Namaz e Nabvi لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Namaz e Nabvi لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

نماز میں آنکھیں بند کرنے کا مسئلہ

0

نماز میں آنکھیں بند کرنے کا مسئلہ


الحمدللہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی امابعد۔


 میں علماؤں کی تتبع میں چند گزارشات آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں۔


یاد رہیں! انسان کے اوپر اللہ تعالی  کے جو عبادات ہیں (عبادات کا معنی گرچہ وسیع وعریض ہے) ان میں سے نَماز ایک عظیم الشان حثیت و خصوصیت رکھتی ہیں۔  جس سے کسی اور عبادت کا تقابل کرنا مشکل ہے۔ یہاں تک وارد ہوا ہے کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے کے مابین جو فرق ہے وہ نماز کا ہے۔ نماز کے عمیم بنیادی مسائل معلوم ہونا چاہیے۔ یہ ہم پر واجب ہے۔


نماز کا تقاضا کیا ہے: وہی نماز اللہ کے یہاں مقبول ہیں، جس میں خشوع و خضوع پایا جاتا ہوں۔ وارد ہوا ہے کہ نماز خشوع و خضوع کے بغیر نامکمل ہے: گر چہ اس پر فتویٰ نہیں ہیں۔ ہم میں سے بہت سارے عابدین، عاجزین اور نماز گزار ایسے ہے جو نماز میں خشوع و خضوع سے بھی عاجز ہیں۔ مقبولیت کی علامت یہی ہے اور اصل تقاضہ یہی ہے ۔


 اس پر میں ایک جملہ کہا کرتا ہوں کہ نماز کے تین منزل ہیں۔ نماز پہلے ریاکاری میں شامل ہوتی ہیں، اس کے بعد عادت بن جاتی ہیں اور یہی عادت پھر عبادت بن جاتی ہیں۔ ان مراحل سے اس کو گزرنا پڑتا ہے۔ جب تک یہ ان درجوں سے گزر  نہ جاتی تب تک عبادت کے درجے میں فائز نہیں ہوتی۔ (اگرچہ ابتدائی منزلین کی نماز بھی اللہ تبارک و تعالیٰ قبول کرتا ہے اور ہم اسی کی دعا کرتے ہیں۔) پر کہیں نہ کہیں عبادت کے اصل تقاضے کی نفی اور خلجان محسوس ہوتی ہے۔ جیسے میں عرض کر رہا ہوں کہ نماز میں خشوع وخضوع کا ہونا ضروری ہے اس کا عظیم  ہونا، بھاری ہونا ضروری، کیونکہ جب اس کو احسان کی ترازو میں تولا جائے گا تب اس کا عظیم ہونا ضروری ہے یعنی اس میں بھاری پن ہونا ضروری ہیں۔ اگر یہ نماز ہلکی ہوئی تو ہم گھاٹے کی طرف جا رہے ہیں۔ پر  نماز میں خیال آنے کا انکار نہیں کیا جا سکتا، پر خیال سے بچنا بھی ضروری ہے، اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں: الذین ھم  فی صلاتہم خاشعون۔ وہ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع سے ملنسار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے اندر خشوع و خضوع کو پیدا کرنے کے لیے تدابیر استعمال کرتے ہیں تو کر لیں۔ کیونکہ خوش و خضوع کا ہونا، عبادت کا اصل تقاضا ہے۔  اسی طرح نماز میں آنکھیں بند کرنے کا مسئلہ ہے: یہ کرنا، انہیں  منزلین میں پایا جاتا ہے جن کو ریاکاری  اور عادت کے نام سے موسوم کیا تھا۔ پر ان کو طلب ہوتی ہے کہ اس کو عبادت بنائیں ۔ عبادت بنانی ہے تو اس میں خشوع و خضوع کا لانا لازم ہے۔ انہیں ابتدائی دور میں ہمیں آنکھیں بند کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔  اب مسئلے کا حکم جان لیجئے:


 نماز میں آنکھیں بند کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے، پر خوش و خضوع کا ہونا ضروری ہے اس لیے ابتدائی منزلین میں کراہت رفع ہوتی ہے اس مقصد سے کہ ہمیں نماز میں آنکھیں بند کرنے سے خشوع و خضوع سے حاصل ہوں۔ 


کتبہ: ماجد کشمیری

غیر مقلد اور سنی کے درمیان مناظرے، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا

0



سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۴


 غیر مقلد: یار واقعی بھائی پھیرو تک سفر کا سوال بڑا معنی خیز تھا۔

بہر حال ایک اور دلیل پیش کرتا ہوں کہ مولانا سیالکوٹی صاحب نے حضرت ابن عباسؓ کی جو روایت نقل کی ہے وہ تو بڑی واضح اور فیصلہ کن ہے: کہ دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھ۔


سنی: (۱) صحابی کا قول تو آپ کے نزدیک دلیل نہیں پھر یہاں استدلال کیسا ؟


(۲) اس روایت پر تمہارا عمل بھی نہیں چونکہ نجر سے مراد سینے کا وہ بالائی حصہ ہے جو گلے سے متصل ہے اور تم لوگ تو اس سے تقریبا ایک بالشت نیچے اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہو۔


(۳) اس کی سند پر نظر ڈالیں تو اس میں : (۱) یحییٰ بن ابی طالب ہے جس کی بابت موسی بن ہارون فرماتے ہیں کہ اسے جھوٹ بولنے کی عادت تھی ۔ نیز امام ابوداؤد نے اس سے نقل کردہ احادیث پر قلم پھیر دیا تھا۔ میزان الاعتدال ( ۲۲۳٫۳)۔


(ب) اس کی سند میں ایک راوی ہے جس کے بابت علامہ ابن عدی ؒ   کہتے ہیں اس کی بیان کردہ روایت منکر ہوتی ہے۔ جوہر النتقی (۳۰٫۲)


(ج) اس کی سند میں ایک راوی روح ہے، جس کی بابت ابن حبان کہتے ہیں : وہ من گھڑت روایتیں نقل کرتا ہے اس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے ۔

(د) صلاۃ الرسول ؐ کے حاشیہ نگارلقمان سلفی نے بھی اس کے ضعیف ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ باقی دو حاشیہ نگاروں نے بھی اسے ضعیف قرار دیکر اس کے ضعیف ہونے پر اجتماع منعقد کر دیا ملاحظہ ہو ۔ (تسہیل الوصول ۱۵۴۔القول مقبول ۳۴۲)


تم تو صحیح بخاری ومسلم سے اپنا مسلک ثابت کرنے کے دعویدار تھے اور اب اس طرح کی ضعیف روایت کا سہارا لے رہے ہو؟


دعویٰ ہے بخاری مسلم کا دیتے ہیں حوالے اوروں کے

ہے قول وعمل میں ٹکراؤ یہ کام ہیں اہل حدیثوں کے




آپ مزید کچھ پیش کرنا چاہیں گے یا ہم کمیٹی کو فیصلے کی دعوت دیں۔


غیر مقلد : ذرہ ٹھہریں مولانا سیالکوٹی نے طاؤس کی روایت نقل کی ہے ۔لیکن میں وہ پیش نہیں کرنا چاہتا چونکہ مولانا نے خود ہی لکھا ہے کہ ’’یہ مرسل ہے لیکن دوسری مستند احادیث سے ملکر قوی ہوگئی ہے“ ۔اب آپ نے جو حقائق پیش کیئے ہیں اس سے یہ واضح ہو گیا کہ دوسری احادیث بھی مستند نہیں ۔ لہذا یہ کمزور کی کمزور ہی رہی ، نیز ہم خود بھی مرسل کو حجت نہیں مانتے ۔البتہ میں موقر کمیٹی کی توجہ ایک اہم تحریر کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ مولانا اسمعیل سلفیؒ نے قبیصہ بن ہلب اور ابن خزیمہ والی روایت ذکر کرنے کے بعد بڑا معتدل اور صلح صفائی والا موقف اختیار کیا ہے کہ:

ان احادیث سے ظاہر ہے کہ صحیح راجح اور سنت یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھے جائیں تا ہم نماز ہر طرح ہو جاتی ہے صحابہ ؓ کا عمل دونوں طرح ہے ۔ ( رسول اکرم ﷺ کی نماز ص:۶۷)


الغرض جب نماز ہرطرح ہو جاتی ہے اور صحابہ ؓ کاعمل بھی دونوں طرح ہے تو پھر ہمیں بلاوجہ جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہیئے اور دوسرے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیئے ۔


سنی: مولانا اسماعیل سلفی ؒ صاحب کا یہ جملہ غیر مقلد حلقہ کے عمومی مزاج کے اعتبار سے واقعی وسعت ظرفی کا حامل ہے کہ جب فروعی مسائل میں اختلاف ہوا اور دونوں طرف دلائل موجود ہوں تو مدّ مقابل کی نفی نہ کی جائے ۔اگر غیر مقلد حضرات اس نہج پر اپنی اصلاح کر لیں تو باہمی احترام کی بناء پر ماحول خوشگواری ہو جائے گا۔ البتہ مولانا اسماعیل سلفی ؒ   صاحب کے اس پیراگراف کی۔ ابن میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا۔


(۱) جن احادیث کی بناء پر انہوں نے سینہ پر ہاتھ باندھنے کو صحیح راجح اور سنت قرار دیا ہے وہ تو قبیضہ بن ہلب اور ابن خزیمہ والی روایت ہے، جس کی محدّثانہ حیثیت گزشتہ سطور میں۔ بیان ہوچکی۔

(۲) ان کا یہ کہنا کہ صحابہ ؓ  کا عمل بھی دونوں طرح ہے، تو واضح رہے کہ امام ترمذیؒ   نے سنن ترمذی میں دونوں چیزوں پر صحابہ ؓ  کا عمل نقل کیا ہے نہ کی نیچے ہاتھ باندھنا اور ناف کے اوپر ہاتھ باندھنا۔ جبکہ تیسرے موقف سینہ پر ہاتھ باندھنے کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ ملاحظہ ہو۔ رأی بعضھم أن بضعھا قوق السرۃ ورأی بعضھم أن یضعھا تحت السرۃ وکل ذلک واسع عندھم (جامع ترمذی۔باب وضع الیمین علی الشمال)۔

  کہ بعض حضرات ناف پر اور بعض حضرات ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں، اور ان کے نزدیک دونوں طرح کرنے کی گنجائش ہے۔۔۔۔۔جاری 


اگلا صفحہ

غیر مقلد اور سنی کے درمیان مناظرے غیر مقلد کی حدیث سازی غیر مقلد گمراہ کیوں

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۳

سنی: یہ مسند احمد لیں اور اس میں سے وہ عربی الفاظ کھائیں جو انہوں نے اپنی کتاب میں ذکر کیئے ہیں۔


غیر مقلد : دراصل یہ مسند احمد تو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور حکیم صاحب نے جلد نمبر اور صفحہ نمبر بھی نہیں لکھا ۔لہذا میرے لیے تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔لیکن مجھے یقین ہے کہ مولانا نے یہ حدیث بڑی تحقیق و جستجو کے بعد لکھی ہو گی ۔


سنی: بس یونہی ان کے اندھے مقلد بنے پھرتے ہو اور بلاتحقیق ان کی ہر بات کی تقلید کیئے جار ہے ہو ۔ چلو میں تمہیں متعلقہ حوالہ نکال دیتا ہوں یہ جلد نمبر ۵ کا صفحہ ۲۲۶ ہے، بس تم مجھے یہ الفاظ دکھا دو۔


غیر مقلد: یہاں تو لکھا ہے:عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال رأيت النبی ﷺ ينصرف عن يمينه وعن يساره ورأيته قال يضع هذه على صدره.


سنی: اب آپ حکیم صاحب کی بیان کردہ حدیث کے الفاظ دیکھیں اور مسند احمد کے الفاظ میں واضح فرق ملاحظہ کر میں : عـن هـلـب قال رأيت النبی ﷺ هـذه علی صدرہ ۔ آپ بتائیں کہ چودھویں صدی میں حکیم صاحب کو حدیث نبوی کے الفاظ میں ردو بدل کا اختیار کس نے دیا ہے؟


ع     خود بد لتے نہیں الفاظ بدل دیتے ہو



اچھا اب آپ علی صدرہ کے بعد والے الفاظ پڑھو۔


غیر مقلد: وصف يحيى اليمنى على اليسرى فوق المفصل -


سنی: تمہاے مصنف اور واعظ روایت کے اس حصے کو بیان نہیں کرتے ۔ آخر کیوں؟! چونکہ تم لوگ دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھتے ہو جبکہ یہاں دایاں ہاتھ بائیں کے جوڑ پر رکھنے کا ذکر ہے ۔ اب تم بتاؤ کہ ایک ہی روایت کا آدھا حصہ قابل استدلال نہیں اور دوسرا حصہ نا قابل عمل! آخر کیوں؟


غیر مقلد: یہ صورتحال تو میرے لئے بالکل نیا انکشاف ہے۔

 

سنی: اب آپ اس کی سند پر غور کر میں تـفـرد بـه سماک بن حرب ولينه غير واحد وقال النسائي: إذا تفرد بأصل لم يكن حجة اس روایت میں سماک بن حرب نے تفرد اختیار کیا ہے جس کو بہت سے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام نسائی فرماتے ہیں: جب سماک تفرد اختیار کرے تو اس کی روایت دلیل نہیں بن سکتی ۔


غیر مقلد : ہمارے علماء چونکہ حدیث فہمی میں ایک خاص مزاج رکھتے ہیں لہذاد یکھئے انہوں نے سینہ پر ہاتھ باندھنے کے لئے کتنا زبردست استدلال کیا ہے : حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت اور کلائی پر رکھا۔ شیخ البانی فرماتے ہیں کہ اس کیفیت پر عمل کرنے سے لازماً ہاتھ سینہ پر آئنگے ۔ تجربہ کیجیئے ۔(القول المقبول ۳۴۱ نیز صلوۃ الرسول حاشیہ لقمان سلفی ۱۱۶)


سنی: آپ نے کبھی لاہور سے بھائی پھیرو تک بس کا سفر کیا ہے؟


غیر مقلد: یہ کیا موضوع سے ہٹ کر غیر متعلق بات کی ہے؟ بہر حال جاتا رہتا ہوں ۔


سنی: پھر آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ اپنی کمپنی کی مشہوری کے لئے دوائیں بیچنے والے آتے ہیں اور ایک زور دار تقریر کے بعد آخر میں کہتے ہیں کہ تجربہ کیجئے۔ بعض بھولے لوگ ان کی اس گفتگو سے متاثر ہو کر دوا خرید لیتے ہیں اور دوا فروش اگلے سٹاپ پرا تر جاتا ہے۔


بعینہ اسی طرح آپ نے مندرجہ بالا عبارت سے سینہ پر ہاتھ باندھنے کا استدلال کر کے اس میں قوت ڈالنے کے لئے کہا ہے کہ تجربہ کیجئے ، بھولے لوگوں اور خصوصاً غیر مقلدوں میں اتنا شعور کہاں؟ وہ تو تجربہ والے چیلنج سے ہی متاثر ہو جائیں گے۔


اطلاعاً عرض ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت اور کلائی پر رکھ کر ہی تو احناف اسے ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے ہیں ۔ پھر بھی یہ دعویٰ کرنا کہ اس کیفیت پر عمل کرنے سے لازماً ہاتھ سینے پر آئینگے، سینہ زوری نہیں تو اور کیا ہے؟

نیز یہ کہ آپ آج غیر مقلدوں کو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے نوٹ کریں کہ وہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت اور کلائی پر رکھتے ہیں یا کی دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھتے ہیں۔ بس آپ کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ تجربہ کیجیے والے چیلنج میں کتنی جان ہے؟اور اس حدیث وہ دلیل پر کتنے لوگوں کا عمل ہے۔ 


غیر مقلد: یار واقعی بھائی پھیروتک سفر کا سوال بڑا معنی خیز تھا۔۔۔۔۔ جاری 


اگلا صفحہ

غیر مقلد اور سنی درمیان گفتگو، سنی کیا حکیم سیالکوٹی صاحب دواسازی کے ساتھ ساتھ حدیث سازی بھی کرتے تھے

0

سلسلہ ردِ غیر مقلدیت نمبر ۱۲


 سنی: جناب کیا ماجرا ہے؟ پہلے آپ نے دعویٰ کیا کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت صحیح بخاری و مسلم میں ہے جو کہ اس میں نہیں ہے پھر دیگر صحاح ستہ میں سے آپ کو کوئی حدیث نہ ملی تو ابن خزیمہ کی روایت نقل کی اور دعویٰ کر دیا کہ ابن خزینہ نے اسے صحیح کہا ہے لیکن ان کا یہ قول اس میں نہیں دکھا سکے۔ بلکہ الٹا لینے کے دینے پڑ گئے کہ تمہارے اپنے ہی عالم البانی نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیدیا۔ یوں لگتا ہے کہ تمہارے جد ید مصنف بھی اپنے قدیم مصنفین کی روش پر چل پڑے ہیں اور ماڈرن طریقہ سے غلط حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ کچھ سال اور نکل جائیں۔


 غیر مقلد :(اپنے ہونٹ بھچنتے ہوئے ڈھیمی آواز میں ) پتہ نہیں ہمارے علماء غلط بیانی کیوں کرتے ہیں؟ مجھے یاد آیا کہ ایک محفل میں اس موضوع پر بات چلی تھی تو یہ طے پایا کہ ابن خزیمہ نے اپنی کتاب کا نام صحیح ابن خزیمہ رکھا ہے لہذا اس کی ہر حدیث کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ القول مقبول ص ۴۴ پر بھی یہ وضاحت میری نظر سے گذری ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ”نماز نبوی“ میں جگہ جگہ یہ کہا گیا ہے۔


 سنی: یقیناً یہ جدید مصنفین کی ماڈرن ڈپلومیسی ہے تاکہ تم جیسے لوگوں کو نئے جال میں پھنسایا جائے، میں بڑی سادہ سی گزارش کروں گا کہ چند منٹ فارغ کر کے صحیح ابن خزیمہ کے صفحات پلٹتے جاؤ اور حاشیہ میں گنتے جاؤ کہ کتاب کہ حاشیہ نگار نے اس کی کتنی حدیثوں پر ضعیف کا حکم لگایا ہے تو یہ تعداد ممسک وں میں نکلے گی ۔اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ غیر مقلدین کی نجی محفل میں جود فائی ہارٹ لائین قائم کی گئی تھی وہ کتنی کمزور ہے؟


 غیر مقلد: (صحیح ابن خزیمہ کے چند صفحات پلٹ کر) آپ کی بات صحیح ہے ، یہ چند صفحات میں دسیوں حدیثیں ضعیف قرار دی گئی ہیں۔


سنی: آپ اپنے بدلتے ہوئے پمیار نے دیکھیں اور داد دیں، نماز نبوی کا یہ حاشیہ نگار جس نے پوری کتاب کا اکثر حاشہ یہ لکھ کر سیاہ کہا ہے کہ اب اختر محمد نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ابن حبان نے صحیح کہا ہے اس کا ساتھی غ م تسہیل الوصول ص ۱۷۸ پر ابن خزیمہ اور ابن حبان کی اس روایت کو ضعیف قرار دیتا ہے۔ جس میں ارشاد نبوی ہے کہ جس نے امام کو رکوع میں اٹھنے سے پہلے رکوع میں پالیا اس نے وہ رکعت پالی۔ ایمانداری سے بتاؤ یہاں ابن خزیمہ کی تصحیح والا پیمانہ کیوں بدل گیا؟  ابن خزیمہ کی روایت کو ضعیف کیوں کہہ دیا ؟ صرف اس لیے کہ اس کی وجہ سے تمہارے فاتحہ خلف الامام والے مسلک پر زد پڑتی ہے کہ اس نمازی نے فاتحہ نہیں پڑھی پھر بھی اس کی وہ رکعت ہوگئی اس تسہیل الوصول کے صفحہ ۴۵ ،۲۱۲ پر بھی ابن خزیمہ کا ذکر کر کے ان روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔اور صفحہ ۳۶۶,۱۸۱,۱۰۵ پر ابن حبان کا ذکر کر کے ان روایات کو ضعیف کہا ہے۔


غیر مقلد : میں تو کتاب نماز نبوی سے بڑا متاثر تھا کہ اس میں ابن خزیمہ وابن حبان کی تصحیح پر اکثر اعتماد کیا گیا ہے لیکن مندرجہ بالا حوالہ جات سے تو نماز نبوی کے حاشیہ کی ساری عمارت دھڑام گر گئی۔ چونکہ خود ہمارے ہی لوگ ابن خزیمہ و ابن حبان کی روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔


چلیں مولانا سیالکوٹی نے ایک اور حدیث نقل کی ہے ۔ ہلب صحابی فرماتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ ﷺ کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔(مسند احمد )


سنی: کیا حکیم سیالکوٹی صاحب دواسازی کے ساتھ ساتھ حدیث سازی بھی کرتے تھے؟


غیر مقلد: اس کا کیا مطلب؟

سنی: وہ حدیث کے عربی الفاظ میں اپنی طرف سے کمی بیشی کیا کرتے تھے؟


غیر مقلد: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟


سنی: حضرت ہلب ؓ کی طرف منسوب حدیث میں یہی کچھ ہوا ہے۔


غیر مقلد : قطعاً ایسا نہیں ہوسکتا چونکہ مولانا سیالکوٹی نے تو مسند احمد کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی ہے۔


 سنی:۔۔۔۔۔ جاری

 اگلا صفحہ

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں