لاپتہ فوجی جاوید احمد وانی کی فائل فوٹو

0

معدوم فوجی جاوید احمد وانی کی فائل فوٹو







سری نگر- جموں و کشمیر پولیس نے متعدد افراد سے پرسش کی اور ساپہی جاوید احمد وانی کی کال کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کی، جو کچھ دن قبل اپنے آبائی ضلع کولگام سے چھٹی کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے، ذرائع سے ہہی خبر ملی۔

لداخ کے علاقے میں تعینات سپاہی کو اتوار کو حاضری دینی تھی ۔ اس کی گاڑی استھل میں لاوارث پائی گئی۔

حکام نے بتایا کہ درجن سے زائد افراد سے استفسار کیا گیا اور کال ریکارڈوں کی جانچ کی جا رہی ہے کیوں کہ معدوم فوجی کی تتبع کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔

سپاہی کے والد نے ان لوگوں سے اپیل کی ہے جنہوں نے ان کے بیٹے کو اغوا کیا ہیں، وہ انہیں زندہ رہا  کردیں گر چہ وہ اس شرط سے مشروط کر دیں کہ یہ فوجی اہل کاری چھوڑ دیں ۔۔۔ وہ خاندان کا واحد فعال ہے

"میں تمام بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اسے زندہ چھوڑ دیں۔ اگر اس نے کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ محمد ایوب وانی نے اتوار کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگر وہ چاہیں تو میں اسے بھی نوکری چھوڑ دوں گا۔ 

مدرسہ میں جرمانہ ظلم کثیرہ ہے خصوصاً فقرا سے جن کی کثرت ہوتی ہے مدرسہ میں

0

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

لاگ ان10/07/2023

دارالافتاء

 

مدرسے کا غیر حاضری پر طلبہ سے جرمانہ لینا


سوال

میں ایک مدرسے کا طالب علم ہوں، ہمارے مدرسے کے ناظم صاحب تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب میں اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے مدرسے میں تعلیم مفت نہیں بلکہ اس کی فیس مقرر ہے اور وہ ہر گھنٹے کی 20 روپیہ ہے تاہم یہ فیس ہر طالب علم سے نہیں لی جاتی بلکہ ان طلبہ سے لی جاتی ہے جو اصول اور ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان سے بھی ساری فیس نہیں لی جاتی  بلکہ جزوی لی جاتی ہے ۔مثلا  جو طالب علم ایک دن غیر حاضر ہو اس سے 100 روپیہ فیس لی جاتی ہے ، یا ایک نماز کی حاضری میں موجود نہ ہو تو 20 روپیہ فیس لی جاتی ہےاسی طرح اگر طالب علم سنگین جرم کا ارتکاب کرے تو اس کو خارج کر دیا جاتا ہے پس اگر وہ طالب علم دوبارہ داخلے پر اصرار کرے تو داخلہ فیس لی جاتی ہے ۔ناظم صاحب سے کسی نے کہا کہ یہ تعزیر مالی ہے جو کہ ناجائز ہےتو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تعلیمی فیس ہے مالی جرمانہ نہیں۔ کیوں کہ ایک تو ہم سال کے شروع میں طلبہ پر یہ معاملہ واضح کرتے ہیں دوسرا یہ مالی جرمانہ گزشتہ غلطی کی سزا  نہیں ہوتی ھے بلکہ آئندہ  تعلیم جاری رکھنے کی فیس ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی طالب علم مدرسے میں مزید تعلیم جاری نہیں رکھتا تو اس سے کوئی فیس نہیں لی جاتی ۔ سوال یہ ہے کہ  مدرسہ  والوں کا اس طرح طلبہ سے فیس لینا جائز ہے یا ناجائز ؟

جواب

         واضح رہے کہ  تعزیر بالمال (مالی جرمانے)کے جواز میں فقہاے کرام کا اختلاف ہے  فقہاےاحناف میں سے اکثر فقہاےکرام کے ہاں تعزیر بالمال جائز نہیں البتہ امام ابویوسفؒ سےاس کا جواز منقول ہےاورموجودہ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بعض انتظامی امور میں مالی جرمانہ مقرر کیا جائے کیونکہ ہر مجرم پر بدنی سزا سے لوگ مشقت میں پڑ جائیں گے جو تنفیر کا سبب بنے گا۔اور بسا اوقات بدنی سزا سےکسی جرم کی روک تھام نہیں ہوسکتی  لیکن مالی سزا کی بدولت روک تھام ہوجاتی ہے،لہذا ان حالات میں امام ابویوسفؒ کے قول سے استفادہ کرتے  ہوئے اس کے جواز کی گنجائش دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔علامہ ابن عابدینؒ نے بزازیہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام تعزیر میں مال لے سکتا ہے،لیکن خود استعمال نہیں کر سکتا،بلکہ مجرم کی توبہ اور اصلاح کے بعد اس کوواپس لوٹادے گا۔ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام اگر مجرم کی توبہ سے ناامید ہوجائے توخیر کے کام میں اس کو استعمال کرے۔

           صورتِ مسئولہ میں مدرسہ سے غیر حاضری  کرنا جرم ہے ، اسی طرح نماز با جماعت میں سستی کرنا بھی  مدرسہ کے قانون کے مطابق جرم ہے اس لیے مدرسہ کے منتظم  کےلیے زجر اورتادیب کی خاطر  غیر حاضری وغیرہ  پر جرمانہ لینا جائز ہے چاہے  نام اس کو فیس کا ہی  دیا جائے ،لیکن استاداس کوخود استعمال نہیں کرسکتا،بلکہ طالب علم کی توبہ اور اصلاح کےبعداس کو واپس لوٹادےگا۔یا اگراستاد طالب علم کی اصلاح سے ناامید ہو یاجرمانہ واپس لوٹانے سے طلباکویہ تاثر ہو کہ جرم کرتے رہیں گےجرمانہ ہم کوویسے بھی واپس کیاجارہاہےتو ایسی صورت میں اس رقم کو  ر فاہِ عامہ میں خرچ کرنے کی گنجائش ہے۔

 

عن عمر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: من وجدتموه غل فى سبيل الله فأحرقوا متاعه قال صالح :فدخلت على مسلمة ومعه سالم بن عبد الله فوجد رجلاقدغل فحدث سالم بهذا الحديث فأمر به فأحرق متاعه فوجد فى متاعه مصحف فقال سالم :بع هذا المصحف وتصدق بثمنه.(الجامع الترمذى، أبواب الحدود، باب ماجآء فى الغال مايصنع به، ج:4، ص:61)

ويجوز التعزير بأخذالمال،وهومذهب أبى يوسف وبه قال مالك،ومن قال:إن العقوبة المالية منسوخة فقد غلط على مذاهب الأئمة نقلاواستدالا،وليس بسهل دعوى نسخها،وفعل الخلفاء الراشدين وأكابرالصحابةلهابعدموتهﷺ مبطل لدعوى نسخها والمدعون للنسخ ليس معهم سنة ولاإجماع يصح دعواهم. (معين الحكام، ص:231)

 وأفاد فى البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي .وفى المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ ورأى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى(ردالمحتارعلى الدرالمختار، كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب فى التعزير بأخذ المال، ج:4، ص:61)

کونگ وٹن: خوبصورتی کا پھول

0

 کونگ وٹن: خوبصورتی کا پھول

کونگ وٹن ایک خوبصورت جگہ ہے جو اہربل سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جگہ اپنی فراوانیت اور دلکشی کے لئے مشہور ہے۔ واقعیت میں، کونگ وٹن محیطی تنوع اور خوبصورت طبیعت کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ اس جگہ میں پیدا ہونے والے مناظر اور طبیعی چشمے دل کو بہلا دیتے ہیں۔ (لیجئے اپ بھی مظاہرہ کیجئے)


 

وقت گزارے جب آپ کونگ وٹن تک پہنچتے ہیں، آپ کو بہت سی دلچسپیاں نظر آتی ہیں۔ اہربل سے راستے پر چلتے ہوئے، آپ پانی کے جھرنوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں جو چشمہ جیسی آوازوں کے ساتھ بہتے ہیں۔ یہ نظریں محیطی تنوع کو ظاہر کرتی ہیں اور آپ کو پر امن ماحول میں لے جاتی ہیں۔

ہیں



وادی میں چلتے ہوئے، آپ ایک مختلف دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ کونگ وٹن کی لمبی وادی میں چھوٹی چھوٹی گھاس میں پھولوں کی بھرپور تشکیلات نظر آتی ہیں جو پھولوں کی مہک سے محفوظ ہیں۔ اس وادی میں کوثر ناگ بھی واقع ہے، جو کونگ وٹن سے چار گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ یہ مقام گرمیوں کے موسم میں لوگوں کے درجہ حرارت بڑھانے سے بچنے کے لئے مشہور ہے۔ اس میناری پانی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

جو پانی کوثر ناگ سے آتا ہے جس سے کونگ وٹن، اہربل جیسے مقامات سیراب ہوتے ہیں۔ اس کی تاریخ یوں رقم ہوئی کہ ایک زمانہ میں زین العابدین رحمہ اللہ نے اس کی کھدائی کی تھی۔ اس کا پانی جھیل ڈل تک پہنچا تھا۔۔۔زین العابدین وہی شخصیت ہے جو کوثر ناگ میں شکارا میں تفریح کرتے تھے۔

کونگ وٹن کی جمیل وادی اور اس کے قریبی حصوں کا دورہ کرتے ہوئے، آپ کو عمدہ تفریحی مواقع حاصل ہوں گے۔ طبیعی مناظر کے علاوہ، آپ فعالیتوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں مثلاً پھولوں سر سبز وادیوں میں چہل قدمی کرتیں کرتیں اپ ٹھنڈی ہَوا کا لطف اس طرح محسوس کرتیں جیسے آپ جنت میں ہوں۔

 جہاں آپ طبیعت کے نزدیک ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا کی شور و غل میں سے دور محسوس کرتے ہیں۔ یہاں آنے سے، آپ کو طبیعت کی خوبصورتی اور اس کی نرمی کا احساس ہوتا ہے جو آپ کے دل کو بہت پسند آتا ہے۔ کونگ وٹن ایک پھول کی طرح ہے جو چشمہ سے بہتے ہوئے پانی کی مسیر پر رہتا ہے۔ اس کی خوبصورتی، شاندار مناظر اور آرام دہ ماحول کا یہ مشاہدہ آپ کو یادگار رہے گا۔۔۔۔۔



سرکاری کیمپ کی طرف سے منتخب قسم کے گھاس اور سبزیاں کا اگائی جانا، یہاں کی رونق کو بڑھاتا ہے۔ گھاس اور سبزیوں کی مختلف قسموں کی اگائش سے، مناظر اور حیاتیاتی خوبصورتی کا مزید وسیع انداز حاصل ہوتا ہے

و گھاس اور سبزیوں کی اہلیت کو مزید بہتر بناتا ہے اور کونگ وٹن کی خوبصورتی کو بہتر دکھاتا ہے۔ اس سے یہ علاقہ مزید مسرت بخش اور دلکش بنتا ہے جو لوگوں کو کھینچنے کا مقصد پورا کرتا ہے

سرکار کی طرف سے  ایک اور اقدام بھی محسوس ہوا کہ جہاں، جہاں جنگلی درختوں کی کمی نظر آتی ہے وہاں انہیں نئے نئے جنگلی درختوں کی اگائی کی ہے۔

یہ حسین وادی اکثر کوثر ناگ کے سفیروں کے لیے ماوی بنتا ہے یہاں رات گزارنے کے بعد صبح کو آرام سے کوثر ناگ کی طرف روان۔ ہوتیں ہیں۔ ۔۔۔چلیں ہم بھی کوثر کی طرف ہی رجوع کرتیں ہیں۔۔۔ اس کے متعلق تفصیلی بحث کے لیے پروانے سفرنامہ ضروری پڑھیں۔( پورانہ سفرنامہ) ۔۔۔ تب تلک چشمہ آ جائیں گا۔۔۔۔ 


ماجد کشمیری 





بے وفائی نا کروں | لا یدخل الجنۃ قاطع۔

0
وفا ایک بہت اہمہ اور نایاب خصوصیت ہے جو ہر رشتے کو مضبوط بناتی ہے۔ وفاداری ایک ایسی صفت ہے جو ایک شخص کو دوسرے شخص سے جوڑتی ہے اور محبت، احترام اور توجہ کا اظہار کرتی ہے۔ یہ رشتے کو برقرار رکھتی ہے اور توازن اور استحکام کا باعث بنتی ہے۔ لیکن اس دنیا میں کچھ لوگ اپنے رشتوں میں بے وفا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے وعدوں کو نہیں نبھاتے اور دوسروں کی خوشیوں کا خیال نہیں رکھتے۔ بے وفائی سب کچھ کھو دیتی ہے، یہ دلوں کو توڑتی ہے اور دوسروں کے لئے غم و دریغا کا باعث بنتی ہے۔ بے وفائی ایک منفی صفت ہے جو اخلاقیت کے خلاف ہوتی ہے۔

 وفاداری اور اعتماد: دو اہم اصول ہیں جو ہر رشتے کی بنیاد ہوتی ہیں، لیکن جب کوئی شخص بے وفا ہوتا ہے تو یہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور عملی زندگی میں تنگیاں پیدا کرتے ہیں۔ بے وفائی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگ مصلحتیں پیش کرتے ہیں اور دوسروں کی مدد کے بجائے اپنے فوائد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

 بے وفائی ایک اجتماعی اور روحانی مسئلہ بنتی ہے جو انسان کے دل کو تکلیف میں ڈالتا ہے۔ وفاداری اور تکیہ انسانی تعلقات کی اہمیت کو بڑھاتے ہیں، لیکن بے وفائی کے باعث، رشتے میں دھچکا پیدا ہوتا ہے۔ بے وفا افراد کئی طرح سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ اپنے احباب،اقارب یا محبوبہ سے وعدے کرتے ہیں، لیکن وقت آنے پر ان وعدوں کو توڑ دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف دوسرے شخص کا دل دُکھتا ہے بلکہ خود کو بھی انتہائی محسوس کرنے کا باعث بنتا ہے۔ بے وفا دوستی اور رشتے کو بھی اپنے پہلو میں لے لیتی ہے۔ وہ لوگ جو بے وفا ہوتے ہیں، دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں اور ان کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ انسان کے دل کو چھوڑ کر ان کی قیمت کم کر دیتے ہیں اور ان کے ساتھ روزمرہ کے حسین لمحوں کو تباہ کرتے ہیں۔ بے وفائی کی صورت میں انسان کو دوسروں سے دور رہنا پڑتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا دل اچھے اور وفادار لوگوں کے ساتھ ہو، جن کے ساتھ وہ احساسِ تعلق کر سکے۔ یہ ایک دل کو تکلیف دہ صورتِحال ہوتی ہے جب کوئی شخص اس پر بے وفائی کرتا ہے جس کے ساتھ اس نے بہت ساری محبت اور وفا کی توقع کی تھی۔

 بے وفائی ایک منفی صفت ہے جو معاشرتی تعلقات کو متاثر کرتی ہے۔ ہمیں ہرگز بے وفا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں وفادار اور اعتماد کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے تاکہ ہم ایک دوسرے کے لئے معنی خیز اور قیمتی رشتے بنا سکیں۔

 لا یدخل الجنۃ قاطع او کما قال: لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذین اذا قطعت رحمہٗ وصلھا.



ماجد کشمیری 

منافقت کی تعریف | میں منافق تو نہیں ہوں

0

میں منافق تو نہیں؟!


عام تعریف جو ”منافقت“ کی، کی جاتی ہے : ظاہر اور باطن میں یکسانیت نہ ہونا۔ پر یہ جامع تعریف نہیں ہے، کیوں ہمارے ید کے طرفین متخالف ہے اور یہ فطرت ہے۔اور ایسا ہونا فطری ہے، تو تعریف ہوگی: اندر کی حقیقت کو جھٹلانا اور باہر کو مزین کر کے دکھلانا ”منافقت“ ہے۔


 ظاہر داری کے قرائن: ایۃ المنافق ثلاث: اذا حدث کذب، واذا وعد اخلف ،واذا اؤتمن خان. 


یہ علامتیں اس لیے نہیں ہیں کہ آپ ان کو دوسروں میں تتبع کر کے، ان پر منافقت کی لیبل یعنی فتویٰ دیں۔ بل کہ اپنا محاسبہ کرنے کے لیے ہیں۔ ، تاکہ مقبل وعید ہمارے لیئے متحقق نہ ہو جائیں۔ ان المنافقین فی الدرک الاسفل النار


علامتِ ثلاثہ: 1: کذاب، 2: مخالف اور 3: خائن۔ اب ان کو سمجھتیں ہیں۔


تشریحِ کذاب: اذان ہو رہی ہے، مؤذن ”اللہ اکبر ، اللہ اکبر، اللہ اکبر ، اللہ اکبر “ کہ رہیں ہیں۔ ہم نے جواباً عرض کیا۔ میں صلات کے لیے نہیں آؤ گا۔ تو میں نے جھٹلایا خداوند کی کبریائی کو تو ہم سے بڑا کو دروغ گو ہے ہی نہیں۔ 


تفسیرِ مخالف: اللہ وعدہ لیں رہیں ہیں : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔ ہم جواب دیں رہیں ہیں: بلا کیوں نہیں۔، مگر ہم آستانوں پر ماتھا رگڑتیں ہیں، منسٹروں کے سامنے جھکتیں ہیں، تعظیمی سجدہ کرتیں ہیں۔ کوئی ہے جو ہم سے عظیم بر خلاف ہے۔ 


صراحتِ خائن: ہماری روح و جسد کا ہر حصہ، اللہ کی امانت ہے۔ حقوق و حدود اللہ کے موافق عمل نا کرنا خیانت ہے : جیسے : اپنی بیوی کے ورے کسی دوسری کی طرف دیکھنا۔ قوتِ یدین اور نطق کو حق کو مغلوب کرنے کے لیئے مستعمل کرنا، فریبی ہونا کا ثبوت ہے۔ 


ہم حساب کرنے میں ماہر ہے۔ دکان دار سے ایک درہم کی کمی کی بھی تفہیم رکھتیں ہیں۔ تو امروز بل کہ ہر روز محاسبی چھوڑ کر متحاسب بن کر ان کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ روح و جسم میں متضمن تو نہیں ہے۔ گر ایقان ہو جائیں تو برخواست کریں نہیں تو خائف و مفکر بنیں کہ کہیں شامل نہ ہو جاؤں ۔


✍️: ماجد کشمیری

دوسروں کی تباہی کا ذریعہ مت بنیں

0

دوسروں کی تباہی کا ذریعہ مت بنیں




امابعد! لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کریں، اپنی بنیاد اتنی مضبوط کریں کہ کوئی اسے تباہ نہ کرسکے۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے اثرات سے آزاد رکھیں۔ لوگ آپ سے کہیں گے کہ پیچھے ہٹ جاؤ، ہمارا ساتھ دو، ہم اہلِ حق ہیں۔ لیکن آپ تحقیق کریں، ثبوت کے پیچھے جائیں اور حق کے متلاشی بنیں۔ جنہیں معیارِ الٰہی پر پرکھا گیا ہو، ان کی پیروی کریں۔ اپنے آپ کو دوسروں کی تباہی کا ذریعہ نہ بنائیں اور نہ دوسروں کو اپنی تباہی کا سبب بننے دیں۔ ڈریں اس قہرِ الٰہی سے، جس کی پناہ زمین و آسمان مانگتے ہیں، اور اس عذاب سے جس کے آگے قارون بھی سرِ تسلیم خم کر گیا تھا۔


جب ہم اپنی شرم و حیا کھو دیتے ہیں تو اپنی بربادی کے ساتھ دوسروں کی تباہی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ جیسے اگر کسی دریا یا نہر کے پانی کو روک دیا جائے تو وہ زرخیز زمینوں تک نہیں پہنچ سکے گا، جس سے فصلیں خراب ہو جائیں گی، کھانے کی قلت ہو جائے گی، اور معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ بعینہ، جب گناہ کیا جاتا ہے تو اس کا اثر صرف فرد تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب گناہ اجتماعی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو ان کی سزا بھی شدت اختیار کر جاتی ہے۔


جہالت میں رہنا بہتر ہے بنسبت اس کے کہ انسان خود کو اَجہل بنا لے، کیونکہ کم از کم جہالت کا نقصان خود تک محدود رہتا ہے۔ لیکن اگر آپ اچھے معاشرے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں اخلاقی، فلاحی، سیاسی، اور معاشی ترقی ممکن ہو، تو ہمیں تنہائی اور خفیہ طور پر گناہوں سے بچنا ہوگا۔ اور دوسروں کو بھی گناہوں سے بچنے کی نصیحت کرنی ہوگی۔


وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين۔

اسوہِ نبوی کی ذمہ داریاں

0
اسوہِ نبوی کی ذمہ داریاں
استاذ: وہ شخص ہے جس کی پوری زندگی متعلم کے لیئے صرف ہوتی ہے۔ گر ان کا متعلم فراغت حاصل کر بھی لے تب بھی تلمذیت سے کوسوں نہیں ہوتا۔ علوم سمندر کی مانند ہے، غوطہ زن زیادہ دیر تک پانی میں نہیں رہ سکتا لیکن استاذ سمندر کا بادشاہ ہوتا ہیں۔ وہ اٹھیں تو پورا پانی ابھر کر آتا ہے۔ وہ خاموش ہو جائیں تو یہ نہ سمجھیں کہ پانی کے بہاؤ میں تغیر نہیں آسکتا، بل کہ خاموشی کے بعد کے طوفان کے آنے کی راقبیت کا موجب بنتا ہے۔ اب اس بات کو ازبر کر لیں کہ آپ استاذ کے سامنے تادیب کی جو صورت اختیار کر سکتے ہے، اس میں قالب کو ڈھالنا چاہیے۔۔۔۔
جس کا جنتا بڑا فریضہ، اس کی اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس اسوہِ نبوی کے حاملین میں اخلاقی، علمی اور حکمتی اضمحلال آیا ہے، اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، کریں تو ہر فرد کا دعویٰ اہلِ منصبِ استاذ ہونے کا عنفوان ہوگا، یہ ایسا قہر ہے، جس سے نظامی ، نصابی ،علمی اور اخلاقی اضمحلالوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، اس جنگِ جمیل سے رعایا کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو تقاضائے معلمیت نہیں ہے، بل کہ آثارِ جھل ہے۔ چوں کہ یہ ساری واردات اس جھل سے شروع ہوتی ہے، تو اولاً اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ترتیبِ صحیح پر منصب بندی کرنی چاہیے۔
یہ ہی تقاضائے تعلیماتِ نبوی ہے۔ اگر برعکس ہوا تو مذکورہ مخطورات سے دوچار ہونا ہی پڑے گا۔جو معلمین منصوب ہوئے ہیں۔ وہ اس کو قابلیتِ من نہ سمجھیں بل کہ مرتِب کا عطف سمجھیں۔
اب ان کا تذکرہ کرتے ہیں، جن سے اساتذہ کرام آمیز ہوتے ہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر، وہ مندرجہ ذیل ہے۔
یہ نہ صرف اتالیق کی کوتاہی ہے، بلکہ نظامتِ مراکز کی بھی ہے، جو نصاب اسلاف سے تواتراً رواں تھا، اس میں اتنی کمی آئی ہے۔ جس میں کچھ کا تغیر بربنائے مصلحتِ زمن ہے اور کچھ فقدانِ اہلِ مدرس ہے۔ اب جو نصاب متضمن ہے بھی، اس میں بھی اتمام نہیں ہوتا، جس سے وہ کمزوری رہتی ہے، جس کی بھرپائی ذاتی مطالعہ سے بھی رفع نہیں ہوتی ہے۔
2۔ اگر چہ وقت، جو صرف ہوتا ہے تدریس میں اس کی تنخواہ لینا جائز ہے، پر اسی کو ذریعۂ ماش بنانا اور صرف اسی غرض سے تعلیم دینا، جس کی وجہ سے روحِ علم یعنی عمل منتقل نہیں ہوتا ہے۔ اس کو اصلاح کی حاجت ہے (بل کہ سابقہ شیخ الحدیث دارالعلوم رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کی پوری تنخواہ کی مراجعت کو یقنی بنایا)
3۔ خیر استاذ کا کسی طالب علم کو ذہنی دباؤ ڈالنا یا تدریس میں نا تجربہ کار ہونے کی وجہ سے طلبہ کو محروم از تعلیم کرنا، نہ صرف نا اہلیت ہے بل کہ کسی نہ کسی حد تک گناہ بھی ہے۔
کمزور تلامیذ کا خیال نہ کرنا، یہ جان کر کہ وہ ناقابل ہے اور صرف ذہین شاگردوں کو درخورِ اعتنا رکھنا۔۔۔۔۔۔ متکلم اسلام کا اس حوالے سے فقرہ یاد آیا، فرماتے ہیں: کمزور طلبہ کو قابل بنانا ہی استاذیت کا اصل ہنر ہے۔ جس کی کمی آج پائی جاتی ہے۔( روایتِ معنوی) اصلاح کی ضرورت ہے!
سب سے زیادہ خطرہ جو تدریسی نظام کو ہوتا ہے، وہ نا اہل کا فائزِ منصب ہونا ہے، جس کے نقصانات کا تذکرہ بالا میں ہوا۔
اس نوعیت کا حامل خطرہ یہ بھی ہے کہ متعلمین، اساتذہ کی تلمذ کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے روحِ علم منتقل نہیں ہوتا اور یہ عیاں ہے کہ روح کے بغیر جسم مردہ کہلاتا ہے۔ اس لیئے طلبہ کو چاہیے کہ وہ عمل کرنے کی نیت کے ساتھ اسباق کو ازبر کریں اور فہمِ مضامین کو بھی، ورنہ جن اضمحلالوں کا نوشت کردہ میں تذکرہ ہوا وہ سرایت کرے گا۔
اب حلِ مشکل یہ ہے کہ دونوں طرف سے نیک نیتی سے حصول علم اور استاذیت کا فریضہ انجام دیں تو اسلافوں والا علم باعمل سرایت کریں گا۔ ان شاءاللہ تعالا۔
اللہ تعالا ہمیں فہمِ تقاضائے تعلیم و تعلم کی توفیق دیے۔ اور ہم سے دیں کا کام لے۔ آمین

محرر: ماجد کشمیری

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں