رقص،موسیقی اور ثقافتِ اسلام
Dance, Music and the Civilization of Islam
رقص اور موسیقی آپس میں اس طرح لازم و ملزوم ہیں جیسے پانی اور مچھلی۔ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح رقص موسیقی کے بغیر اپنی حقیقت کھو دیتا ہے۔ جدید رقص کو تب تک مکمل اور بہترین نہیں سمجھا جاتا جب تک وہ موسیقی کے سُروں کے مطابق نہ ہو۔ یعنی موسیقی جو حکم دے، اس پر عمل کرنا ہوگا، تب جا کر ایک اچھے رقاص کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے گا۔
اب بعض لوگ رقص کو ورزش قرار دے کر اس کے جواز کی دلیل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ورزش صرف کلبوں اور اسٹیج پر ہی کی جا سکتی ہے؟ جو اسے محض ورزش سمجھتا ہے، وہ حقیقت سے ناواقف ہے، کیونکہ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اس کا مقصد ورزش نہیں بلکہ جذباتی اشتعال انگیزی اور تفریحِ محض ہے۔ اگر واقعی ورزش مقصود ہو تو کیا روزمرہ کے کام، چلنا پھرنا، اور دیگر جسمانی مشقتیں کافی نہیں؟ درحقیقت، یہ محض شیطانی وسوسہ ہے، جو نہ کوئی معتبر دلیل رکھتا ہے اور نہ ہی عقل و فطرت کے مطابق ہے۔ اس کے برعکس، اللہ کی عبادت میں مصروف رہنا انسان کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش عمل ہے، جس میں وضو سے لے کر معیشت و معاملات تک ہر پہلو شامل ہے۔
شرعی حیثیت
اب اگر رقص و موسیقی کی شرعی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل براہین سامنے آتی ہیں:
میں دلائل کے چار بنیادی مصادر ہیں، جن میں اجماع ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ (م ٥٩٧ھ) لکھتے ہیں : وقد انعقد اجتماع العلماء أنّ من ادّعی الرّقص قربه إلی اللّٰہ تعالیٰ فقد کفر : اس بات پر علماء کرام کا اتفاق و اجماع واقع ہوچکا ہے کہ جو شخص رقص کو قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دے ، وہ کافر ہے ۔
(صید الخاطر لابن الجوزی : ص ١٥٤)
علامہ احمد طحطاوی حنفی (م ١٢٣٣ھ) لکھتے ہیں : وأمّا الرّقص والتّصفیق والصّریخ وضرب الأوتار والضّجّ والبوق الّذی یفعلہ بعض من یدّعی التّصوّف ، فإنّہ حرام بالإجماع ، لأنّھا زیّ الکفّار ۔ ”رہا رقص کرنا ، تالیاں پیٹنا ، شور شرابا ، ہارمونیم بجانا ، چیخ وپکار اور بِگل بجانا ، جو کہ صوفیت کے بعض دعویداروں کا معمول ہے ، یہ بالاجماع حرام ہے ، کیونکہ یہ کفار کا طور طریقہ ہے ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص ١٧٤، صفۃ الاذکار)
حصکفی حنفی لکھتے ہیں : من یستحلّ الرّقص قالوا بکفرہ ، ولا سیّما بالدّفّ یلھو ویزمر ۔جو رقص کو حلال سمجھتا ہے ، وہ ان (علماء کرام )کے بقول کافر ہے ، خصوصاً جو ساتھ ساتھ کھیل تماشا کرتا اور ساز بجاتا ہے۔(الدر المختار : ٤/٤٤٦)
قرآن کی نصوص کی طرف رجوع کریں تو وارد ہوا ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّیَتَّخِذَھَا ھُزُوًا أُولٰئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ۔ (لقمان : ٣١/٦)
”اور کچھ لوگ بے ہودہ باتیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو اللہ کے راستے سے گمراہ کریں اور اسے مذاق بنائیں ۔ یہی لوگ ہیں کہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
بے ہودہ باتوں کی سب سے واضح مثال موسیقی اور گانے بجانے کی محفلیں ہیں، جن میں رقص و سرود کی لت شامل ہے۔ لہٰذا، یہ عمل ممنوع اور حرام ہے۔
گانا سنا نفاق کی کھیتی کرنا ہے، جس طرح ایک کچھ بیچوں سے پوری سال کی فصل تیار ہوتی ہے، اسی طرح گانا سے نقاق کی فصل تیار ہوتی ہے۔ جو ایمان کے سبز باغ کو اس طرح جکڑتی ہے کہ وہ بھوسے کے ورے کچھ نہیں رہتا، اس لیے پھر اس کی مقعد جہنم کی نچلی تحت بن جاتی ہے۔ جیسے حدیث و قرآن میں وارد ہوا ہے۔ الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع"
(گانا دل میں نفاق کو اس طرح اگاتا ہے جیسے پانی گھاس کو اگاتا ہے۔)
اور نفاق کے بارے قرآن میں آیا ہے کہ یہ سبب بنانے گا فرشِ جنہم کے ٹھکانے کا۔ إن المنافقين في الدرك الأسفل من النار. (بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔)
مسلمان کا شیوہ یہی ہے کہ وہ خود کو اور اپنے عزیزوں کو ہر اُس راہ سے دور رکھے جو جہنم کی طرف لے جائے۔ رقص و موسیقی جیسے امور وقتی لذت ضرور دیتے ہیں، مگر انجام کے اعتبار سے مہلک ہیں۔ عقل و دین کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اپنی اور اپنوں کی آخرت سنوارنے کی فکر کرے، نہ کہ شیطانی وسوسوں کے جواز تراشے۔
عقل مند وہی ہے جو دنیا کی سراب نما لذتوں پر نہ فریفتہ ہو، بلکہ اپنی اور اپنوں کی آخرت کی حقیقی کامیابی کی فکر کرے۔
ماجد کشمیری
۲۶ رمضان المبارک ۲۰۲۵
مسجد شریف
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔