سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۱۱
موضوع: سینہ پر ہاتھ باندھ
سنی: تکبیر تحریہ کے بعد ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں؟
غیر مقلد: ہمارے نزدیک سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
سنی: اس موقف پر آپ کی دلیل کیا ہے؟
غیر مقلد : ہماری دلیل صحیح بخاری شریف میں ہے ۔ جیسا کہ ہمارے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب نے لکھا ہے کہ: سینہ پر ہاتھ باندھنے اور رفع یدین کرنے کی روایات بخاری ومسلم میں ہیں ۔ فتاوی ثنائی (۴۴۳٫۱ ) الغرض ہمارے دلائل بڑے مضبوط ہوتے ہیں ۔ آپ لوگوں کی طرح کمزور نہیں ۔
سنی: اچھا تو صحیح بخاری شریف میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی روایت دکھا دبیجئے۔
غیر مقلد: یا یکھئے نا جی ! فتاوی ثنائیہ میں لکھا ہوا ہے ہمارے مولانا ثناء اللہ صاحب مناظرے اسلام اور شیخ الاسلام تھے۔ وہ حوالہ بڑی ذمہ داری سے دیتے تھے، ہمیں تو ان برپور اعتماد ہے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ حنفی لوگ صحیح بخاری کی اس روایت پر عمل کیوں نہیں کرتے۔؟
سنی: آپ ہمیں بھی اعتماد میں لیں اور صحیح بخاری میں سے بھی حوالہ نکال کر دکھاد میں۔
غیر مقلد: آپ زیادہ مجبور کرتے ہیں تو نکال کر دکھا دیتا ہوں ۔۔
سنی: آپ تیسری دفعہ صحیح بخاری کی ورق گردانی کر رہے ہیں اور ہر دفعہ آپ کی پریشانی میں اضاف محسوس ہو رہا ہے۔ آخر راز کیا ہے؟
غیر مقلد: دراصل میری صحیح بخاری میں تو ایسی کوئی روایت نہیں مل رہی ۔
سنی: جناب آپ مولانا امرتسری صاحب کے ذاتی نسخہ صحیح بخاری میں بھی ڈھونڈ میں تو قیامت تک آپ کو یہ روایت نہیں ملے گی۔ چلیں دوسری کتاب صحیح مسلم میں سے سینہ پر ہاتھ باندھنے کا مسئلہ نکال دیں۔
غیر مقلد : ضرور ہی ضرور ۔ دراصل ہمارے قول عمل میں چونکہ صحیح بخاری ومسلم کا ہی تذکرہ چلتا ہے اس لئے کبھی کبھی زبان وقلم پر صحیح مسلم سے پہلے روانی میں صحیح بخاری کا نام خود ہی آ جا تا ہے ۔ شیخ الاسلام امرتسری صاحب کی مندرجہ بالاعبارت میں بھی ایسا ہی ہوگا ابھی میں آپ کو صحیح مسلم میں سے یہ حدیث نکال کر دکھاتا ہوں۔
سنی: محترم آپ نے صحیح مسلم میں کتاب الصلاۃ کے تمام صفحات تو پلٹ لیئے ان میں تو آپ کو سینہ پر ہاتھ باندھنے والی حدیث نہیں ملی اب تو آپ ”کتاب فضل المساجد کے صفحات پلٹ رہے ہیں ۔ یہاں اس حدیث کی کیا مناسبت ہے؟
غیر مقلد : تم جلد بازی نہ کرو ۔ آخر "کتاب فضل المساجد صحیح مسلم سے باہر تو نہیں ہے۔ نیز ہم سینہ پر ہاتھ باندھ کر مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ۔لہذا ہوسکتا ہے اس باب میں یہ حدیث مل جائے .... مگر اس میں بھی نہیں ملی ۔
سنی: جب موجود ہی نہیں تو ملیگی کیسے؟
غیر مقلد: آخر مولانا ثناءاللہ صاحب نے یہ کیسے اور کیوں لکھ دیا؟
سنی: شاید اپنے اندھے مقلد اعتمادیوں پر اپنے مسلک کی دھاک بٹھا نے گچھیا اور ایک آپ بھولے لوگ ہیں کہ ان کی اس طرح کی تحریروں سے متاثر ہوکر لوگوں کو چیلنج کرنے لگ جاتے ہیں اور ان پرفتوی لگانے شروع کر دیتے ہیں ۔لیکن یہ طریقہ واردات کب تک چلے گا ؟ آخرایک دن جھوٹ پکڑ ا جائے گا۔
ع جو شاخ نازک پہ آشیانہ ہنی گا نا پائیدار ہوگا
غیر مقلد : چلیں یہ دیکھیں ابن خزیمہ میں حضرت وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھا۔(۲۴۳٫۱) امام ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔
سنی: یہ لیجئے صحیح ابن خزیمہ اس میں سے دکھائیں کہ ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہو۔
غیر مقلد : یہ یکھئے میرے پاس بڑے بڑے اہل حدیث علماء کی مل جل کر تصنیف کردہ ۱۹۹۸ء کی کتاب ہے’’ نماز نبوی‘‘ اس کے صفحہ ۱۴۴ پر حاشیہ نمبر ۵ میں اس حدیث کی بانت لکھا ہے کہ : امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔
سنی: تو کیا حرج ہے کہ آپ ابن خزیمہ کی اصل کتاب میں ان کا یہ قول دکھا دیں غیر مقلد: یقیناً جلد ۱ ص ۲۴۳ اور حدیث نمبر ۴۷۹۔۔۔؟؟؟
سنی: ص ۲۴۳پر حدیث نمبر ۴۷۹اپ کے سامنے ہے پھر تاخیر کیوں ہور ہی پے؟ اور آپ بار بار اس صفحہ کے حاشیہ میں دیکھتے ہیں؟
غیر مقلد: یہاں تو ابن خزیمہ کا یہ قول نہیں ملا کہ یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ اس حدیث کے حاشیہ میں تو ہمارے عالم شیخ البانی کا قول اس کے الٹ لکھا ہوا۔ اسنادہ ضعیف، اس کی سند ضعیف ہے۔
سنی: جناب یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔۔۔۔جاری