ماں کی لازوال محبت| والدین کے حقوق |ماں کی اہمیت

0


ماں: کا لفظ جب تلفظ و تصور میں آ جاتا ہے، تو محبت کی لہریں، آپ کے ذہن کو لبریز کرتی ہے۔ ماں انسان کی شکل میں وہ فرشتہ ہے۔ جو انسان کیلئے عیاں ہے۔ لبرل ازم (مغربیت) کو چھوڑ کر باقیہ تمام مذاہب و مکاتبِ فکر میں ماں کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ ماں اُن عظیم نعمتوں میں سے ہیں۔ جس کا احترام کر کے، جنت کی مفتاح حاصل کر سکتے ہیں۔ ماں وہ شخصیت ہے، جو اپنا دورِ زرین  کو بچے کی تربیت و پرورش پر نچھاور کرتی ہیں۔ اِن کا رتبہ اتنا سرفراز ہیں، خود مالکِ کائنات نے اس کا اعتراف کروایا ہیں۔ جیسے اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے ۔ وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً رَّبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوسِکُمْ إِن تَکُونُواْ صَالِحِیْنَ فَانَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوراً․


ترجمہ : اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آو ، اگر وہ یعنی ماں، باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ان کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ”ہوں “ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا ، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے(صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا ) تمھارا رب تمھارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔

قرآن مجید کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہیں کہ جب اللہ تعالا حکمِ عبادت کے ساتھ کسی اور امر کی تاکید کرتا ہے، تو مؤیَد حکم کسی توثیق کا مستمد نہیں رہتا ہے۔ اس کا اندازہ آپ بلا آیات سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنی عبادت کے حکم کے بعد صراحت کے ساتھ نقشہ کھینچا ہے۔

ماں کی تکلیفات: ہمارے حروف کتنے ہی وسیع و بسیط کیوں نہ ہو ہم ماں کے اٹھائے ہوئے تکلیفات کا نقشہ نہیں کھینچ سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ دور نبوت میں،  نبی صلی اللہ علیہ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کتنے تکلیفات سہنے پڑے ہیں۔ واحد شخصیت ماں ہے، جس کی تکلیفات کی صراحت قرآن مجید میں ملتی ہیں۔


ماں کے تکلیفات کا ذکر قرآن میں: وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ إِحْسَاناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَوَضَعَتْہُ کُرْہاً

ترجمہ : اس ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ۔حمل کے نوماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف، یہ سب ماں برداشت کرتی ہے۔

اللہ تعالی نے جب ”اف“ کرنے سے گریز کرنے کا حکم بھی وارد کیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں فرمایا اگر والدین کی بے ادبی میں ”اف“ سے کم درجہ ہوتا تو اللہ جلہ شانہ اسے بھی حرام فرما دیتے۔(الدالمنثور: ۵/ ۲۲۴)


والدین کا ادب واحترام کا تذکرہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں: رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شخص حاضر ہوا، ان کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی تھا، نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب عرض کیا یہ میرے والد ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: لا تمش امامہ، ولاتقعد قبلہ، ولاتدعہ باسمہ ولاتستب لہ (معجم الأوسط، للطبرانی:۴/۲۶۷) یعنی ان کے آگے مت چلو، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا۔


ادب سے بات کرنا، انسان کی پہچان ہیں، پر اللہ تعالیٰ قرآن میں خصوصاً ذکر فرمایا ہے وقل لہما قولاً کریما یعنی ان کا ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا۔ قول کریم کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: خطا کار اور زر خرید غلام سخت مزاج اور ترش روی آقا سے جس طرح با ت کر تا ہے، اس طرح بات کر نا قول کریم ہے (الدر المنثور: ۵/۲۲۵)




اختصار کے ساتھ، دور حاضر میں امت رشتوں کے ساتھ، رشتوں کے حقوق کو فقدان کر کے پر سکون زندگی سے عاری ہے۔ اس لیے انسانیت خصوصاً اہلِ اسلام کو رشتوں کے واجبات کو بھولنا نہیں چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو رشتوں کے ساتھ، رشتوں کے حقوق خصوصاََ ماں، باپ کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔


ماجد کشمیری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں