مدرسہ میں جرمانہ ظلم کثیرہ ہے خصوصاً فقرا سے جن کی کثرت ہوتی ہے مدرسہ میں

0

 


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

لاگ ان10/07/2023

دارالافتاء

 

مدرسے کا غیر حاضری پر طلبہ سے جرمانہ لینا


سوال

میں ایک مدرسے کا طالب علم ہوں، ہمارے مدرسے کے ناظم صاحب تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب میں اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے مدرسے میں تعلیم مفت نہیں بلکہ اس کی فیس مقرر ہے اور وہ ہر گھنٹے کی 20 روپیہ ہے تاہم یہ فیس ہر طالب علم سے نہیں لی جاتی بلکہ ان طلبہ سے لی جاتی ہے جو اصول اور ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان سے بھی ساری فیس نہیں لی جاتی  بلکہ جزوی لی جاتی ہے ۔مثلا  جو طالب علم ایک دن غیر حاضر ہو اس سے 100 روپیہ فیس لی جاتی ہے ، یا ایک نماز کی حاضری میں موجود نہ ہو تو 20 روپیہ فیس لی جاتی ہےاسی طرح اگر طالب علم سنگین جرم کا ارتکاب کرے تو اس کو خارج کر دیا جاتا ہے پس اگر وہ طالب علم دوبارہ داخلے پر اصرار کرے تو داخلہ فیس لی جاتی ہے ۔ناظم صاحب سے کسی نے کہا کہ یہ تعزیر مالی ہے جو کہ ناجائز ہےتو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تعلیمی فیس ہے مالی جرمانہ نہیں۔ کیوں کہ ایک تو ہم سال کے شروع میں طلبہ پر یہ معاملہ واضح کرتے ہیں دوسرا یہ مالی جرمانہ گزشتہ غلطی کی سزا  نہیں ہوتی ھے بلکہ آئندہ  تعلیم جاری رکھنے کی فیس ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی طالب علم مدرسے میں مزید تعلیم جاری نہیں رکھتا تو اس سے کوئی فیس نہیں لی جاتی ۔ سوال یہ ہے کہ  مدرسہ  والوں کا اس طرح طلبہ سے فیس لینا جائز ہے یا ناجائز ؟

جواب

         واضح رہے کہ  تعزیر بالمال (مالی جرمانے)کے جواز میں فقہاے کرام کا اختلاف ہے  فقہاےاحناف میں سے اکثر فقہاےکرام کے ہاں تعزیر بالمال جائز نہیں البتہ امام ابویوسفؒ سےاس کا جواز منقول ہےاورموجودہ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بعض انتظامی امور میں مالی جرمانہ مقرر کیا جائے کیونکہ ہر مجرم پر بدنی سزا سے لوگ مشقت میں پڑ جائیں گے جو تنفیر کا سبب بنے گا۔اور بسا اوقات بدنی سزا سےکسی جرم کی روک تھام نہیں ہوسکتی  لیکن مالی سزا کی بدولت روک تھام ہوجاتی ہے،لہذا ان حالات میں امام ابویوسفؒ کے قول سے استفادہ کرتے  ہوئے اس کے جواز کی گنجائش دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔علامہ ابن عابدینؒ نے بزازیہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام تعزیر میں مال لے سکتا ہے،لیکن خود استعمال نہیں کر سکتا،بلکہ مجرم کی توبہ اور اصلاح کے بعد اس کوواپس لوٹادے گا۔ایک قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام اگر مجرم کی توبہ سے ناامید ہوجائے توخیر کے کام میں اس کو استعمال کرے۔

           صورتِ مسئولہ میں مدرسہ سے غیر حاضری  کرنا جرم ہے ، اسی طرح نماز با جماعت میں سستی کرنا بھی  مدرسہ کے قانون کے مطابق جرم ہے اس لیے مدرسہ کے منتظم  کےلیے زجر اورتادیب کی خاطر  غیر حاضری وغیرہ  پر جرمانہ لینا جائز ہے چاہے  نام اس کو فیس کا ہی  دیا جائے ،لیکن استاداس کوخود استعمال نہیں کرسکتا،بلکہ طالب علم کی توبہ اور اصلاح کےبعداس کو واپس لوٹادےگا۔یا اگراستاد طالب علم کی اصلاح سے ناامید ہو یاجرمانہ واپس لوٹانے سے طلباکویہ تاثر ہو کہ جرم کرتے رہیں گےجرمانہ ہم کوویسے بھی واپس کیاجارہاہےتو ایسی صورت میں اس رقم کو  ر فاہِ عامہ میں خرچ کرنے کی گنجائش ہے۔

 

عن عمر : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: من وجدتموه غل فى سبيل الله فأحرقوا متاعه قال صالح :فدخلت على مسلمة ومعه سالم بن عبد الله فوجد رجلاقدغل فحدث سالم بهذا الحديث فأمر به فأحرق متاعه فوجد فى متاعه مصحف فقال سالم :بع هذا المصحف وتصدق بثمنه.(الجامع الترمذى، أبواب الحدود، باب ماجآء فى الغال مايصنع به، ج:4، ص:61)

ويجوز التعزير بأخذالمال،وهومذهب أبى يوسف وبه قال مالك،ومن قال:إن العقوبة المالية منسوخة فقد غلط على مذاهب الأئمة نقلاواستدالا،وليس بسهل دعوى نسخها،وفعل الخلفاء الراشدين وأكابرالصحابةلهابعدموتهﷺ مبطل لدعوى نسخها والمدعون للنسخ ليس معهم سنة ولاإجماع يصح دعواهم. (معين الحكام، ص:231)

 وأفاد فى البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عند مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي .وفى المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ ورأى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى(ردالمحتارعلى الدرالمختار، كتاب الحدود، باب التعزير، مطلب فى التعزير بأخذ المال، ج:4، ص:61)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں