ماہ شعبان کی فضیلت|نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیا ہے ؟

0

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تعالی ہمارے  پورے شعبان میں برکتیں نصیب اور  رمضان تک پہنچائے۔

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال:  کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا دخل رجب قال : اللہم باریک لینا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان۔ 

المعجم الاوسط للطبرانی،رقم الحدیث:3939

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں ماہِ رمضان تک پہنچا۔


ماہ شعبان کی فضیلت: 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے چاند اور اس کی تاریخ ہو کہ حساب کا بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔ 

عن ابی هریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احصوا جلال شعبان لرمضان۔

جامعہ ترمذی: رقم الحدیث 687

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کی چاند ( تاریخوں) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھو تاکہ رمضان کی آمد کا حساب لگانا آسان ہو سکے۔

یعنی رمضان کی صحیح حساب کے لئے شعبان کا چاند اور اس کی تاریخوں کو خصوصیت سے یاد رکھا جائے۔جب شعبان کی آخری تاریخ ہو تو رمضان کا چاند دیکھنے میں پوری کوشش کی جائے۔

رمضان کا مقدمہ: 

شعبان آٹھواں اسلامی مہینہ ہے جو رمضان المقدس سے پہلے آتا ہے۔اس مہینے کو اللہ تعالی نے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے، جس کی عظیم وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینے میں ماہ رمضان کے روزوں،تواریخ اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے،رمضان جو اپنے برکتوں،رحمت اور عنایات ربانی کا موسم بہار ہے اس کی تیاری کا ماہ شعبان سے شروع ہونا اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔گویا شعبان کو رمضان کا مقدمہ کہنا چاہیے۔


ماہِ شعبان کے روزے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے،بلکہ رمضان کے بعد ماہ شعبان میں روزوں کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ 

1: عن عائشہ رضی اللہ عنہا  قالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم حتی نقول لا یفطر و یُفطر حتی نقول لا یصوم فما رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استکمل صیام شھر الا رمضان و مارایتہ اکثر صیاما منہ فی شعبان


صحیح البخاری: رقم الحدیث 1969

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو (غیر رمضان میں) شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا تھے۔

یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان کے روزے رکھا  کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر کل کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔

3: المسغوبات من الصیام انواع اولھا صوم المحرم والثانی صوم رجب والثالث صوم شعبان و صوم عاشوراء۔

فتاوی عالمگیری،ج:1،ص:202

ترجمہ: مستحب روزں کی کئی قسمیں ہیں: محرم کے روزے،رجب کے روزے،شعبان کے روزے اور عاشوراء کے (دو)روزے۔

نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھنے کی تحقیق: 

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذابقی نصف من شعبان فلا تصوموا۔

جامع الترمذی،رقم الحدیث :738

ترجمہ: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے تو روزی نہ رکھا کرو۔

اس ریوایت کے پیش نظر فقہاءِ کرام نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ قرار دیا ہے،ساحل البتہ چند صورتوں کو متثنی فرمایا ہے کہ ان میںنے پندرہ شعبان کے بعد روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ صورتیں یہ ہیں:

1: کسی کے ذمہ قضائر روزہ ہو یا واجب (کفارہ وغیرہ کے) روزے ہوں اور وہ انہیں انعام رکھنا چاہتا ہو۔

2: ایسا شخص جو شروع شعبان سے روزہ رکھتا چلا آرہا ہو۔

3: ایسا شخص کی جس کی عادت یہ ہے کہ مخصوص دنوں یا تاریخوں کے روزے رکھتا ہے،  اب وہ دنیا طاری شعبان کے آخری دن میں آ رہی ہوں تو روزہ رکھنے میں کوئی  حرج نہیں بشرطیکہ ایسی کمزوری کا خطرہ نہ ہو گی جس سے رمضان کے روزوں کا حرج ہونے کا اندیشہ ہو۔ ملخص: درسِ ترمذی: ج:2، ص:579


نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیا ہے ؟

 حکیم الامت ماہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میرا تو ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان شریف میں جو جاگنا ہو گا اس شب کا جاگنا اس کا نمونہ ہے اور یہ صوم ایام رمضان شریف کا نمونہ ہے ۔ پس دونوں نمونے رمضان کے ہیں ، ان نمونوں سے اصل کی ہمت ہو جاوے گی۔ پھر اس صوم کے بعد جو صوم سے منع فرمایا اس میں حقیقت میں رمضان کی تیاری کے لیے فرمایا ہے کہ جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ مت رکھو۔ مطلب یہ کہ سامان شروع کرو رمضان کا یعنی کھاؤ، پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاؤ اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے “ 

خطبات حکیم الامت: ج:7،ص: 391

رد غیر مقلدیت| اہل حدیث کی تحریفات

0

 سلسلہ رد غیر مقلدیت نمر ۲۱

تحریف مفہوم کا دوسرا نمونہ: آپ کے مشہور مصنف محمد اقبال کیلانی صاحب اپنی کتاب الصلاۃ میں لکھتے ہیں عن ابی هریرۃ رض اللہ عنہ أن النبی ﷺ امره أن یخرج فینادی لاصلاۃ إلا بقراءۃ فاتحۃ الکتاب فما زاد . (ص۸۰)

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس سے زیادہ جتنا کوئی چاہے پڑھے۔(ص ۸۰)۔

حدیث میں سورۃ فاتحہ اور فمازاد کا ایک ہی حکم بیان کیا گیا ہے جبکہ مترجم نے ترجمہ میں تحریف کر کے فاتحہ اور فمازاد کا حکم علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ کیا یہ تحریف کی بدترین مثال نہیں ہے؟ پھر بھی تمہیں اصرار ہے کہ تم اہل حدیث ہو ۔ آج امانت کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے دیانت کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ ہم رور ہے میں چِلّا رہے ہیں لیکن ہماری آواز ہے کہ صدا بصحرا۔ 


    میرے بس میں ہو تو غیر مقلدوں کی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر انہیں تحریف کا یہ نمونہ دکھا دوں ۔ ان کے دماغوں سے مسلکی جمود کے پردے ہٹا کر انہیں حدیث کا صحیح ترجمہ سکھا دوں ۔ ان کے کانوں سے اندھی تقلید کی تھونسی ہوئی انگلیاں نکال کر انہیں آنحضور ﷺ کا اصلی اور سچا پیغام سنادوں۔


دیکھو خود تمہارے ہی مولانا اسماعیل سلفی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں : سورہ فاتحہ و مازاد کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔( رسول اکرم کی نماز ۲۸ ) دونوں ترجموں میں کتنا واضح فرق ہے؟


چنگیاں لیتی ہے فطرت چیخ اٹھتا ہے ضمیر

 کوئی کتنا ہی حقیقت سے گریزاں کیوں نہ ہو


اس واضح تحریف اور دغا کے باوجود تم اپنی تحریروں میں یہ شعر لکھتے ہو  اور تقریروں جھوم جھوم کر پڑھتے ہو:

 ما اہل حدثیم دغا رانہ نشنا سیم 

با قول نبیﷺ قول فقہا رانہ نشنا سیم

 (ترجمہ ) ہم اہل حدیث ہیں جو دھوکہ فریب نہیں جانتے نبی ﷺ کے قول کے ساتھ فقہاء کے قول کو نہیں جانتے ۔اب خود ہی بتاؤ تم نے مندرجہ بالا حدیث کے ترجمہ و تشریح میں حدیث پر جو ہاتھ صاف کیا ہیں اس کا کیا عنوان دوں گے؟ اور آقائے مکی و مدنی علیہ الصلوۃ والسلام کو کیا جواب دو گے؟

غیر مقلد: آپ نے تو مجھے حیران ہوا پریشان کر دیا ہے۔یہ تو ہماری مرکزی دلیل ہے لیکن اس کے بہت سے پہلو ہم سے مخفی رکھے گئے تھے۔اور ہم طوطے کی طرح بغیر تفصیلات سمجھے اس کی رٹ لگاتے رہے۔

سنی: میں نے نہیں بلکہ آپ کے طریقہ کار نے آپ کو پریشان کیا ہے۔ جب تم صحابہ کے قول و فعل کو چھوڑ کر چودھویں پندرہویں صدی کے لوگوں پر اعتماد کرو گے تو وہ تمہارا علمی و فکری استحصال نہیں کریں گے تو اور کیا؟

    

جب تم احادیث کو صحابہ کے حوالے سے نہیں سمجھو گے اور ان کے فہم کو مسترد کرکے چودھویں صدی کے آپ نے ان لوگوں کے فہم پر اعتماد کرو گے تو پھر وہ تمہیں مندرجہ بالا طریقے سے ہی حدیث سمجھائیں گے۔ 

غلط بیانی کا نمونہ: آپ کو تعجب ہوگا کہ آپ کی عظیم شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی صاحب اپنے فرقے کے لوگوں کو بارو کرنا چاہتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام کے مصلے میں غیر مقلد حدیثوں پر عمل کرتے ہیں، جبکہ حنفی اس کے مقابلے میں امام کو بنیاد بناتے ہیں۔ جب کہ اصل صورت حال آپ دیکھ چکے ہیں۔ شیخ موصوف لکھتے ہیں۔ بزرگوں کا احترام اچھی بات ہے لیکن آنحضرت ﷺ کے اقوال گرامی میں سب سے زیادہ قابل احترام ہیں، اقوال ائمہ کی تاویل ہو سکے تو ہو جانے چاہیے احادیث نبویہ کے لئے ائمہ کے اقوال و مذاہب کو معیار نہیں کرا دینا چاہیے۔ ( رسول ﷺ کی نماز:ص ۷۲)

غلط بیانی کا دوسرا نمونہ: حکیم صادق سیالکوٹی صاحب نے ( سبیل الرسول ص:۵۰) پر لکھا ہے کہ ” فاتحہ نہ پڑھنے والے کو یو چھو تو کہتے ہیں: ابو حنیفہ نے روکا ہے“

اس عبارت میں موصوف نے سینہ زوری کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ہم تو حدیث پر عمل کرتے ہیں،جبکہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والوں کے پاس کوئی حدیث نہیں۔بلکہ وہ تو حدیث کے مقابلے میں اپنے امام کے قول کو بنیاد بناتے ہیں۔ نیز تمہارے مولانا عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں کہ : ” حنفیہ کا مسئلہ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ یہ صریح حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہ کہتے ہیں کہ یہ ہوتی ہے “( امتیازی مسائل ص ۵۱) 

جب کہ آپ گزشتہ گفتگو میں سن چکے ہیں کہ ہماری دلیل کتنی مضبوط ہے اور۔۔۔۔جاری 


بین مذہبی شادی ،اسلام کی نظر میں| ارتداد کے بنیادی اسباب

0

جو وابستگان اسلام کے لیے لمحۂ فکریہ اور ہماری دینی حمیت کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔


 بین مذہبی شادی ،اسلام کی نظر میں:


کسی بھی غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنا اور ازدواجی تعلق قائم کرنا کیسا ہے؟ اس میں اسلامی قانون کی کیسی خلاف ورزی پائی جاتی ہے؟اور اس طرح کرنے والا دائرۂ اسلام میں رہتاہے یا خارج ہوجاتاہے ؟ آئیے ہم اس سلسلہ میں کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔چناں چہ غیرمسلم مرد سے نکاح کے بارے میں قرآن پاک کا صاف اور کھلا حکم موجود ہے: اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ یقینا ایک مومن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو، اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور یقینا ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ مشرک مرد تمہیں پسند آرہا ہو۔ یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنے احکام لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ ( سورۃ البقرۃ: ۲۲۱)


یہ حکم کس قدر اہميت کا حامل ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ قرآن نے صرف حکم ہی بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ مومن مرد اور عورت کو جدا جدا خطاب کرکے منع کرنےکےساتھ اس کی حکمت اور وجہ بھی بیان کردی۔ اول تو مشرک مرد و عورت سے نکاح کو اس وقت تک منع قراردیاجب تک وہ ایمان قبول نہ کرلیں ۔ پھر فوراہی فیصلہ کن انداز میں اس صورت کو بھی بیان کردیا کہ کافر و مشرک جاہ و جلال حسن و جمال اور حسب و نسب کے اعتبار سے تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے، اس کے مقابلے میں دنیاوی اعتبار سے سے کم حیثیت والا مومن ہی تمہارے لیے ہزار درجہ بہتر ہے قرآن نے اپنے بلیغ اسلوب میں اس کو یوں بیان کیا: ”ایک مومن غلام اور باندی مشرک مرد و عورت سے بہتر ہے ” ۔ اس کی اصل حکمت یہ بیان کی کہ یہ کافر اور مشرک دوزخ اور جہنم میں لے جانے والے ہیں اور اللّٰہ تعالی اپنے ارشاد سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے ۔ اصل ناکامی اور کامیابی ہی یہی ہے؛اس لیے اخیر میں شفقت بھرے لہجے میں ارشاد فرمایا کہ یہ احکام صاف صاف اس لیے بیان کیے جاتے ہیں ، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔ اس اسلوب سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مخاطب کے فائدے کے پیش نظر ہی مذکورہ حکم دیا گیا ہے۔


پتہ چلا کہ صدق دل سے اسلام قبول کرنے سے پہلے کسی غیر مسلم کا نکاح مسلمان خاتون کے ساتھ جائز نہیں، نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، ازدواجی تعلق حرام کاری کے زمرہ میں داخل ہوتا ہے، ایمان جیسی قیمتی دولت کو جنسی خواہش کی بھینٹ چڑھا دینا اور غیر مسلم کی ہمہ وقت صحبت و معیت اختیار کرکے اپنے دین و ایمان کو خطرہ میں ڈالنا کس قدر سنگین جرم ہے کہ ایسی بدکاری کی حالت میں دین و ایمان کا سلامت رہ جانا بھی دشوار ہے، اسی حالت میں موت آجانے کی صورت میں آخرت میں جو انجام ہوگا، اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایک مسلمان بندی اپنے خالق و مالک کے روبرو کس طرح کھڑی ہوگی اور اپنے اعمال و ایمان کا کیا جواب اس کے پاس ہوگا؟حضرت محمدﷺ جن کے طفیل ہمیں دین وایمان کی دولت ملی، انہوں نے ایک ایک امتی کے لیے کیسی کیسی دعائیں کیں، مسلمان بندی ان کو کیا منہ دکھائے گی، اپنے دین و ایمان کوغارت کرنے کا کیا جواز وہ پیش کر سکے گی؟


ارتداد کے بنیادی اسباب :


غور کیاجائے اور سنجیدگی سے جائزہ لیاجائے تواس برائی؛بل کہ بےحیائی کےبہت سارے اسباب ہیں ؛جن میں فحش وناجائزتعلقات پرمبنی ٹی وی سیریل ،موبائیل کا غلط استعمال،مخلوط نظام تعلیم، ذاتی طورپردینداری کی کمی اور مسلم گھرانوں میں دینی ماحول کا فقدان وغیرہ سر فہرست ہیں،آج عفت وعصمت ،پاکیزگی وپاک دامنی کی کوئی فضیلت واہمیت دلوں میں باقی نہ رہی؛ بل کہ عفت وعصمت کی قدروں کو پامال کرنا، ایک فیشن بن گیا اور جو شرم وحیاء اور عصمت کی بات کرے وہ ان لو گوں کی نظرمیں دقیانوسی اور حالات زمانہ سے بے بہرہ اور تاریک خیال ٹھہرایا گیا۔اخلاق و شرافت، تہذیب وانسانیت کی جگہ حیوانیت و درندگی، دنائت و بدتہذیبی نے لے لی اور انسانیت واخلاق کی توہین کرنا ،ایک محبوب مشغلہ بن گیا۔

 آج ہمارے بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کے مسلمان ہونے کا معنی کیا ہے ؟ ہم مسلمان کیوں ہیں ؟ ہم میں اور کافر میں کیا بنیادی فرق ہے؟ آج کی نسل طہارت کے موٹے موٹے مسائل بھی نہیں جانتی !ہمارے بچوں کو محرم ونامحرم کسے کہتے ہیں اس کی بھی تمیز نہیں !یہ کتنے افسوس بات ہے کہ کھانے کے لیے جینا اور جینے کے لیے کھانا ہمارا مقصد بن چکاہے ،ہمیں اپنے دین کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں ،والدین کو اولاد کی تربیت کاکوئی احساس نہیں ،نوجوانوں کو اپنےدینی مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہر شخص ذمہ داری کے احساس سے خالی ہے جب کہ سرکار دوعالم ﷺفرمارہے ہیں :تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ ادرای کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔(متفق علیہ) 


ماخذ: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

سفر معراج کے دو حصے؟ قسط ۴ |ملفوظات گھمن حفظہ اللہ

0

 سفر معراج کے دو حصے؟ قسط ۴

ملفوظات گھمن ۴

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کا سفر دوحصوں کا ہے؛ ایک مکہ سے بیت المقدس اور ایک بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کے سفر کو اسراء کہتے ہیں جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اور پھر وہاں سے عرش معلیٰ تک کے سفر کو معراج کہتے ہیں جس کا ذکر سورۃ النجم کی پہلی اٹھارہ آیات میں ہے۔


تو یہاں ”اسراء“ کا ذکر بھی ہے اور معراج کا ذکر بھی ہے لیکن عام طور پر چونکہ مکہ سے بیت المقدس کا سفر زمینی ہے اگر چہ عجیب تر تھا لیکن عجیب شمار نہیں ہوتا اور بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کا سفر عجیب تر ہے اس لئے اس پورے سفر کو ”اسراء کے بجائے“ معراج ہی کہہ دیتے ہیں۔

مرتب: اسلامی زندگی

اگلی قسط

معراج کا سفر کیوں ہوا|ملفوظات گھمن حفظہ اللہ |معراج کا پورے واقعات

0

معراج کا سفر کیوں ہوا قسط ۳

ملفوظات گھمن ۳

 جب نبی کا خون کسی زمین پر گر جائے تو اللہ اس وقت اس زمین والوں کو زندہ نہیں رہنے دیتے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک گرا ہے اس کے لئے اللہ تعالی نے فرشتے بھیجے فرشتوں نے آ کر عرض کیا کہ حضور! آپ اجازت دیں تو ہم ان کو ان دو پہاڑوں کے درمیان میں کر رکھ دیں گے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 میں اللہ سے یہ امید رکھتا ہوں کہ اگر یہ طائف والے مسلمان نہیں ہوئے تو اللہ ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا فرما دے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے۔ 


اس حالت میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو بد دعا نہیں فرما رہے بلکہ اللہ سے امید لگائے ہوئے ہیں کہ اللہ ان کی اولاد کو اسلام کی توفیق دے گا۔ اس لئے میں ان کے حق میں بد دعا نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں مکہ تشریف لائے تو جب مکہ والوں نے تکلیف دینے کی انتہا کر دی تو اللہ تعالی نے فیصلہ کیا کہ اے میرے محبوب! اب میں تمہیں عزت دینے کی انتہا کرتا ہوں ۔انہوں نے سمجھا تھا کہ نام ونشان مٹادیں گے لیکن ہم فرش پر نہیں بلکہ عرش پر تیرے چرچے کرتے ہیں، یہاں فرش پر عداوت ہے آپ عرش پر اپنی عزت دیکھیں! تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے لئے جو مشقت برداشت کی ہے اس کے بدلے میں خدانے یہ اعزاز معراج کی صورت میں بخشا ہے ۔ (جاری)

کتبہ اسلامی زندگی (ماجد کشمیری)

اگلی قسط

عورت اپنے شوہر کے لئے بناؤ سنگھار کرے جائز ہے

0

 عورت اپنے شوہر کے لئے بناؤ سنگھار کرے جائز ہے اور اگر غیر مردوں کو دکھانے کی نیت ہو تو یہ خطرناک گناہ ہے


شیخ الحدیث مفتی نذیر احمد قاسمی حفظ اللہ



سوال:- آج کل کشمیر میں بیش تر مسلمان مستورات میں یہ عادت عام ہوگئی ہے کہ خوب بناؤ سنگھار کر کے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ دعوتوں و شادیوں پر اس کا زیادہ ہی اہتمام ہوتا ہے ۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور یہ بناؤ سنگھار غیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرکے دعوتِ نظارۂ حسن کا موقعہ فراہم کرتا ہے ۔ جب کہ گھروں میں اپنے شوہر کے لیے اس چیز کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا ۔ براہ کرم شریعت کی رو سے مسئلے کی  وضاحت فرمائیں۔

شبیر احمد …بٹہ مالو ، سرینگر


جواب:- اللہ نے خواتین کا مزاج اور ذہنیت ایسی بنائی ہے کہ وہ ہر حال میں بنائو سنگھار کا شوق رکھتی ہیں اور یہ مزاج اور شوق در اصل ایک اہم مقصد کے لیے ہے ۔ اور وہ یہ کہ وہ اپنے شوہر کے لیے محبوب اور پسندیدہ بنی رہے ۔ اس کا فائدہ زندگی کے ہر مرحلے میں دونوں کو ہوگا۔ میاں بیوی میں جتنی قربت ، ایک دوسرے کی چاہت اور محبت ہوگی اتنا ہی وہ ایک دوسرے کے حقوق  ادا کرنے ، ایک دوسرے کو راحت پہنچانے بل کہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کا اہتمام کریں گے ۔ اس لیے عورت کے لیے لازم ہے کہ وہ یہ شوق ضرور پورا کرے مگر اس طرح کہ وہ اچھے سے اچھا بناؤ سنگھار (مگر شریعت کے دائرے میں) کر کے شوہر کو خوش رکھے۔ اُس کی پسند کو ہر وقت ملحوظ رکھے اور اگر وہ یہ کرے اور نیت یہ ہو کہ میرا شوہر مجھ سے خوش رہے ۔ اُس کا میلان میری طرف برقرار رہے ۔ اس کو مجھ سے کوئی تکدر نہ ہو اور اس غرض کے لیے وہ صاف ستھری رہے ۔ اچھے کپڑے استعمال کرے ، میلی کچیلی ہونے کے بجائے اپنے شوہر کے لیے معطر و پُر کشش رہے تو اس نیک اور عمدہ مقصد کے لیے یہ سب باعث اجر و ثواب ہو گا ۔


لیکن اگر دوسروں کو دکھانے کے لیے بناؤ سنگھار کرے اور اچھے کپڑے پہنے تو اگر غیر مردوں کو دکھانے کی نیت ہو تو یہ خطرناک گناہ ہے اور اگر غیر عورتوں میں اپنی عزت و برتری دکھانی ہو تو بھی یہ فخر و برتری کی نمائش کی وجہ سے غیر شرعی ہے ۔ 


عورت دوسری کسی بھی جگہ چاہے تعزیت کرنے جائے یا کسی تقریب میں جائے ، اقارب یا پڑوسیوں سے ملاقات کے لیے جائے یا شادی بیاہ کی تقریبات میں؛ اگر وہ ایسا بناؤ سنگھار کرتی ہے کہ جس میں دوسرے اُس کی طرف بُری نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہو جائیں تو اس کا گناہ جہاں دیکھنے والوں کو ہے وہیں اس خاتون کو بھی ہے۔ کیوں کہ یہی دعوت نظارہ کا سامان لئے سامنے آتی ہے ۔ 


اس لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے (عورتوں کا حکم دیتے ہوئے فرمایا اور تم جاہلانہ طرزِ پر بناؤ سنگھار مت کرو)۔ اس میں ایک تو غیر اقوام کی طرز اور وضع قطع اپنانے کو جاہلانہ کہا ہے اور دوسرے اجنبی مردوں کے لیے اپنے آپ کو پُرکشش بنانے کو جاہلانہ روش قرار دیاہے ۔ لہٰذا عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہروں کے لیے اچھا لباس ، اچھی وضع قطع ، عطر اور دوسرے لوازماتِ آرائش ضرور اختیار کریں ۔ ہاں بالوں کا کٹ کرنا ، بھنوئیں باریک کرنا ، بیوٹی پارلر جانا ہرگز درست نہیں ہے ۔ اور ساتھ ہی تقریبات میں جہاں غیر مردوں کا سامنا ہو ایسا بناؤ سنگھار نہ کریں کہ اُن پر غیر وں کو دعوت نظارہ دینے کا جرم لازم ہو جائے۔


کتبہ: اسلامی زندگی

معراج کا سفر کیوں ہوا قسط نمبر 2|ملفوظات مولانا الیاس گھمن حفظہ اللہ

0

معراج کاسفرکیوں ہوا ؟ قسط ۲


اب دیکھیں! بنات رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؛ رقیہ، ام کلثوم ، فاطمہ رضی اللہ عنہن چھوٹی چھوٹی بچیاں گھر میں ہیں اور دنیا مخالف ہے، پورے عالم کی فکر ہے، دن رات ایک بندہ کام میں لگا ہو اور غمخوار بیوی گھر میں ہو اور وہ بھی فوت ہو جاۓ تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے! اس لئے اس سال کو " عام الحزن " یعنی غم کا سال کہتے ہیں ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کی طرف تشریف لے گئے ۔ اہلِ مکہ بات بھی نہیں سنتے اور دکھ بھی دیتے تھے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا شاید طائف والے میری بات سمجھ لیں ۔طائف والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات قبول کرنے کے بجائے مزید ظلم یہ کیا کہ طائف کے اوباش بدمعاش لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا۔ وہ تالیاں بھی پیٹتے تھے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق بھی اڑاتے تھے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر بھی مارتے تھے، جس کی وجہ سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک خون کی وجہ سے رنگین بھی ہوۓ ۔(جاری) 

اگلا صفحہ

ملفوظات متکلم اسلام مولانا الیاس گھمن حفظہ

کتبہ: ماجد کشمیری

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں