Allahu Akbar لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Allahu Akbar لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

غیر مقلد اور سنی درمیان گفتگو، سنی کیا حکیم سیالکوٹی صاحب دواسازی کے ساتھ ساتھ حدیث سازی بھی کرتے تھے

0

سلسلہ ردِ غیر مقلدیت نمبر ۱۲


 سنی: جناب کیا ماجرا ہے؟ پہلے آپ نے دعویٰ کیا کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح بخاری و مسلم میں ہے جو کہ اس میں نہیں ہے پھر دیگر صحاح ستہ میں سے آپ کو کوئی حدیث نہ ملی تو ابن خزیمہ کی روایت نقل کی اور دعویٰ کر دیا کہ ابن خزینہ نے اسے صحیح کہا ہے لیکن ان کا یہ قول اس میں نہیں دکھا سکے۔ بلکہ الٹا لینے کے دینے پڑ گئے کہ تمہارے اپنے ہی عالم البانی نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیدیا۔ یوں لگتا ہے کہ تمہارے جد ید مصنف بھی اپنے قدیم مصنفین کی روش پر چل پڑے ہیں اور ماڈرن طریقہ سے غلط حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ کچھ سال اور نکل جائیں۔


 غیر مقلد :(اپنے ہونٹ بھچنتے ہوئے ڈھیمی آواز میں ) پتہ نہیں ہمارے علماء غلط بیانی کیوں کرتے ہیں؟ مجھے یاد آیا کہ ایک محفل میں اس موضوع پر بات چلی تھی تو یہ طے پایا کہ ابن خزیمہ نے اپنی کتاب کا نام صحیح ابن خزیمہ رکھا ہے لہذا اس کی ہر حدیث کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ القول مقبول ص ۴۴ پر بھی یہ وضاحت میری نظر سے گذری ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ”نماز نبوی“ میں جگہ جگہ یہ کہا گیا ہے۔


 سنی: یقیناً یہ جدید مصنفین کی ماڈرن ڈپلومیسی ہے تاکہ تم جیسے لوگوں کو نئے جال میں پھنسایا جائے، میں بڑی سادہ سی گزارش کروں گا کہ چند منٹ فارغ کر کے صحیح ابن خزیمہ کے صفحات پلٹتے جاؤ اور حاشیہ میں گنتے جاؤ کہ کتاب کہ حاشیہ نگار نے اس کی کتنی حدیثوں پر ضعیف کا حکم لگایا ہے تو یہ تعداد ممسک وں میں نکلے گی ۔اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ غیر مقلدین کی نجی محفل میں جود فائی ہارٹ لائین قائم کی گئی تھی وہ کتنی کمزور ہے؟


 غیر مقلد: (صحیح ابن خزیمہ کے چند صفحات پلٹ کر) آپ کی بات صحیح ہے ، یہ چند صفحات میں دسیوں حدیثیں ضعیف قرار دی گئی ہیں۔


سنی: آپ اپنے بدلتے ہوئے پمیار نے دیکھیں اور داد دیں، نماز نبوی کا یہ حاشیہ نگار جس نے پوری کتاب کا اکثر حاشہ یہ لکھ کر سیاہ کہا ہے کہ اب اختر محمد نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ابن حبان نے صحیح کہا ہے اس کا ساتھی غ م تسہیل الوصول ص ۱۷۸ پر ابن خزیمہ اور ابن حبان کی اس روایت کو ضعیف قرار دیتا ہے۔ جس میں ارشاد نبوی ہے کہ جس نے امام کو رکوع میں اٹھنے سے پہلے رکوع میں پالیا اس نے وہ رکعت پالی۔ ایمانداری سے بتاؤ یہاں ابن خزیمہ کی تصحیح والا پیمانہ کیوں بدل گیا؟  ابن خزیمہ کی روایت کو ضعیف کیوں کہہ دیا ؟ صرف اس لیے کہ اس کی وجہ سے تمہارے فاتحہ خلف الامام والے مسلک پر زد پڑتی ہے کہ اس نمازی نے فاتحہ نہیں پڑھی پھر بھی اس کی وہ رکعت ہوگئی اس تسہیل الوصول کے صفحہ ۴۵ ،۲۱۲ پر بھی ابن خزیمہ کا ذکر کر کے ان روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔اور صفحہ ۳۶۶,۱۸۱,۱۰۵ پر ابن حبان کا ذکر کر کے ان روایات کو ضعیف کہا ہے۔


غیر مقلد : میں تو کتاب نماز نبوی سے بڑا متاثر تھا کہ اس میں ابن خزیمہ وابن حبان کی تصحیح پر اکثر اعتماد کیا گیا ہے لیکن مندرجہ بالا حوالہ جات سے تو نماز نبوی کے حاشیہ کی ساری عمارت دھڑام گر گئی۔ چونکہ خود ہمارے ہی لوگ ابن خزیمہ و ابن حبان کی روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔


چلیں مولانا سیالکوٹی نے ایک اور حدیث نقل کی ہے ۔ ہلب صحابی فرماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔(مسند احمد )


سنی: کیا حکیم سیالکوٹی صاحب دواسازی کے ساتھ ساتھ حدیث سازی بھی کرتے تھے؟


غیر مقلد: اس کا کیا مطلب؟

سنی: وہ حدیث کے عربی الفاظ میں اپنی طرف سے کمی بیشی کیا کرتے تھے؟


غیر مقلد: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟


سنی: حضرت ہلب ؓ کی طرف منسوب حدیث میں یہی کچھ ہوا ہے۔


غیر مقلد : قطعاً ایسا نہیں ہوسکتا چونکہ مولانا سیالکوٹی نے تو مسند احمد کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی ہے۔


 سنی:۔۔۔۔۔ جاری

 اگلا صفحہ

ایک مزدور کی کہانی - آخر رب کی ہی نافرمانی کیوں؟

0

     قارئین کرام! ایک مزدور کا واقعہ اس کے زبان سے ملاحظہ ہوکہ: میں کام پر گیا میرے ساتھ ہم عمر کے کچھ افراد بھی شامل تھے۔ میں نے وہاں پر عجیب اور انوکھا منظر دیکھا کہ مالک کی کتنی فرمابرداری کی جا رہی ہے۔ میرے ساتھی گانے سننے والوں میں سے تھے، پر جوہی مالک آ جاتے تھے تو وہ گانے بند کر دیتے تھے۔ مالک جو کام کرنے کو بولتیں تھیں، ہم اس کام کو جرح کرے بغیر کرنے کے لئے آمادہ ہوتے تھے۔ وہ کام کے بیچوں بیچ اگر یہ کہتے کہ اب اس کام کو چھوڑ دو یہ کام کروں تو ہم اسے انجام دیتے۔ الغرض جو بھی وہ کہتے تھے ہم اس کے لیے تیار رہتے تھے۔ پر کیوں؟ میرے ذہن میں یہ بات گردش کر رہی تھیں کہ مالک کی بات تو ماننی چاہیے ہم پر فرض ہے۔ پر ایک سوچ مجھے ستا رہی تھی کہ ہماری سرگزشت اتنی فرمانبردار تو نہیں ہے پھر کیوں ہم اسے اتنے خوف سے تسلیم کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ میں نے ساتھیوں سے سوال پوچھا، حیرت انگیز جواب ملا یہ ہمیں دن کا معاوضہ 600 دیتے ہیں اس لیے۔ 

    بس پھر کیا میں سوچ میں ڈوب گیا۔ صرف 600 روپے کے لیے ہم مالک اتنی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ ہمارا رب اللہ تعالی ہمیں دن کا کتنا دیں رہیں ہیں پر کیا ہم اس کی اتباع کرتے ہیں؟ میں حساب کرنے لگا۔

    جب میں صبح اٹھتا ہوں اللہ تعالی روح پھونک کر پھر سے مجھے زندہ کرتا ہے۔ ارے اس روح کی تو کوئی قیمت ہی نہیں ہے؟۔۔۔ ہے کیا؟ نہیں!۔ اس کا حساب لگانا ہمارے بس میں نہیں، چلیں چھوڑے آگے حساب کرتے ہیں، دن بھر اللہ تعالی کا آکسیجن استعمال کرتے ہیں، تحقیق سے پتا چلا کہ انسان ایک منٹ میں 8 لیٹر آکسیجن استعمال کرتا ہے۔ وہ چوبیس گھنٹوں کا 11500 ہو جاتا ہے۔ وہ لگ بھگ 13 لاکھ کے اوپر اوپر ہے۔ کہاں چھے سو میں مالک کی فرمانبرداری اور کہاں تیرہ لاکھ میں رب کی نا فرمانی! 

    اگر ہوا، پانی،زمین، ہفت خلیفہ، خوب صورت قالب، لقبِ اشرف المخلوقات، عنایتِ منصبِ خلیفۃ اللہ، اور شرفِ امتِ محمدی وغیرہ ہیں۔ جامع الفاظ وہیں: فبای الاء ربکما تکذبان، جس کا حساب کیا جائیں، اگر تمام نعمتوں کا حساب کیا جائے جن کا استعمال دن بر انسان کرتا ہے۔ یہ تو لاتعداد ہے۔

پھر للہ کی نافرمانی کیوں؟۔۔۔العاقل تکفیہ الاشارہ. 

    لہذا اہلِ اسلام سے ہماری دردمندانہ درخواست ہے کہ اپنے فرائض سے ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کریں، ہوش کے ناخن لیں، اپنے آپ کو پہچانیں کہ آپ کسی مقصد کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں عقل سلیم عطا فرمائیں اور اپنے حفظ و امان میں رکھیں آمین یا رب العالمین۔


ماجد کشمیری

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں