غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو| فاتحہ خلف الامام| رد غیر مقلدیت|

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۸


 سنی: ۔۔۔۔آئے میں آپ کو دلیل پیش کرنے کا ڈھنگ سکھاؤں ۔ ہمارا موقف ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی چپ رہے ۔ اس کی دلیل ملاحظہ ہو: حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی روایت بطریق حضرت قتادہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم نماز پڑھنے لگو تو صفوں کو سیدھا کر لیا کرو پھر تم میں سے کوئی ایک شخص امامت کرائے ، جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ قرآن پڑھنے لگے تو تم خاموش ہو جاؤ اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولاالضالین کہہ لے تو تم آمین کہو۔ (صحیح مسلم، التشھد فی الصلاۃ ،حدیث ۴۰۴ ) ۔

آپ نے ملاحظہ کیا:


(۱) اس میں نماز با جماعت کا ذکر ہے۔


(۲) امام اور مقتدی کی ذمہ داریاں متعین کر دی گئیں ۔ جس چیز میں امام اور مقتدی شریک ہیں اس کی وضاحت کر دی گئی کہ امام تکبیر کہے تو تم مقتدی بھی تکبیر کہو۔

(۳) جس کام میں امام اور مقتدی شریک نہیں بلکہ ہر ایک کی علیحدہ ڈیوٹی ہے اس کا بھی تعین کر دیا گیا ۔


(۴) کہ جب امام پڑھے تو تم مقتدی چپ رہو ، اور جب امام ولا الضالین کہے تو تم مقتدی آمین کہو ، اور جب امام تکبیر کہہ کر رکوع کرے تو تم مقتدی بھی تکبیر کہہ کر رکوع کرو۔

(۵) آ گے پھر ڈیوٹی مختلف ہے کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم مقتدی ربنا لک الحمد کہو۔

(۲) آ گے پھر امام اور مقتدی شریک ہیں، تو حکم ہوا کہ جب امام تکبیر کہہ کر سجدہ کرے تو تم مقتدی بھی تکبیر کہہ کر سجدہ کرو۔


الغرض آپ نے دیکھا کہ ہم اپنے دعوے کے مطابق دلیل پیش کرتے ہیں جس میں باجماعت نماز اور امام و مقتدی کا واضح ذکر ہے ۔ جس میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہمارے سر آنکھوں پر ہے کہ جب امام قراءت کرے تو تم چپ رہو ۔ جبکہ تم کہتے ہو کہ امام پڑھے تو مقتدی بھی پڑھے۔ اب میں اپنے پیارے نبی ﷺ کی بات مانوں یا تمہاری؟ بہر حال اب تم بھی صحیح بخاری ومسلم سے ایسی واضح دلیل پیش کرو جس میں ارشاد نبوی ہو کہ امام فاتحہ پڑھے تو تم مقتدی بھی پڑھو۔

غیر مقلد: خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہو جسے بہت بڑا تیر مارا ہے ۔ پہلے بھی معلوم کر لیتے کہ یہ حدیث صحیح بھی ہے کہ نہیں۔ دیکھئے یہ ہماری نمائند تفسیر احسن البیان‘‘میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں اسی روایت واذا قرأ فانصتوا کے بعد بریکٹ میں لکھا ہے:

بشرط صحت‘‘ (ص :۲) اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو ہمارے صحافی مفسر کو بشرط صحت کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ نیز نواب نور الحسن صاحب نے بھی اس کی سند میں کمزوری کی وجہ سے اس حدیث کو ناقابل استدلال قرار دیا ہے ( عرف الجادی ۳۸ ) ہماری کتاب امتیازی مسائل میں بھی اس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے(۳۹) پھر ہمارے مشہور عالم مولانا جئے پوری نے حقیقۃ الفقہ‘‘ میں اسی حدیث کی طرف متعین اشارہ کر کے لکھا ہے کہ اذا تکبر الامام فکبروا والی حدیث ضعیف ہے ( حقیقت الفقہ ص ۲۵۱ ) بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کی احادیث ضعیف ہیں ۔(ص ۲۵۱)۔


سنی: ویسے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ یہ حدیث ،مقتدی کے خاموش رہنے اور فاتحہ نہ پڑھنے پر بالکل واضح ہے کہ نہیں؟


غیر مقلد: ہے تو بالکل واضح لیکن اصل مسئلہ تو اس حدیث کے صحیح ہونے کا ہے،آخر ہمارے علماء کا بھی بڑا گہرا مطالعہ ہے، انہوں نے اسی ضعف کی وجہ سے اس حدیث کو نظر انداز کیا ہے ۔


سنی: آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ حدیث میں مسلم کی ہے۔

غیر مقلد: کیا کہا؟ صحیح مسلم میں؟ یا تم نیند میں ہو کہ ہم سور ہے ہیں؟


سنی: نہ ہم نیند میں ہیں نہ تم سور ہے ہو ۔ یہ لیجے میں مسلم حدیث نمبر ۴۰۴


غیر مقلد : ہاں بھئی حدیث تو صحیح مسلم میں موجود ہے ۔ پھر بھی ہمارے علماء نے اسے ( بشرط صحت ) کیوں لکھا ؟ اور ضعیف کیوں قرار دیا؟

سنی: یہ تو آپ اپنے علماء سے پوچھیں کہ وہ اہل حدیث کہلا کر لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ ہم حدیث پر عمل کرتے ہیں لیکن جب اس صحیح حدیث سے ان کے مسلکی موقف پر واضح زد پڑی تو تمہارے علما نے ہم مسلک عام لوگوں پر اپنی گرفت قائم رکھنے کے لئے انہیں تأثر دیا کہ یہ ضعیف ہے ۔ صبح شام صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راگ الاپنے والوں کا یہ طرز عمل انتہائی افسوناک ہے۔

غیر مقلد: عجیب معاملہ ہمارے سیالکوٹی صاحب نے اپنی صلوٰۃ الرسول ؐ میں اس حدیث کو نہیں لکھا، نہ ہی ہمارے علماء نے کبھی اس حدیث کو اپنی تقریر میں بیان کیا۔۔۔۔۔۔جاری 

اگلا صفحہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں