غیر مقلد اور سنی کے درمیان مناظرے، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا

0



سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۴


 غیر مقلد: یار واقعی بھائی پھیرو تک سفر کا سوال بڑا معنی خیز تھا۔

بہر حال ایک اور دلیل پیش کرتا ہوں کہ مولانا سیالکوٹی صاحب نے حضرت ابن عباسؓ کی جو روایت نقل کی ہے وہ تو بڑی واضح اور فیصلہ کن ہے: کہ دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھ۔


سنی: (۱) صحابی کا قول تو آپ کے نزدیک دلیل نہیں پھر یہاں استدلال کیسا ؟


(۲) اس روایت پر تمہارا عمل بھی نہیں چونکہ نجر سے مراد سینے کا وہ بالائی حصہ ہے جو گلے سے متصل ہے اور تم لوگ تو اس سے تقریبا ایک بالشت نیچے اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہو۔


(۳) اس کی سند پر نظر ڈالیں تو اس میں : (۱) یحییٰ بن ابی طالب ہے جس کی بابت موسی بن ہارون فرماتے ہیں کہ اسے جھوٹ بولنے کی عادت تھی ۔ نیز امام ابوداؤد نے اس سے نقل کردہ احادیث پر قلم پھیر دیا تھا۔ میزان الاعتدال ( ۲۲۳٫۳)۔


(ب) اس کی سند میں ایک راوی ہے جس کے بابت علامہ ابن عدی ؒ   کہتے ہیں اس کی بیان کردہ روایت منکر ہوتی ہے۔ جوہر النتقی (۳۰٫۲)


(ج) اس کی سند میں ایک راوی روح ہے، جس کی بابت ابن حبان کہتے ہیں : وہ من گھڑت روایتیں نقل کرتا ہے اس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے ۔

(د) صلاۃ الرسول ؐ کے حاشیہ نگارلقمان سلفی نے بھی اس کے ضعیف ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ باقی دو حاشیہ نگاروں نے بھی اسے ضعیف قرار دیکر اس کے ضعیف ہونے پر اجتماع منعقد کر دیا ملاحظہ ہو ۔ (تسہیل الوصول ۱۵۴۔القول مقبول ۳۴۲)


تم تو صحیح بخاری ومسلم سے اپنا مسلک ثابت کرنے کے دعویدار تھے اور اب اس طرح کی ضعیف روایت کا سہارا لے رہے ہو؟


دعویٰ ہے بخاری مسلم کا دیتے ہیں حوالے اوروں کے

ہے قول وعمل میں ٹکراؤ یہ کام ہیں اہل حدیثوں کے




آپ مزید کچھ پیش کرنا چاہیں گے یا ہم کمیٹی کو فیصلے کی دعوت دیں۔


غیر مقلد : ذرہ ٹھہریں مولانا سیالکوٹی نے طاؤس کی روایت نقل کی ہے ۔لیکن میں وہ پیش نہیں کرنا چاہتا چونکہ مولانا نے خود ہی لکھا ہے کہ ’’یہ مرسل ہے لیکن دوسری مستند احادیث سے ملکر قوی ہوگئی ہے“ ۔اب آپ نے جو حقائق پیش کیئے ہیں اس سے یہ واضح ہو گیا کہ دوسری احادیث بھی مستند نہیں ۔ لہذا یہ کمزور کی کمزور ہی رہی ، نیز ہم خود بھی مرسل کو حجت نہیں مانتے ۔البتہ میں موقر کمیٹی کی توجہ ایک اہم تحریر کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ مولانا اسمعیل سلفیؒ نے قبیصہ بن ہلب اور ابن خزیمہ والی روایت ذکر کرنے کے بعد بڑا معتدل اور صلح صفائی والا موقف اختیار کیا ہے کہ:

ان احادیث سے ظاہر ہے کہ صحیح راجح اور سنت یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھے جائیں تا ہم نماز ہر طرح ہو جاتی ہے صحابہ ؓ کا عمل دونوں طرح ہے ۔ ( رسول اکرم ﷺ کی نماز ص:۶۷)


الغرض جب نماز ہرطرح ہو جاتی ہے اور صحابہ ؓ کاعمل بھی دونوں طرح ہے تو پھر ہمیں بلاوجہ جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہیئے اور دوسرے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیئے ۔


سنی: مولانا اسماعیل سلفی ؒ صاحب کا یہ جملہ غیر مقلد حلقہ کے عمومی مزاج کے اعتبار سے واقعی وسعت ظرفی کا حامل ہے کہ جب فروعی مسائل میں اختلاف ہوا اور دونوں طرف دلائل موجود ہوں تو مدّ مقابل کی نفی نہ کی جائے ۔اگر غیر مقلد حضرات اس نہج پر اپنی اصلاح کر لیں تو باہمی احترام کی بناء پر ماحول خوشگواری ہو جائے گا۔ البتہ مولانا اسماعیل سلفی ؒ   صاحب کے اس پیراگراف کی۔ ابن میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا۔


(۱) جن احادیث کی بناء پر انہوں نے سینہ پر ہاتھ باندھنے کو صحیح راجح اور سنت قرار دیا ہے وہ تو قبیضہ بن ہلب اور ابن خزیمہ والی روایت ہے، جس کی محدّثانہ حیثیت گزشتہ سطور میں۔ بیان ہوچکی۔

(۲) ان کا یہ کہنا کہ صحابہ ؓ  کا عمل بھی دونوں طرح ہے، تو واضح رہے کہ امام ترمذیؒ   نے سنن ترمذی میں دونوں چیزوں پر صحابہ ؓ  کا عمل نقل کیا ہے نہ کی نیچے ہاتھ باندھنا اور ناف کے اوپر ہاتھ باندھنا۔ جبکہ تیسرے موقف سینہ پر ہاتھ باندھنے کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ ملاحظہ ہو۔ رأی بعضھم أن بضعھا قوق السرۃ ورأی بعضھم أن یضعھا تحت السرۃ وکل ذلک واسع عندھم (جامع ترمذی۔باب وضع الیمین علی الشمال)۔

  کہ بعض حضرات ناف پر اور بعض حضرات ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں، اور ان کے نزدیک دونوں طرح کرنے کی گنجائش ہے۔۔۔۔۔جاری 


اگلا صفحہ

غیر مقلد اور سنی کے درمیان مناظرے غیر مقلد کی حدیث سازی غیر مقلد گمراہ کیوں

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۳

سنی: یہ مسند احمد لیں اور اس میں سے وہ عربی الفاظ کھائیں جو انہوں نے اپنی کتاب میں ذکر کیئے ہیں۔


غیر مقلد : دراصل یہ مسند احمد تو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور حکیم صاحب نے جلد نمبر اور صفحہ نمبر بھی نہیں لکھا ۔لہذا میرے لیے تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔لیکن مجھے یقین ہے کہ مولانا نے یہ حدیث بڑی تحقیق و جستجو کے بعد لکھی ہو گی ۔


سنی: بس یونہی ان کے اندھے مقلد بنے پھرتے ہو اور بلاتحقیق ان کی ہر بات کی تقلید کیئے جار ہے ہو ۔ چلو میں تمہیں متعلقہ حوالہ نکال دیتا ہوں یہ جلد نمبر ۵ کا صفحہ ۲۲۶ ہے، بس تم مجھے یہ الفاظ دکھا دو۔


غیر مقلد: یہاں تو لکھا ہے:عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال رأيت النبی ﷺ ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته قال يضع هذه على صدره.


سنی: اب آپ حکیم صاحب کی بیان کردہ حدیث کے الفاظ دیکھیں اور مسند احمد کے الفاظ میں واضح فرق ملاحظہ کر میں : عـن هـلـب قال رأيت النبی ﷺ هـذه علی صدرہ ۔ آپ بتائیں کہ چودھویں صدی میں حکیم صاحب کو حدیث نبوی کے الفاظ میں ردو بدل کا اختیار کس نے دیا ہے؟


ع     خود بد لتے نہیں الفاظ بدل دیتے ہو



اچھا اب آپ علی صدرہ کے بعد والے الفاظ پڑھو۔


غیر مقلد: وصف يحيى اليمنى على اليسرى فوق المفصل -


سنی: تمہاے مصنف اور واعظ روایت کے اس حصے کو بیان نہیں کرتے ۔ آخر کیوں؟! چونکہ تم لوگ دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھتے ہو جبکہ یہاں دایاں ہاتھ بائیں کے جوڑ پر رکھنے کا ذکر ہے ۔ اب تم بتاؤ کہ ایک ہی روایت کا آدھا حصہ قابل استدلال نہیں اور دوسرا حصہ نا قابل عمل! آخر کیوں؟


غیر مقلد: یہ صورتحال تو میرے لئے بالکل نیا انکشاف ہے۔

 

سنی: اب آپ اس کی سند پر غور کر میں تـفـرد بـه سماک بن حرب ولينه غير واحد وقال النسائي: إذا تفرد بأصل لم يكن حجة اس روایت میں سماک بن حرب نے تفرد اختیار کیا ہے جس کو بہت سے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام نسائی فرماتے ہیں: جب سماک تفرد اختیار کرے تو اس کی روایت دلیل نہیں بن سکتی ۔


غیر مقلد : ہمارے علماء چونکہ حدیث فہمی میں ایک خاص مزاج رکھتے ہیں لہذاد یکھئے انہوں نے سینہ پر ہاتھ باندھنے کے لئے کتنا زبردست استدلال کیا ہے : حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت اور کلائی پر رکھا۔ شیخ البانی فرماتے ہیں کہ اس کیفیت پر عمل کرنے سے لازماً ہاتھ سینہ پر آئنگے ۔ تجربہ کیجیئے ۔(القول المقبول ۳۴۱ نیز صلوۃ الرسول حاشیہ لقمان سلفی ۱۱۶)


سنی: آپ نے کبھی لاہور سے بھائی پھیرو تک بس کا سفر کیا ہے؟


غیر مقلد: یہ کیا موضوع سے ہٹ کر غیر متعلق بات کی ہے؟ بہر حال جاتا رہتا ہوں ۔


سنی: پھر آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اپنی کمپنی کی مشہوری کے لئے دوائیں بیچنے والے آتے ہیں اور ایک زور دار تقریر کے بعد آخر میں کہتے ہیں کہ تجربہ کیجئے۔ بعض بھولے لوگ ان کی اس گفتگو سے متاثر ہو کر دوا خرید لیتے ہیں اور دوا فروش اگلے سٹاپ پرا تر جاتا ہے۔


بعینہ اسی طرح آپ نے مندرجہ بالا عبارت سے سینہ پر ہاتھ باندھنے کا استدلال کر کے اس میں قوت ڈالنے کے لئے کہا ہے کہ تجربہ کیجئے ، بھولے لوگوں اور خصوصاً غیر مقلدوں میں اتنا شعور کہاں؟ وہ تو تجربہ والے چیلنج سے ہی متاثر ہو جائیں گے۔


اطلاعاً عرض ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت اور کلائی پر رکھ کر ہی تو احناف اسے ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے ہیں ۔ پھر بھی یہ دعویٰ کرنا کہ اس کیفیت پر عمل کرنے سے لازماً ہاتھ سینے پر آئینگے، سینہ زوری نہیں تو اور کیا ہے؟

نیز یہ کہ آپ آج غیر مقلدوں کو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے نوٹ کریں کہ وہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت اور کلائی پر رکھتے ہیں یا کی دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھتے ہیں۔ بس آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ تجربہ کیجیے والے چیلنج میں کتنی جان ہے؟اور اس حدیث وہ دلیل پر کتنے لوگوں کا عمل ہے۔ 


غیر مقلد: یار واقعی بھائی پھیروتک سفر کا سوال بڑا معنی خیز تھا۔۔۔۔۔ جاری 


اگلا صفحہ

غیر مقلد اور سنی درمیان گفتگو، سنی کیا حکیم سیالکوٹی صاحب دواسازی کے ساتھ ساتھ حدیث سازی بھی کرتے تھے

0

سلسلہ ردِ غیر مقلدیت نمبر ۱۲


 سنی: جناب کیا ماجرا ہے؟ پہلے آپ نے دعویٰ کیا کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح بخاری و مسلم میں ہے جو کہ اس میں نہیں ہے پھر دیگر صحاح ستہ میں سے آپ کو کوئی حدیث نہ ملی تو ابن خزیمہ کی روایت نقل کی اور دعویٰ کر دیا کہ ابن خزینہ نے اسے صحیح کہا ہے لیکن ان کا یہ قول اس میں نہیں دکھا سکے۔ بلکہ الٹا لینے کے دینے پڑ گئے کہ تمہارے اپنے ہی عالم البانی نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیدیا۔ یوں لگتا ہے کہ تمہارے جد ید مصنف بھی اپنے قدیم مصنفین کی روش پر چل پڑے ہیں اور ماڈرن طریقہ سے غلط حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ کچھ سال اور نکل جائیں۔


 غیر مقلد :(اپنے ہونٹ بھچنتے ہوئے ڈھیمی آواز میں ) پتہ نہیں ہمارے علماء غلط بیانی کیوں کرتے ہیں؟ مجھے یاد آیا کہ ایک محفل میں اس موضوع پر بات چلی تھی تو یہ طے پایا کہ ابن خزیمہ نے اپنی کتاب کا نام صحیح ابن خزیمہ رکھا ہے لہذا اس کی ہر حدیث کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ القول مقبول ص ۴۴ پر بھی یہ وضاحت میری نظر سے گذری ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ”نماز نبوی“ میں جگہ جگہ یہ کہا گیا ہے۔


 سنی: یقیناً یہ جدید مصنفین کی ماڈرن ڈپلومیسی ہے تاکہ تم جیسے لوگوں کو نئے جال میں پھنسایا جائے، میں بڑی سادہ سی گزارش کروں گا کہ چند منٹ فارغ کر کے صحیح ابن خزیمہ کے صفحات پلٹتے جاؤ اور حاشیہ میں گنتے جاؤ کہ کتاب کہ حاشیہ نگار نے اس کی کتنی حدیثوں پر ضعیف کا حکم لگایا ہے تو یہ تعداد ممسک وں میں نکلے گی ۔اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ غیر مقلدین کی نجی محفل میں جود فائی ہارٹ لائین قائم کی گئی تھی وہ کتنی کمزور ہے؟


 غیر مقلد: (صحیح ابن خزیمہ کے چند صفحات پلٹ کر) آپ کی بات صحیح ہے ، یہ چند صفحات میں دسیوں حدیثیں ضعیف قرار دی گئی ہیں۔


سنی: آپ اپنے بدلتے ہوئے پمیار نے دیکھیں اور داد دیں، نماز نبوی کا یہ حاشیہ نگار جس نے پوری کتاب کا اکثر حاشہ یہ لکھ کر سیاہ کہا ہے کہ اب اختر محمد نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ابن حبان نے صحیح کہا ہے اس کا ساتھی غ م تسہیل الوصول ص ۱۷۸ پر ابن خزیمہ اور ابن حبان کی اس روایت کو ضعیف قرار دیتا ہے۔ جس میں ارشاد نبوی ہے کہ جس نے امام کو رکوع میں اٹھنے سے پہلے رکوع میں پالیا اس نے وہ رکعت پالی۔ ایمانداری سے بتاؤ یہاں ابن خزیمہ کی تصحیح والا پیمانہ کیوں بدل گیا؟  ابن خزیمہ کی روایت کو ضعیف کیوں کہہ دیا ؟ صرف اس لیے کہ اس کی وجہ سے تمہارے فاتحہ خلف الامام والے مسلک پر زد پڑتی ہے کہ اس نمازی نے فاتحہ نہیں پڑھی پھر بھی اس کی وہ رکعت ہوگئی اس تسہیل الوصول کے صفحہ ۴۵ ،۲۱۲ پر بھی ابن خزیمہ کا ذکر کر کے ان روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔اور صفحہ ۳۶۶,۱۸۱,۱۰۵ پر ابن حبان کا ذکر کر کے ان روایات کو ضعیف کہا ہے۔


غیر مقلد : میں تو کتاب نماز نبوی سے بڑا متاثر تھا کہ اس میں ابن خزیمہ وابن حبان کی تصحیح پر اکثر اعتماد کیا گیا ہے لیکن مندرجہ بالا حوالہ جات سے تو نماز نبوی کے حاشیہ کی ساری عمارت دھڑام گر گئی۔ چونکہ خود ہمارے ہی لوگ ابن خزیمہ و ابن حبان کی روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔


چلیں مولانا سیالکوٹی نے ایک اور حدیث نقل کی ہے ۔ ہلب صحابی فرماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔(مسند احمد )


سنی: کیا حکیم سیالکوٹی صاحب دواسازی کے ساتھ ساتھ حدیث سازی بھی کرتے تھے؟


غیر مقلد: اس کا کیا مطلب؟

سنی: وہ حدیث کے عربی الفاظ میں اپنی طرف سے کمی بیشی کیا کرتے تھے؟


غیر مقلد: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟


سنی: حضرت ہلب ؓ کی طرف منسوب حدیث میں یہی کچھ ہوا ہے۔


غیر مقلد : قطعاً ایسا نہیں ہوسکتا چونکہ مولانا سیالکوٹی نے تو مسند احمد کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی ہے۔


 سنی:۔۔۔۔۔ جاری

 اگلا صفحہ

ایک مزدور کی کہانی - آخر رب کی ہی نافرمانی کیوں؟

0

     قارئین کرام! ایک مزدور کا واقعہ اس کے زبان سے ملاحظہ ہوکہ: میں کام پر گیا میرے ساتھ ہم عمر کے کچھ افراد بھی شامل تھے۔ میں نے وہاں پر عجیب اور انوکھا منظر دیکھا کہ مالک کی کتنی فرمابرداری کی جا رہی ہے۔ میرے ساتھی گانے سننے والوں میں سے تھے، پر جوہی مالک آ جاتے تھے تو وہ گانے بند کر دیتے تھے۔ مالک جو کام کرنے کو بولتیں تھیں، ہم اس کام کو جرح کرے بغیر کرنے کے لئے آمادہ ہوتے تھے۔ وہ کام کے بیچوں بیچ اگر یہ کہتے کہ اب اس کام کو چھوڑ دو یہ کام کروں تو ہم اسے انجام دیتے۔ الغرض جو بھی وہ کہتے تھے ہم اس کے لیے تیار رہتے تھے۔ پر کیوں؟ میرے ذہن میں یہ بات گردش کر رہی تھیں کہ مالک کی بات تو ماننی چاہیے ہم پر فرض ہے۔ پر ایک سوچ مجھے ستا رہی تھی کہ ہماری سرگزشت اتنی فرمانبردار تو نہیں ہے پھر کیوں ہم اسے اتنے خوف سے تسلیم کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ میں نے ساتھیوں سے سوال پوچھا، حیرت انگیز جواب ملا یہ ہمیں دن کا معاوضہ 600 دیتے ہیں اس لیے۔ 

    بس پھر کیا میں سوچ میں ڈوب گیا۔ صرف 600 روپے کے لیے ہم مالک اتنی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ ہمارا رب اللہ تعالی ہمیں دن کا کتنا دیں رہیں ہیں پر کیا ہم اس کی اتباع کرتے ہیں؟ میں حساب کرنے لگا۔

    جب میں صبح اٹھتا ہوں اللہ تعالی روح پھونک کر پھر سے مجھے زندہ کرتا ہے۔ ارے اس روح کی تو کوئی قیمت ہی نہیں ہے؟۔۔۔ ہے کیا؟ نہیں!۔ اس کا حساب لگانا ہمارے بس میں نہیں، چلیں چھوڑے آگے حساب کرتے ہیں، دن بھر اللہ تعالی کا آکسیجن استعمال کرتے ہیں، تحقیق سے پتا چلا کہ انسان ایک منٹ میں 8 لیٹر آکسیجن استعمال کرتا ہے۔ وہ چوبیس گھنٹوں کا 11500 ہو جاتا ہے۔ وہ لگ بھگ 13 لاکھ کے اوپر اوپر ہے۔ کہاں چھے سو میں مالک کی فرمانبرداری اور کہاں تیرہ لاکھ میں رب کی نا فرمانی! 

    اگر ہوا، پانی،زمین، ہفت خلیفہ، خوب صورت قالب، لقبِ اشرف المخلوقات، عنایتِ منصبِ خلیفۃ اللہ، اور شرفِ امتِ محمدی وغیرہ ہیں۔ جامع الفاظ وہیں: فبای الاء ربکما تکذبان، جس کا حساب کیا جائیں، اگر تمام نعمتوں کا حساب کیا جائے جن کا استعمال دن بر انسان کرتا ہے۔ یہ تو لاتعداد ہے۔

پھر للہ کی نافرمانی کیوں؟۔۔۔العاقل تکفیہ الاشارہ. 

    لہذا اہلِ اسلام سے ہماری دردمندانہ درخواست ہے کہ اپنے فرائض سے ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کریں، ہوش کے ناخن لیں، اپنے آپ کو پہچانیں کہ آپ کسی مقصد کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں عقل سلیم عطا فرمائیں اور اپنے حفظ و امان میں رکھیں آمین یا رب العالمین۔


ماجد کشمیری

غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو، غیر مقلد سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت ہے

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۱

موضوع: سینہ پر ہاتھ باندھ


سنی: تکبیر تحریہ کے بعد ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں؟

غیر مقلد: ہمارے نزدیک سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت ہے۔

سنی: اس موقف پر آپ کی دلیل کیا ہے؟

غیر مقلد : ہماری دلیل صحیح بخاری شریف میں ہے ۔ جیسا کہ ہمارے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب نے لکھا ہے کہ: سینہ پر ہاتھ باندھنے اور رفع یدین کرنے کی روایات بخاری ومسلم میں ہیں ۔ فتاوی ثنائی (۴۴۳٫۱ ) الغرض ہمارے دلائل بڑے مضبوط ہوتے ہیں ۔ آپ لوگوں کی طرح کمزور نہیں ۔

سنی: اچھا تو صحیح بخاری شریف میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایت دکھا دبیجئے۔

غیر مقلد: یا یکھئے نا جی ! فتاوی ثنائیہ میں لکھا ہوا ہے ہمارے مولانا ثناء اللہ صاحب مناظرے اسلام اور شیخ الاسلام تھے۔ وہ حوالہ بڑی ذمہ داری سے دیتے تھے، ہمیں تو ان برپور اعتماد ہے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ حنفی لوگ صحیح بخاری کی اس روایت پر عمل کیوں نہیں کرتے۔؟

سنی: آپ ہمیں بھی اعتماد میں لیں اور صحیح بخاری میں سے بھی حوالہ نکال کر دکھاد میں۔

غیر مقلد: آپ زیادہ مجبور کرتے ہیں تو نکال کر دکھا دیتا ہوں ۔۔

سنی: آپ تیسری دفعہ صحیح بخاری کی ورق گردانی کر رہے ہیں اور ہر دفعہ آپ کی پریشانی میں اضاف محسوس ہو رہا ہے۔ آخر راز کیا ہے؟

غیر مقلد: دراصل میری صحیح بخاری میں تو ایسی کوئی روایت نہیں مل رہی ۔

سنی: جناب آپ مولانا امرتسری صاحب کے ذاتی نسخہ صحیح بخاری میں بھی ڈھونڈ میں تو قیامت تک آپ کو یہ روایت نہیں ملے گی۔ چلیں دوسری کتاب صحیح مسلم میں سے سینہ پر ہاتھ باندھنے کا مسئلہ نکال دیں۔

غیر مقلد : ضرور ہی ضرور ۔ دراصل ہمارے قول عمل میں چونکہ صحیح بخاری ومسلم کا ہی تذکرہ چلتا ہے اس لئے کبھی کبھی زبان وقلم پر صحیح مسلم سے پہلے روانی میں صحیح بخاری کا نام خود ہی آ جا تا ہے ۔ شیخ الاسلام امرتسری صاحب کی مندرجہ بالاعبارت میں بھی ایسا ہی ہوگا ابھی میں آپ کو صحیح مسلم میں سے یہ حدیث نکال کر دکھاتا ہوں۔

سنی: محترم آپ نے صحیح مسلم میں کتاب الصلاۃ کے تمام صفحات تو پلٹ لیئے ان میں تو آپ کو سینہ پر ہاتھ باندھنے والی حدیث نہیں ملی اب تو آپ ”کتاب فضل المساجد کے صفحات پلٹ رہے ہیں ۔ یہاں اس حدیث کی کیا مناسبت ہے؟

غیر مقلد : تم جلد بازی نہ کرو ۔ آخر "کتاب فضل المساجد صحیح مسلم سے باہر تو نہیں ہے۔ نیز ہم سینہ پر ہاتھ باندھ کر مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ۔لہذا ہوسکتا ہے اس باب میں یہ حدیث مل جائے .... مگر اس میں بھی نہیں ملی ۔

سنی: جب موجود ہی نہیں تو ملیگی کیسے؟

غیر مقلد: آخر مولانا ثناءاللہ صاحب نے یہ کیسے اور کیوں لکھ دیا؟

سنی: شاید اپنے اندھے مقلد اعتمادیوں پر اپنے مسلک کی دھاک بٹھا نے گچھیا اور ایک آپ بھولے لوگ ہیں کہ ان کی اس طرح کی تحریروں سے متاثر ہوکر لوگوں کو چیلنج کرنے لگ جاتے ہیں اور ان پرفتوی لگانے شروع کر دیتے ہیں ۔لیکن یہ طریقہ واردات کب تک چلے گا ؟ آخرایک دن جھوٹ پکڑ ا جائے گا۔

ع     جو شاخ نازک پہ آشیانہ ہنی گا نا پائیدار ہوگا

غیر مقلد : چلیں یہ دیکھیں ابن خزیمہ میں حضرت وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھا۔(۲۴۳٫۱) امام ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔

سنی: یہ لیجئے صحیح ابن خزیمہ اس میں سے دکھائیں کہ ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہو۔

غیر مقلد : یہ یکھئے میرے پاس بڑے بڑے اہل حدیث علماء کی مل جل کر تصنیف کردہ ۱۹۹۸ء کی کتاب ہے’’ نماز نبوی‘‘ اس کے صفحہ ۱۴۴ پر حاشیہ نمبر ۵ میں اس حدیث کی بانت لکھا ہے کہ : امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔

سنی: تو کیا حرج ہے کہ آپ ابن خزیمہ کی اصل کتاب میں ان کا یہ قول دکھا دیں غیر مقلد: یقیناً جلد ۱ ص ۲۴۳ اور حدیث نمبر ۴۷۹۔۔۔؟؟؟

سنی: ص ۲۴۳پر حدیث نمبر ۴۷۹اپ کے سامنے ہے پھر تاخیر کیوں ہور ہی پے؟ اور آپ بار بار اس صفحہ کے حاشیہ میں دیکھتے ہیں؟ 

غیر مقلد: یہاں تو ابن خزیمہ کا یہ قول نہیں ملا کہ یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ اس حدیث کے حاشیہ میں تو ہمارے عالم شیخ البانی کا قول اس کے الٹ لکھا ہوا۔ اسنادہ ضعیف، اس کی سند ضعیف ہے۔

سنی: جناب یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔۔۔۔جاری

اگلا صفحہ


ہندوؤں کی دیوالی سے پہلے مسلمانوں کی دیوالی

0

قارئین کرام ! کچھ دیر پہلے یکے بعد دیگرے کئی مرتبہ کانوں میں پٹاخوں کی تیز آواز گونجی تو حیرت ہوئی کہ ابھی کیا بات ہوگئی کہ نیاپورہ جیسے مسلم علاقے میں پٹاخوں کی آواز آرہی ہے؟ روڈ پر نکلا تو چند نوجوانوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آئی پی ایل کا آج فائنل تھا جس میں چنئی نامی ٹیم فتحیاب ہوئی ہے۔ چونکہ بندے کو کرکٹ میں ذرا بھی دلچسپی نہیں ہے اس لیے ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔

خیر جیسے ہی معلوم ہوا کہ ہمارے نوجوان کرکٹ ٹیم کی فتح کا جشن پٹاخے جلا کر منا رہے ہیں تو دل بالکل بیٹھ سا گیا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اگر بات ورلڈ کپ میں ہندوستان کی جیت کی ہوتی تو کچھ سمجھا بھی جاسکتا تھا، اگرچہ اس وقت بھی آتش بازی ناجائز ہی تھی، لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ آئی پی ایل جیسی انتہائی فضول سیریز جو سراسر فضول خرچی اور فحاشی کا اڈا بنی ہوئی ہے، اس میں ہمارے نوجوانوں کی دلچسپی وہ بھی اس حد تک کہ اس میں اپنی پسندیدہ ٹیم کی جیت پر یوں ناجائز اور حرام طریقے پر اس کا جشن منایا جائے؟ وہ بھی ایسے حالات میں جبکہ مسلمان معاشی، سماجی اور سیاسی ہر اعتبار سے کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ پٹاخے  پھوڑنا اور آتش بازی کرنا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز اور حرام ہے۔

اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُةِ ۖ  ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا  ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏  ۔(سورہ بقرہ، آیت : 195)

ترجمہ : اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔  (سورہ بقرہ، آیت : 195)

آتش بازی میں اکثر جان کی ہلاکت و زخمی ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں۔

فضول خرچی، اور وقت کا ضیاع ۔

دوسری جگہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت : 27)

ترجمہ : بلاشبہ جو لوگ بےہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ 


اسی طرح آتش بازی میں غیروں سے مشابَہت پائی جاتی ہے جس کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا، نیز اس میں دوسروں کو تکلیف دینا بھی پایا جاتا ہے جو ایک الگ اور مستقل ناجائز اور حرام کام ہے۔


لہٰذا ہماری اپنے نوجوانوں سے انتہائی دردمندانہ درخواست ہے کہ اللہ کے لیے ایسی غیرذمہ داری کا مظاہرہ نہ کریں، حالات کے رُخ کو دیکھیں، ہوش کے ناخن لیں، اپنے آپ کو پہچانیں کہ آپ قوم وملت کا قیمتی سرمایہ ہیں، اپنی جوانی اور اپنے حلال مال کو یوں ان بت پرستوں اور پیسے کے پجاریوں کے پیچھے ضائع نہ کریں۔ اور یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ آپ کی اس غیرشرعی حرکت کا کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے بلکہ صرف اور صرف آپ کی آخرت برباد ہونے والی ہے، اس لیے ابھی سچی پکی توبہ کریں اور پختہ عزم کرلیں کہ آئندہ ایسی چیزوں سے مکمل طور پر دور رہیں گے۔


اللہ تعالٰی ہمارے نوجوانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے، فضولیات اور منکرات سے ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں قوم وملت کے لیے نفع بخش بنائے۔ آمین یا رب العالمین


 محمد عامرعثمانی ملی 

(امام وخطیب کوہ نور مسجد) 


سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مختصر خلاصہ 3

0

 سیرة النبی ﷺ کا مختصر خلاصہ 


آقائے مدنی آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ کو مؤرخین نے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور پیدائش سے نبوت تک، دوسرا دور دعوی نبوت سے ہجرت تک اور تیسرا دور ہجرت سے وصال تک۔


قسط نمبر 3


بعثت سے ہجرت تک


بعثت کے پہلے دوسرے اور تیسرے سال: غار حرا میں آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔

حضرت خدیجہ آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئی،ورقہ بن نوفل نے نبوت کی خبر دی،اس وقت آپ کی عمر مبارک 40 برس تھی۔


دعوت اسلام کے لیے پہلے ہی روز حضرت خدیجہ،حضرت ابوبکر صدیق،حضرت علی اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہم اجمعین آپ ﷺ پر ایمان لائے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔


بعثت کے چوتھے سوال: فَاصدَع بِما تُؤمَرُ وَأَعرِض عَنِ المُشرِكينَ ( الحجر ٩٤)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ ﷺ نے علانیہ اسلام کی دعوت شروع کردی


بعثت کے پانچویں سال: حبشہ کے جانی پہلی ہجرت ہوئی، جس نے ١١ مرد اور ٤ عورتیں تھیں۔

حبشہ کی جانب دوسری ہجرت ہوئی،جس میں ٨٢ مرد اور ١٨ عورتيں تھیں۔

قسط نمبر 2

قسط نمبر 1

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں