سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۴
غیر مقلد: یار واقعی بھائی پھیرو تک سفر کا سوال بڑا معنی خیز تھا۔
بہر حال ایک اور دلیل پیش کرتا ہوں کہ مولانا سیالکوٹی صاحب نے حضرت ابن عباسؓ کی جو روایت نقل کی ہے وہ تو بڑی واضح اور فیصلہ کن ہے: کہ دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھ۔
سنی: (۱) صحابی کا قول تو آپ کے نزدیک دلیل نہیں پھر یہاں استدلال کیسا ؟
(۲) اس روایت پر تمہارا عمل بھی نہیں چونکہ نجر سے مراد سینے کا وہ بالائی حصہ ہے جو گلے سے متصل ہے اور تم لوگ تو اس سے تقریبا ایک بالشت نیچے اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہو۔
(۳) اس کی سند پر نظر ڈالیں تو اس میں : (۱) یحییٰ بن ابی طالب ہے جس کی بابت موسی بن ہارون فرماتے ہیں کہ اسے جھوٹ بولنے کی عادت تھی ۔ نیز امام ابوداؤد نے اس سے نقل کردہ احادیث پر قلم پھیر دیا تھا۔ میزان الاعتدال ( ۲۲۳٫۳)۔
(ب) اس کی سند میں ایک راوی ہے جس کے بابت علامہ ابن عدی ؒ کہتے ہیں اس کی بیان کردہ روایت منکر ہوتی ہے۔ جوہر النتقی (۳۰٫۲)
(ج) اس کی سند میں ایک راوی روح ہے، جس کی بابت ابن حبان کہتے ہیں : وہ من گھڑت روایتیں نقل کرتا ہے اس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے ۔
(د) صلاۃ الرسول ؐ کے حاشیہ نگارلقمان سلفی نے بھی اس کے ضعیف ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ باقی دو حاشیہ نگاروں نے بھی اسے ضعیف قرار دیکر اس کے ضعیف ہونے پر اجتماع منعقد کر دیا ملاحظہ ہو ۔ (تسہیل الوصول ۱۵۴۔القول مقبول ۳۴۲)
تم تو صحیح بخاری ومسلم سے اپنا مسلک ثابت کرنے کے دعویدار تھے اور اب اس طرح کی ضعیف روایت کا سہارا لے رہے ہو؟
دعویٰ ہے بخاری مسلم کا دیتے ہیں حوالے اوروں کے
ہے قول وعمل میں ٹکراؤ یہ کام ہیں اہل حدیثوں کے
آپ مزید کچھ پیش کرنا چاہیں گے یا ہم کمیٹی کو فیصلے کی دعوت دیں۔
غیر مقلد : ذرہ ٹھہریں مولانا سیالکوٹی نے طاؤس کی روایت نقل کی ہے ۔لیکن میں وہ پیش نہیں کرنا چاہتا چونکہ مولانا نے خود ہی لکھا ہے کہ ’’یہ مرسل ہے لیکن دوسری مستند احادیث سے ملکر قوی ہوگئی ہے“ ۔اب آپ نے جو حقائق پیش کیئے ہیں اس سے یہ واضح ہو گیا کہ دوسری احادیث بھی مستند نہیں ۔ لہذا یہ کمزور کی کمزور ہی رہی ، نیز ہم خود بھی مرسل کو حجت نہیں مانتے ۔البتہ میں موقر کمیٹی کی توجہ ایک اہم تحریر کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ مولانا اسمعیل سلفیؒ نے قبیصہ بن ہلب اور ابن خزیمہ والی روایت ذکر کرنے کے بعد بڑا معتدل اور صلح صفائی والا موقف اختیار کیا ہے کہ:
ان احادیث سے ظاہر ہے کہ صحیح راجح اور سنت یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھے جائیں تا ہم نماز ہر طرح ہو جاتی ہے صحابہ ؓ کا عمل دونوں طرح ہے ۔ ( رسول اکرم ﷺ کی نماز ص:۶۷)
الغرض جب نماز ہرطرح ہو جاتی ہے اور صحابہ ؓ کاعمل بھی دونوں طرح ہے تو پھر ہمیں بلاوجہ جھگڑوں میں نہیں پڑنا چاہیئے اور دوسرے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیئے ۔
سنی: مولانا اسماعیل سلفی ؒ صاحب کا یہ جملہ غیر مقلد حلقہ کے عمومی مزاج کے اعتبار سے واقعی وسعت ظرفی کا حامل ہے کہ جب فروعی مسائل میں اختلاف ہوا اور دونوں طرف دلائل موجود ہوں تو مدّ مقابل کی نفی نہ کی جائے ۔اگر غیر مقلد حضرات اس نہج پر اپنی اصلاح کر لیں تو باہمی احترام کی بناء پر ماحول خوشگواری ہو جائے گا۔ البتہ مولانا اسماعیل سلفی ؒ صاحب کے اس پیراگراف کی۔ ابن میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا۔
(۱) جن احادیث کی بناء پر انہوں نے سینہ پر ہاتھ باندھنے کو صحیح راجح اور سنت قرار دیا ہے وہ تو قبیضہ بن ہلب اور ابن خزیمہ والی روایت ہے، جس کی محدّثانہ حیثیت گزشتہ سطور میں۔ بیان ہوچکی۔
(۲) ان کا یہ کہنا کہ صحابہ ؓ کا عمل بھی دونوں طرح ہے، تو واضح رہے کہ امام ترمذیؒ نے سنن ترمذی میں دونوں چیزوں پر صحابہ ؓ کا عمل نقل کیا ہے نہ کی نیچے ہاتھ باندھنا اور ناف کے اوپر ہاتھ باندھنا۔ جبکہ تیسرے موقف سینہ پر ہاتھ باندھنے کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ ملاحظہ ہو۔ رأی بعضھم أن بضعھا قوق السرۃ ورأی بعضھم أن یضعھا تحت السرۃ وکل ذلک واسع عندھم (جامع ترمذی۔باب وضع الیمین علی الشمال)۔
کہ بعض حضرات ناف پر اور بعض حضرات ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں، اور ان کے نزدیک دونوں طرح کرنے کی گنجائش ہے۔۔۔۔۔جاری