رد غیر مقلدیت نمبر ۱۹
غیر مقلد: عجیب معاملہ ہے ہمارے سیالکوٹی صاحب نے اپنی صلاۃ الرسول ؐ میں اس حدیث کو نہیں لکھا، نہ ہی ہمارے علما نے بھی اس حدیث کو اپنی تقریر میں بیان کیا۔
البتہ ہمارے علما نے اس حدیث کا مفہوم کچھ اور طرح بیان کیا ہے صلاۃ الرسول ؐ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ وإذا قرأ فانصتوا سے مراد سورۃ فاتحہ کے بعد والی قرأت ہے ۔ (تسہیل الوصول ۱۷۵)
نیز اقبال کیلانی نے کیا خوب ترجمہ کیا ہے ”اور جب امام(سورہ فاتحہ کے بعد ) قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو“ ( کتاب الصلاۃ ص:۸۰)
نیز ہماری تفسیر میں اسکا یہ مطلب لکھا ہے:’’جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قراءت خاموشی سے سنیں‘‘ ۔ ( احسن البیان ص:۲)
سنی: ذرہ حدیث کے الفاظ دیکھیں کہ کیا وہ اس مفہوم اور کیلانی بریکٹ یا صحافی مطلب کے متحمل میں یانہیں؟ وإذا قرأ فانصتوا کے بعد ہے وإذا قال ولا الضالین فقولوا آمین‘‘ جب امام ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو گویا جس قرات کے وقت خاموش رہنے کا حکم ہے وہ ولاالضالین سے پہلے شروع ہو چکی ہے ۔الغرض حدیث کے مفہوم میں ولا الضالین سے پہلے والی قراءت کے وقت بھی خاموشی کا حکم ہے۔ جبکہ تمھارے مندرجہ بالا تینوں مصنفوں کے مفہوم کیمطابق ولا الضالین کے بعد والی قراءت کے وقت خاموشی کا حکم ہے ۔ اب تم حدیث والا مفہوم مانو گے یا اپنے مصنفوں والا مفہوم؟
غیر مقلد : ہمارے شیخ الحدیث جانباز صاحب اور شیخ الحدیث اسماعیل صاحب نے اس حدیث کا ایک اور جواب لکھا ہے کہ حدیث وإذا قرأ فأنصتوا کا بھی یہی مطلب ہے کہ جب امام پڑھ رہا ہو تو مقتدی کو بلند آواز سے نہیں پڑھنا چاہیے۔ ( صلاۃ المصطفی ﷺ ۱۶۲) نیز ( رسول اکرم ؐ کی نماز صفحہ: ۷۰ ) پر بھی یونہی لکھا ہے ۔
سنی: مندرجہ بالا دونوں حضرات چونکہ شیخ الحدیث میں لہذا انہیں اچھی طرح پتہ تھا کہ یہ حدیث سابقہ تین مصنفوں والے مفہوم کی متحمل نہیں لہذا انہوں نے اس مفہوم کو نظر انداز کر کے ایک اور ہوم بیان کیا لیکن کہیں حدیث شریف کا لفظ واذا قرأ فأنصتوا اس معنی و مطلب کا متحمل بیان کیا، لیکن کیا حدیث شریف کا واذاقرا فانصتوا کا یہ یعنی دکھا دو کہ جب امام قرات شروع کرے تو تم بلند آواز سے نہ پڑھو۔
سنی: تم عجیب قوم ہو کبھی تو صحیح مسلم کی حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہو۔ یہ تیر نہ چلے تو اپنے پاس سے اضافہ کرتے ہو کہ اس سے مراد فاتحہ کے بعد والی قرأت ہے اور کبھی فأنصتوا ‘‘ کا معنی ہی الٹ دیتے ہو۔ یوں تم تیر تکےّ چلاتے ہو۔
اس لیے ہم آپ لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ حکیم سیالکوٹی اور ان جیسے دوسرے مصنفین کی تحریر میں پڑھ کر اور کم علم ومتعصب واعظوں کی تقریر میں سن کر اتنے بڑے بڑے مسلکی فیصلہ نہ کیا کرو۔ اور لوگوں پر فتویٰ جاری نہ کیا کرو۔ یہ قیامت کے دن تمہیں کوئی نفع نہیں پہنچا سکیں گے۔
غیرمقلد: اچھا تو ایک اور حدیث ہے: لاصلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب مولانا صلاح الدین یوسف مدّظلہ لکھتے ہیں: اِس حدیث میں مَن کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے، (در) ہو یا امام، یا امام کے پیچھے مقتدی سرّی نماز ہو یا جہری ،فرش نماز ہو یا نفل ، ہر نمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ۔ (احسن البیان ص ۱)
سنی: آپنے موصوف مدّظلہ کا دعویٰ تو نقل کر دیا، انہوں نے اس دعوے پر کوئی دلیل دی ہے کہ من کا لفظ عام ہے .... ؟
غیر مقلد: یقیناً دلیل دی ہوگی چونکہ یہ تو ہماری بڑی معتبر تفسیر ہے ، لیکن یہاں تو اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ البتہ چونکہ وہ مفسر میں اسلئے وہ خود بھی تو دلیل ہیں۔
سنی: تم عجیب قوم ہوا ایک طرف تو صحابہ کرام ؓ کو دلیل نہیں مانتے اور دوسری طرف پندرھویں صدی کے موصوف مدّظلہ کو اور انکے قول کو دلیل مان لیتے ہو؟
غیر مقلد: چلیں آپ دلیل سے بتا دیں کہ یہ حدیث کس کے بارے میں ہے؟
سنی: ملاحظہ ہو۔اوّلاً:
محدثانہ مفہوم : مشہور محدّث کے امام تر ندی نے اپنی سنن ترمذی میں بخاری کے استاذ اور مشہور محدث امام احمد رحمہ اللہ نقل کیا ہے کہ لاصلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شخص اکیلا نمار پڑھ رہا ہو تو سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر اس کی نماز نہیں ہوگی۔۔۔۔۔جاری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔