سجدہ سہو بعد از السلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سجدہ سہو بعد از السلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سجدہ سہو کا طریقہ اور اس کے دلائل

0

سجدہ سہو کا طریقہ اور اس کے دلائل  

باب ما جاء فی سجدتی السہو  قبل السلام




عن عبد اللہ ابن بحینہ الاسدی بحینہ ان کے والد کا نام ہے (قبل اسم ابیہ) اور والد کا نام مالک ہے، لہذا عبداللہ ابن بحینہ (رضی اللہ عنہ) میں ابن کا ہمزہ لکھنا ضروری ہے، کیونکہ الف صرف اس صورت میں ساقط ہوتا ہے جبکہ علمین متناسلین کے درمیان ہو،


فلما اتم صلوتہ سجد سجدتین یکبر فی کل سجدۃ وہو جالس قبل ان یستم،  اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ سجدہ سہو سلام سے پہلے ہونا چاہئے یا بعد میں، حنفیہ کے نزدیک سجدہ سہو مطلقاً بعد السلام ہے، اور امام شافعی (رحمہ اللہ) کے نزدیک مطلقا قبل السلام،


جبکہ امام مالک ( رحمہ اللہ) کے نزدیک یہ تفصیل ہو کہ اگر سجدہ سہو نماز میں کسی نقصان کی وجہ سے واجب ہوا ہے تو سجدۂ سہو قبل السلام ہو گا، اور اگر کسی زیادتی کی وجہ سے واجب ہوا ہے تو بعد السلام ہو گا۔ ان کے مسلک کو یاد رکھنے کے لئے اس طرح تعبیر کیا جاتا ہے کہ ”القاف بالقاف والدال بالدال“ یعنی ”القبل بالنقصان والبعد بالزیادۃ " امام احمد ( رحمہ اللہ) کا مسلک یہ ہو کہ آنحضرت صلی علیہ وسلم سے سہو کی جن صورتوں میں سجود قبل السلام ثابت ہے وہاں قبل السلام پر عمل کیا جائے گا، مثلاً حدیثِ باب میں قعدہ اولیٰ کے ترک پر، اور جہاں آپ سے بعد السلام ثابت ہے، ان صورتوں میں بعد السلام پر عمل ہوگا، مثلاً چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پر سلام پھیر دینے کی صورت میں کما فی حدیث ذی الیدین ( جامع ترمذی ( ج ۱،ص ۷۸) باب ما جاء فی الرجل یسلم فی الرکعتین الظہر و العصر)  اور جن صورتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں وہاں امام شافعی ( رحمہ اللہ) کے مسلک کے مطابق قبل السلام سجود ہو گا، امام اسحق (رحمہ اللہ) کا مسلک بھی یہی ہے، البتہ جس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہ ہو وہاں وہ امام مالک ( رحمہ اللہ کے مسلک کے مطابق ”القاف بالقاف و الدال بالدال“ پر عمل کرتے ہیں ، بہر حال ائمہ ثلاثہ کسی نہ کسی صورت میں سجدہ سہو قبل السلام کے قائل ہیں، جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہر صورت میں بعد السلام پر عمل کرتے ہیں، یہاں یہ ذہن میں رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل السلام اور بعد السلام دونوں طریقے ثابت ہیں، اور یہ اختلاف محض افضلیت میں ہے، ائمہ ثلاثہ کا استدلال حضرت عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیثِ باب سے ہے، جس میں آپ نے قعدہ اولیٰ چھوٹ جانے کی وجہ سے قبل اسلام سجدہ فرمایا،


اس کے برخلاف حنفیہ کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:-

۱۔  اگلے باب (باب ماجاء فی سجدتی السہو بعد السلام والکلام) میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی حدیث آرہی ہے، ”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی الظہر خمسا فقیل لہ ازید فی الصلوۃ ام نسیت فسجد سجدتین بعد ما سلم “ قال ابو عیسی ہذا حدیث حسن صحیح، 

٢.  ترمذی کے سوا تمام صحاح میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: 

 

واذا شک احدکم فی صلاتہ فلیتحرّ الصواب فلیتم علیہ ثم یسلم ثم یسجد سجدتین {( اللفظ للبخاری)  انظر الصحیح البخاری ج ۱ ص ۵۷و ۵۸ ،  کتاب الصلاۃ باب التوجہ نحو القبلۃ حیث کان، والصحیح مسلم (ج ۱ ص (۲۱۱و۲۱۲) باب السہو فی الصلوۃ والسجود لہ و السنن للنسائی (ج ۱ (ص ۱۸۴) کتاب السہو باب التحری، سنن  لابی داؤد ( ج ۱،  ۱۴۶) باب اذا اصلے خمسا و سنن لابن ماجہ (ص۸۵) باب ماجاء فیمن سجد ہما بعد السلام ۱۲رشید اشرف نفعہ اللہ بما  علمہ و علمہ ما ینفعہ،}



(۳) ابو داؤد {(ج ۱ ص۱۴۸ و ۱۴۹) باب من نسی ان یتشہد و ہو جالس} اور ابن ماجہ {(ص۸۵) باب ما جاء فیمن سجدھا بعد السلام} میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے :-  ” لکل سہو سجدتان بعد ما یسلم“ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کا مدار اسمٰعیل بن عیاش پر ہے، جو ضعیف ہے، 



اس کا جواب یہ ہے کہ اسماعیل بن عیاش حفاظِ شام میں سے ہیں، اور ان کے بارے میں پیچھے یہ قول فیصل گزر چکا ہے کہ ان کی روایات اہلِ شام سے مقبول ہیں، غیر اہلِ شام سے نہیں، اور یہ حدیث انھوں نے عبداللہ بن عبید اللہ الکلاعی سے روایت کی ہے ، جو اہلِ شام سے ہیں، لہذا یہ حدیث مقبول ہے،


(۴)  سنن نسائی {(ج ۱ ص۱ ۸۵)، باب التحری ، کتاب السہو و سنن ابو داؤد {( ج ۱ ص ۱۴۸) باب من قال بعد التسلیم)  میں حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ علیہ وسلم کی روایت مروی ہیں: ” قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من شک فی صلاتہ فلیسجد سجدتین بعد ما یسلم،


(۵) ترمزی (ص(۷۳) میں پیچھے باب ماجاء فی الامام ینہض فی الرکعتین ناسیا“ کے تحت حضرت شعبی کی روایت گزر چکی ہے ، ”قال صلی بنا المغیرۃ بن شعبۃ فنہض فی الرکعتین فسبخ بہ القوم وسبح بہم فلما قضی صلوٰتہ ملم ثم سجد سجدتی السہو، وہو جالس ثم حدثہم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعل بہم مثل الذی فعل .....  اس روایت میں بھی سجدہ سہو بعد السلام کی تصریح ہے، 

(۶) حضرت ذوالیدین کے واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا عمل سجدۂ سہو بعد السلام بتلایا گیا ہے، چناں چہ اس واقعہ میں یہ الفاظ مروی ہے: فصلی اثنتین اخریین ثم سلم ثم کبر فسجد الخ { ترمذی (ج ۱ ص ۷۸) باب ما جاء فی الرجل یسلم فی الرکعتین من الظہر و العصر}

حنفیہ کے ان دلائل میں قولی احادیث بھی ہیں اور فعلی احادیث بھی، اس کے بر خلاف  ائمۂ  ثلاثہ کے پاس صرت فعلی احادیث ہیں، (جو جواز پر محمول ہیں) لہذا حنفیہ کے دلائل راجع ہوں گے ، اور حضرت عبداللہ ابن بحینہ کی حدیثِ باب کا جواب یہ ہے کہ وہ بیانِ جواز محمول ہے، نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں قبل السلام سے مراد وہ سلام ہو جو سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھ کر آخر میں کیا جاتا ہے،


”ویقول (ای الشافعی) ہذا الناسخ لغیرہ من الاحادیث و یذکر ان آخر فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان علی ہذا “ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بعد السلام کی روایات منسوخ ہیں، اور وہ اُن کے لئے حضرت عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیثِ باب کو ناسخ مانتے ہیں،


لیکن نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں اور محتاجِ دلیل ہے جبکہ یہاں کوئی دلیل نہیں، اگر چہ امام شافعی رحمہ اللہ نے نسخ کی دلیل میں امام زہری کا قول¹ نقل کیا ہے کہ سجود قبل السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل تھا“ ، لیکن امام زہری کا یہ قول منقطع ہے ، علاوہ ازیں یحییٰ ابن سعید قطان کے بیان کے مطابق امام زہری کی مراسیل شبہ لاشی²“ ہیں، لہذا اس سے نسخ پر استدلال نہیں کیا جا سکتا،

 

¹ عن الزہری قال سجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدتی السہو قبل السلام وبعدہ و آخر الامرین قبل السلام، لیکن خود علامہ ابوبکر حازمی شافعی ” کتاب الاعتبار فی بیان الناسخ والمنسوخ من الآثار“ (ص ۱۱۵) باب سجود السہو بعد السلام والاختلاف فیہ کے تحت امام زہری کے مذکورہ قول کو نقل کرنے کے بعد آگے چل کر فرماتے ہیں ”طریق الانصاف ان نقول اما حدیث الذی فیہ دلالۃ علی النسخ ففیہ انقطاع فلا یقع معارض اللاحادیث الثابتۃ واما بقیۃ الاحادیث فی الجود قبل السلام و بعدہ قولاً وفعلاً فی ان کانت ثابتۃ صحتہ فیہا نوع تعارض غیر ان تقدیم بعضہا علی بعض غیر معلوم بروایۃ موصولۃ مسحۃ والاشیہ جمل الاحادیث علی التوسع وحواز الامرین “ احقر الورٰی رشید اشرف غفر اللہ ۔۔۔۔ 


² کذا فی معارف السنن (ج ۳ ص (۴۹۱) نقد من الخطیب فی الکفایۃ ۱۲ مرتب عفی عنہ


درس ترمذی: ص۱۴۳و۱۴۶ 

للتفصيل رجوع للكتاب المذكوره

برقی جمع و ترتیب ماجد ابن فاروق کشمیری 

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں