وہ خطۂِ زمین آباد ہوتی ہے، آغوش میں مدرسہ ہو جس سے۔ ہماری سر زمین پر اللہ کی عاطفت ہوئی ایسی، ملا مکین مدرسے کو یہی۔ گرچہ عنفوان میں ہے مگر قلیل مدت میں توسیع ہونا، اس کے عزم آوری کا ثبوت ہے۔ اللہ کی عاطفت و عافیت سے وہ صحیح معنوں میں اسلام کے خدمات انجام دے گا۔
مدارس کی اہمیت و فضیلت کا تذکرہ ہی نہیں۔ کیوں کہ یہ تاباں ہے کہ مدارس ریڈ کی ہڈی ہے۔ یہ بھی درخشاں ہے مدارس کے نصاب سے آج کی مترقی یونیورسٹیاں ہم سری نہیں کر سکتیں ہیں۔ یہ الفاظ میں ہیجانی نہیں بل کہ تحقیقی طور پر نوشت کیا ہیں۔ نہ صرف علومِ دینیہ اور اس کی تحصیل کے لیے استعمال شدہ زبانوں میں بل کہ انگریزی میں فاغلین وہ کمال حاصل کر چکیں ہیں جس کی مثال باقیہ یونیورسٹیوں میں ملانا عدم کے برابر ہے۔ زبان گرچہ ہر فن کے اکتساب کے لیے واجب ہے، ان کے ورے ہر ہنر میں مفلح نظر آنے والے طلبۂ مدارس ہوتیں ہیں۔ یہاں یہ وضاحت کرنی بھی رو سمجھتے ہوں، کہ کچھ مدارس میں نصاب و نظام میں، وہ اضحلال آشنا ہوتی ہے جس سے وہ عصر حاضر کے تقاضوں اور اس سے مساوات نہیں کر سکتے ہیں۔ ان میں تغیر لانے کی اشد ضرورت ہے ( پر ہر کلیہ کے لیے تنوع تخصصات ہونے بھی لازم ہیں۔)
عصرِ حاضر جن کا متقاضی ہے، ان کو پورا کرنے مدارس کی ثقافت اور اسلاف کی میراث ہے۔ اگر ہم اس میں اضمحلال کا مظاہرہ کریں گے تو اسلام کو خاصا نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ جمود بھی نظر آنے لگا ہے کہ علومِ قرآنیہ اور علومِ حدیث کو ہی علوم شرعیہ تصور کیا جاتا ہے جب کہ دینِ فطرت ہر پہلو میں رہنمائی کرتا ہے جو کہ اس کی خصوصیت ہے۔ اس لیے تمام علوم نافع علوم شرعیہ کہلائے گیں۔
مدارس اسلامیہ جمار، فروغ دین کے لیے اعیان کے ساتھ ساتھ تبلیغ و تفہیمِ شریعت کے لیے مواد بھی تیار کرتے رہتے ہیں۔ اسی کام کو عہدِ نبوت میں، ہر چیز پر ترجیح دی جاتی تھی۔ پر اب کیوں نہیں؟ بسببِ بُعدِ عہدِ نبوت ہم ہر طرح سے دانشکدۂ اسلام سے دوری اختیار کرتے رہیتے ہیں، جب کہ تعلیمِ نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم یوں تھی؛
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو اس موقع سے انھوں نے آپ میں سے فرمایا کہ کیا میں اپنے بیٹے کا عقیقہ کر لوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں ؛ بلکہ تم یہ کام کرو کہ اس کے سر کے بال کاٹ لو اور اس کے وزن کے برابر چاندی غرباء اور اوفاض (وہ صحابہ کرام مراد ہیں جو تعلیم کے لئے بے سروسامانی کی حالت میں مسجد نبوی میں پناہ گزیں تھے ، یعنی اصحاب صفہ ) پر صدقہ کرلو؛ چنانچہ حضرت فاطمہ نے اس موقع سے اور حضرت حسین کی ولادت کے موقع پر بھی یہی کام کیا۔
عقیقہ کی خوشی کے موقع پر ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنے اعزاوا قارب اور دوست و احباب کو اس مسرت کے حوالے سے مدعو کرے اور رسم دنیا بھی یہی ہے ، لیکن اس کے باوجود آپ کسی کا یہ مال اصحاب صفہ پر صدقہ کرنے کی ترغیب دینا یہ اس بات کا غماز ہے کہ طالبان علوم نبوت پر خرچ کرنا عام مسلمانوں پر صدقہ کرنے سے بدر جہاں بہتر ہیں ( مولانا محمد فرقان پالن پوری دامت برکاتہم العالیہ)
انہیں طالبان علوم نبوت کے بارے میں قرآن میں اشارہ ہیں، بل کہ اکثر مفسرین کے نزدیک ہے کہ انہیں ہی متعلق نازل ہوئی ہے مندرجہ آیت:
اصل حق ان ضرورت مندوں کا ہے جو اللہ کے راستے میں گھرے ہوئے ہیں ، وہ زمین میں چل پھر نہیں سکتے ، دست سوال نہ پھیلانے کی وجہ سے ناواقف لوگ ان کو مالدار سمجھتے ہیں، تم ان کو ان کے چہرے سے پہچان سکتے ہو ، وہ لوگوں سے نرمی کے ساتھ مانگا نہیں کرتے ، تم جو بھی مال خرچ کرو گے، اللہ تعالی اس سے واقف ہیں ۔( آسان ترجمہ قرآن: مولانا خالد سیف اللہ حفظہ اللہ تعالیٰ)
اب قرآن و حدیث و فقہاءِ اسلام نے ان کے لیے متعین مصارف رکھیں ہے۔
جیسے حضرت ابن نجیم مصری البحر الرائق میں فرماتے ہیں :
التصدق علی العالم الفقیر أفضل۔
محتاج عالم دین پر خرچ کرنا اور اسے زکوۃ کا مال دینا عام لوگوں پر صدقہ کرنے سے اور ان کو زکوۃ کا مال دینے سے بہتر ہے۔
اسی طرح علامہ ابن عابدین شامی نے رد المحتار میں یہ بات نقل فرمائی ہے : أن من مصارف بیت المال کفایۃ العلماء ، وطلاب العلم المتفرغین للعلم الشرعی
بیت المال کے مصارف میں سے ایک مصرف علماء کی مالی اعانت کرنا ہے اور ان لوگوں کی جنھوں نے اپنے آپ کو علوم شرعیہ کے حصول کے لئے فارغ کر رکھا ہے۔
احتصارا، باہم، طالبان علوم شرعیہ و عامۃ الناس اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور ان فرائضہ کو ادا کرنے میں جد و جہد کریں، تاکہ وہ علمی میراث زندہ جاوداں رہیں۔ وہ عدہ پورا ہو جس کی بشارت رب العالمین نے دی تھی: کہ تم ہی غالب رہو گے!