بحکم دانشکدہ کلگام ہمیں دو مختلف موضوع پر نوشت کرنے کا حکم ملا تھا پر ہمیں آخر میں معلوم ہونے کے سبب دونوں موضوع میں ربط ظاہر کرنے میں ناکام رہے تاہم ان میں ربط تلاشی سے ملتا ہے مضمونِ مقدم میں اس کا خیال رکھے بغیر کوئی چارا نہ رہا۔ حیر باعثِ قلتِ وقت ہمیں ڈرامہ خانہ جنگی کا مطالعہ کا موقع نہ ملا اس لئے راہِ مستقیم پر چل کر شرافت اللہ کی کتابچہ ڈرامہ خانہ جنگی کا تنقیدی مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا اس لئے اس میں کسی حد تک مقلدانہ رویہ بھی مل سکتا ہے۔
کالج کے منتخب کردہ مضامین گرچہ عدداً پانچ ہے پر طے شدہ طور پر ان میں خاصا ربط پایا جاتا ہے جس کے سبب اگر کسی موضوع پر محققانہ تحریر کیا جائے تو تمام کا خلاصہ نویسی ہوگا اس کو پیش نظر رکھ کر مقالہ لکھا جا رہا ہے۔ (اس لیے ہمیں خلاصہ نویس لقب مل سکتا نہ کہ مضمون نگار کا)
کشمیر میں اردو اگرچہ ہندوستان کے مقابلے میں بعد میں پہونچا کیوں کہ تاریخاً ملکِ کشمیر تہذیبِ ہندوستان کا حصہ نہ تھا پھر بھی بھارت کے پس ازاں نہیں ہے۔
کھانا جنگی کا عنوان شاہجہان کے دعوے حکومت 16 فروری ۱۶۲۷ٕ سے ہوتا ہے جب موصوف کے اِمارت میں غم و الم سے لبریز تھا اور شاہ جہاں اپنے اخلاف کی خانہ جنگی سے سخت پریشان تھے۔ اسی خانہ جنگی میں اورنگزیب جو ملہوف القلب اور چالاکِ مطلق مراد کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور یہ طے ہو جاتا ہے کہ دارالشکوہ سے مقابلہ کرتے ہیں جس میں اورنگزیب فاتحِ بن جاتا ہے۔ داراشکوہ محراب سے بھاگ کر دہلی چلا گیا اورنگزیب نے دلی فتح کر لی اور دارا شکوہ لاہور کی طرف بھاگ گیا ۳۱ جولائی ۱۶۵۷ میں اورنگزیب نے خود کو شاہنشا کا خطاب دیا۔
ڈرامہ کی پہلی ایکٹ میں شاہجہان کی کردار سے صلح و صفائی کا اظہار ہے دارا شکوہ کی زندگی آزاد مزاج کی جھلکیاں کے موجود ہے۔ پرجا کی رائے اورنگزیب کے متعلق کیا ہے ان کا اظہار ہوتا ہے دور شاہجہانی میں عوام شریعت اور طریقت کی جنگ میں الجھے ہوئے تھے۔
عنفوان ایکٹ دوجا کردارِ شاہ شیخ سر مد سے شروع ہوتا ہے ۔ جو دور شاہجہان کے معروف صوفی تھے ان کے اردگرد متعلقین کا اژدحام ہوتا ہے۔ سپاہی خوان لے کر آتا ہے۔ دسترخوان میںوہ دیکھ کر داراشکوہ کی ہار کے متعلق جان جاتے ہیں۔ لڑکے کے ٹال دینے کے بعد ابرہم بد خشانی آتا ہے۔ یہ شیخ کا مرید تھا۔ شیخ ان سے ناراض لہجے میں گفتگو کرتے ہیں درمیان میں دو لڑکے ظاہر ہوکر ۔۔۔ دارا شکوہ کے آنے کی اطلاع دی جاتی ہے اس پر جاہلانہ مباحثہ ہوتا ہے ۔۔۔۔ ایکٹ کی ڈرامائی اہمیت میں اعتماد خان سپاہی ایک سپاہی عالم و محتسب کی حیثیت سے۔ شیخ شاہ سرمد رحمہ اللہ کے سوانحی حالات کی جھلکیاں ملتے ہیں۔ عالموں کا مصلحتی اندازہ عالمگیر کا شخصی تعارف اور وکیلِ شیخ سرمد رحمہ اللہ کی بے باک زندگی کی جھلکی ملتی ہے
وکیل شیخ کی نخیف وزار دکھائی دیتے ہیں پانچویں ایکٹ میں ملتا ہے شیخ سے قلبی یگانگت اور ان کی اضطرابی شاگردوں کو گھر واپسی کے حکم سے ہوتی ہے ۔ وہ لطف اللہ سعد الدین اور حفظ الرحمن کو جواب تو دیتے ہیں پر خود سکونِ قلب سے محروم ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب کے جام شہادت کی برتری کا احساس دلاتے ہیں اور ملا کی خود کلامی سے پلاٹ کو سنجید اور متاتر بناتے ہے۔
اب لکھتے لکھتے جب ہم متاثر ہوئے تو ڈراما خانہ جنگی کا سرسری مطالعہ کرنے پر بھی مجبور ہوئیں
شاہجہان پہلے ایکٹ میں نمودار ہوتے ہیں اس کے بعد واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دارا شکوہ کی شکست کے بعد عنانِ حکومت اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھ میں رہا
تاریخی ثبوت اس بات کی شاہد ہے کہ موصوف کی شخصیت بہت پر کشش تھی اور آخری عمر میں چہرے پر خوبصورت داڑھی بہت دیدہ زیب لگتی تھی پر ڈرامہ میں شخصیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے اگر چہرے کی اداسی کا ذکر ہے جو کہ ملکی و سیاسی کشمکش غمازی کرتا ہے۔
شاہجہاں جہاں اپنے اخلاف میں دارہ شکوہ سے محبت کرتے تھے وہیں ملکی امور کے معاملے میں وہ اورنگ زیب کے معترف تھے۔ پہلے علم ان کی عزت کرتے تھے سپاہی ان پر جان دیتے تھے۔ داراشکوہ طریقت کا حامی تھا اور اورنگزیب شریعت کا دونوں کے اختلاف نے خانہ جنگی کرائی اور شاہجہان اپنی نونمانوں خاک و خون میں تڑپتے دیکھتا رہا۔ ان کی انسانی سیرت کردار کی روشن مثال نے ان کے دور کو دور ذرین بنا دیا۔
ان کے بعد ڈرامہ میں بالترتیب مرکزی کرداروں میں دارا شکوہ ہے۔ وہ شاہجہان کی چہتی اولاد تھا داراشکوہ گیر مادے سے زندگی گزارتا تھا وہاں علم و صوفیوں کی صحبت میں گزارنا پسند کرتا تھا مزاج میں فرق تو عجلت پسندی کی ان کے والد ان کو کہتے تھے” دارا مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم میں اتنا تکبر کہاں سے آ گیا تمہارے مددح کو صوفی بلکہ ولی کہتے ہیں ۔تم تو نہیں چاہتے کہ اپنے خیر خواہوں کی بلاوجہ دل آزاری کرو“
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ دارا، شجاع ، مراد اور اورنگزیب سب حقیقی بھائی تھے مگر سب کی طبیعتوں میں بلا کا بعد تھا۔ دارا سب سے بڑا تھا اس لئے ولی عہد سلطنت منتخب ہوا پس باقیوں کو راس نہ آئی اورنگزیب نے چالاکی سے دھارا کی پوزیشن اس بنیاد پر نازک کر دیں کہ وہ مذہب اسلام سے متنفر ہے۔ جنگ میں نااہلیت کا اظہار بھی ہوتا ہے جب شمن کو آرام کرنے کا موقع دیتا ہے۔
دارا شیخ سرمد سے عقیدت تھی وہ برابر ان کو نان و نفقہ بھیجتا تھا ہاتھی سے اتر کر شیخ کی تعظیم کرتا تھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ سرمد سے خاص ارادت ہے۔
اورنگزیب
اورنگزیب المقلب ابو المنطر محی الدین محمد ۔ اورنگزیب بہادر عالمگیر بادشاہ غازی کہلوایا۔ اپنے دورِ امارت میں چند اہم تبدیلیاں کیں تمثیلا: سکوں پر کلمہ ختم کروا دیا ،قبروں پر کلمہ کندہ کرنے کی ممانعت تھی۔ پانچ وقت کی نماز کا سخت حکم تھا ۔ نشیلی اشیاء کی فروخت ممنوع تھی۔ زنا قطعہ غیر قانونی تھا۔ تقریباً ۴۳ سال کی حکومت کرنے کے بعد ۳ مئی ۱۷۰۷ میں رحلت کر گئی پر ڈرامہ میں اورنگ زیب کے متعلق کوئی باقاعدہ تعارف نہیں ہے۔
ڈراما کے خصوصی کردار: شاہجہان جس کا مختصر پر باقاعدگی کے ساتھ تعارف نہیں ہے داراشکوہ کا مفصل تعارف اورنگزیب کا تعارف مع باقاعدگی نہیں ہے۔ مولانا ابو القاسم کا تعارف متاثر آمیز ہوا ہے شاید اس لیے کیونکہ ان کی تعارف المیہ آمیز ہے شیخ جو پہلے یہودی تھے پھر مسلمان ہوئے تھے پر ان کا مکمل تعارف نہیں ۔
المختصر اگر خانہ جنگی کو بطور تاریخی ثبوت بھی یا حقیقی پس منظر میں تولا جائے تو بے وزنی پر ادبی ڈراموں میں متضمن کر سکتے ہے بلکہ کیا گیا ہے
ماجد کشمیری