کونگ وٹن: خوبصورتی کا پھول

0

 کونگ وٹن: خوبصورتی کا پھول

کونگ وٹن ایک خوبصورت جگہ ہے جو اہربل سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جگہ اپنی فراوانیت اور دلکشی کے لئے مشہور ہے۔ واقعیت میں، کونگ وٹن محیطی تنوع اور خوبصورت طبیعت کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ اس جگہ میں پیدا ہونے والے مناظر اور طبیعی چشمے دل کو بہلا دیتے ہیں۔ (لیجئے اپ بھی مظاہرہ کیجئے)


 

وقت گزارے جب آپ کونگ وٹن تک پہنچتے ہیں، آپ کو بہت سی دلچسپیاں نظر آتی ہیں۔ اہربل سے راستے پر چلتے ہوئے، آپ پانی کے جھرنوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں جو چشمہ جیسی آوازوں کے ساتھ بہتے ہیں۔ یہ نظریں محیطی تنوع کو ظاہر کرتی ہیں اور آپ کو پر امن ماحول میں لے جاتی ہیں۔

ہیں



وادی میں چلتے ہوئے، آپ ایک مختلف دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ کونگ وٹن کی لمبی وادی میں چھوٹی چھوٹی گھاس میں پھولوں کی بھرپور تشکیلات نظر آتی ہیں جو پھولوں کی مہک سے محفوظ ہیں۔ اس وادی میں کوثر ناگ بھی واقع ہے، جو کونگ وٹن سے چار گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ یہ مقام گرمیوں کے موسم میں لوگوں کے درجہ حرارت بڑھانے سے بچنے کے لئے مشہور ہے۔ اس میناری پانی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

جو پانی کوثر ناگ سے آتا ہے جس سے کونگ وٹن، اہربل جیسے مقامات سیراب ہوتے ہیں۔ اس کی تاریخ یوں رقم ہوئی کہ ایک زمانہ میں زین العابدین رحمہ اللہ نے اس کی کھدائی کی تھی۔ اس کا پانی جھیل ڈل تک پہنچا تھا۔۔۔زین العابدین وہی شخصیت ہے جو کوثر ناگ میں شکارا میں تفریح کرتے تھے۔

کونگ وٹن کی جمیل وادی اور اس کے قریبی حصوں کا دورہ کرتے ہوئے، آپ کو عمدہ تفریحی مواقع حاصل ہوں گے۔ طبیعی مناظر کے علاوہ، آپ فعالیتوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں مثلاً پھولوں سر سبز وادیوں میں چہل قدمی کرتیں کرتیں اپ ٹھنڈی ہَوا کا لطف اس طرح محسوس کرتیں جیسے آپ جنت میں ہوں۔

 جہاں آپ طبیعت کے نزدیک ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا کی شور و غل میں سے دور محسوس کرتے ہیں۔ یہاں آنے سے، آپ کو طبیعت کی خوبصورتی اور اس کی نرمی کا احساس ہوتا ہے جو آپ کے دل کو بہت پسند آتا ہے۔ کونگ وٹن ایک پھول کی طرح ہے جو چشمہ سے بہتے ہوئے پانی کی مسیر پر رہتا ہے۔ اس کی خوبصورتی، شاندار مناظر اور آرام دہ ماحول کا یہ مشاہدہ آپ کو یادگار رہے گا۔۔۔۔۔



سرکاری کیمپ کی طرف سے منتخب قسم کے گھاس اور سبزیاں کا اگائی جانا، یہاں کی رونق کو بڑھاتا ہے۔ گھاس اور سبزیوں کی مختلف قسموں کی اگائش سے، مناظر اور حیاتیاتی خوبصورتی کا مزید وسیع انداز حاصل ہوتا ہے

و گھاس اور سبزیوں کی اہلیت کو مزید بہتر بناتا ہے اور کونگ وٹن کی خوبصورتی کو بہتر دکھاتا ہے۔ اس سے یہ علاقہ مزید مسرت بخش اور دلکش بنتا ہے جو لوگوں کو کھینچنے کا مقصد پورا کرتا ہے

سرکار کی طرف سے  ایک اور اقدام بھی محسوس ہوا کہ جہاں، جہاں جنگلی درختوں کی کمی نظر آتی ہے وہاں انہیں نئے نئے جنگلی درختوں کی اگائی کی ہے۔

یہ حسین وادی اکثر کوثر ناگ کے سفیروں کے لیے ماوی بنتا ہے یہاں رات گزارنے کے بعد صبح کو آرام سے کوثر ناگ کی طرف روان۔ ہوتیں ہیں۔ ۔۔۔چلیں ہم بھی کوثر کی طرف ہی رجوع کرتیں ہیں۔۔۔ اس کے متعلق تفصیلی بحث کے لیے پروانے سفرنامہ ضروری پڑھیں۔( پورانہ سفرنامہ) ۔۔۔ تب تلک چشمہ آ جائیں گا۔۔۔۔ 


ماجد کشمیری 





بے وفائی نا کروں | لا یدخل الجنۃ قاطع۔

0
وفا ایک بہت اہمہ اور نایاب خصوصیت ہے جو ہر رشتے کو مضبوط بناتی ہے۔ وفاداری ایک ایسی صفت ہے جو ایک شخص کو دوسرے شخص سے جوڑتی ہے اور محبت، احترام اور توجہ کا اظہار کرتی ہے۔ یہ رشتے کو برقرار رکھتی ہے اور توازن اور استحکام کا باعث بنتی ہے۔ لیکن اس دنیا میں کچھ لوگ اپنے رشتوں میں بے وفا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے وعدوں کو نہیں نبھاتے اور دوسروں کی خوشیوں کا خیال نہیں رکھتے۔ بے وفائی سب کچھ کھو دیتی ہے، یہ دلوں کو توڑتی ہے اور دوسروں کے لئے غم و دریغا کا باعث بنتی ہے۔ بے وفائی ایک منفی صفت ہے جو اخلاقیت کے خلاف ہوتی ہے۔

 وفاداری اور اعتماد: دو اہم اصول ہیں جو ہر رشتے کی بنیاد ہوتی ہیں، لیکن جب کوئی شخص بے وفا ہوتا ہے تو یہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور عملی زندگی میں تنگیاں پیدا کرتے ہیں۔ بے وفائی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگ مصلحتیں پیش کرتے ہیں اور دوسروں کی مدد کے بجائے اپنے فوائد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

 بے وفائی ایک اجتماعی اور روحانی مسئلہ بنتی ہے جو انسان کے دل کو تکلیف میں ڈالتا ہے۔ وفاداری اور تکیہ انسانی تعلقات کی اہمیت کو بڑھاتے ہیں، لیکن بے وفائی کے باعث، رشتے میں دھچکا پیدا ہوتا ہے۔ بے وفا افراد کئی طرح سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ اپنے احباب،اقارب یا محبوبہ سے وعدے کرتے ہیں، لیکن وقت آنے پر ان وعدوں کو توڑ دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف دوسرے شخص کا دل دُکھتا ہے بلکہ خود کو بھی انتہائی محسوس کرنے کا باعث بنتا ہے۔ بے وفا دوستی اور رشتے کو بھی اپنے پہلو میں لے لیتی ہے۔ وہ لوگ جو بے وفا ہوتے ہیں، دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ انسان کے دل کو چھوڑ کر ان کی قیمت کم کر دیتے ہیں اور ان کے ساتھ روزمرہ کے حسین لمحوں کو تباہ کرتے ہیں۔ بے وفائی کی صورت میں انسان کو دوسروں سے دور رہنا پڑتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا دل اچھے اور وفادار لوگوں کے ساتھ ہو، جن کے ساتھ وہ احساسِ تعلق کر سکے۔ یہ ایک دل کو تکلیف دہ صورتِحال ہوتی ہے جب کوئی شخص اس پر بے وفائی کرتا ہے جس کے ساتھ اس نے بہت ساری محبت اور وفا کی توقع کی تھی۔

 بے وفائی ایک منفی صفت ہے جو معاشرتی تعلقات کو متاثر کرتی ہے۔ ہمیں ہرگز بے وفا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں وفادار اور اعتماد کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے تاکہ ہم ایک دوسرے کے لئے معنی خیز اور قیمتی رشتے بنا سکیں۔

 لا یدخل الجنۃ قاطع او کما قال: لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذین اذا قطعت رحمہٗ وصلھا.



ماجد کشمیری 

منافقت کی تعریف | میں منافق تو نہیں ہوں

0

میں منافق تو نہیں؟!


عام تعریف جو ”منافقت“ کی، کی جاتی ہے : ظاہر اور باطن میں یکسانیت نہ ہونا۔ پر یہ جامع تعریف نہیں ہے، کیوں ہمارے ید کے طرفین متخالف ہے اور یہ فطرت ہے۔اور ایسا ہونا فطری ہے، تو تعریف ہوگی: اندر کی حقیقت کو جھٹلانا اور باہر کو مزین کر کے دکھلانا ”منافقت“ ہے۔


 ظاہر داری کے قرائن: ایۃ المنافق ثلاث: اذا حدث کذب، واذا وعد اخلف ،واذا اؤتمن خان. 


یہ علامتیں اس لیے نہیں ہیں کہ آپ ان کو دوسروں میں تتبع کر کے، ان پر منافقت کی لیبل یعنی فتویٰ دیں۔ بل کہ اپنا محاسبہ کرنے کے لیے ہیں۔ ، تاکہ مقبل وعید ہمارے لیئے متحقق نہ ہو جائیں۔ ان المنافقین فی الدرک الاسفل النار


علامتِ ثلاثہ: 1: کذاب، 2: مخالف اور 3: خائن۔ اب ان کو سمجھتیں ہیں۔


تشریحِ کذاب: اذان ہو رہی ہے، مؤذن ”اللہ اکبر ، اللہ اکبر، اللہ اکبر ، اللہ اکبر “ کہ رہیں ہیں۔ ہم نے جواباً عرض کیا۔ میں صلات کے لیے نہیں آؤ گا۔ تو میں نے جھٹلایا خداوند کی کبریائی کو تو ہم سے بڑا کو دروغ گو ہے ہی نہیں۔ 


تفسیرِ مخالف: اللہ وعدہ لیں رہیں ہیں : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ ہم جواب دیں رہیں ہیں: بلا کیوں نہیں۔، مگر ہم آستانوں پر ماتھا رگڑتیں ہیں، منسٹروں کے سامنے جھکتیں ہیں، تعظیمی سجدہ کرتیں ہیں۔ کوئی ہے جو ہم سے عظیم بر خلاف ہے۔ 


صراحتِ خائن: ہماری روح و جسد کا ہر حصہ، اللہ کی امانت ہے۔ حقوق و حدود اللہ کے موافق عمل نا کرنا خیانت ہے : جیسے : اپنی بیوی کے ورے کسی دوسری کی طرف دیکھنا۔ قوتِ یدین اور نطق کو حق کو مغلوب کرنے کے لیئے مستعمل کرنا، فریبی ہونا کا ثبوت ہے۔ 


ہم حساب کرنے میں ماہر ہے۔ دکان دار سے ایک درہم کی کمی کی بھی تفہیم رکھتیں ہیں۔ تو امروز بل کہ ہر روز محاسبی چھوڑ کر متحاسب بن کر ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ روح و جسم میں متضمن تو نہیں ہے۔ گر ایقان ہو جائیں تو برخواست کریں نہیں تو خائف و مفکر بنیں کہ کہیں شامل نہ ہو جاؤں ۔


✍️: ماجد کشمیری

دوسروں کی تباہی کا ذریعہ مت بنیں

0

دوسروں کی تباہی کا ذریعہ مت بنیں




امابعد! لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کریں، اپنی بنیاد اتنی مضبوط کریں کہ کوئی اسے تباہ نہ کرسکے۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے اثرات سے آزاد رکھیں۔ لوگ آپ سے کہیں گے کہ پیچھے ہٹ جاؤ، ہمارا ساتھ دو، ہم اہلِ حق ہیں۔ لیکن آپ تحقیق کریں، ثبوت کے پیچھے جائیں اور حق کے متلاشی بنیں۔ جنہیں معیارِ الٰہی پر پرکھا گیا ہو، ان کی پیروی کریں۔ اپنے آپ کو دوسروں کی تباہی کا ذریعہ نہ بنائیں اور نہ دوسروں کو اپنی تباہی کا سبب بننے دیں۔ ڈریں اس قہرِ الٰہی سے، جس کی پناہ زمین و آسمان مانگتے ہیں، اور اس عذاب سے جس کے آگے قارون بھی سرِ تسلیم خم کر گیا تھا۔


جب ہم اپنی شرم و حیا کھو دیتے ہیں تو اپنی بربادی کے ساتھ دوسروں کی تباہی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ جیسے اگر کسی دریا یا نہر کے پانی کو روک دیا جائے تو وہ زرخیز زمینوں تک نہیں پہنچ سکے گا، جس سے فصلیں خراب ہو جائیں گی، کھانے کی قلت ہو جائے گی، اور معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ بعینہ، جب گناہ کیا جاتا ہے تو اس کا اثر صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب گناہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو ان کی سزا بھی شدت اختیار کر جاتی ہے۔


جہالت میں رہنا بہتر ہے بنسبت اس کے کہ انسان خود کو اَجہل بنا لے، کیونکہ کم از کم جہالت کا نقصان خود تک محدود رہتا ہے۔ لیکن اگر آپ اچھے معاشرے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں اخلاقی، فلاحی، سیاسی، اور معاشی ترقی ممکن ہو، تو ہمیں تنہائی اور خفیہ طور پر گناہوں سے بچنا ہوگا۔ اور دوسروں کو بھی گناہوں سے بچنے کی نصیحت کرنی ہوگی۔


وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين۔

اسوہِ نبوی کی ذمہ داریاں

0
اسوہِ نبوی کی ذمہ داریاں
استاذ: وہ شخص ہے جس کی پوری زندگی متعلم کے لیئے صرف ہوتی ہے۔ گر ان کا متعلم فراغت حاصل کر بھی لے تب بھی تلمذیت سے کوسوں نہیں ہوتا۔ علوم سمندر کی مانند ہے، غوطہ زن زیادہ دیر تک پانی میں نہیں رہ سکتا لیکن استاذ سمندر کا بادشاہ ہوتا ہیں۔ وہ اٹھیں تو پورا پانی ابھر کر آتا ہے۔ وہ خاموش ہو جائیں تو یہ نہ سمجھیں کہ پانی کے بہاؤ میں تغیر نہیں آسکتا، بل کہ خاموشی کے بعد کے طوفان کے آنے کی راقبیت کا موجب بنتا ہے۔ اب اس بات کو ازبر کر لیں کہ آپ استاذ کے سامنے تادیب کی جو صورت اختیار کر سکتے ہے، اس میں قالب کو ڈھالنا چاہیے۔۔۔۔
جس کا جنتا بڑا فریضہ، اس کی اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس اسوہِ نبوی کے حاملین میں اخلاقی، علمی اور حکمتی اضمحلال آیا ہے، اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، کریں تو ہر فرد کا دعویٰ اہلِ منصبِ استاذ ہونے کا عنفوان ہوگا، یہ ایسا قہر ہے، جس سے نظامی ، نصابی ،علمی اور اخلاقی اضمحلالوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، اس جنگِ جمیل سے رعایا کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو تقاضائے معلمیت نہیں ہے، بل کہ آثارِ جھل ہے۔ چوں کہ یہ ساری واردات اس جھل سے شروع ہوتی ہے، تو اولاً اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ترتیبِ صحیح پر منصب بندی کرنی چاہیے۔
یہ ہی تقاضائے تعلیماتِ نبوی ہے۔ اگر برعکس ہوا تو مذکورہ مخطورات سے دوچار ہونا ہی پڑے گا۔جو معلمین منصوب ہوئے ہیں۔ وہ اس کو قابلیتِ من نہ سمجھیں بل کہ مرتِب کا عطف سمجھیں۔
اب ان کا تذکرہ کرتے ہیں، جن سے اساتذہ کرام آمیز ہوتے ہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر، وہ مندرجہ ذیل ہے۔
یہ نہ صرف اتالیق کی کوتاہی ہے، بلکہ نظامتِ مراکز کی بھی ہے، جو نصاب اسلاف سے تواتراً رواں تھا، اس میں اتنی کمی آئی ہے۔ جس میں کچھ کا تغیر بربنائے مصلحتِ زمن ہے اور کچھ فقدانِ اہلِ مدرس ہے۔ اب جو نصاب متضمن ہے بھی، اس میں بھی اتمام نہیں ہوتا، جس سے وہ کمزوری رہتی ہے، جس کی بھرپائی ذاتی مطالعہ سے بھی رفع نہیں ہوتی ہے۔
2۔ اگر چہ وقت، جو صرف ہوتا ہے تدریس میں اس کی تنخواہ لینا جائز ہے، پر اسی کو ذریعۂ ماش بنانا اور صرف اسی غرض سے تعلیم دینا، جس کی وجہ سے روحِ علم یعنی عمل منتقل نہیں ہوتا ہے۔ اس کو اصلاح کی حاجت ہے (بل کہ سابقہ شیخ الحدیث دارالعلوم رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کی پوری تنخواہ کی مراجعت کو یقنی بنایا)
3۔ خیر استاذ کا کسی طالب علم کو ذہنی دباؤ ڈالنا یا تدریس میں نا تجربہ کار ہونے کی وجہ سے طلبہ کو محروم از تعلیم کرنا، نہ صرف نا اہلیت ہے بل کہ کسی نہ کسی حد تک گناہ بھی ہے۔
کمزور تلامیذ کا خیال نہ کرنا، یہ جان کر کہ وہ ناقابل ہے اور صرف ذہین شاگردوں کو درخورِ اعتنا رکھنا۔۔۔۔۔۔ متکلم اسلام کا اس حوالے سے فقرہ یاد آیا، فرماتے ہیں: کمزور طلبہ کو قابل بنانا ہی استاذیت کا اصل ہنر ہے۔ جس کی کمی آج پائی جاتی ہے۔( روایتِ معنوی) اصلاح کی ضرورت ہے!
سب سے زیادہ خطرہ جو تدریسی نظام کو ہوتا ہے، وہ نا اہل کا فائزِ منصب ہونا ہے، جس کے نقصانات کا تذکرہ بالا میں ہوا۔
اس نوعیت کا حامل خطرہ یہ بھی ہے کہ متعلمین، اساتذہ کی تلمذ کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے روحِ علم منتقل نہیں ہوتا اور یہ عیاں ہے کہ روح کے بغیر جسم مردہ کہلاتا ہے۔ اس لیئے طلبہ کو چاہیے کہ وہ عمل کرنے کی نیت کے ساتھ اسباق کو ازبر کریں اور فہمِ مضامین کو بھی، ورنہ جن اضمحلالوں کا نوشت کردہ میں تذکرہ ہوا وہ سرایت کرے گا۔
اب حلِ مشکل یہ ہے کہ دونوں طرف سے نیک نیتی سے حصول علم اور استاذیت کا فریضہ انجام دیں تو اسلافوں والا علم باعمل سرایت کریں گا۔ ان شاءاللہ تعالا۔
اللہ تعالا ہمیں فہمِ تقاضائے تعلیم و تعلم کی توفیق دیے۔ اور ہم سے دیں کا کام لے۔ آمین

محرر: ماجد کشمیری

حجاب حکمِ الہیٰ ہے تو بس کر لو عمل

0

 

حجاب حکمِ الہیٰ ہے تو بس کر لو عمل



حجاب خواتین کے لیئے مخصوص نہیں ہے، بل کہ حجاب اپنے آپ کو خطرات سے اور دوسروں کو بھی مخطورات سے بچانے کا نام ہے، اور خطرہ دونوں پر لائق ہوتا ہے۔ بلا تمیز الجنس، عورت کے حجاب کو مقدم اس لیئے کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ مرد کے باحجاب رہنے کے باوجود بھی اس سے بے حجاب کرتا ہے۔ اس لیئے جب بھی پردے کا تذکرہ ہوتا ہے، تب ذہن منعطف ہوتا ہے عورت کے پردے کی طرف، پر صرف اس کی طرف ذہن کا جانا اور یہ سمجھنا کہ فقط حجاب عورت کے لیئے ہے تو یہ غلط فہمی کے ورے کچھ نہیں، گر عورت کے ستر کو حجب کرنا لازم ہے، وہیں مرد کے لیے متعین جسم کا اخفا بھی لازم ہے۔ گویا نگاہوں کو نیچے کرنے کا حکم مشترک ہے، کلام میں اجنبی کے لیے مٹھاس نہ رکھنا مشترکہ طور پر حکم ہے۔ ناورا تعلقات کے سدِباب سے بھی خود کو محفوظ کرنا امرِ یکساں ہے۔عرض حجاب کرنا دونوں کے لئے لازمی ہے۔ جس سے یہ اعتراض بھی رفع ہوتا ہے کہ صرف خواتین کو حجاب کیوں ہے، جب ہے ہی نہیں مختص، بل کہ ہے مشترک، اعتراض کبھی من میں ہوتا، کبھی غیر قوم کے افراد کرتے ہے، پر بنتا نہیں ہے۔

حکمِ حجاب اور ہم: مرد کا ستر ناف کے متصل نیچے سے لے کر گھٹنے تک ہے، گھٹنے ستر میں شامل ہیں، پر اگر اسے ہی رجل ڈھانپ لیں تو عرف میں وہ ننگا ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ تقاضائے تلبیس ہے پورے، جسم کی پوشیدنی۔ بعینہ عورت کی تلبیس کا مسئلہ ہے، عورت کا پورا بدن سوائے تین اعضا کے ستر ہے، ان ہی اعضاء ثلاثہ کا حجاب ہے اجنبیوں سے ۔ ہم اس سے ہی غفلت بھرتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔

حکمِ قرآن ،اعضاء ثلاثہ پر: حجاب ہے اجانب سے ( جس میں متضمن ہے بسسبِ عافیت محارم سے بھی حجب) تو کیوں ہم اکتفا کریں ستر پر ہی، جب کہ وارد ہوا ہے قرآن مجید میں: یدنین علیهن من جلابیبهن۔ ہم سے زیادہ بہتر سمجھتے ہے قرآن مجید کو، اس کے اولین مخاطبین رضوان اللہ علیہم اجمعین، تو روایت ملتی :

 ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ جب عورتیں کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے نکلیں تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ وہ بڑی چادروں کے ذریعہ اپنے سروں کے اوپر سے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں اور محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدۃ السلمانی سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : {یدنین علیهن من جلابیبهن} کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے سر اور چہرہ کو ڈھانپ کر اور بائیں آنکھ کھول کر ا س کا مطلب بتلایا‘

یہ عہدِ صحاب کا زمانہ تھا جس میں فتنہ کا اندیشہ بہت کم ہوتا تھا، اس کے برعکس آج کے پر فتنہ درو میں خواتین اس پر عمل کرنا کی کوشش کرنی چاہیے: کہ وہ اپنی گھروں میں ہی رہیں صرف ضروریات کے لیئے مع حجاب نکالیں۔

حجاب کی ضرورت کیا ہے؟ کوہِ نور کو چھپانے کی کیا ضرورت ؟ وہیں عورت کو چھپانے کی حاجت ہے۔ میٹھائی پر احاطہ (کاور) نہ ہو تو مکھیاں اس پر حصار کر لیتی ہے۔ بعینہ عورت پردہ نہ کریں تو عریاں مرد کی خبیث نظروں کا شکار ہوتی ہے۔ شیطانی وسوسہ آ سکتا ہے کہ رجال اپنی نگاہوں کو پاک کریں تو پردے کی حاج نہیں۔ مٹھائی نہ خود اور نہ اس کا مالک اس پر مکھیاں برداشت کرسکتا ہے نہ مناسب سمجھتا ہے۔ پر برہنہ ہوگئی تو مکھیاں بیٹھ ہی جاتی ہے۔ اس سے حصارِ ناساز کے تحفظ کے لیے۔

 اسلام کی ثقافت میں مندرجہ ذیل واقعات کی نظیریں بہتات ملتی ہے جیسے: ابودائود۱ کی روایت میں ہے: ایک عورت کا لڑکا جنگ میں شہید ہوگیا، تو تحقیق کے لیے اس کی والدہ برقع کے ساتھ پورے پردے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، مجلس میں موجود صحابۂ کرام تعجب سے کہنے لگے کہ اس پریشانی میں بھی نقاب نہیں چھوڑا، صحابیہ عورت (رضی اللہ عنہا )نے جواب دیا کہ میرا بیٹا گم ہوگیا میری شرم وحیا تو نہیں گم ہوئی۔ (ابودائود۱/۳۳۷)

ان عظیم الشان ماں کی عظَمت پر فجر ہے اور سبق ہے کہ کوئی بھی حالت ہو حکمِ خداوندی کو پال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ فکر تھی انہیں اپنی آخرت کی، فکر تھی انہیں کہ کہیں میں سماج کی تباہی کا سبب نہ بن جاؤ۔ جس ماحول میں میرے اولاد پناہ گزین ہے، جس سوسائٹی میں میری بیٹی کل ان نجس و مہلک نظروں سے آتش زدہ ہوگئی۔ 

م بھی فکر و عزم کریں کہ ہم باحیا والدین اور اخلاف بنے۔ اول خویش بعد درویش، آپ حجاب کریں آپ کے ساتھ آپ کی سہیلی اور اس سے،اس کی دوشیزہ، ضرب کے عمل کے ساتھ، یہ سلسلہ کاروان بنتا چلا جائے گا۔ اور اس کے مصدر یعنی آپ کو اس کا اجر و ثواب کونین میں ملتا رہے گا، فقط آپ آغاز کریں عزمِ مصمم سے کہ اب صرف مجھے کرنا اس کارِ خیر کا عنفوان اور بن جائیں حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے ساتھ جنت کے باشندوں میں سے۔ بس عمل کے لیئے الفاظ کی ضرورت نہیں عشقِ الہیٰ اور توفیق من جانب اللہ ہونی چاہئے، چہ جائے کہ نعمت و عافیت عامیانہ حاصل نہیں ہوتی ہے۔ اللہ، اس بات کو اعنی حکمِ ربی کو سمجھنے کی صلاحیت دیں، پھر اس پر مع دوام عمل کرنے کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔

ماجد ابن فاروق کشمیری


پی ڈی ایف میں حاصل کریں


فرشتے کی دو پلکوں کی مابین پانچ سو سال کی مسافت

0

 فرشتے کی دو پلکوں کی مابین پانچ سو سال کی مسافت کی حقیقت و تحقیق

السلام_علیکم_ورحمۃ_وبرکاتہ

سلسلۃ_تخریج_الاحادیث_نمبر_١٩


بسم_اللہ_الرحمن_الرحیم


أن ألله ملكأ مأبين شفري عينيه مسيرة خمس مأئة عأم۔

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ اتنا بڑا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے پلکوں کے مابین سو سال کی مسافت کے برابر فاصلہ ہے۔ 

اس حدیث کے بارے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :-

لم یوجد لہ اصل 

[المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع: ص:٦٧،رقم:٦٣] 

نیز امام عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ قاو قجی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ہیں۔

 [بالترتیب دیکھیں:

(کشف الخفاء ١/٢٢٨،رقم:٧٧٣.)

(اللؤلؤالمرصوع:رقم:١١١)

 ألشيخ عثمأن أبن ألمكي ألتوزري ألزبيدي يكتب في كتأبه[ ألقلأئد ألعنبرية  علي ألمنظومة ألبقونية]  


 مثأله : أن لله ملكأ مأ بين شفري عينيه مسيرة خمس مأئة عأم . قأل ألقأري : لم يوجد له أصل . ومنه : أن شيطأنأ بين ألسمأء وألأرض ، يقأل له : ألولهأن ، معه ثمأنية أمثأل ولد آدم من ألجنود وله خليفة يقأل له : خنزب ، قأل أبن ألجوزي : موضوع . أنظر : ألمصنوع في معرفة ألحديث ألموضوع ، ص 65 و 67

اسی طرح امام الغزالی نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا۔

لم ارہ بھذا اللفظ۔

[احیاء علوم الدین ص ٥٠١]

الامام ابی عبد اللہ  الحارث بن اسد المحاسبی اپنی کتاب میں اس سند کے ساتھ لکھتے ہیں:- سبق تخریجہ


حدثني يحيي بن غيلأن قأل : حدثنأ رشدين بن ألسمع ، عن أبن عبأس بن ميمون أللخمي ، عن أبي قبيل ، عن عبد ألله بن عمرو بن ألعأص ، عن ألنبي  أنه قأل : ألله عز وجل ملك مأ بين شفري عينيه مأئة عأمة .

عبد الرحیم بن الحسین العراقی المحقق نے  بھی اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے، لکھتے ہیں ۔لم ارہ بھذا اللفظ (  فی تخریج الاحیاء  ٢٧٦/٥)


لہذا اس روایت کو بطور حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان کرنا درست نہیں ہے۔


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں