بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی ہمارے پورے شعبان میں برکتیں نصیب اور رمضان تک پہنچائے۔
عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا دخل رجب قال : اللہم باریک لینا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان۔
المعجم الاوسط للطبرانی،رقم الحدیث:3939
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں ماہِ رمضان تک پہنچا۔
ماہ شعبان کی فضیلت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے چاند اور اس کی تاریخ ہو کہ حساب کا بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔
عن ابی هریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احصوا جلال شعبان لرمضان۔
جامعہ ترمذی: رقم الحدیث 687
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کی چاند ( تاریخوں) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھو تاکہ رمضان کی آمد کا حساب لگانا آسان ہو سکے۔
یعنی رمضان کی صحیح حساب کے لئے شعبان کا چاند اور اس کی تاریخوں کو خصوصیت سے یاد رکھا جائے۔جب شعبان کی آخری تاریخ ہو تو رمضان کا چاند دیکھنے میں پوری کوشش کی جائے۔
رمضان کا مقدمہ:
شعبان آٹھواں اسلامی مہینہ ہے جو رمضان المقدس سے پہلے آتا ہے۔اس مہینے کو اللہ تعالی نے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے، جس کی عظیم وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینے میں ماہ رمضان کے روزوں،تواریخ اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے،رمضان جو اپنے برکتوں،رحمت اور عنایات ربانی کا موسم بہار ہے اس کی تیاری کا ماہ شعبان سے شروع ہونا اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔گویا شعبان کو رمضان کا مقدمہ کہنا چاہیے۔
ماہِ شعبان کے روزے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے،بلکہ رمضان کے بعد ماہ شعبان میں روزوں کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔
1: عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم حتی نقول لا یفطر و یُفطر حتی نقول لا یصوم فما رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استکمل صیام شھر الا رمضان و مارایتہ اکثر صیاما منہ فی شعبان
صحیح البخاری: رقم الحدیث 1969
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو (غیر رمضان میں) شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا تھے۔
یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر کل کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔
3: المسغوبات من الصیام انواع اولھا صوم المحرم والثانی صوم رجب والثالث صوم شعبان و صوم عاشوراء۔
فتاوی عالمگیری،ج:1،ص:202
ترجمہ: مستحب روزں کی کئی قسمیں ہیں: محرم کے روزے،رجب کے روزے،شعبان کے روزے اور عاشوراء کے (دو)روزے۔
نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھنے کی تحقیق:
عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذابقی نصف من شعبان فلا تصوموا۔
جامع الترمذی،رقم الحدیث :738
ترجمہ: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے تو روزی نہ رکھا کرو۔
اس ریوایت کے پیش نظر فقہاءِ کرام نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ قرار دیا ہے،ساحل البتہ چند صورتوں کو متثنی فرمایا ہے کہ ان میںنے پندرہ شعبان کے بعد روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ صورتیں یہ ہیں:
1: کسی کے ذمہ قضائر روزہ ہو یا واجب (کفارہ وغیرہ کے) روزے ہوں اور وہ انہیں انعام رکھنا چاہتا ہو۔
2: ایسا شخص جو شروع شعبان سے روزہ رکھتا چلا آرہا ہو۔
3: ایسا شخص کی جس کی عادت یہ ہے کہ مخصوص دنوں یا تاریخوں کے روزے رکھتا ہے، اب وہ دنیا طاری شعبان کے آخری دن میں آ رہی ہوں تو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ایسی کمزوری کا خطرہ نہ ہو گی جس سے رمضان کے روزوں کا حرج ہونے کا اندیشہ ہو۔ ملخص: درسِ ترمذی: ج:2، ص:579
نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیا ہے ؟
حکیم الامت ماہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میرا تو ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان شریف میں جو جاگنا ہو گا اس شب کا جاگنا اس کا نمونہ ہے اور یہ صوم ایام رمضان شریف کا نمونہ ہے ۔ پس دونوں نمونے رمضان کے ہیں ، ان نمونوں سے اصل کی ہمت ہو جاوے گی۔ پھر اس صوم کے بعد جو صوم سے منع فرمایا اس میں حقیقت میں رمضان کی تیاری کے لیے فرمایا ہے کہ جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ مت رکھو۔ مطلب یہ کہ سامان شروع کرو رمضان کا یعنی کھاؤ، پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاؤ اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے “
خطبات حکیم الامت: ج:7،ص: 391
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔