ڈراما کا تحقیقی جائزہ

0

 ڈراما جہاں الفاظوں کا مجموعہ ہوتا تھا وہاں اس کی شناخت اور اس کے عناصر سے تعریفِ مجموعۂ الفاظ پر صادق نہیں آتا ہے۔ اس لیے مجموعۂ الفاظ کا ایسا ہونا جس کی مصوری ہو سکتی ہے اسے ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ اگر لفظِ جدید میں اس کی ترجمانی کی جائے تو فلم کے نام سے موسوم کرنے میں مضائقہ نہ ہوگا۔ ڈرامہ فنی نقطۂ نظر سے واقعات کی کہانی ہونے کے بجائے کرداروں کی کہانی بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناوِل اور ڈرامے کا فرق بتلاتے وقت ڈرامہ کرداروں کی حکایت بن جاتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ڈرامے کو کردار کی عظمت سے یاد رکھا جاتا ہے اور کردار کی نفسِ انفرادی سے مرغوب کیا جاتا ہے۔ جس سے عامیانہ اس تمثیل سے اخذ کر سکتے ہے کہ ڈرامے میں مرکزی کردار (ہیرو) سے ہمیں فطری یگانگت و شیفتگی ہو جاتی ہے۔


 ڈراما (سوانگ) کا تجزیہ کرنے سے پہلے ڈرامے کا اساس و ارتقا کی شناسائی کرتے ہے۔ ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے اس کا مصدر اسپا (سپا،spaw) ہے۔ جس کے معنی کرکے دکھانا ہے جس کی بالا میں تفسیر ہوئی ہے۔ ڈرامہ پہلے شاعری کا جزو سمجھا جاتا تھا اور منظومیت شرط تھی۔اب یہ مستقل ادبی صنف و شرطِ منظوم سے جدا ہے بلکہ اب تو منظومی ڈرامے بہت کم لکھے جاتے ہیں۔


اگر اب شرطِ ڈراما ہے تو ڈراما دل پذیر و مقناطیس ہے۔ یعنی ہر شے کی عکاسی ہو اور ڈراما ٹسٹ کے الفاظ مبین ہو (جس میں کسی تفسیر کی حاجت نہ ہو)۔

سوانگ کے دو اہمہ قسمیں ہے۔ المیہ: مشاہدۂ نفس سے معلوم ہوتا ہے کہ الم کا جذبہ راحت سے زیادہ قوی، گہرا اور دیرپا ہوتا ہے راحت و مسرت سے انسان کے جسم و روح پر نشہ سا مسلط ہو جاتا ہے اس لئے اس کا احساس کسی قدر کند ہوتا ہے بہ خلاف اس کے الم حس اور ادراک کو اس قدر تیز کر دیتا ہے کہ انسان کی ہر خلش، ہر کسک صاف محسوس ہوتی ہے۔ آپ خوب واقف ہوں گے کہ ڈرامے(فلموں) میں منظرِ المیہ ہم دل کی آنکھ کھول کر اور تاثیر کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ (کیونکہ المیہ سے فرحیہ بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے) پہلے پہل تو المیہ کو ظاہر کرنے کے لیے ڈرامہ نوشت کیا جاتا تھا تخمینا شکسپیر کے فرحیوں کے دیکھنے کے بعد اہلِ نظر اسے مبدل کرنے پر آمادہ و مجبور ہوئے لیکن اس میں اب بھی شائبہ نہیں ہو سکتا کہ دنیا کی ہر زبان میں بہترین ناٹک تقریباً سب کے سب المیئے ہے۔


دوسرا فرحیہ: اس کا اندازہ ہوگیا ہے کہ ڈرامہ میں جذبات کا عمیق اثر ہوتا ہے اس لیے فرحیہ ڈراموں میں وہ کسی قدر کم ہوتا ہے۔ اس سبب موصوف قسم کے ڈرامے بے اثر، کم دیکھے اور ناپسند کیا جاتے ہیں۔ دور حاضر میں گر چہ فرحیہ ڈراموں کو بھی  نا پسند نھیں کیا جاتا ہے جیسے کشمیری کل خراب پر آپ محسوس کرتے ہوگئیں عین وقت پر مزاخ کا رخ ناصحانہ ہو جاتا ہے۔ جس سے قارئین اس کی داد دیتا ہے۔ اطوال کا خوف نہ ہوتا اس کے طویل کرتے، اب قارئین کے فہم پر موقوف رکھتا ہوں۔

ڈرامے کے اجزاء ترکیبی: منصفِ بوطیقا کے مطابق اس کے چھ جزو ہے: پِلاٹ: عملی مشق اور باہمی ربط کو پلاٹ کہا جاتا ہے ۔ 

دوجا کردار: اشخاص کی افادیت کا تخمینہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوت ہے بغیر کرداروں کی نقل و حرکت سے ناٹک سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسے، ناقل کے اشک جوئی سے منظرِ نا خوش آئندہ کا قیاس ہوسکتا ہے۔ اور خوش وخرم سے تقریبِ فرحان کی اٹکل کی جاسکتی ہے۔

تیجا مکالمہ: سوانگ کی حکایت کو آگے بڑھنا، پہلو کی توضیح ، فضا میں معاونت کرنا موصوف سے مقصود ہوتا ہے۔  

چوتھا زبان: زبان سے ڈرامے کی معدویت تو نھیں ہے پر ضروری الظاہر ہے۔ اور زبان عامیانہ ہونا بھی کسے سے کم ہے۔ 

پانچواں و چھٹا: موسیقی و آرائش: درو معشوق میں اب ان کی بھی اہمیت کا انکار نھیں کیا جاسکتا ہے۔ 

ضمیمہ نوٹ: سر والے گانے اور سر والی موسیقی چاہے صوفی کا لیبل ہی کیوں نہ ہو دین فطرت( اسلام) میں حرام ہے۔ 

الحاصل ڈراما نگاری کا صحیح استعمال افادہ سے خالی نھیں پر جدید اشکال فحاشت کے اسباب بھی ہیں۔ جن سے اجتناب از حد ضروری ہے۔

ڈراما خانہ جنگی کا تنقیدی جائزہ

ماجد کشمیری

30 May 2022

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں