السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر: ٩
عقل کے سو حصوں میں سے ننانوے حصے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے۔
خلق اللہ العقل ، فقال لہ ادبر “ فادبر ثم قال لہ : اقبل فاقبل ، ثم قال : ما خلقت خلقا احب الی منک ، فاعطی اللہ محمدا تسعۃ وتسعین جزءا ، ثم قسم بین العباد جزءا واحدا۔
ترجمہ : اللہ تعالی نے عقل کی تخلیق کی ، پھر اس کو حکم دیا کہ پیچھے ہوجا ، وہ پیچھے ہوگئی ، پھر اس کو حکم دیا : اگے ہو جاؤ وہ آگے ہوگئی ، پھر اللہ تعالی نے اس میں سے ننانوے حصے حضرت محمد صلی اللہ علیہ کو عطا کیے اور ایک حصہ باقی بندوں میں تقسیم کیا ۔
اس حدیث کے بارے میں مشہور محدث ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:-
انہ کذب موضوع اتفاقا [ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع،رقم:٤٨،ص:٦٢]
یعنی یہ حدیث بلا اتفاق موضوع اور من گھڑت ہے۔
ان کے علاوہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نیز حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ،حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عجلونی جیسے بلند پایہ محدثین نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔
[بالترتیب دیکھیں:فتح الباری :٦/۳٣٤
المقاصد الحسنۃ ، رقم : ۲۳۳ ، ص : ١٢٥
اللالی المصنوعۃ : ۱/۱۲۹ ، المنار المنیف ، رقم : ١٢٠ ، ص : ٦٦ ، کشف الخفاء ، رقم : ٧٢٣ ، ص : ۲۷۱]
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مندرجہ بالا ائمہ حدیث نے اس روایت کا پہلا حصہ یعنی ” لماخلق اللہ العقل “ سے لے کر ” احب الی منک نقل کر کے اس حصے کو موضوع قرار دیا ہے ، جبکہ روایت مذکورہ کا وہ حصہ جو زیادہ مشہور ہے ( یعنی عقل کے سو حصوں میں سے نانوے ھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے اور ایک حصہ باقی لوگوں پر تقسیم کیا گیا ) حدیث کے اس ٹکڑے کو مندرجہ بالا ائمہ میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا ۔ حتی کہ علامہ سیوطی نے اس روایت کے تمام طریق ذکر کیے ہیں ، لیکن کی طریق میں بھی یہ دوسرا حصہ مذکور نہیں ہے ، روایت کا یہ حصہ صرف مشہور شیعہ مصنف باقر علی نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے اس کی سند کو ملاحظہ فرمائیں:
(5 - المحاسن: علی بن الحکم، عن ہشام، قال: قال ابو عبد اللہ (علیہ السلام): لما خلق اللہ العقل قال لہ اقبل فاقبل، ثم قال لہ ادبر فادبر، ثم قال: وعزتی وجلالی ما خلقت خلقا ہو احب الی منک، بک آخذ، وبک اعطی، وعلیک اثیب.
6 - المحاسن: ابی، عن عبد اللہ بن الفضل النوفلی، عن ابیہ، عن ابی عبد اللہ (علیہ السلام) قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ): خلق اللہ العقل فقال لہ ادبر فادبر، ثم قال لہ اقبل فاقبل، ثم قال: ما خلقت خلقا احب الی منک، فاعطی اللہ محمدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) تسعۃ وتسعین جزءا، ثم قسم بین العباد جزءا واحدا.
7 - غوالی اللئالی: قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ): اول ما خلق اللہ نوری.
8 - وفی حدیث آخر انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) قال: اول ما خلق اللہ العقل.
9 - وروی بطریق آخر ان اللہ عز وجل لما خلق العقل قال لہ اقبل فاقبل، ثم قال لہ ادبر فادبر، فقال تعالی: وعزتی وجلالی ما خلقت خلقا ہو اکرم علی منک، بک اثیب وبک اعاقب، وبک آخذ وبک اعطی** [بحار الانوار - العلامۃ المجلسی - ج ١ - الصفحۃ ٩٧]
تاہم روایت کا یہ حصہ بھی پہلے حصے کی طرح موضوع اور من گھڑت ہے کیوں کہ عقل کے بارے میں جتنی بھی روایات ہے ان جملہ روایت کے بارے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:-
احادیث العقل کلہا کذب [الموضوعات الکبیری،ص:١٧]
یعنی عقل والے تمام روایات جھوٹی ہیں ۔
نیز اگر چہ باقر مجلسی نے اس ٹکڑے کو اپنی سند کے ساتھ نقل بھی کیا ہے۔لیکن باقر مجلسی کاغو پر مبنی رفض و تشیع بھی قطعاً ان سے روایت لینے کی اجازت نہیں دیتا۔چناچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ روافض کی روایت کے بارے میں حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :-
واما البدعۃ الکبری کالرفض الکامل ، والغلو فیہ والحط عن الشیخین . ابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما- فلا . ولا کرامۃ . لا سیما ولست استحضر الآن من ہذا الضرب رجلا صادقا ولا مامونا ، بل الکذب شعارہم والنفاق والتقیۃ دثارہم فکیف یقبل من ہذا حالہ
[(مقدمۃ فی فتح الملہم روایت اہل المبدع والاہواء ص ١٧٢)
فتح المعیث ج ٢،ص:٦٣ بحوالہ: المیزان ٤/١ ،ولسانہ٩/١ ]
ترجمہ: اگر کسی راوی میں بدعتِ کبریٰ پائی جائے جیسے کوئی راوی غالی رافضی اور شیعہ ہو اور حضرات شیخین بین حضرت ابوبکر صدی اور حضرت عمر فاروق کو ان کے مقام سے نچے دکھانے کی کوشش کرتا ہوں تو ان کی روایت قابل قبول نہیں ، کیونکہ ابھی تک میں نے اس قبیل کے لوگوں میں کسی کو صادق اور امین نہیں پایا جبکہ جھوٹ،منافقت اور تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے تو ایسے شخص کی روایت کیونکر قبول کی جاسکتی ہے ؟
لہذا محض اس سند سے مروی اس روایت کو بیان کرنا درست نہیں بالخصوص جب کہ دیگر محدثین اس کو موضوع بھی قرار دے چکے ہیں۔
جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری