حالتِ ناگفتہ سے مجبور
نہیں مجھے وفورِ زنبور
نہیں ہوں میں بے قصور
نہیں بنا میں خالق کا مزدور
نہیں مجھے کوئی سندور
میں کیسے بناؤ گا حضور
ثروت سے ہوں مفرور
سببہ میں ہوں بے سرور
اب اپنی محتاجی پر غرور
میں اس لیے ہوں مسرور
زور خیال نہ رہا مستور
ہوگا عیاں فقیر کا دستور
جیب کی مالیت ہے منثور
سببہ نہیں ماحول میں بٹور
اللہ کے حضور بھی نہیں منظور
مجھے سے جسم بھی ہوگیا نامنظور
محسوس ہوا میں ہوں مسحور
اب میری زندگی بنی ہے ناسور
نہیں حالت بدلنے کی مقدور
تخمینہ لگایا کہ ہو میں مسحور
افسوس فکر سے میں معذور
کیسے بنوں گا میں از خود غیور
مامور بہ کی نہیں مجھے ملتی مذکور
کہتے ہیں اس پر بھی نہ ہو رنجور
تیرا ظلم روزِ روشن کی طرح مشہور
مگر ظلوم کا نہیں رہتا ہمیشہ یور
گر جائے گے مظلوم کے پاؤں کی نیور
جب آئیے گا ان میں فطرت کا شعور
نکل جائے گے پنجرے سے طیور
جب ختم ہوگا ان میں باہمی فتور
قبولِ عمل عند اللہ گر ہو خطور
تسلسلِ عمل سے آئے گا نیت میں بلور
شرط وہی ہے کہ بن جا تو شکور
ملے گئی تمہیں ہی خلافت بھرپور
ہم مظلومین سے ہیں مہجور
نہ گھبرا یہ تو ہمارے لیے ہے جور
نہیں ہمارے خون میں نَفور
چھوڑ گھبرانا اے میرے غفور
ہمیں میں ہے قاسم کی جسور
نہیں ہے ہمیں پسند جہادِ میسور
تلاشِ غفیر نہ کر بلکہ کر تتبعِ تیمور
ڈھونڈ اپنے اندر ہی اپنے جیسے اور سَمور
دلیلِ زبور کہ قرآن ہی ہے آخری دستور
نہ بنا دوست ان کو یہ سب ہے چغل خور
نہ گھبرا پھر بھی ہے نظام ان کا کمزور
کیوں کہ نہیں فطرت کا ان کے ساتھ زو
ایم کے کیوں ہوتا ہے تو دل سے چِکور
غالب ہم آئے گئے ہے وعدے میں مذکور
ماجد کشمیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔