مدرسے اور ہم | مدرسے کی اہمیت و فضیلت| مدراس و عامۃ الناس کی ذمہ داریاں

0



 وہ خطۂِ زمین آباد ہوتی ہے، آغوش میں مدرسہ ہو جس سے۔ ہماری سر زمین پر اللہ کی عاطفت ہوئی ایسی، ملا مکین مدرسے کو یہی۔ گرچہ عنفوان میں ہے مگر قلیل مدت میں توسیع ہونا، اس کے عزم آوری کا ثبوت ہے۔ اللہ کی عاطفت و عافیت سے وہ صحیح معنوں میں اسلام کے خدمات انجام دے گا۔ 

مدارس کی اہمیت و فضیلت کا تذکرہ ہی نہیں۔ کیوں کہ یہ تاباں ہے کہ مدارس ریڈ کی ہڈی ہے۔ یہ بھی درخشاں ہے مدارس کے نصاب سے آج کی مترقی یونیورسٹیاں ہم سری نہیں کر سکتیں ہیں۔ یہ الفاظ میں ہیجانی نہیں بل کہ تحقیقی طور پر نوشت کیا ہیں۔ نہ صرف علومِ دینیہ اور اس کی تحصیل کے لیے استعمال شدہ زبانوں میں بل کہ انگریزی میں فاغلین وہ کمال حاصل کر چکیں ہیں جس کی مثال باقیہ یونیورسٹیوں میں ملانا عدم کے برابر ہے۔ زبان گرچہ ہر فن کے اکتساب کے لیے واجب ہے، ان کے ورے ہر ہنر میں مفلح نظر آنے والے طلبۂ مدارس ہوتیں ہیں۔ یہاں یہ وضاحت کرنی بھی رو سمجھتے ہوں، کہ کچھ مدارس میں نصاب و نظام میں، وہ اضحلال آشنا ہوتی ہے جس سے وہ عصر حاضر کے تقاضوں اور اس سے مساوات نہیں کر سکتے ہیں۔ ان میں تغیر لانے کی اشد ضرورت ہے ( پر ہر کلیہ کے لیے تنوع تخصصات ہونے بھی لازم ہیں۔)

عصرِ حاضر جن کا متقاضی ہے، ان کو پورا کرنے مدارس کی ثقافت اور اسلاف کی میراث ہے۔ اگر ہم اس میں اضمحلال کا مظاہرہ کریں گے تو اسلام کو خاصا نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ جمود بھی نظر آنے لگا ہے کہ علومِ قرآنیہ اور علومِ حدیث کو ہی علوم شرعیہ تصور کیا جاتا ہے جب کہ دینِ فطرت ہر پہلو میں رہنمائی کرتا ہے جو کہ اس کی خصوصیت ہے۔ اس لیے تمام علوم نافع علوم شرعیہ کہلائے گیں۔

 مدارس اسلامیہ جمار، فروغ دین کے لیے اعیان کے ساتھ ساتھ تبلیغ و تفہیمِ شریعت کے لیے مواد بھی تیار کرتے رہتے ہیں۔ اسی کام کو عہدِ نبوت میں، ہر چیز پر ترجیح دی جاتی تھی۔ پر اب کیوں نہیں؟ بسببِ بُعدِ عہدِ نبوت ہم ہر طرح سے دانشکدۂ اسلام سے دوری اختیار کرتے رہیتے ہیں، جب کہ تعلیمِ نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم یوں تھی؛ 

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو اس موقع سے انھوں نے آپ میں سے فرمایا کہ کیا میں اپنے بیٹے کا عقیقہ کر لوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں ؛ بلکہ تم یہ کام کرو کہ اس کے سر کے بال کاٹ لو اور اس کے وزن کے برابر چاندی غرباء اور اوفاض (وہ صحابہ کرام مراد ہیں جو تعلیم کے لئے بے سروسامانی کی حالت میں مسجد نبوی میں پناہ گزیں تھے ، یعنی اصحاب صفہ ) پر صدقہ کرلو؛ چنانچہ حضرت فاطمہ نے اس موقع سے اور حضرت حسین کی ولادت کے موقع پر بھی یہی کام کیا۔

عقیقہ کی خوشی کے موقع پر ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے اعزاوا قارب اور دوست و احباب کو اس مسرت کے حوالے سے مدعو کرے اور رسم دنیا بھی یہی ہے ، لیکن اس کے باوجود آپ کسی کا یہ مال اصحاب صفہ پر صدقہ کرنے کی ترغیب دینا یہ اس بات کا غماز ہے کہ طالبان علوم نبوت پر خرچ کرنا عام مسلمانوں پر صدقہ کرنے سے بدر جہاں بہتر ہیں ( مولانا محمد فرقان پالن پوری دامت برکاتہم العالیہ)

انہیں طالبان علوم نبوت کے بارے میں قرآن میں اشارہ ہیں، بل کہ اکثر مفسرین کے نزدیک ہے کہ انہیں ہی متعلق نازل ہوئی ہے مندرجہ آیت:  

اصل حق ان ضرورت مندوں کا ہے جو اللہ کے راستے میں گھرے ہوئے ہیں ، وہ زمین میں چل پھر نہیں سکتے ، دست سوال نہ پھیلانے کی وجہ سے ناواقف لوگ ان کو مالدار سمجھتے ہیں، تم ان کو ان کے چہرے سے پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے نرمی کے ساتھ مانگا نہیں کرتے ، تم جو بھی مال خرچ کرو گے، اللہ تعالی اس سے واقف ہیں ۔( آسان ترجمہ قرآن: مولانا خالد سیف اللہ حفظہ اللہ تعالیٰ)

اب قرآن و حدیث و فقہاءِ اسلام نے ان کے لیے متعین مصارف رکھیں ہے۔ 

جیسے حضرت ابن نجیم مصری البحر الرائق میں فرماتے ہیں :


التصدق علی العالم الفقیر أفضل۔ 

محتاج عالم دین پر خرچ کرنا اور اسے زکوۃ کا مال دینا عام لوگوں پر صدقہ کرنے سے اور ان کو زکوۃ کا مال دینے سے بہتر ہے۔

اسی طرح علامہ ابن عابدین شامی نے رد المحتار میں یہ بات نقل فرمائی ہے : أن من مصارف بیت المال کفایۃ العلماء ، وطلاب العلم المتفرغین للعلم الشرعی

بیت المال کے مصارف میں سے ایک مصرف علماء کی مالی اعانت کرنا ہے اور ان لوگوں کی جنھوں نے اپنے آپ کو علوم شرعیہ کے حصول کے لئے فارغ کر رکھا ہے۔

احتصارا، باہم، طالبان علوم شرعیہ و عامۃ الناس اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور ان فرائضہ کو ادا کرنے میں جد و جہد کریں، تاکہ وہ علمی میراث زندہ جاوداں رہیں۔ وہ عدہ پورا ہو جس کی بشارت رب العالمین نے دی تھی: کہ تم ہی غالب رہو گے!





بیوی کی پرایویسی

0



حضرت مولانا مفتی طارق مسعود صاحب مدظلہ 

  ایک بات خوب سمجھ لو کہ شرعی اعتبار سے نہ بیوی اپنے کسی رشتہ دار کو شوہر کی اجازت کے بغیر گھر میں رکھ سکتی ہے۔ اور نہ شوہر اپنے کسی رشتہ دار کو بیوی کی اجازت کے بغیر اسکے گھر میں رکھ سکتا ہے۔

کسی بھی اعتبار سے آپکی بیوی کی پرائویسی میں دخل اندازی ہورہی ہے تو شوہر بیوی کی اجازت کے بغیر کسی بھی رشتہ دار کو گھر میں نہیں رکھ سکتے۔ والدین ساتھ رہیں گے لیکن والدین اُس صورت میں ساتھ رہیں گے کہ آپکی بیوی کا مکمل الگ ایک کمرہ ہو اور اسکے لیے باقاعدہ ایک ایسا انتظام ہو کہ اسکی پرایئویسی میں آپکے والدین بھی ذبردستی کی مداخلت نہ کرسکیں۔

والدین بھی بہو کے ساتھ اس صورت میں رہ سکتے ہیں کہ اگر والدین اپنی بہو کو بلاوجہ ٹارچر نہ کرتے ہوں۔ اگر شوہر کو یہ اندازہ ہوگیا کہ میں نے بیوی کو گھر میں الگ کمرہ لیکر دیا ہوا ہے اسکے باوجود میری اماں بار بار میری بیوی کو ٹینشن دیتی ہے تو پھر شوہر پر لازم ہے کہ آپ اپنی بیوی کو اپنی اماں سے الگ رکھیں۔

کیوں کہ عورت جب شادی کرکے آئی ہے تو وہ ٹینشن لینے کے لیے نہیں آئی وہ لائف کو انجواۓ کرنے کے لیے آئی ہے۔ اللہ نے نکاح خوشیوں کے لیے رکھا ہے۔ ٹینشنوں کے لیۓ اللہ نے نکاح نہیں رکھا۔

مسئلہ درحقیقت یہی ہے کہ بیوی کو الگ گھر میں رکھا جاۓ اور والدین کو الگ گھر میں رکھا جاۓ۔ جوائنٹ فیملی کے جو فائدے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ اکٹھے رہنے میں جو برکتیں ہوتی ہیں وہ الگ رہنے سے نہیں ملتیں۔ لیکن یاد رکھو کہ اکٹھے رہنے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ دل کو بڑا کرنا پڑتا ہے برداشت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ برداشت آج کل مارکیٹ میں شارٹ چل رہی ہے۔

اس لیے ہم لوگوں کو آج کل یہی مشورہ دیتے ہیں کہ جب تم شادی کرو تو بیوی کو الگ گھر میں لیکر آؤ۔ اماں ابا کے گھر میں مت لیکر آؤ۔ میں ہمیشہ لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ شادی سے پہلے الگ گھر کا انتظام کرو پھر شادی کرو۔

پھر کبھی اماں ابا کو بہو سے ملوانے لے آؤ اور کبھی بہو کو اماں ابا سے ملوانے لے جاؤ اور اپنی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھواؤ۔

والدین غصہ کرتے ہیں کہ ہم نے پال پوس کر بچے کو جوان کیا اور ہم سے ہمارا بیٹا الگ ہوگیا۔ ارے بھئی وہ قیامت تک کے لیے الگ نہیں ہورہا وہ روزانہ آۓ گا اور آپ سے ملاقات کرے گا آپکی خدمت بھی کرے گا۔ اگر سب اکٹھے رہتے تو ہم سب وہیں رہتے جہاں حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا رہا کرتے تھے۔ اب وہ تو پتہ نہیں دنیا میں کہاں آۓ تھے۔ لیکن پوری دنیا اللہ نے بھردی۔ اسی لیے تو بھری ہے کہ شادی کر کرکے الگ ہوتے گۓ۔ اگر انہی کے گھر میں رہ رہے ہوتے تو آج کتنا بڑا بنگلہ ہوتا حضرت آدم علیہ السلام کا۔

تو اس لیے میرے بھائی افضل یہی ہے بہتر یہی ہے کہ اگر فساد سے بچنا چاہتے ہو تو الگ گھر کا انتظام پہلے کرو اور شادی بعد میں کرو۔ اس میں اگر اماں ابا غیرت کے طعنے دیتے ہیں تو اماں ابا کا دل سے احترام کرو لیکن بعد میں جب لڑ کر نکلو گے نا تو اس وقت جو بیغیرتی کے طعنے ملیں گے اس سے بہتر ہے کہ تھوڑے سے طعنے برداشت کرکے الگ ہوجاؤ۔

ہاں اگر اپکا بہت ہی اچھا اعلی اخلاق والا خاندان ہے آپکی اماں بڑی برداشت والی ہیں بہت پیاری اماں ہیں نیک اماں جو بہو کو اپنی سگی بیٹیوں سے بھی زیادہ عزیز سمجھتی ہو اور بہو بھی ایسی مل جاۓ جو زبان پر ایلفی لگا کر رکھتی ہو تو پھر ساتھ رہنا چاہیے ساتھ رہنے کی برکتیں بہت زیادہ ہیں۔

انتخاب و پیشکش : اسلامی زندگی (ماجد کشمیری)

قربانی: بت شکن کے اٹھائے ہوئیں تکلیفات کا ثمر ہے ۔

0


لفظِ قربان میں تارید کر کے جو کلمہ قربانی مؤخذ ہے اس کے معنی وہی ہے جس کی کمی آج ہماری قربانیوں میں پائی جاتی ہے یعنی وہ عمل جس سے للہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔ اس میں "ی" کا اضافہ دیکھ کر کے اس سے خود کی قربانی (تناولِ گوشت کا عمل) سمجھنے لگیں گویا کہ اس میں خدا کا قرب ہی نہیں رہا۔ جب کہ یہ وہ قربانی تھی جس سے ابوت کی فطرت میں تغیر آیا تھا۔ اس کا احتمام و احترام علامتِ زہد و تقویٰ ہے۔ اس کی ادائگی ہر نذر و نیاز و قول و عمل و محبت و نفرت، الٰہی کے لئے ہونے کا ثبوت دینا ہے.


 نسک (قربانی)، قتنۂ مال سے محفوظ رکھتا ہے۔ خوفِ باطل کے لیے مزیل ہے۔ اسلاف کی سقافت کی حفاظت کی ذکریٰ( یاد) ہے۔ بت شکن کے اٹھائے ہوئیں تکلیفات کا ثمر ہے۔ ولدِ عنفوان کے صبر کا ثمر ہے۔ سہارے کا مستمد ( ضرورت مند) کی محبت کی آزمائش کا ثمر ہے، اک اشارے پر مر مٹنے والے شخص کے عمل کا ثمر ہے۔ اس کردار کی عکاسی کا طلب گار، کی عمل ہے۔ والدین کی فرماں برداری کا ثمر ہے۔

اس کی افادیت کا تذکرہ حدیث میں یوں وارد ہوا ہے: خون کا پہلا قطرہ گرنے سے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ پر ہم اخلاص سے محروم بھی تو ہیں، پر لاتعداد قطرات پر کسی ایک پر بھی اخلاص محتقق ( ثابت) ہوا تو ہم سرفراز ہوئیں اور اگر ہر قطرے پر اخلاض ہوا تو؟ ہر بوند پر اہل خانہ کو ایصال ثواب کیا!، تو ہم ان کے حق میں بھی صحیح ثابت ہوگیں۔

 اس کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یوں کہا جاسکتا ہے: جانور کا ذبح کرنا صرف زاویہ ہے، اس کی حقیقت اِیثارِ نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور تقرب الٰہی ہے۔ بس یہ جذبات حاصل ہوگئیں وہ رافع ہوا دنیا و آخرت میں، اس کی مالیاتی زندگی میں مال کی کمی ہوگی اور نہ اخروی زندگی میں مکافاتوں کی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔

 اللہ ہمیں ان کے حصول کی تڑپ پیدا کریں اور کونین میں کامیاب بنائیں۔ امین 


ماجد کشمیری 

کالجوں میں عربی، فارسی، کشمیری اور اردو واسلامیات سے بے رغبتی کیوں| کالج میں سبجیکٹ معین کیسے کریں

0

الحمد للہ الذی وحدہ والصلاہ والسلام علی قادہ الدنیا والاخرہ. 

تعلیم کی افادیت کا ذکر ہی نہیں۔ اور یہ فقرہ مشہور و معروف ہے کہ تعلیم سے مقصود کردار نویسی ہے۔ اولیں درجات میں ہمیں ادب کے ساتھ ساتھ علوم و معلومات سے بھی آشنا کیا جاتا ہے۔ جیسے ہی ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس میں ہم قدم رکھتیں ہیں تو ہمیں تنوع ہدفِ مخصوصہ (اسٹی مز) ملتے ہیں۔ ہر ڈپارٹمنٹ اپنی مستقل و مفارق حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی محمکہ کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنا ملک و ملت کو خصارے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پر وہیں کچھ سبجیکٹس ہیں، جنہیں مغرب اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تو دل و جان لگا کر تحصیل و تعلیم کراتے ہے پر اس کے استحقاقیوں کو مستعبد (بعید) کر رہا ہیں۔ 

بقول اقبال رحمہ اللہ” مغربی تہذیب کا خالص اندورن قرآن ہے۔“

“The inner core of western civilization is Quran” 

اس لیے آپ دیکھتے ہوگئیں کہ کالج، و یونی ورسٹی میں اسلامی و ادبی زبانیں کی طرف ہماری رغبت بہت کم ہوچکی ہے۔ سبب ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں مغرب سے متاثر ہے، پر ہمیشہ ہمیش مغرب کو ہی دوش کیوں دیا جاتا ہے۔


 کبھی اپنے اضمحلال کا تعاقب کیا ہے؟ کیا تفکر و تدبر کیا ہے کہ وجوہ کیا ہیں؟۔ ہم اس سے متاثر ہوتیں ہی کیوں ہے؟۔ ایک اہمہ وجہ ہے کہ ہم اپنی اکمل دین کو ناقص گردانتے ہیں۔ اور دین سے دوری کی اہمہ وجہ اضمحلالِ علم ہے۔ حصولِ علم تحصیل و تعلیم سے ہوتی ہے، وہ زبان کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہی وہ دیوارِ اول ہے۔ جس پر حملہ مع فریب کیا جارہا ہے۔ اس لیے ہم عربی، فارسی، کشمیری،  اسلامک اسٹیڈی اور اردو سے محروم و محسود ہوتیں جا رہیں ہیں۔


للہ تعالا نے اسلام کے موادات کو علی الترتیب عربی، فارسی و اردو و کشمیری میں محفوظ و مامون کیا ہیں پر شقاوت سے ایسا شوشہ ہمارے ذہنوں میں چھوڑا گیا ہے کہ مذکورہ زبانیں (عربی و فارسی و اردو اور اسلامیات) بطورِ ہدف معین کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا کے مترادف ہے۔ بخدا ایسا مغرب کی فریب کاریوں میں سے ہیں۔ ہوش کے ناخن لینے ہوگئیں! 


المختصر اس پر  ہمیں بقدرِ ظرف و استطاعت انفرادی و اجتماعی کام کرنا ہوگا۔ جو کہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے۔ دیانِ یونیورسٹی جو اس کی طرف بہت کم منعطف ہوتے ہیں وہ اس سے مرکز جاذبہ و موہوم و عروج بنائیں و اساتذہ و طلبا اپنی پوری قابلیت سے تحصیل و تعلیم و تدریس کو انجام دیں۔ وقتاً فوقتاً فہمائش ( کاونسلنگ) کو یقینی بنانا جائیں۔ ان میں ہر سبجیکٹ کا سکل ہونا چاہیے تاکہ کسی بھی محمکہ سے تعلق رکھنے والے طلبا اس سکل سبجیکٹ میں ان کی افادیت سے آشنا ہوں۔ جس سے بتدریج رغبت میں اضافہ ہوگا۔۔۔


 آپ کے متعلقین جو سمیسٹر اول یا ہائر ایجوکیشن میں قدم رکھنے جا رہیں ہیں، انہیں پیشتر داخلہ ان کی افادیت سے آشنا کریں اور اگر تامل کیا جائیں تو ان سبجیکٹس میں افادہ دین و دنیا بمقابلِ باقیہ زیادہ ہیں۔ جیسے آج کل کے مقصد تعلیم کو پوری طرح تکمیل کی طاقت رکھتیں ہیں و دین و دنیا و رضاءِ خداوند جو علمِ اموراتِ الٰہی سے حاصل ہوتی ہے۔  اُن میں ان سے فلاح کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔ اس لےان کے تحفظات کے لیے ہمیں مجتہد و مستعد (کوشاں) رہنا ہوگا۔ نصر من اللہ و فتح قریب کے لیے شرط وہی ہے۔ 

ماجد کشمیری 

۲۵ جون ۲۰۲۲

Check out in English


خانہ جنگی کا تنقیدی مطالعہ

0

بحکم دانشکدہ کلگام ہمیں دو مختلف موضوع پر نوشت کرنے کا حکم ملا تھا پر ہمیں آخر میں معلوم ہونے کے سبب دونوں موضوع میں ربط ظاہر کرنے میں ناکام رہے تاہم ان میں ربط تلاشی سے ملتا ہے مضمونِ مقدم میں اس کا خیال رکھے بغیر کوئی چارا نہ رہا۔ حیر باعثِ قلتِ وقت ہمیں ڈرامہ خانہ جنگی کا مطالعہ کا موقع نہ ملا اس لئے راہِ مستقیم پر چل کر شرافت اللہ کی کتابچہ ڈرامہ خانہ جنگی کا تنقیدی مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا اس لئے اس میں کسی حد تک مقلدانہ رویہ بھی مل سکتا ہے۔

کالج کے منتخب کردہ مضامین گرچہ عدداً پانچ ہے پر طے شدہ طور پر ان میں خاصا ربط پایا جاتا ہے جس کے سبب اگر کسی موضوع پر محققانہ تحریر کیا جائے تو تمام کا خلاصہ نویسی ہوگا اس کو پیش نظر رکھ کر مقالہ لکھا جا رہا ہے۔ (اس لیے ہمیں خلاصہ نویس لقب مل سکتا نہ کہ مضمون نگار کا) 

کشمیر میں اردو اگرچہ ہندوستان کے مقابلے میں بعد میں پہونچا  کیوں کہ تاریخاً ملکِ کشمیر تہذیبِ ہندوستان کا حصہ نہ تھا پھر بھی بھارت کے پس ازاں نہیں ہے۔

کھانا جنگی کا عنوان شاہجہان کے دعوے حکومت 16 فروری ۱۶۲۷ٕ سے ہوتا ہے جب موصوف کے اِمارت میں غم و الم سے لبریز تھا اور شاہ جہاں اپنے اخلاف کی خانہ جنگی سے سخت پریشان تھے۔ اسی خانہ جنگی میں اورنگزیب جو ملہوف القلب اور چالاکِ مطلق مراد کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور یہ طے ہو جاتا ہے کہ دارالشکوہ سے مقابلہ کرتے ہیں جس میں اورنگزیب فاتحِ بن جاتا ہے۔ داراشکوہ محراب سے بھاگ کر دہلی چلا گیا اورنگزیب نے دلی فتح کر لی اور دارا شکوہ لاہور کی طرف بھاگ گیا ۳۱ جولائی ۱۶۵۷ میں اورنگزیب نے خود کو شاہنشا کا خطاب دیا۔

ڈرامہ کی پہلی ایکٹ میں شاہجہان کی کردار سے صلح و صفائی کا اظہار ہے دارا شکوہ کی زندگی آزاد مزاج کی جھلکیاں کے موجود ہے۔ پرجا کی رائے اورنگزیب کے متعلق کیا ہے ان کا اظہار ہوتا ہے دور شاہجہانی میں عوام شریعت اور طریقت کی جنگ میں الجھے ہوئے تھے۔ 

عنفوان ایکٹ دوجا کردارِ شاہ  شیخ سر مد سے شروع ہوتا ہے ۔ جو دور شاہجہان کے معروف صوفی تھے ان کے اردگرد متعلقین کا اژدحام ہوتا ہے۔ سپاہی خوان لے کر آتا ہے۔ دسترخوان میںوہ دیکھ کر داراشکوہ کی ہار کے متعلق جان جاتے ہیں۔ لڑکے کے ٹال دینے کے بعد ابرہم بد خشانی آتا ہے۔ یہ شیخ کا مرید تھا۔ شیخ ان سے ناراض لہجے میں گفتگو کرتے ہیں درمیان میں دو لڑکے ظاہر ہوکر ۔۔۔ دارا شکوہ کے آنے کی اطلاع دی جاتی ہے اس پر جاہلانہ مباحثہ ہوتا ہے ۔۔۔۔ ایکٹ کی ڈرامائی اہمیت میں اعتماد خان سپاہی ایک سپاہی عالم و محتسب کی حیثیت سے۔  شیخ شاہ سرمد رحمہ اللہ کے سوانحی حالات کی جھلکیاں ملتے ہیں۔ عالموں کا مصلحتی اندازہ عالمگیر کا شخصی تعارف اور وکیلِ شیخ سرمد رحمہ اللہ کی بے باک زندگی کی جھلکی ملتی ہے 


وکیل شیخ کی نخیف وزار دکھائی دیتے ہیں پانچویں ایکٹ میں ملتا ہے شیخ سے قلبی یگانگت اور ان کی اضطرابی شاگردوں کو گھر واپسی کے حکم سے ہوتی ہے ۔ وہ لطف اللہ سعد الدین اور حفظ الرحمن کو جواب تو دیتے ہیں پر خود سکونِ قلب سے محروم ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب کے جام شہادت کی برتری کا احساس دلاتے ہیں اور ملا کی خود کلامی سے پلاٹ کو سنجید اور متاتر بناتے ہے۔ 

اب لکھتے لکھتے جب ہم متاثر ہوئے تو ڈراما خانہ جنگی کا سرسری مطالعہ کرنے پر بھی مجبور ہوئیں


شاہجہان پہلے ایکٹ میں نمودار ہوتے ہیں اس کے بعد واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دارا شکوہ کی شکست کے بعد عنانِ حکومت اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھ میں رہا 


 تاریخی ثبوت اس بات کی شاہد ہے کہ موصوف کی شخصیت بہت پر کشش تھی اور آخری عمر میں چہرے پر خوبصورت داڑھی بہت دیدہ زیب لگتی تھی پر ڈرامہ میں شخصیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے اگر چہرے کی اداسی کا ذکر ہے جو کہ ملکی و سیاسی کشمکش غمازی کرتا ہے۔ 

شاہجہاں جہاں اپنے اخلاف میں دارہ شکوہ سے محبت کرتے تھے وہیں ملکی امور کے معاملے میں وہ اورنگ زیب کے معترف تھے۔ پہلے علم ان کی عزت کرتے تھے سپاہی ان پر جان دیتے تھے۔  داراشکوہ طریقت کا حامی تھا اور اورنگزیب شریعت کا دونوں کے اختلاف نے خانہ جنگی کرائی اور شاہجہان اپنی نونمانوں خاک و خون میں تڑپتے دیکھتا رہا۔ ان کی انسانی سیرت کردار کی روشن مثال نے ان کے دور کو دور ذرین بنا دیا۔ 

ان کے بعد ڈرامہ میں بالترتیب مرکزی کرداروں میں دارا شکوہ ہے۔ وہ شاہجہان کی چہتی اولاد تھا داراشکوہ گیر مادے سے زندگی گزارتا تھا وہاں علم و صوفیوں کی صحبت میں گزارنا پسند کرتا تھا مزاج میں فرق تو عجلت پسندی کی ان کے والد ان کو کہتے تھے” دارا مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم میں اتنا تکبر کہاں سے آ گیا تمہارے مددح کو صوفی بلکہ ولی کہتے ہیں ۔تم تو نہیں چاہتے کہ اپنے خیر خواہوں کی بلاوجہ دل آزاری کرو“

حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دارا، شجاع ، مراد اور اورنگزیب سب حقیقی بھائی تھے مگر سب کی طبیعتوں میں بلا کا بعد تھا۔ دارا سب سے بڑا تھا اس لئے ولی عہد سلطنت منتخب ہوا پس باقیوں کو راس نہ آئی اورنگزیب نے چالاکی سے دھارا کی پوزیشن اس بنیاد پر نازک کر دیں کہ وہ مذہب اسلام سے متنفر ہے۔ جنگ میں نااہلیت کا اظہار بھی ہوتا ہے جب شمن کو آرام کرنے کا موقع دیتا ہے۔

دارا شیخ سرمد سے عقیدت تھی وہ برابر ان کو نان و نفقہ بھیجتا تھا ہاتھی سے اتر کر شیخ کی تعظیم کرتا تھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ سرمد سے خاص ارادت ہے۔ 

اورنگزیب

اورنگزیب المقلب ابو المنطر محی الدین محمد ۔ اورنگزیب بہادر عالمگیر بادشاہ غازی کہلوایا۔ اپنے دورِ امارت میں چند اہم تبدیلیاں کیں تمثیلا: سکوں پر کلمہ ختم کروا دیا ،قبروں پر کلمہ کندہ کرنے کی ممانعت تھی۔ پانچ وقت کی نماز کا سخت حکم تھا ۔ نشیلی اشیاء کی فروخت ممنوع تھی۔ زنا قطعہ غیر قانونی تھا۔ تقریباً ۴۳ سال کی حکومت کرنے کے بعد ۳ مئی ۱۷۰۷ میں رحلت کر گئی پر ڈرامہ میں اورنگ زیب کے متعلق کوئی باقاعدہ تعارف نہیں ہے۔ 

ڈراما کے خصوصی کردار: شاہجہان جس کا مختصر پر باقاعدگی کے ساتھ تعارف نہیں ہے داراشکوہ کا مفصل تعارف اورنگزیب کا تعارف مع باقاعدگی نہیں ہے۔ مولانا ابو القاسم کا تعارف متاثر آمیز ہوا ہے شاید اس لیے کیونکہ ان کی تعارف المیہ آمیز ہے شیخ جو پہلے یہودی تھے پھر مسلمان ہوئے تھے پر ان کا مکمل تعارف نہیں ۔


المختصر اگر خانہ جنگی کو بطور تاریخی ثبوت بھی یا حقیقی پس منظر میں تولا جائے تو بے وزنی پر ادبی ڈراموں میں متضمن کر سکتے ہے بلکہ کیا گیا ہے

ماجد کشمیری 

ڈراما کا تحقیقی جائزہ

0

 ڈراما جہاں الفاظوں کا مجموعہ ہوتا تھا وہاں اس کی شناخت اور اس کے عناصر سے تعریفِ مجموعۂ الفاظ پر صادق نہیں آتا ہے۔ اس لیے مجموعۂ الفاظ کا ایسا ہونا جس کی مصوری ہو سکتی ہے اسے ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ اگر لفظِ جدید میں اس کی ترجمانی کی جائے تو فلم کے نام سے موسوم کرنے میں مضائقہ نہ ہوگا۔ ڈرامہ فنی نقطۂ نظر سے واقعات کی کہانی ہونے کے بجائے کرداروں کی کہانی بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناوِل اور ڈرامے کا فرق بتلاتے وقت ڈرامہ کرداروں کی حکایت بن جاتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ڈرامے کو کردار کی عظمت سے یاد رکھا جاتا ہے اور کردار کی نفسِ انفرادی سے مرغوب کیا جاتا ہے۔ جس سے عامیانہ اس تمثیل سے اخذ کر سکتے ہے کہ ڈرامے میں مرکزی کردار (ہیرو) سے ہمیں فطری یگانگت و شیفتگی ہو جاتی ہے۔


 ڈراما (سوانگ) کا تجزیہ کرنے سے پہلے ڈرامے کا اساس و ارتقا کی شناسائی کرتے ہے۔ ڈرامہ یونانی زبان کا لفظ ہے اس کا مصدر اسپا (سپا،spaw) ہے۔ جس کے معنی کرکے دکھانا ہے جس کی بالا میں تفسیر ہوئی ہے۔ ڈرامہ پہلے شاعری کا جزو سمجھا جاتا تھا اور منظومیت شرط تھی۔اب یہ مستقل ادبی صنف و شرطِ منظوم سے جدا ہے بلکہ اب تو منظومی ڈرامے بہت کم لکھے جاتے ہیں۔


اگر اب شرطِ ڈراما ہے تو ڈراما دل پذیر و مقناطیس ہے۔ یعنی ہر شے کی عکاسی ہو اور ڈراما ٹسٹ کے الفاظ مبین ہو (جس میں کسی تفسیر کی حاجت نہ ہو)۔

سوانگ کے دو اہمہ قسمیں ہے۔ المیہ: مشاہدۂ نفس سے معلوم ہوتا ہے کہ الم کا جذبہ راحت سے زیادہ قوی، گہرا اور دیرپا ہوتا ہے راحت و مسرت سے انسان کے جسم و روح پر نشہ سا مسلط ہو جاتا ہے اس لئے اس کا احساس کسی قدر کند ہوتا ہے بہ خلاف اس کے الم حس اور ادراک کو اس قدر تیز کر دیتا ہے کہ انسان کی ہر خلش، ہر کسک صاف محسوس ہوتی ہے۔ آپ خوب واقف ہوں گے کہ ڈرامے(فلموں) میں منظرِ المیہ ہم دل کی آنکھ کھول کر اور تاثیر کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ (کیونکہ المیہ سے فرحیہ بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے) پہلے پہل تو المیہ کو ظاہر کرنے کے لیے ڈرامہ نوشت کیا جاتا تھا تخمینا شکسپیر کے فرحیوں کے دیکھنے کے بعد اہلِ نظر اسے مبدل کرنے پر آمادہ و مجبور ہوئے لیکن اس میں اب بھی شائبہ نہیں ہو سکتا کہ دنیا کی ہر زبان میں بہترین ناٹک تقریباً سب کے سب المیئے ہے۔


دوسرا فرحیہ: اس کا اندازہ ہوگیا ہے کہ ڈرامہ میں جذبات کا عمیق اثر ہوتا ہے اس لیے فرحیہ ڈراموں میں وہ کسی قدر کم ہوتا ہے۔ اس سبب موصوف قسم کے ڈرامے بے اثر، کم دیکھے اور ناپسند کیا جاتے ہیں۔ دور حاضر میں گر چہ فرحیہ ڈراموں کو بھی  نا پسند نھیں کیا جاتا ہے جیسے کشمیری کل خراب پر آپ محسوس کرتے ہوگئیں عین وقت پر مزاخ کا رخ ناصحانہ ہو جاتا ہے۔ جس سے قارئین اس کی داد دیتا ہے۔ اطوال کا خوف نہ ہوتا اس کے طویل کرتے، اب قارئین کے فہم پر موقوف رکھتا ہوں۔

ڈرامے کے اجزاء ترکیبی: منصفِ بوطیقا کے مطابق اس کے چھ جزو ہے: پِلاٹ: عملی مشق اور باہمی ربط کو پلاٹ کہا جاتا ہے ۔ 

دوجا کردار: اشخاص کی افادیت کا تخمینہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوت ہے بغیر کرداروں کی نقل و حرکت سے ناٹک سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسے، ناقل کے اشک جوئی سے منظرِ نا خوش آئندہ کا قیاس ہوسکتا ہے۔ اور خوش وخرم سے تقریبِ فرحان کی اٹکل کی جاسکتی ہے۔

تیجا مکالمہ: سوانگ کی حکایت کو آگے بڑھنا، پہلو کی توضیح ، فضا میں معاونت کرنا موصوف سے مقصود ہوتا ہے۔  

چوتھا زبان: زبان سے ڈرامے کی معدویت تو نھیں ہے پر ضروری الظاہر ہے۔ اور زبان عامیانہ ہونا بھی کسے سے کم ہے۔ 

پانچواں و چھٹا: موسیقی و آرائش: درو معشوق میں اب ان کی بھی اہمیت کا انکار نھیں کیا جاسکتا ہے۔ 

ضمیمہ نوٹ: سر والے گانے اور سر والی موسیقی چاہے صوفی کا لیبل ہی کیوں نہ ہو دین فطرت( اسلام) میں حرام ہے۔ 

الحاصل ڈراما نگاری کا صحیح استعمال افادہ سے خالی نھیں پر جدید اشکال فحاشت کے اسباب بھی ہیں۔ جن سے اجتناب از حد ضروری ہے۔

ڈراما خانہ جنگی کا تنقیدی جائزہ

ماجد کشمیری

30 May 2022

کولگام سے کونگ وٹن تک

0

 سفر کا آغاز ہو والدین کی دعا نہ ہو ممکن نہیں۔ ہمارے سفرِ کنگ واٹن کا آغاز بھی دعائے مقبول سے ہوئی۔ ہم برادری میں عین وقت پر متضمن ہوا، اس لیے والدین کو خاصی اطلاع نہ تھی۔ خیر فجر سے پہلے پہل غسل کیا اور نماز ادا کرنے کی توفیق ملی اور ہم برادری کے راقب ہوئیں۔ ۔۔۔۔۔۔ ریستوران سے توشۂ سفر لینے کے بعد ہم اھربل تک نظموں و نعتوں کے سہارے سفرِ سیارہ زائل کر رہے تھے۔ اضطرابیت اور مسروریت سے ہم منزل مقصود کی رسائی کے منتظر تھیں۔۔۔اھربل پہنچتے ہی عمیم کی دوش آبشار کی طرف منعطف ہوئی۔۔۔۔ اتفاقاً ہمارے استاذ پرکٹ ہوئے اور ہم مودب ہو کے سلام و دعا کرنے لگے، جیسے ہی وہ ہم سے اوجھل ہوہے تو دوڑ پھر پرواز چڑھ گئی اور وہی رک گئی جہاں پر جھرنے نے ششدر کردیا۔


یہ کیسی بہتی ہے پہاڑوں سے ندی

 برسوں سے دیکھتی خدا کی عالی 

 وہ جھرنا وہ جھرنے کا پانی 

آقا کی نعمت اور بھی کہانی 

 


شقاوت سے اعتراف کرنا پڑ رہا ہے برادری بے لوث مصوری میں مبتلا ہوئی جو کہ اسلام کے اصل کے خلاف تھی۔۔۔۔۔ خیر خدا کی نعمتوں کا اعتراف کر کے، چائے کی چسکی لینے کے لیے ڈھابے کی طرف نکلے۔ اب سفر پاپیادہ تھا، ڈھابے سے ضمیمہ اشیا لے کر کمربستہ ہو کر چلنے کی تیاری کرنے لگے۔

 ع   سبزار مائل کر رہا تھا

ظاہری غم زائل کر رہا تھا۔

 ہماری مسروریت کچھ زیادہ ہی تھی ہم آگے چلے گے اور گم راہ ہوئے، راہِ باطلہ پر ایک گامی ملا سلام و دعا کی اور بولیں آپ کو کہاں جانا ہے؟ جی! کونگ واٹن۔ اچھا، وہاں کا راستہ وہ ہے۔ جٓی شکریہ ۔۔۔ آپ کی عاطفت۔۔۔ اور میرے شبھ چنتک بھائی بندی میں انتشار ہوا تھا جس پر ہمیں تربیتی ڈانٹ بھی تسلیم کرنی پڑی۔۔۔۔۔ آہ آہ ۔۔۔۔ہاہا۔۔


سچ کہوں تو برادری سست تھی۔۔۔۔۔، ہم سے ایک ہم  قوت فرد ملیں وہ عرب امارات میں رہتے ہے جس کے باعث وہ عربی سے آشنا ہے۔ عربی میں باتیں کرنے لگیں اور چلتے بنے۔۔۔ برادری بکری کے ساتھ قبیحہ مصوری کرنے لگے، اس پر وہ کہنے لگے ۔


کل ھم مشغول بالماعز نذھب، سرعہ سرعہ۔ 

ایوہ مدیر لنذھب سرعہ سرعہ الی تنغ واتن

خیر بہت باتیں ہوہی عربی میں، ہم اہل عرب نہیں، چلتے چلتے آپ ہم تھک گے اور اب توشۂ سفر بھی بوجھ و بوجھل لگنے لگا۔ ذہن کو منتشر کرنے کے لیے آپس میں سامان تبدیل کیا تاکہ دماغ یہ سمجھیں کی وزن کم ہوا ورنہ وزن سب میں  برابر تھا،۔۔۔۔ ہمیں چھوڑ کر۔۔۔۔ جس کی بھرپائی مراجعت کے سمے ہوئی۔ ۔۔۔ بوجھل ہی سہی، آپہنچنا نصیب ہوا ۔۔۔۔۔ خیر! مادیت پرستی انسان کو کہاں چھوڑتی، پیٹ پوجا شروع ہوئی۔۔۔ ہر سمت صعود ہی صعود تھی، قیام پزیر ہوئے تو کہاں! اُدھر ادھر، نہیں وہاں۔۔۔۔ اب یہاں۔۔۔۔ طعام کے بعد مقابلہ مابین ہوئی جس میں ہمیں۔۔۔۔۔ ہوئی۔۔۔ سب وضو کرنے لگے اور بارش شروع ہوئی ہم نے حکومتی پنڈال میں بانگِ ظہر دیکر نماز ادا کی اور جانا تو اونچائیوں پر تھا، کھیلنے لگے عملہ چروا : ارے وہی کرکٹ نا۔ جس کے باعث گھومنے میں خاصا فرق پڑ گیا، اور وقتاً فوقتاً گہوارش کا آنا سیر وتفریح کے لئے مانع بن رہا تھا۔ برف سے لبا لب پہاڑیاں جو احساس دلا رہی تھی کہ اصل خوبصورتی سے مستعبد ہو۔ جب تک ہم منعطف ہوتے مہلت ختم ہوئی تھی اور مصوری کی دنیاوی سزا بھی مل گئی۔ اور ژالے گرنے لگے اور وہیں پنڈال میں تھم جانا کا انتظار کر رہے تھے۔ ۔۔۔ ۔۔ معاودت پر وہی مکافات لیا ۔۔۔۔۔ مراجعت کے سمے ہمارا پالا جاموس سے پڑا۔ برجستہ احدھما بولیں کہ یوں ہی علما کو ان میں اختلاف نہیں! سب نے واہ واہ کی۔۔۔۔  اصلاً ان کی حلت و حرمت میں کس بھی فرد کو اختلاف تو نہیں۔ ہاں ایک منڈل اپنی مفارقت دیکھنے کے لیے ان کی قربانی مشکوک سمجھتے ہے، اصلیت یہ کہ جب ساڑھے گیارہ مہینے ۲۸ یوم حلال ہے، پھر دو دن میں مشکوک کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔ ( لحمہْ فکریہ)۔۔۔    ایک لمبی وادی میں طعام کے لیے رکیں اور پھر قیام ابدی کی طرف متوجہ ہوئے اور ۔۔۔۔ سیکھنے سمجھنے کے لئے بہت کچھ تھا، پر ہم میں شاید وہ لیاقت نہ تھی کہ ادراک کر سکیں۔ پر دن ضائع بھی نہیں ہوا۔۔۔ آخر آغوشِ ماں نے لیل ونہار کو بیش بہا بنا کر، ہمیں آسود بنا دیا۔ الحمدللہ علی کل نمعہ


ماجد کشمیری

۱۹/مئی /۲۰۲۲


© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں