اسوہِ نبوی کی ذمہ داریاں
استاذ: وہ شخص ہے جس کی پوری زندگی متعلم کے لیئے صرف ہوتی ہے۔ گر ان کا متعلم فراغت حاصل کر بھی لے تب بھی تلمذیت سے کوسوں نہیں ہوتا۔ علوم سمندر کی مانند ہے، غوطہ زن زیادہ دیر تک پانی میں نہیں رہ سکتا لیکن استاذ سمندر کا بادشاہ ہوتا ہیں۔ وہ اٹھیں تو پورا پانی ابھر کر آتا ہے۔ وہ خاموش ہو جائیں تو یہ نہ سمجھیں کہ پانی کے بہاؤ میں تغیر نہیں آسکتا، بل کہ خاموشی کے بعد کے طوفان کے آنے کی راقبیت کا موجب بنتا ہے۔ اب اس بات کو ازبر کر لیں کہ آپ استاذ کے سامنے تادیب کی جو صورت اختیار کر سکتے ہے، اس میں قالب کو ڈھالنا چاہیے۔۔۔۔
جس کا جنتا بڑا فریضہ، اس کی اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس اسوہِ نبوی کے حاملین میں اخلاقی، علمی اور حکمتی اضمحلال آیا ہے، اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، کریں تو ہر فرد کا دعویٰ اہلِ منصبِ استاذ ہونے کا عنفوان ہوگا، یہ ایسا قہر ہے، جس سے نظامی ، نصابی ،علمی اور اخلاقی اضمحلالوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، اس جنگِ جمیل سے رعایا کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو تقاضائے معلمیت نہیں ہے، بل کہ آثارِ جھل ہے۔ چوں کہ یہ ساری واردات اس جھل سے شروع ہوتی ہے، تو اولاً اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ترتیبِ صحیح پر منصب بندی کرنی چاہیے۔
یہ ہی تقاضائے تعلیماتِ نبوی ہے۔ اگر برعکس ہوا تو مذکورہ مخطورات سے دوچار ہونا ہی پڑے گا۔جو معلمین منصوب ہوئے ہیں۔ وہ اس کو قابلیتِ من نہ سمجھیں بل کہ مرتِب کا عطف سمجھیں۔
اب ان کا تذکرہ کرتے ہیں، جن سے اساتذہ کرام آمیز ہوتے ہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر، وہ مندرجہ ذیل ہے۔
یہ نہ صرف اتالیق کی کوتاہی ہے، بلکہ نظامتِ مراکز کی بھی ہے، جو نصاب اسلاف سے تواتراً رواں تھا، اس میں اتنی کمی آئی ہے۔ جس میں کچھ کا تغیر بربنائے مصلحتِ زمن ہے اور کچھ فقدانِ اہلِ مدرس ہے۔ اب جو نصاب متضمن ہے بھی، اس میں بھی اتمام نہیں ہوتا، جس سے وہ کمزوری رہتی ہے، جس کی بھرپائی ذاتی مطالعہ سے بھی رفع نہیں ہوتی ہے۔
2۔ اگر چہ وقت، جو صرف ہوتا ہے تدریس میں اس کی تنخواہ لینا جائز ہے، پر اسی کو ذریعۂ ماش بنانا اور صرف اسی غرض سے تعلیم دینا، جس کی وجہ سے روحِ علم یعنی عمل منتقل نہیں ہوتا ہے۔ اس کو اصلاح کی حاجت ہے (بل کہ سابقہ شیخ الحدیث دارالعلوم رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کی پوری تنخواہ کی مراجعت کو یقنی بنایا)
3۔ خیر استاذ کا کسی طالب علم کو ذہنی دباؤ ڈالنا یا تدریس میں نا تجربہ کار ہونے کی وجہ سے طلبہ کو محروم از تعلیم کرنا، نہ صرف نا اہلیت ہے بل کہ کسی نہ کسی حد تک گناہ بھی ہے۔
کمزور تلامیذ کا خیال نہ کرنا، یہ جان کر کہ وہ ناقابل ہے اور صرف ذہین شاگردوں کو درخورِ اعتنا رکھنا۔۔۔۔۔۔ متکلم اسلام کا اس حوالے سے فقرہ یاد آیا، فرماتے ہیں: کمزور طلبہ کو قابل بنانا ہی استاذیت کا اصل ہنر ہے۔ جس کی کمی آج پائی جاتی ہے۔( روایتِ معنوی) اصلاح کی ضرورت ہے!
سب سے زیادہ خطرہ جو تدریسی نظام کو ہوتا ہے، وہ نا اہل کا فائزِ منصب ہونا ہے، جس کے نقصانات کا تذکرہ بالا میں ہوا۔
اس نوعیت کا حامل خطرہ یہ بھی ہے کہ متعلمین، اساتذہ کی تلمذ کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے روحِ علم منتقل نہیں ہوتا اور یہ عیاں ہے کہ روح کے بغیر جسم مردہ کہلاتا ہے۔ اس لیئے طلبہ کو چاہیے کہ وہ عمل کرنے کی نیت کے ساتھ اسباق کو ازبر کریں اور فہمِ مضامین کو بھی، ورنہ جن اضمحلالوں کا نوشت کردہ میں تذکرہ ہوا وہ سرایت کرے گا۔
اب حلِ مشکل یہ ہے کہ دونوں طرف سے نیک نیتی سے حصول علم اور استاذیت کا فریضہ انجام دیں تو اسلافوں والا علم باعمل سرایت کریں گا۔ ان شاءاللہ تعالا۔
اللہ تعالا ہمیں فہمِ تقاضائے تعلیم و تعلم کی توفیق دیے۔ اور ہم سے دیں کا کام لے۔ آمین
محرر: ماجد کشمیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔