علامہ جلال الدین سیوطیؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
علامہ جلال الدین سیوطیؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فرشتوں کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت میں ٹاٹ کا لباس پہنا کی حقیقت و تحقیق

1




السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر 18


ہبط علی جبریل علیہ السلام وعلیہ طنفسۃ وہو متخلل بہا فقلت : یا جبریل ! ما نزلت الی فی مثل ہذا الزی ؟ قال : ان اللہ تعالی امر الملائکۃ ان تتخلل فی السماء کتخلل ابی بکر فی الارض

ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے ) مجھ پر جبرائیل علیہ السلام اس حال میں اترے کہ وہ ٹاٹ کالباس اوڑھے ہوئے تھے ، تو میں نے کہا : ” اے جبرائیل ! تم تو پہلے بھی اس حلیہ میں نہیں اترے ؟ “ اس قسم کے لباس پہنے کی کیا خاص وجہ ہے ؟ ) تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آسان میں وہ لباس پہنیں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زمین میں پہنا ہوا ہے ۔


یہ حدیث بھی زبان زد عام ہے ، حالانکہ اس حدیث کو علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ، امام این عراق رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدثین نے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے ۔ 

[بالتریب دیکھیں: 

الآلی المؤضوعہ ١/٢٩٣

تنزیۃ الشریہ المرفوعۃ ١/٣٤٣

الفوائد المجموعۃ ص ٤١٩ : رقم الحدیث ٦/١٠٤٣]

علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :۔

 یہ حدیث ثابت آشنانی نے اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ہے اور اس حدیث گھڑنے کے ساتھ ساتھ نقلِ حدیث اور معرفتِ حدیث سے بھی جاہل تھا۔

[کتاب الموضوعات ٢/٥٥]


یہاں قارئین کے سامنے یہ وضاحت ضروری ہے کہ احادیث پر علم لگانے میں علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ وسلم کا تشدد مشہور ہے ، تاہم اس میں اس حدیث پر ان کے علم کو اصولی اور بنیادی حیثیت سے ذکر نہیں کیا گیا بلکہ ان کا قول کی تائیدی طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔ دیگر معتدل ائمہ حدیث و  اہل تحقیق کی رائے کوئی بنیاد بنا کر احادیث پر حکم لگایا گیا ہے۔

لہذا یہ حدیث موضوع ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے مستند مناقب و فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ جن میں انبیا کے علاوہ کوئی ان میں شریک نہیں۔ لہٰذا ان کے مناقب و فضائل بیان کرنے میں مستند روایات کو ہی بیان کیا جائے۔

برقی جمع و ترتیب : ماجد کشمیری 

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ : جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا ۔

0

السلام علیکم ورحمت وبرکاتہ

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر_٢

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ


ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا ۔


اس روایت کے بارے میں حافظ سخاوی رحمہ اللہ علیہ ،ابن السمعانی رحمہ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے ۔بلکہ یہ درحقیقت یحییٰ بن معاذرازی کا قول ہے۔[ المقصد الحسنہ رقم:١١٤٩،ص ٤٦٦]


اسی طرح مشہور محدث ملا علی قاری رحمہ اللہ عليہ،علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔


انه ليس بثابت -يعني النبي صلى الله عليه وسلم [الموضوعات الكبيري  ص ٢٣٨،رقم ٩٣٧]


یعنی یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔


اس کے علاوہ دیگر محدثین مثلاً علامہ عجلونی رحمہ اللہ علیہ، علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ علیہ  اور شیخ القاو قجی رحمہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔


[بالترتیب دیکھیں۔
کشف الحفاء جلد:٢ رقم ٢٥٣٢،ص ٣٠٩
لترربب الراوی ھاد ٢/١٧٥
اللؤالؤالمرصوع، رقم ٧٥٩٤ ص ١٩١]


يحيى بن شرف الدين النووي المحقق رحمة الله عليه لکھتے:۔

ليس هو بثابت ( المنثورات وعيون المسائل المهمات: ٢٨٦)

محمد بن الحسن رحمة الله عليه( أبو الفضائل الصغاني، الفقيه الحنفي الشيخ الإمام العلامة المحدث إمام اللغة) لکھتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے۔[موضوعات الصغاني ٣٥ ]

المحدث الزرقاني رحمة الله عليه (محمد بن عبدالباقي بن يوسف، أبو عبدالله الزرقاني المالكي) لکھتے ہیں:-


لیس بحدیث یعنی یہ حدیث نہیں ہے۔[مختصر المقاصد الحسنة في بيان الأحاديث المشتهرة على الألسنة ١٠٥٢)


محمد ناصر الدين الألباني رحمة الله عليه لکھتے ہیں:-
لا اصل له


[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء في الأمة: ٦٦]

لکتمیل بحث 

القول الأشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ للسیوطی


جمع و ترتیب :خادم الاسلام ماجد ابن فاروق غفرلہ

اگلا سلسلۂ تخریج 

کاف اور نون کے آپس میں ملنے سے پہلے وہ کام ہوجاتا ہے ۔

0

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 


سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر ١


سمعت الله من فوق العرش يقول للشيء ” كن فيكون ، فلا تبلغ الكاف النون إلا يكون الذي يكون ۔

 جب اللہ تعالی کسی چیز کا حکم  ہو جا تو لفظ ” کن“ کے کاف اور نون کے آپس میں ملنے سے پہلے وہ کام ہوجاتا ہے ۔

یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے،اس روایت کے بارے میں مشہور محدث ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔

موضوع بلا شک (یعنی یہ روایت بلاشک و شبہ من گھڑت ہے)

[المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع ، ص ۱۴۰ ، رقم : ۲۰۲]

اس کے علاوہ حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، علامہ اسماعیل عجلونی رحمہ اللہ اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے [بالترتیب دیکھیں: ذیل اللالی المصنوعۃ،ص:٣

کشف الخفاء ومزیل الالباس،رقم: ١/٥١٨،١٤٨٥

الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الصعیفۃ والموضوعۃ ،رقم ٢٠\١٢٨٣]

علامہ ذہنی رحمہ اللہ اس حدیث کو سند کے ساتھ ہاتھ نکل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔

هذا حديث باطل،واحمد المکی کذاب،رؤیتہ للتذیرمنہ.[تنزیہ الشریعہ المرفوعہ۔١/١٤٨]

محمد بن أحمد بن عثمان الذھبی المحقق رحمہ الله اپنی کتاب میں اس میں اس سند کے ساتھ لکھتے ہیں یہ حدیث باطل ہے ہیں ۔

حدثني رسول الله صلى الله عليه وسلم - ويده على كتفي – قال : حدثني عن الصادق الناطق رسول رب العالمين وأمينه على وحيه جبرائيل – ويده على كتفي – سمعت إسرافيل سمعت القلم سمعت اللوح يقول سمعت الله من فوق العرش يقول للشيء كن فيكون فلا يبلغ الكاف النون حتى يكون ما يكون (العلو للعلي الغفار في صحيح الأخبار وسقيمها (ص 54)



جمع و ترتیب :  ماجد کشمیری 


سلسلہ تخریج الاحادیث نمر 2

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں