Fatwa on Network Marketing لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Fatwa on Network Marketing لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کیا نیٹ ورک مارکیٹنگ ، اسلام میں حلال ہے؟

0

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب حامداً ومصلیا

ملٹی لیول مارکیٹنگ کے طریقہ کار پر جو کمپنیاں کام کر رہی ہیں عام طور پر ان کمپنیوں کا اصل مقصد مصنوعات کی خرید وفروخت نہیں ہوتا، بلکہ کمپنی کوئی چیز حیلہ کے طور پر فروخت کرنے کیلئے درمیان میں رکھ دیتی ہے، اور پھر کم قیمت کی چیز زیادہ قیمت میں فروخت کرتی ہے ، اور ساتھ ساتھ آگے مزید ممبر بنا کر اس پرکمیشن دینے کی پیشکش کرتی ہے، چنانچہ لوگ اس کمیشن کی لالچ میں کم قیمت کی چیز زیادہ قیمت میں خرید لیتے ہیں، یہ شرعاً قمار (جوئے) کی ایک شکل ہے۔
اس کے علاوہ مذکورہ سسٹم میں مزید متعدد شرعی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں، جس کی بناء پر ایسی کمپنیوں کے معاملات عام طور پر شرعی اعتبار سے جائز نہیں ہوتے ۔ نیز نیٹ ورک مارکیٹنگ کے طریقہ کار کو حکومت پاکستان کے ذمہ دار (ریگولیٹی اتھارٹیSECP) کی طرف سے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور اس طریقہ کار پر کام کرنے والی کمپنیوں پر پابندی عائد کی ہے
، لہذا اس پابندی کی بناء پر بھی مذکورہ کاروبار میں شریک ہونا یا کمیشن ایجنٹ بنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ (مآخذہ تیویب ٢٧٤//٧٩)

حاشية ابن عابدين -(٤٢٢/٥)
وفي ط عن الحموي أن صاحب البحر ذكر ناقلا عن أئمتنا أن طاعة الإمام في غير معصية واجبة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والله سبحانه وتعالى اعلم بالصواب
محمد حذیفہ عفا اللہ عنہ
دار الافتاء جامعہ دار العلوم کراچی
۱۶/ جمادی الثانیہ۔۱۴۳۸ھ
۱۲/مارچ ۲۰۱۷ء
الجواب صحیح
احقیر محمد اشرف عفا اللہ
پی ڈی ایف میں ڈاؤنلوڈ کریں





نیٹ ورک مارکیٹنگ کے متعلق دارالفتاء جامعہ دارالعلوم کراچی کا تحریر فتویٰ

0
 بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداومصلیا

ا . سوال میں تحریر کردہ” گولڈ مائن انریکل کمیٹی‘‘ کے طریقہ کار پرغور کیا گیا، آج کل اس نوعیت کا کاروبار کرنے والی بہت سی ایسی کمپنیاں آئی ہیں جو کم قیمت کی چیز مہنگے دام میں فروخت کرتی ہیں ، اور ساتھ ساتھ آگے ممبر بنا کر اس پر کمیشن دینے کی پیشکش کرتی ہیں ،لوگ کمیشن کے لالچ میں آ کر کم قیمت کی چیز مہنگے داموں میں خرید لیتے ہیں ، جو شرعاً قمار یعنی جوئے کی ہی ایک شکل ہے۔


چنانچہ” گولڈ مائن انٹرنیشنل کمپنی‘‘ کی مصنوعات اگر عام بازاری قیمت سے زیادہ پر فروخت کی جاتی ہیں تو یہ کاروبار بھی ناجائز ہے، اور اس کے معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کمپنی کی مصنوعات مارکیٹ میں نہیں ہیں تو اس چیز کو عام مارکیٹ میں فروخت کرے ،لوگ جس قیمت پر خریدنے کے لئے تیار ہوں وہ اس کی بازاری قیمت ہے ، اب اگر کمپنی کی قیمت پر لوگ خریدنے کے لئے تیار ہیں تو اس کی قیمت بازاری قیمت کے برابر ہے ،اور اگر اس قیمت پر لوگ خریدنے کےلئے تیارنہیں ہیں تو یہ علامت ہے کہ اسکی قیمت بازاری قیمت سے زیادہ ہے ،اور زیادہ قیمت داؤ پرلگی ہوئی ہے کہ اگر شخص مہر بنانے میں کامیاب ہوگیا تو ٹھیک ہے ،اور اگر ممبر بنانے میں کامیاب نہ ہوسکا تو اس صورت میں اس کی زائد رقم ڈوب جائے گی۔


لیکن اگر کمپنی کی مصنوعات کی قیمتیں عام بازاری قیمت کے برابر ہوں یا بہت معمولی فرق ہوتو بھی اس کمپنی کے طریقہ کار میں درج ذیل خرابیاں پائی جاتی ہیں:


(۱) یہ بات جوکہی جاتی ہے کہ کمپنی کا اصل مقصد کمپنی کی مصنوعات کو فروخت کرنا ہی ہے محض حیلہ بنا کرسرمایہ کی گردش نہیں ہوتی تو یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص بغیر ممبر اس کمپنی کی مصنوعات کو خریدنا چاہیے اور اس زنجیر میں شامل نہ ہو تو کمپنی اس کو یہ مصنوعات فروخت نہیں کرتی ۔


(۲) کسی شخص کا کمپنی کے طریقہ کار میں کمیشن کا حقدار بنے کے لئے دونوں طرف ممبر بنانا شرط ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ایک طرف ممبر بنائے اور دوسری طرف نہ بنائے یا مطلوبہ تعداد سے کم بنائے تو اس کو اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔


شرعی اعتبار سے یہ شرط لگانا جائز نہیں ، کیونکہ اس میں ایک تو کسی شخص کی محنت بیکار جاتی ہے اور اس کا صلہ اس کو کچھ اس صورت میں اس کو ملنے والا میشن وجود وعدم کے درمیان معلق ہے ، گویا اس طرح معاملہ ہوا کہ اگر دونوں طرف ممبر

بنانے تو اتنا کمیشن ملے گا ، اور اگر اس سے کم بنائے تو کچھ بھی کمیشن نہیں ملے گا ،اور شرعا یہ درست نہیں ہے ،ہاں اگر یہ ہوتا کہ ایک طرف مبر بنانے پر کمیشن کم ملے گا ،اور مطلوبہ تعداد کے مطابق بنانے پریکمل کمیشن ملے گا تو اس کی شرعاً گنجائش تھی۔


لہٰذا اس موجودہ طریقہء کار میں جو خرابیاں ہے ان کے ساتھ اس کاروبار میں شرکت کرنا جائز نہیں،اس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں (مآخذ تبویب ٣٧/١١١٥)


٢. جو لوگ اس موجودہ طریقہ کار کے مطابق اس کاروبار میں شامل ہیں ان کو چاہئے اس کاروبار کو چھوڑ دیں اور جو غلطی ہوئی اس پر توبہ استغفار کریں،اور اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کو استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔ 

واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم

محمد طلحہ اقبال عفی عنہ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

الجواب صحیح 

بندہ مفتی تقی عثمانی صاحب

پی ڈی ایف میں ڈاؤنلوڈ کریں




© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں