بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداومصلیا
ا . سوال میں تحریر کردہ” گولڈ مائن انریکل کمیٹی‘‘ کے طریقہ کار پرغور کیا گیا، آج کل اس نوعیت کا کاروبار کرنے والی بہت سی ایسی کمپنیاں آئی ہیں جو کم قیمت کی چیز مہنگے دام میں فروخت کرتی ہیں ، اور ساتھ ساتھ آگے ممبر بنا کر اس پر کمیشن دینے کی پیشکش کرتی ہیں ،لوگ کمیشن کے لالچ میں آ کر کم قیمت کی چیز مہنگے داموں میں خرید لیتے ہیں ، جو شرعاً قمار یعنی جوئے کی ہی ایک شکل ہے۔
چنانچہ” گولڈ مائن انٹرنیشنل کمپنی‘‘ کی مصنوعات اگر عام بازاری قیمت سے زیادہ پر فروخت کی جاتی ہیں تو یہ کاروبار بھی ناجائز ہے، اور اس کے معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کمپنی کی مصنوعات مارکیٹ میں نہیں ہیں تو اس چیز کو عام مارکیٹ میں فروخت کرے ،لوگ جس قیمت پر خریدنے کے لئے تیار ہوں وہ اس کی بازاری قیمت ہے ، اب اگر کمپنی کی قیمت پر لوگ خریدنے کے لئے تیار ہیں تو اس کی قیمت بازاری قیمت کے برابر ہے ،اور اگر اس قیمت پر لوگ خریدنے کےلئے تیارنہیں ہیں تو یہ علامت ہے کہ اسکی قیمت بازاری قیمت سے زیادہ ہے ،اور زیادہ قیمت داؤ پرلگی ہوئی ہے کہ اگر شخص مہر بنانے میں کامیاب ہوگیا تو ٹھیک ہے ،اور اگر ممبر بنانے میں کامیاب نہ ہوسکا تو اس صورت میں اس کی زائد رقم ڈوب جائے گی۔
(۱) یہ بات جوکہی جاتی ہے کہ کمپنی کا اصل مقصد کمپنی کی مصنوعات کو فروخت کرنا ہی ہے محض حیلہ بنا کرسرمایہ کی گردش نہیں ہوتی تو یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص بغیر ممبر اس کمپنی کی مصنوعات کو خریدنا چاہیے اور اس زنجیر میں شامل نہ ہو تو کمپنی اس کو یہ مصنوعات فروخت نہیں کرتی ۔
(۲) کسی شخص کا کمپنی کے طریقہ کار میں کمیشن کا حقدار بنے کے لئے دونوں طرف ممبر بنانا شرط ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ایک طرف ممبر بنائے اور دوسری طرف نہ بنائے یا مطلوبہ تعداد سے کم بنائے تو اس کو اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔
شرعی اعتبار سے یہ شرط لگانا جائز نہیں ، کیونکہ اس میں ایک تو کسی شخص کی محنت بیکار جاتی ہے اور اس کا صلہ اس کو کچھ اس صورت میں اس کو ملنے والا میشن وجود وعدم کے درمیان معلق ہے ، گویا اس طرح معاملہ ہوا کہ اگر دونوں طرف ممبر
بنانے تو اتنا کمیشن ملے گا ، اور اگر اس سے کم بنائے تو کچھ بھی کمیشن نہیں ملے گا ،اور شرعا یہ درست نہیں ہے ،ہاں اگر یہ ہوتا کہ ایک طرف مبر بنانے پر کمیشن کم ملے گا ،اور مطلوبہ تعداد کے مطابق بنانے پریکمل کمیشن ملے گا تو اس کی شرعاً گنجائش تھی۔
لہٰذا اس موجودہ طریقہء کار میں جو خرابیاں ہے ان کے ساتھ اس کاروبار میں شرکت کرنا جائز نہیں،اس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں (مآخذ تبویب ٣٧/١١١٥)
٢. جو لوگ اس موجودہ طریقہ کار کے مطابق اس کاروبار میں شامل ہیں ان کو چاہئے اس کاروبار کو چھوڑ دیں اور جو غلطی ہوئی اس پر توبہ استغفار کریں،اور اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کو استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔
واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
محمد طلحہ اقبال عفی عنہ
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
الجواب صحیح
بندہ مفتی تقی عثمانی صاحب