سلسلہ رد غیر مقلدیت نمر ۲۱
تحریف مفہوم کا دوسرا نمونہ: آپ کے مشہور مصنف محمد اقبال کیلانی صاحب اپنی کتاب الصلاۃ میں لکھتے ہیں عن ابی هریرۃ رض اللہ عنہ أن النبی ﷺ امره أن یخرج فینادی لاصلاۃ إلا بقراءۃ فاتحۃ الکتاب فما زاد . (ص۸۰)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس سے زیادہ جتنا کوئی چاہے پڑھے۔(ص ۸۰)۔
حدیث میں سورۃ فاتحہ اور فمازاد کا ایک ہی حکم بیان کیا گیا ہے جبکہ مترجم نے ترجمہ میں تحریف کر کے فاتحہ اور فمازاد کا حکم علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ کیا یہ تحریف کی بدترین مثال نہیں ہے؟ پھر بھی تمہیں اصرار ہے کہ تم اہل حدیث ہو ۔ آج امانت کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے دیانت کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ ہم رور ہے میں چِلّا رہے ہیں لیکن ہماری آواز ہے کہ صدا بصحرا۔
میرے بس میں ہو تو غیر مقلدوں کی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر انہیں تحریف کا یہ نمونہ دکھا دوں ۔ ان کے دماغوں سے مسلکی جمود کے پردے ہٹا کر انہیں حدیث کا صحیح ترجمہ سکھا دوں ۔ ان کے کانوں سے اندھی تقلید کی تھونسی ہوئی انگلیاں نکال کر انہیں آنحضور ﷺ کا اصلی اور سچا پیغام سنادوں۔
دیکھو خود تمہارے ہی مولانا اسماعیل سلفی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں : سورہ فاتحہ و مازاد کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔( رسول اکرم کی نماز ۲۸ ) دونوں ترجموں میں کتنا واضح فرق ہے؟
چنگیاں لیتی ہے فطرت چیخ اٹھتا ہے ضمیر
کوئی کتنا ہی حقیقت سے گریزاں کیوں نہ ہو
اس واضح تحریف اور دغا کے باوجود تم اپنی تحریروں میں یہ شعر لکھتے ہو اور تقریروں جھوم جھوم کر پڑھتے ہو:
ما اہل حدثیم دغا رانہ نشنا سیم
با قول نبیﷺ قول فقہا رانہ نشنا سیم
(ترجمہ ) ہم اہل حدیث ہیں جو دھوکہ فریب نہیں جانتے نبی ﷺ کے قول کے ساتھ فقہاء کے قول کو نہیں جانتے ۔اب خود ہی بتاؤ تم نے مندرجہ بالا حدیث کے ترجمہ و تشریح میں حدیث پر جو ہاتھ صاف کیا ہیں اس کا کیا عنوان دوں گے؟ اور آقائے مکی و مدنی علیہ الصلوۃ والسلام کو کیا جواب دو گے؟
غیر مقلد: آپ نے تو مجھے حیران ہوا پریشان کر دیا ہے۔یہ تو ہماری مرکزی دلیل ہے لیکن اس کے بہت سے پہلو ہم سے مخفی رکھے گئے تھے۔اور ہم طوطے کی طرح بغیر تفصیلات سمجھے اس کی رٹ لگاتے رہے۔
سنی: میں نے نہیں بلکہ آپ کے طریقہ کار نے آپ کو پریشان کیا ہے۔ جب تم صحابہ کے قول و فعل کو چھوڑ کر چودھویں پندرہویں صدی کے لوگوں پر اعتماد کرو گے تو وہ تمہارا علمی و فکری استحصال نہیں کریں گے تو اور کیا؟
جب تم احادیث کو صحابہ کے حوالے سے نہیں سمجھو گے اور ان کے فہم کو مسترد کرکے چودھویں صدی کے آپ نے ان لوگوں کے فہم پر اعتماد کرو گے تو پھر وہ تمہیں مندرجہ بالا طریقے سے ہی حدیث سمجھائیں گے۔
غلط بیانی کا نمونہ: آپ کو تعجب ہوگا کہ آپ کی عظیم شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی صاحب اپنے فرقے کے لوگوں کو بارو کرنا چاہتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام کے مصلے میں غیر مقلد حدیثوں پر عمل کرتے ہیں، جبکہ حنفی اس کے مقابلے میں امام کو بنیاد بناتے ہیں۔ جب کہ اصل صورت حال آپ دیکھ چکے ہیں۔ شیخ موصوف لکھتے ہیں۔ بزرگوں کا احترام اچھی بات ہے لیکن آنحضرت ﷺ کے اقوال گرامی میں سب سے زیادہ قابل احترام ہیں، اقوال ائمہ کی تاویل ہو سکے تو ہو جانے چاہیے احادیث نبویہ کے لئے ائمہ کے اقوال و مذاہب کو معیار نہیں کرا دینا چاہیے۔ ( رسول ﷺ کی نماز:ص ۷۲)
غلط بیانی کا دوسرا نمونہ: حکیم صادق سیالکوٹی صاحب نے ( سبیل الرسول ص:۵۰) پر لکھا ہے کہ ” فاتحہ نہ پڑھنے والے کو یو چھو تو کہتے ہیں: ابو حنیفہ نے روکا ہے“
اس عبارت میں موصوف نے سینہ زوری کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ہم تو حدیث پر عمل کرتے ہیں،جبکہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والوں کے پاس کوئی حدیث نہیں۔بلکہ وہ تو حدیث کے مقابلے میں اپنے امام کے قول کو بنیاد بناتے ہیں۔ نیز تمہارے مولانا عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں کہ : ” حنفیہ کا مسئلہ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ یہ صریح حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہ کہتے ہیں کہ یہ ہوتی ہے “( امتیازی مسائل ص ۵۱)
جب کہ آپ گزشتہ گفتگو میں سن چکے ہیں کہ ہماری دلیل کتنی مضبوط ہے اور۔۔۔۔جاری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔