جو وابستگان اسلام کے لیے لمحۂ فکریہ اور ہماری دینی حمیت کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔
بین مذہبی شادی ،اسلام کی نظر میں:
کسی بھی غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنا اور ازدواجی تعلق قائم کرنا کیسا ہے؟ اس میں اسلامی قانون کی کیسی خلاف ورزی پائی جاتی ہے؟اور اس طرح کرنے والا دائرۂ اسلام میں رہتاہے یا خارج ہوجاتاہے ؟ آئیے ہم اس سلسلہ میں کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔چناں چہ غیرمسلم مرد سے نکاح کے بارے میں قرآن پاک کا صاف اور کھلا حکم موجود ہے: اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ یقینا ایک مومن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو، اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور یقینا ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ مشرک مرد تمہیں پسند آرہا ہو۔ یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنے احکام لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ ( سورۃ البقرۃ: ۲۲۱)
یہ حکم کس قدر اہميت کا حامل ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ قرآن نے صرف حکم ہی بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا؛ بلکہ مومن مرد اور عورت کو جدا جدا خطاب کرکے منع کرنےکےساتھ اس کی حکمت اور وجہ بھی بیان کردی۔ اول تو مشرک مرد و عورت سے نکاح کو اس وقت تک منع قراردیاجب تک وہ ایمان قبول نہ کرلیں ۔ پھر فوراہی فیصلہ کن انداز میں اس صورت کو بھی بیان کردیا کہ کافر و مشرک جاہ و جلال حسن و جمال اور حسب و نسب کے اعتبار سے تمہیں کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے، اس کے مقابلے میں دنیاوی اعتبار سے سے کم حیثیت والا مومن ہی تمہارے لیے ہزار درجہ بہتر ہے قرآن نے اپنے بلیغ اسلوب میں اس کو یوں بیان کیا: ”ایک مومن غلام اور باندی مشرک مرد و عورت سے بہتر ہے ” ۔ اس کی اصل حکمت یہ بیان کی کہ یہ کافر اور مشرک دوزخ اور جہنم میں لے جانے والے ہیں اور اللّٰہ تعالی اپنے ارشاد سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے ۔ اصل ناکامی اور کامیابی ہی یہی ہے؛اس لیے اخیر میں شفقت بھرے لہجے میں ارشاد فرمایا کہ یہ احکام صاف صاف اس لیے بیان کیے جاتے ہیں ، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔ اس اسلوب سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ مخاطب کے فائدے کے پیش نظر ہی مذکورہ حکم دیا گیا ہے۔
پتہ چلا کہ صدق دل سے اسلام قبول کرنے سے پہلے کسی غیر مسلم کا نکاح مسلمان خاتون کے ساتھ جائز نہیں، نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، ازدواجی تعلق حرام کاری کے زمرہ میں داخل ہوتا ہے، ایمان جیسی قیمتی دولت کو جنسی خواہش کی بھینٹ چڑھا دینا اور غیر مسلم کی ہمہ وقت صحبت و معیت اختیار کرکے اپنے دین و ایمان کو خطرہ میں ڈالنا کس قدر سنگین جرم ہے کہ ایسی بدکاری کی حالت میں دین و ایمان کا سلامت رہ جانا بھی دشوار ہے، اسی حالت میں موت آجانے کی صورت میں آخرت میں جو انجام ہوگا، اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایک مسلمان بندی اپنے خالق و مالک کے روبرو کس طرح کھڑی ہوگی اور اپنے اعمال و ایمان کا کیا جواب اس کے پاس ہوگا؟حضرت محمدﷺ جن کے طفیل ہمیں دین وایمان کی دولت ملی، انہوں نے ایک ایک امتی کے لیے کیسی کیسی دعائیں کیں، مسلمان بندی ان کو کیا منہ دکھائے گی، اپنے دین و ایمان کوغارت کرنے کا کیا جواز وہ پیش کر سکے گی؟
ارتداد کے بنیادی اسباب :
غور کیاجائے اور سنجیدگی سے جائزہ لیاجائے تواس برائی؛بل کہ بےحیائی کےبہت سارے اسباب ہیں ؛جن میں فحش وناجائزتعلقات پرمبنی ٹی وی سیریل ،موبائیل کا غلط استعمال،مخلوط نظام تعلیم، ذاتی طورپردینداری کی کمی اور مسلم گھرانوں میں دینی ماحول کا فقدان وغیرہ سر فہرست ہیں،آج عفت وعصمت ،پاکیزگی وپاک دامنی کی کوئی فضیلت واہمیت دلوں میں باقی نہ رہی؛ بل کہ عفت وعصمت کی قدروں کو پامال کرنا، ایک فیشن بن گیا اور جو شرم وحیاء اور عصمت کی بات کرے وہ ان لو گوں کی نظرمیں دقیانوسی اور حالات زمانہ سے بے بہرہ اور تاریک خیال ٹھہرایا گیا۔اخلاق و شرافت، تہذیب وانسانیت کی جگہ حیوانیت و درندگی، دنائت و بدتہذیبی نے لے لی اور انسانیت واخلاق کی توہین کرنا ،ایک محبوب مشغلہ بن گیا۔
آج ہمارے بچے یہ نہیں جانتے کہ ان کے مسلمان ہونے کا معنی کیا ہے ؟ ہم مسلمان کیوں ہیں ؟ ہم میں اور کافر میں کیا بنیادی فرق ہے؟ آج کی نسل طہارت کے موٹے موٹے مسائل بھی نہیں جانتی !ہمارے بچوں کو محرم ونامحرم کسے کہتے ہیں اس کی بھی تمیز نہیں !یہ کتنے افسوس بات ہے کہ کھانے کے لیے جینا اور جینے کے لیے کھانا ہمارا مقصد بن چکاہے ،ہمیں اپنے دین کی ترقی سے کوئی مطلب نہیں ،والدین کو اولاد کی تربیت کاکوئی احساس نہیں ،نوجوانوں کو اپنےدینی مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہر شخص ذمہ داری کے احساس سے خالی ہے جب کہ سرکار دوعالم ﷺفرمارہے ہیں :تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ ادرای کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔(متفق علیہ)
ماخذ: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔