حضرت وائل بن حجر ؓ   روایت بحوالہ طبرانی نقل کی ہے جس کی بانت صلاۃ الرسول کا حاشیہ نگار لکھتا ہے: یہ سند بھی ضعیف ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی احادیث اس کی مؤید ہیں جن بناء پر یہ حدیث صحیح ہے (القول المقبول ص۳۴۰)

پھر سیالکوٹی صاحب ؒ نے حضرت ابن عباسؓ کی عند النحر والی روایت ذکر کی جو کہ نوجوان حاشیہ نگاروں کے مسلسل اشاروں کی آخری کڑی تھی ۔ یوں اچانک وہ اسٹاپ پر اتر کر اپنے بھولے قارئین ومقلدین و معتمدین کی سادگی پر مسکراتے ہوئے چل دیئے ۔ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے جن یہ تکیہ تھا وہی پتے لگے ۔ چونکہ اس روایت کی بابت تو صلاۃ الرسول کے یہ تینوں حاشیہ نگار بالا جماع لکھ چکے تھے کہ یہ ضعیف ہے۔ ملاحظہ ہو :


صلاة الرسول ؐ حاشیہ لقمان سلفی : ضعیف (ص:۱۱۶) 

صلاة الرسول ؐ حاشیہ تسہیل الوصول میں ہے :ضعیف ( ص:۱۵۴) 

صلاة الرسول ؐ حاشیہ القول المقبول میں ہے:ضعیف (ص:۳۴۲)

 ان پانچوں دلائل کی علمی حیثیت واضح ہو جانے کے بعد ایک غیر مقلد منصف کا یہ خطیبانہ جملہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ’الغرض از روئے دلائل ساطعہ و براہین قاطعہ یہ بات مسلّم ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھنا موثق اور صحیح (صلاۃ مصطفی ﷺ ص: ۱۴۵) نعر تکبیر...مسلک اہل حدیث


 غیر مقلد : میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے جی چاہتا ہے کہ ان نوجوانوں کے غیر ملکی دولت سے بنے ہوئے ایوانوں کو جلا کر خاکستر کر دوں جنہوں نے اپنے علم کی دھاک بٹھانے کے لیے صلاۃ الرسول ؐ پر یہ حاشیے لکھ کر چورا ہے میں مسلکی دلائل کا بھانڈا پھوڑ دیا ۔ یہ صلاۃ الرسول ؐ جو ہمارے مسلک کی مرکزی کتاب تھی اس کی تقریباً ایک سو پچپن حدیثوں کو ضعیف مان لیا۔ پھر باقی ہمارے پلے رہ ہی کیا گیا ؟ کل تک ہم جس کتاب کو بڑے فخر سے پیش کر تے تھے آ ج اس کتاب کے ان حاشیوں کی وجہ سے ہمارا سر ندامت سے جھکا ہوا ہے۔


سنی: مجھے آپ کے جذبات کی قدر ہے میں بھی ایک شعر سنائے دیتا ہوں پھر فیصلہ کمیٹی کو دعوت فیصلہ دیتے ہیں ۔


دل کے بھپو لے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے


آپ نے نواب نورالحسن خان صاحب ؒ کی کتاب عرف الجادی میں اس موضوع کو پڑھا ہے؟


غیر مقلد: دراصل عرف الجادی فارسی زبان میں ہے۔ ہمیں تو عربی نہیں آتی فارسی سے کیا استفادہ کریں گے؟ کوئی علم دوست اس کا اردو ترجمہ کر دے تو ہمیں اس سر چشمہ علم سے فیضیاب ہو۔

سنی: تو لیجئے میں آپ کو ترجمہ کر کے بتاتا ہوں: دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے چا ہے ناف کے اوپر باندھے یا ناف کے نیچے، یا دونوں کے درمیان اور اس بارے میں تقریباً بیس حدیثیں وارد ہیں اور کسی اہل علم نے ان پر جرح نہیں کی، اور بچے شک ان کا انکار کرنا آخری زمانہ کی علامت ہے اور قیامت کے قریب ہونے کی علامت ہے ۔(عرف الجادی ۲۵)


گویا نواب نورالحسن خان صاحب ؒ تک اہل حدیث تو تینوں جگہ ہاتھ باندھنے کو سمجھتے تھے ان کے بعد کے غیر مقلدوں نے اس مسئلہ کو تنگ نظری چھیڑ کر نواب صاحب کی پیشنگوئی کو ثابت کر دیا کہ قیامت آنے والی ہے۔

فیصلہ کمنٹی:۔۔۔۔جاری 

اگلا صفحہ

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں