الحمد للہ رب العالمین الصلاہ والسلام علی من لانبی بعدہ اما بعد
دینِ اسلام اپنے اندر ایک وسیع معنیٰ رکھتا ہے۔اس لئے تمام مذاہب میں خالص اسلام کو تمام معاملات میں رہنمائی کرنے کا شرف حاصل ہے۔ جہاں اسلام روحانیت پر عمیق زور دیتا ہے وہی اپنے معلومات درست کرنے پر بھی بے حد زور دیتا ہے۔ آج کل کے ترقی یافتہ دَور میں معاملات میں مسلمان کو بے حد تکلیف ہوتی ہیں اگر وہ ذہنی طور پر اسلام کے قوانین کو مکمل قبول نہیں کریں۔ کیونکہ نبیِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ پورے دین اپنے اندر جذب کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ جس سے قرآن نے اپنے لفظوں میں یوں فرمایا ہیں:
”ادخلوا فی السلم کافہ“
دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔
معاملات بندوں کے مابین ہوتے ہیں اس لیے اگر اس میں کوتاہی رہتی ہے اس کو دُور کرنے تک اللہ کے دربار میں گناہ گار ہی رہتے ہیں اس لئے ان میں اِحتیاط کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہ حقوق العباد میں آتے ہیں۔
نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سے بہترین شخص بتایا اسی کے بارے میں مسلم شریف کی حدیث شریفہ وارد ہیں: ”یغفر للشهید کل ذنب إلا الدین“، شہید کا ہر گناہ معاف کیا جائے گا لیکن دَین اور قرض نہیں، اس لے اللہ تعالی حقوق العباد کی تب تک بخشش نہیں کرے گا جب تک اصحاب حقوق خود نہ بخش دیں ، معاملات میں بھی ایک نازک معاملہ ہے وہ کاروبار، بزنس ہے، جس میں اکثر اسلام کے قوانین کے انحراف پایا جاتا ہے۔ اس پُرفِتن دور میں نئے نئے بزنس ماڈلز وجود میں آتے رہتے ہے، جن میں کئی بزنس ماڈلز کو عدمِ جواز کا فتویٰ شائع ہو چکا ہے۔ ان میں سے نیٹ ورک مارکیٹنگ بھی ایک ہے۔
نیٹ ورک مارکیٹنگ کے بارے میں تخمیناً تمام اسلامی ممالک میں عدمِ جواز کا فتویٰ شائع ہو چکا ہے۔ جیسے عرب ممالک ،پاکستان، ہندوستان، بالخصوص ہمارے کشمیر سے بھی عدمِ جواز کا فتویٰ نشر کیا گیا۔ پر ہماری شقاوت مسلمانوں کے کچھ طبقے اس میں شمولیت حاصل کرتے رہتے ہے، ہماری شفاوت اس قدر بڑھ گئی ہے، ہمارے ہندوستان میں ایک مسلمان نے 2016 میں ڈریسنگ گائیڈ لائنز کو پاس کروایا، جب کہ یہ ایک ناقص بزنس ماڈل ہے جس میں فزوں خرابیاں پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے مسلم ممالک نے اس پر عدمِ جواز، حرام کا فتویٰ صادر ہوا ہے، ہمارے ایمانی اِضمحلال سے تب بھی مسلمان اس میں جائن ہوتے جا رہے ہے اور کچھ افراد اس میں آگے بھی بڑھ چکے ہے، جن کی اچھی خاصی حرام چکس بھی آتی ہے وہ اس تذبذب میں ہے کہ میں نے اب تک اتنی محنت کی، اب میں اسے چھوڑ نھیں سکتا ہوں اور اس کے بارے میں سوالات کرتے ہیں اور اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ یہ جائز ہے۔ جبکہ یہ باطل خیال ہے۔
ناقص خیال باندھ ہے جائز ہے وہ
بالخصوص مسلمان کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے اسلام دینِ فطرت ہے اور فطرت کبھی انسان کو تکلیف نھیں دے سکتی، اسلام کی استعداد خصوصیت، جس پر باقیہ عمیم مذاہب رشک کرتے ہے کہ ہمارے مذہب میں یہ بات لکھی ہوئی چاہیے: اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دِينا، آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دی اور اسلام کو تمھارے لیے بطور دین پسند کیا، اور اسی دین کا معلم بنا کر دونوں جہانوں کا رہنما صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا تھا اور انھیں کے فرمان سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہیں کہ العلماء ورثة الانبياء، انبیائوں کے ورثا علما ہی ہیں اور یہی علما جب اِسی کامل دین پر تفکر و تدبر کرتے ہیں اور کسی معاملے پر عدمِ جواز یا جواز کا فتویٰ صادر کرتے ہیں اور ہم اس کے کافر بن کے انکار کرتے ہیں تو نہ یہ صرف علما کی توہین ہے (جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منظور نہیں) بل کہ اللہ کے کلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا بھی انحراف ہے۔ کیونکہ جن قوانین سے نیٹ ورک مارکیٹنگ پر عدمِ جواز کا فتویٰ صادر ہوا ہے وہ قرآن و حدیث سے نکالے گئے اصول ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے بظاہر ہمارے لیے نیٹ مارکیٹنگ کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو، ہمیں بظاہر کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو قرآن و حدیث کے منحرف نھیں بن سکتے ہیں کیونکہ اس میں ہماری عزت ہے تمثلاً سمجھیں ہم نے سود کو ہلکا سمجھا جبکہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہیں:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كنتم مُّؤۡمِنِيۡنَ (سورہ بقرہ، آیت 278)ترجمہ: اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو اب تک جو بھی حصہ کسی کے ذمہ دار کے رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔
الربا ثلاثةٌ وسبعونَ بابًا ، وأيسرُها مثلُ أنْ ينكِحَ الرجلُ أمَّهُ (ابنِ ماجہ)ترجمہ: سود کے ستر گناہ ہے ان میں سے سب سے ادنیٰ گناہ ایسا ہے کہ جیسے اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہیں:
”ولا تقربوا الزنا“ترجمہ: زنا کے آس پاس بھی مت بھٹکو۔
حرام ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے بھی ہے۔
جھوٹی قسم کھا کر سودا بھیجنے والوں کے لیے اللہ نے چار قسم کے عذاب رکھا ہیں۔