سجدہ سہو کا طریقہ اور اس کے دلائل

0

سجدہ سہو کا طریقہ اور اس کے دلائل  

باب ما جاء فی سجدتی السہو  قبل السلام




عن عبد اللہ ابن بحینہ الاسدی بحینہ ان کے والد کا نام ہے (قبل اسم ابیہ) اور والد کا نام مالک ہے، لہذا عبداللہ ابن بحینہ (رضی اللہ عنہ) میں ابن کا ہمزہ لکھنا ضروری ہے، کیونکہ الف صرف اس صورت میں ساقط ہوتا ہے جبکہ علمین متناسلین کے درمیان ہو،


فلما اتم صلوتہ سجد سجدتین یکبر فی کل سجدۃ وہو جالس قبل ان یستم،  اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ سجدہ سہو سلام سے پہلے ہونا چاہئے یا بعد میں، حنفیہ کے نزدیک سجدہ سہو مطلقاً بعد السلام ہے، اور امام شافعی (رحمہ اللہ) کے نزدیک مطلقا قبل السلام،


جبکہ امام مالک ( رحمہ اللہ) کے نزدیک یہ تفصیل ہو کہ اگر سجدہ سہو نماز میں کسی نقصان کی وجہ سے واجب ہوا ہے تو سجدۂ سہو قبل السلام ہو گا، اور اگر کسی زیادتی کی وجہ سے واجب ہوا ہے تو بعد السلام ہو گا۔ ان کے مسلک کو یاد رکھنے کے لئے اس طرح تعبیر کیا جاتا ہے کہ ”القاف بالقاف والدال بالدال“ یعنی ”القبل بالنقصان والبعد بالزیادۃ " امام احمد ( رحمہ اللہ) کا مسلک یہ ہو کہ آنحضرت صلی علیہ وسلم سے سہو کی جن صورتوں میں سجود قبل السلام ثابت ہے وہاں قبل السلام پر عمل کیا جائے گا، مثلاً حدیثِ باب میں قعدہ اولیٰ کے ترک پر، اور جہاں آپ سے بعد السلام ثابت ہے، ان صورتوں میں بعد السلام پر عمل ہوگا، مثلاً چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پر سلام پھیر دینے کی صورت میں کما فی حدیث ذی الیدین ( جامع ترمذی ( ج ۱،ص ۷۸) باب ما جاء فی الرجل یسلم فی الرکعتین الظہر و العصر)  اور جن صورتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں وہاں امام شافعی ( رحمہ اللہ) کے مسلک کے مطابق قبل السلام سجود ہو گا، امام اسحق (رحمہ اللہ) کا مسلک بھی یہی ہے، البتہ جس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہ ہو وہاں وہ امام مالک ( رحمہ اللہ کے مسلک کے مطابق ”القاف بالقاف و الدال بالدال“ پر عمل کرتے ہیں ، بہر حال ائمہ ثلاثہ کسی نہ کسی صورت میں سجدہ سہو قبل السلام کے قائل ہیں، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہر صورت میں بعد السلام پر عمل کرتے ہیں، یہاں یہ ذہن میں رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل السلام اور بعد السلام دونوں طریقے ثابت ہیں، اور یہ اختلاف محض افضلیت میں ہے، ائمہ ثلاثہ کا استدلال حضرت عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیثِ باب سے ہے، جس میں آپ نے قعدہ اولیٰ چھوٹ جانے کی وجہ سے قبل اسلام سجدہ فرمایا،


اس کے برخلاف حنفیہ کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:-

۱۔  اگلے باب (باب ماجاء فی سجدتی السہو بعد السلام والکلام) میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی حدیث آرہی ہے، ”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی الظہر خمسا فقیل لہ ازید فی الصلوۃ ام نسیت فسجد سجدتین بعد ما سلم “ قال ابو عیسی ہذا حدیث حسن صحیح، 

٢.  ترمذی کے سوا تمام صحاح میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: 

 

واذا شک احدکم فی صلاتہ فلیتحرّ الصواب فلیتم علیہ ثم یسلم ثم یسجد سجدتین {( اللفظ للبخاری)  انظر الصحیح البخاری ج ۱ ص ۵۷و ۵۸ ،  کتاب الصلاۃ باب التوجہ نحو القبلۃ حیث کان، والصحیح مسلم (ج ۱ ص (۲۱۱و۲۱۲) باب السہو فی الصلوۃ والسجود لہ و السنن للنسائی (ج ۱ (ص ۱۸۴) کتاب السہو باب التحری، سنن  لابی داؤد ( ج ۱،  ۱۴۶) باب اذا اصلے خمسا و سنن لابن ماجہ (ص۸۵) باب ماجاء فیمن سجد ہما بعد السلام ۱۲رشید اشرف نفعہ اللہ بما  علمہ و علمہ ما ینفعہ،}



(۳) ابو داؤد {(ج ۱ ص۱۴۸ و ۱۴۹) باب من نسی ان یتشہد و ہو جالس} اور ابن ماجہ {(ص۸۵) باب ما جاء فیمن سجدھا بعد السلام} میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے :-  ” لکل سہو سجدتان بعد ما یسلم“ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کا مدار اسمٰعیل بن عیاش پر ہے، جو ضعیف ہے، 



اس کا جواب یہ ہے کہ اسماعیل بن عیاش حفاظِ شام میں سے ہیں، اور ان کے بارے میں پیچھے یہ قول فیصل گزر چکا ہے کہ ان کی روایات اہلِ شام سے مقبول ہیں، غیر اہلِ شام سے نہیں، اور یہ حدیث انھوں نے عبداللہ بن عبید اللہ الکلاعی سے روایت کی ہے ، جو اہلِ شام سے ہیں، لہذا یہ حدیث مقبول ہے،


(۴)  سنن نسائی {(ج ۱ ص۱ ۸۵)، باب التحری ، کتاب السہو و سنن ابو داؤد {( ج ۱ ص ۱۴۸) باب من قال بعد التسلیم)  میں حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ علیہ وسلم کی روایت مروی ہیں: ” قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شک فی صلاتہ فلیسجد سجدتین بعد ما یسلم،


(۵) ترمزی (ص(۷۳) میں پیچھے باب ماجاء فی الامام ینہض فی الرکعتین ناسیا“ کے تحت حضرت شعبی کی روایت گزر چکی ہے ، ”قال صلی بنا المغیرۃ بن شعبۃ فنہض فی الرکعتین فسبخ بہ القوم وسبح بہم فلما قضی صلوٰتہ ملم ثم سجد سجدتی السہو، وہو جالس ثم حدثہم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعل بہم مثل الذی فعل .....  اس روایت میں بھی سجدہ سہو بعد السلام کی تصریح ہے، 

(۶) حضرت ذوالیدین کے واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا عمل سجدۂ سہو بعد السلام بتلایا گیا ہے، چناں چہ اس واقعہ میں یہ الفاظ مروی ہے: فصلی اثنتین اخریین ثم سلم ثم کبر فسجد الخ { ترمذی (ج ۱ ص ۷۸) باب ما جاء فی الرجل یسلم فی الرکعتین من الظہر و العصر}

حنفیہ کے ان دلائل میں قولی احادیث بھی ہیں اور فعلی احادیث بھی، اس کے بر خلاف  ائمۂ  ثلاثہ کے پاس صرت فعلی احادیث ہیں، (جو جواز پر محمول ہیں) لہذا حنفیہ کے دلائل راجع ہوں گے ، اور حضرت عبداللہ ابن بحینہ کی حدیثِ باب کا جواب یہ ہے کہ وہ بیانِ جواز محمول ہے، نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں قبل السلام سے مراد وہ سلام ہو جو سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھ کر آخر میں کیا جاتا ہے،


”ویقول (ای الشافعی) ہذا الناسخ لغیرہ من الاحادیث و یذکر ان آخر فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان علی ہذا “ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بعد السلام کی روایات منسوخ ہیں، اور وہ اُن کے لئے حضرت عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیثِ باب کو ناسخ مانتے ہیں،


لیکن نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں اور محتاجِ دلیل ہے جبکہ یہاں کوئی دلیل نہیں، اگر چہ امام شافعی رحمہ اللہ نے نسخ کی دلیل میں امام زہری کا قول¹ نقل کیا ہے کہ سجود قبل السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل تھا“ ، لیکن امام زہری کا یہ قول منقطع ہے ، علاوہ ازیں یحییٰ ابن سعید قطان کے بیان کے مطابق امام زہری کی مراسیل شبہ لاشی²“ ہیں، لہذا اس سے نسخ پر استدلال نہیں کیا جا سکتا،

 

¹ عن الزہری قال سجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدتی السہو قبل السلام وبعدہ و آخر الامرین قبل السلام، لیکن خود علامہ ابوبکر حازمی شافعی ” کتاب الاعتبار فی بیان الناسخ والمنسوخ من الآثار“ (ص ۱۱۵) باب سجود السہو بعد السلام والاختلاف فیہ کے تحت امام زہری کے مذکورہ قول کو نقل کرنے کے بعد آگے چل کر فرماتے ہیں ”طریق الانصاف ان نقول اما حدیث الذی فیہ دلالۃ علی النسخ ففیہ انقطاع فلا یقع معارض اللاحادیث الثابتۃ واما بقیۃ الاحادیث فی الجود قبل السلام و بعدہ قولاً وفعلاً فی ان کانت ثابتۃ صحتہ فیہا نوع تعارض غیر ان تقدیم بعضہا علی بعض غیر معلوم بروایۃ موصولۃ مسحۃ والاشیہ جمل الاحادیث علی التوسع وحواز الامرین “ احقر الورٰی رشید اشرف غفر اللہ ۔۔۔۔ 


² کذا فی معارف السنن (ج ۳ ص (۴۹۱) نقد من الخطیب فی الکفایۃ ۱۲ مرتب عفی عنہ


درس ترمذی: ص۱۴۳و۱۴۶ 

للتفصيل رجوع للكتاب المذكوره

برقی جمع و ترتیب ماجد ابن فاروق کشمیری 

فرشتوں کا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت میں ٹاٹ کا لباس پہنا کی حقیقت و تحقیق

1




السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر 18


ہبط علی جبریل علیہ السلام وعلیہ طنفسۃ وہو متخلل بہا فقلت : یا جبریل ! ما نزلت الی فی مثل ہذا الزی ؟ قال : ان اللہ تعالی امر الملائکۃ ان تتخلل فی السماء کتخلل ابی بکر فی الارض

ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے ) مجھ پر جبرائیل علیہ السلام اس حال میں اترے کہ وہ ٹاٹ کالباس اوڑھے ہوئے تھے ، تو میں نے کہا : ” اے جبرائیل ! تم تو پہلے بھی اس حلیہ میں نہیں اترے ؟ “ اس قسم کے لباس پہنے کی کیا خاص وجہ ہے ؟ ) تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ آسان میں وہ لباس پہنیں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زمین میں پہنا ہوا ہے ۔


یہ حدیث بھی زبان زد عام ہے ، حالانکہ اس حدیث کو علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ، امام این عراق رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدثین نے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے ۔ 

[بالتریب دیکھیں: 

الآلی المؤضوعہ ١/٢٩٣

تنزیۃ الشریہ المرفوعۃ ١/٣٤٣

الفوائد المجموعۃ ص ٤١٩ : رقم الحدیث ٦/١٠٤٣]

علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :۔

 یہ حدیث ثابت آشنانی نے اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ہے اور اس حدیث گھڑنے کے ساتھ ساتھ نقلِ حدیث اور معرفتِ حدیث سے بھی جاہل تھا۔

[کتاب الموضوعات ٢/٥٥]


یہاں قارئین کے سامنے یہ وضاحت ضروری ہے کہ احادیث پر علم لگانے میں علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ وسلم کا تشدد مشہور ہے ، تاہم اس میں اس حدیث پر ان کے علم کو اصولی اور بنیادی حیثیت سے ذکر نہیں کیا گیا بلکہ ان کا قول کی تائیدی طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔ دیگر معتدل ائمہ حدیث و  اہل تحقیق کی رائے کوئی بنیاد بنا کر احادیث پر حکم لگایا گیا ہے۔

لہذا یہ حدیث موضوع ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے مستند مناقب و فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ جن میں انبیا کے علاوہ کوئی ان میں شریک نہیں۔ لہٰذا ان کے مناقب و فضائل بیان کرنے میں مستند روایات کو ہی بیان کیا جائے۔

برقی جمع و ترتیب : ماجد کشمیری 

قافلے کو دین کی دعوت دینے کے لیے سخت بارش میں جانا

0

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قافلے کو دین کی دعوت دینے کے لیے جانا کی تحقیق۔

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر 18




یہ روایت بھی عموماً بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ سخت آندھی اور گرج چمک والی رات میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہیں تشریف لے جاتے ہوئے دیکھا تو اس صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ اتنی سخت رات میں کہاں تشریف لے جار ہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ پہاڑ کے اس پار ایک قافلہ رات کے لیے ٹھہرا ہوا ہے ، اسے اپنی دعوت دینے کے لیے جا رہا ہوں ۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اتنی سخت رات میں جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تشریف لے جائیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں صبح ہونے سے پہلے یہ قافلہ چلا جائے اس لیے ابھی جارہا ہوں۔

یہ روایت تلاش بسیار کے باوجود کہیں نہیں مل سکی۔

(چند مشہور لیکن غیر مستند احادیث: از مفتی صداقت علی)

ابوجہل کو دین اسلام کی دعوت سو بار دی گئی

0

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوجہل کو دین اسلام کی دعوت دینا کی تحقیق۔

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر ١٦



اس بارے میں دو روایتیں عموماً گردش کرتی ہیں۔

 ایک یہ کہ آپ نے ابوجہل کو ننانوے یا سو مرتبہ دین کی دعوت دی۔

 دوسری یہ کہ آپ نے ایک مرتبہ سخت بارش اور سردی میں ابوجہل کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ابوجہل نے کہا کہ اتنی سخت بارش اور سردی میں ضرور کوئی بہت ہی حاجت مند شخص میرے گھر کادروازہ کھٹکھٹا ہے، میں ضرور اس کی حاجت پوری کروں گا ۔ چنانچہ جب اس نے دروازہ کھولا تو آپ صلی اللہ علیہ کو سامنے کھڑا تھے لیکن ابوجہل نے پھر بھی آپ کی دعوت کوٹھکرا دیا

یہ دونوں روایتیں ذخیرۂ احادیث میں بہت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، حدیث کی انسائیکلوپیڈیا میں بھی یہ حدیث نہیں مل پائے۔اور جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ کی جانب صرف ایسا کلام و واقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے، جو معتبر سند سے ثابت ہو۔

ذیل میں زیر بحث واقعہ سے ملتی جلتی دو روایات لکھی جائیں گی،

 علامہ ابن عراق نے ”تنزیہ الشریعۃ“ میں حافظ ذہبی کے حوالے سے ٭رتن ہندی کذاب٭ کی سند سے کیا ہے، آپ لکھتے ہیں:

حدثنا رتن بن نصر بن کربال الہندی........... "قال صلی اللہ علیہ وسلم: لو ان للیہودی حاجۃ الی ابی جہل وطلب منی قضاء ہا، لترددت الی باب ابی جہل مائۃ مرۃ"[ تنزیۃ الشریہ المرفوعۃ :ص ٣٩]

       آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی یہودی کا بھی حق ابو جہل پر ہو اور وہ میرے ذریعے سے طلب کرے، تو میں ابو جہل کے دروازے پر حصول حق کے لئے سو مرتبہ بھی جاؤں گا۔


        آگے علامہ ابن عراق [لابی الحسن علی بن محمد بن عراق الکنانی] مذکورہ روایت اور اس جیسی دوسری روایت کے متعلق حافظ ذھبی کا کلام لکھتے ہیں: 

"قال الذہبی: فاظن ان ہذہ الخرافات من وضع موسی ہذا الجاہل، او وضعہا لہ من اختلق ذکر رتن، وہو شیء لم یخلق، ولئن صححنا وجودہ و ظہورہ بعد سنۃ ستمائۃ، فہو اما شیطان تبدی فی صورۃ بشر، فادعی الصحبۃ وطول العمر المفرط، وافتری ہذہ الطامات، او شیخ ضال اسس لنفسہ بیتا فی جہنم بکذبہ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم"[ تنزیۃ الشریہ المرفوعۃ:ص، ٣٩]

حافظ ذہبی بیان فرماتے ہیں: میرا گمان یہ ہے کہ یہ خرافات اس جاہل موسی [سند میں موجود راوی] نے گھڑی ہیں، یا اس شخص نے گھٹری ہے جس نے رتن کا نام ایجاد کیا ہے، اور رتن ایسی چیز ہے جو پیدا ہی نہیں ہوئی [ اس نام کے شخص کی طرف منسوب روایات خود ساختہ ہونے کے ساتھ ساتھ، یہ رتن بھی خود ساختہ فرد ہے جس کا کوئی وجود حقیقت میں نہیں ہے] اگر اس کا وجود اور چھ سو سال کے بعد اس کا ظاہر ہونا مان لیا جائے، پھر یا تو وہ شیطان تھا جو انسانی صورت میں ظاہر ہوا، اور صحابیت ، طویل عمر کا دعوی کیا اور ان بے اصل باتوں کو گھڑا، یا وہ گمراہ سٹیایا ہوا شخص تھا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بول کر اپنے لیے جہنم میں گھر بنایا۔

[سلیمان بن موسی الدمشقی الاموی پر امام بخاری کی جرح میں کفایت اللہ صاحب کا تعاقب :

امام بخاری رحمۃ اللہ نے کہا:

عندہ مناکیر (الضعفاء للبخاری: ۱۴۸)]

ان کے حوالے سے منکر روایات منقول ہیں۔

علامہ ابن ہشام نے ”السیرۃ النبویۃ" میں "محمد بن اسحاق عن عبد الملک بن عبد اللہ ثقفی" کی سند سے ایک واقعہ نقل کیا ہے: 

 ایک اراشی شخص نے ابو جہل کے ہاتھ اپنا مال فروخت کیا ابوجہل اس کا حق دینے میں ٹال مٹول کرنے لگا، وہ شخص قریش کے سرداروں کے پاس گیا اور ابو جہل کی شکایت کی، انہوں نے استہزاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ تمہارا حق دلوائے گا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور حق دلوانے کا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر ابو جہل کے دروازے پر گئے، ابو جہل باہر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اراشی کا حق دینے کے لئے کہا، وہ فور اندر گیا اور اراشی کا حق دے دیا، سرداران قریش نے ابو جہل کو اس پر ملامت کیا، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم !جب انہوں نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک رعب دار آواز آئی، جب میں باہر آیا تو سامنے ایک بڑا اونٹ کھڑا تھا، اگر میں حق دینے سے انکار کر دیتا تو وہ اونٹ مجھے کھا جاتا۔

علامہ ابن ہشام کی مذکورہ سند میں موجود راوی محمد بن اسحاق کے بارے میں حافظ ذہبی "دیوان الضعفاء“ میں لکھتے ہیں: 


”ثقۃ - ان شاء اللہ - صدوق، احتج بہ خلف من الائمۃ، ولاسیما فی المغازی..


       ان شاء اللہ ثقہ ہیں، صدوق ہیں، متقدمین ائمہ نے ان کی روایات سے استدلال کیا ہے، خاص طور پر مغاری کے باب میں ....“۔

  البتہ واضح رہے کہ بعض محدثین نے محمد بن اسحاق پر خاص جہت سے جرح بھی کی ہے.

 سند میں مذکور "عبد الملک بن عبد اللہ بن ابی سفیان ثقفی" کو حافظ ابن حبان نے '’ثقات “ میں لکھا ہے، البتہ سند منقطع ہے،


جمع و ترتیب: ماجد ابن فاروق کشمیری 

بے نمازی کی نحوست کا واقعہ، من گھڑت ہے۔

0

 بے نمازی کی نحوست کے واقعہ کی تحقیق


السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

 سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر 16





 یہ روایت بھی مشہور ہے کہ ایک صحابی  ؓ  نے حضور ﷺ گھر کی بے برکتی کی شکایت کی آپ ﷺ نے اس کو اپنے گھر پر پردہ لٹکانے  کا حکم دیا تعمیل ارشاد کے کچھ دن بعد وہ  صحابی ؓ  تشریف لائے اور انہوں نے حضور ﷺ سے فرمائے کی اس پردہ لٹکانے کے بعد میرے گھر کی بے برکتی ختم ہوگئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس راستے سے ایک بے نمازی گزرا تھا اور تمہارے گھر پر پردہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نظر تمہارے گھر کے اندر پڑجاتی تھی جس کی وجہ سے تمہارے گھر میں بے برکتی تھی۔ اب پردے کی وجہ سے اس کی نظر تمہارے گھر کے اندر پڑھنے سے رک گئی۔اس لیے بے برکتی ختم ہوگئی۔


یہ روایت بھی خود ساختہ اور من گھڑت ہے۔اس لے کہ اس مبارک اور پاکیزہ زمانے میں اس قسم کی بے نمازیوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ 


چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود  ؓ فرماتے ہیں:۔


 وَلَقَدْ رَاَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْہَا ( ای الجماعۃ) اِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ۔


[ (صحیح مسلم بحوالہ فضائل نماز ص ٥١)

(صحیح مسلم:رقم الحدیث: ٦٥٤)

( سنن النسائی : رقم الحدیث: ٨٥٠)

( سنن ابن ماجہ :  رقم الحدیث:٧٧٧)


کہ ہم تو اپنا حال یہ دیکھتے  تھے کہ جو شخص کھلم کھلا منافق ہوتا تو وہ جماعت کی نماز سے رہ جاتا ورنہ کسی کو جماعت چھوڑنے کی ہمت بھی نہ ہوتی۔

لہذا اس روایت کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(نوٹ: موضوع حدیث کی نشان دہی، اس سے ہوتی کہ وہ عقائدِ صحیحہ و صریح احادیث کے خلاف ہوتی، پش جو ہو، موضوع ہے)

جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بوڑھی عورت کی گھٹڑی اٹھانا والا واقعہ

0

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بوڑھی عورت کی گھٹڑی اٹھانا والے واقعہ کی تحقیق۔




 السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر 15


یہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی یہودی عورت سر پر گھٹڑی اٹھا کر ”مکہ مکرمہ“ سے جاری تھی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو دیکھا تو اس سے گھٹڑی لے کر خود اپنے سر پر رکھ لیا ۔ جب اسے منزل پر پہونچایا تو اس بڑھیا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کی کہ ”مکہ“ میں ایک شخص ہے جو لوگوں کو ان کے کوئی دین سے پھیر کر ایک نئے دین کی دعوت دیتا ہے اور اسی کا نام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے ۔ تم اس سے بچے رہنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میں ہی ہوں، تو وہ بڑھیا آپ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہو کر ایمان لے آئیں ۔


 یہ واقعہ بھی خود ساختہ ہے ۔ تخریج حدیث کے جدید مکتبہ ” الدرر السنیۃ " نے اس واقعہ کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا ہے۔


 نیز اس قصے کے من گھڑت ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس قصے میں یہودی عورت کا واقعہ ”مکہ“ میں بیان کیا گیا ہے، حالانکہ ”مکہ مکرمہ“ میں یہود نہیں تھے وہ تو مدینہ منورہ میں آباد تھے ۔ 

(نبی کریم صلی اللہ علیہ پر بوڑھی کا کوڑا پھینکنے واقعہ) 

اس کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا پھینکتی تھی ۔۔۔۔۔۔الخ ۔اس واقعے کے تو بہت سارے طریقے مشہور ہیں۔ جو کہ من گھڑت ہے۔

اور ان دونوں واقعات کو دارالعلوم دیوبند، جامعۃ علوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن نے بھی من گھڑت قرار دیا ہے۔


[بالترتیب دیکھیں:

Fatwa:134-136/B=3/1439)


یہ دونوں واقعات کسی حدیث میں ہماری نظر سے نہیں گذرے کسی اچھے مورخ کی طرف رجوع فرمائیں۔)


(صورتِ مسئولہ میں جو واقعہ تعلیمی نصاب کی کتب میں منقول ہے وہ بے اصل قصہ ہے، مستند کتبِ احادیث میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا، لہذا رسولِ اَکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ بیان کرنے کے لیے ایسے من گھڑت واقعات کا سہارہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں، اور مذکورہ قصہ کی نسبت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز نہیں۔)


(فتویٰ نمبر : 144004201397

دار الافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری  

لڑکی کو پیغام کیسے بھیجیں

0




اب مستر نہیں ہے یہ دینا سے کہ ہر کام کے پیچھے کرنے کا مقصد عورت کی طلب ہے۔ طلب گرچہ تھی فطرتی پر اختراعیت اور تجاوز ہر شئی کا زوال ہے اور اس سی زوال نے ہمیں پسماندگی میں دھکیل دیا جو کہ ہماری ثقافت نہ تھی۔ جب کہ ہر کام حدود کے اندر کرنا بجا ہے، تو کیوں نا طلبِ نسا کو حدود کے اندر مظہر کیا جائیں۔ 


مطلوب کی حد : انسان جب اس قابل ہو جائیں کہ تفریق مرد و زن میں کمال کو پہنچ جائیں تو جو پہلا اظہارِ محبت ہو انہیں پیغامِ نکاح بھیجیں، گر نعم ہوا، تو تکمیل از حود ہوگی، گر ناگوار انکار سنے کو مل جائیں، تو دل کو دلاسا دیں کر اللہ کہ وسیع مخلوق نسا پر پھر طبع آزمائی کریں گئیں۔ ان شاءاللہ جب تک اقرار نہ آئیں تب تلک کوشاں رہیں۔ ہاں! اسی اثنا میں جان جوان راہِ مستقیم سے ہٹ کر راہِ باطلہ کو اختیار کرتے ہیں، اعنی وہ ریلیشن شپ میں وقت ضائع کرتے ہیں، نہ صرف لمحاتِ غالی بل کہ وہ تجوید ہنر، سرمایہ کاری سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جن کے بغیر وہ نہیں ملتی۔


نفس کو درخورِ اعتنا بنائیں تاکہ انکار سننا ہی نہ پڑے، اس کے لیئے سیرت و صورت اخلاق و کردار اور حلال سرمایہ سے خود کو تزئین کریں۔ بعد ازاں آپ ایک برینڈ بن جائیں گئیں، جس کے شائقین ہوتے ہیں۔ بس پیشترِ وقت مرسل نہ بنے بل کہ بلوغ کا انتظار کریں۔ 


یہی وہ سر ہے، جس سے مفلح (کامیاب) شخصیات اپنے مستقبل کو محفوظ کرتے ہیں۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں