کولگام سے کونگ وٹن تک

0

 سفر کا آغاز ہو والدین کی دعا نہ ہو ممکن نہیں۔ ہمارے سفرِ کنگ واٹن کا آغاز بھی دعائے مقبول سے ہوئی۔ ہم برادری میں عین وقت پر متضمن ہوا، اس لیے والدین کو خاصی اطلاع نہ تھی۔ خیر فجر سے پہلے پہل غسل کیا اور نماز ادا کرنے کی توفیق ملی اور ہم برادری کے راقب ہوئیں۔ ۔۔۔۔۔۔ ریستوران سے توشۂ سفر لینے کے بعد ہم اھربل تک نظموں و نعتوں کے سہارے سفرِ سیارہ زائل کر رہے تھے۔ اضطرابیت اور مسروریت سے ہم منزل مقصود کی رسائی کے منتظر تھیں۔۔۔اھربل پہنچتے ہی عمیم کی دوش آبشار کی طرف منعطف ہوئی۔۔۔۔ اتفاقاً ہمارے استاذ پرکٹ ہوئے اور ہم مودب ہو کے سلام و دعا کرنے لگے، جیسے ہی وہ ہم سے اوجھل ہوہے تو دوڑ پھر پرواز چڑھ گئی اور وہی رک گئی جہاں پر جھرنے نے ششدر کردیا۔


یہ کیسی بہتی ہے پہاڑوں سے ندی

 برسوں سے دیکھتی خدا کی عالی 

 وہ جھرنا وہ جھرنے کا پانی 

آقا کی نعمت اور بھی کہانی 

 


شقاوت سے اعتراف کرنا پڑ رہا ہے برادری بے لوث مصوری میں مبتلا ہوئی جو کہ اسلام کے اصل کے خلاف تھی۔۔۔۔۔ خیر خدا کی نعمتوں کا اعتراف کر کے، چائے کی چسکی لینے کے لیے ڈھابے کی طرف نکلے۔ اب سفر پاپیادہ تھا، ڈھابے سے ضمیمہ اشیا لے کر کمربستہ ہو کر چلنے کی تیاری کرنے لگے۔

 ع   سبزار مائل کر رہا تھا

ظاہری غم زائل کر رہا تھا۔

 ہماری مسروریت کچھ زیادہ ہی تھی ہم آگے چلے گے اور گم راہ ہوئے، راہِ باطلہ پر ایک گامی ملا سلام و دعا کی اور بولیں آپ کو کہاں جانا ہے؟ جی! کونگ واٹن۔ اچھا، وہاں کا راستہ وہ ہے۔ جٓی شکریہ ۔۔۔ آپ کی عاطفت۔۔۔ اور میرے شبھ چنتک بھائی بندی میں انتشار ہوا تھا جس پر ہمیں تربیتی ڈانٹ بھی تسلیم کرنی پڑی۔۔۔۔۔ آہ آہ ۔۔۔۔ہاہا۔۔


سچ کہوں تو برادری سست تھی۔۔۔۔۔، ہم سے ایک ہم  قوت فرد ملیں وہ عرب امارات میں رہتے ہے جس کے باعث وہ عربی سے آشنا ہے۔ عربی میں باتیں کرنے لگیں اور چلتے بنے۔۔۔ برادری بکری کے ساتھ قبیحہ مصوری کرنے لگے، اس پر وہ کہنے لگے ۔


کل ھم مشغول بالماعز نذھب، سرعہ سرعہ۔ 

ایوہ مدیر لنذھب سرعہ سرعہ الی تنغ واتن

خیر بہت باتیں ہوہی عربی میں، ہم اہل عرب نہیں، چلتے چلتے آپ ہم تھک گے اور اب توشۂ سفر بھی بوجھ و بوجھل لگنے لگا۔ ذہن کو منتشر کرنے کے لیے آپس میں سامان تبدیل کیا تاکہ دماغ یہ سمجھیں کی وزن کم ہوا ورنہ وزن سب میں  برابر تھا،۔۔۔۔ ہمیں چھوڑ کر۔۔۔۔ جس کی بھرپائی مراجعت کے سمے ہوئی۔ ۔۔۔ بوجھل ہی سہی، آپہنچنا نصیب ہوا ۔۔۔۔۔ خیر! مادیت پرستی انسان کو کہاں چھوڑتی، پیٹ پوجا شروع ہوئی۔۔۔ ہر سمت صعود ہی صعود تھی، قیام پزیر ہوئے تو کہاں! اُدھر ادھر، نہیں وہاں۔۔۔۔ اب یہاں۔۔۔۔ طعام کے بعد مقابلہ مابین ہوئی جس میں ہمیں۔۔۔۔۔ ہوئی۔۔۔ سب وضو کرنے لگے اور بارش شروع ہوئی ہم نے حکومتی پنڈال میں بانگِ ظہر دیکر نماز ادا کی اور جانا تو اونچائیوں پر تھا، کھیلنے لگے عملہ چروا : ارے وہی کرکٹ نا۔ جس کے باعث گھومنے میں خاصا فرق پڑ گیا، اور وقتاً فوقتاً گہوارش کا آنا سیر وتفریح کے لئے مانع بن رہا تھا۔ برف سے لبا لب پہاڑیاں جو احساس دلا رہی تھی کہ اصل خوبصورتی سے مستعبد ہو۔ جب تک ہم منعطف ہوتے مہلت ختم ہوئی تھی اور مصوری کی دنیاوی سزا بھی مل گئی۔ اور ژالے گرنے لگے اور وہیں پنڈال میں تھم جانا کا انتظار کر رہے تھے۔ ۔۔۔ ۔۔ معاودت پر وہی مکافات لیا ۔۔۔۔۔ مراجعت کے سمے ہمارا پالا جاموس سے پڑا۔ برجستہ احدھما بولیں کہ یوں ہی علما کو ان میں اختلاف نہیں! سب نے واہ واہ کی۔۔۔۔  اصلاً ان کی حلت و حرمت میں کس بھی فرد کو اختلاف تو نہیں۔ ہاں ایک منڈل اپنی مفارقت دیکھنے کے لیے ان کی قربانی مشکوک سمجھتے ہے، اصلیت یہ کہ جب ساڑھے گیارہ مہینے ۲۸ یوم حلال ہے، پھر دو دن میں مشکوک کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔ ( لحمہْ فکریہ)۔۔۔    ایک لمبی وادی میں طعام کے لیے رکیں اور پھر قیام ابدی کی طرف متوجہ ہوئے اور ۔۔۔۔ سیکھنے سمجھنے کے لئے بہت کچھ تھا، پر ہم میں شاید وہ لیاقت نہ تھی کہ ادراک کر سکیں۔ پر دن ضائع بھی نہیں ہوا۔۔۔ آخر آغوشِ ماں نے لیل ونہار کو بیش بہا بنا کر، ہمیں آسود بنا دیا۔ الحمدللہ علی کل نمعہ


ماجد کشمیری

۱۹/مئی /۲۰۲۲


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں