بے نمازی کی نحوست کے واقعہ کی تحقیق
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر 16
یہ روایت بھی مشہور ہے کہ ایک صحابی ؓ نے حضور ﷺ گھر کی بے برکتی کی شکایت کی آپ ﷺ نے اس کو اپنے گھر پر پردہ لٹکانے کا حکم دیا تعمیل ارشاد کے کچھ دن بعد وہ صحابی ؓ تشریف لائے اور انہوں نے حضور ﷺ سے فرمائے کی اس پردہ لٹکانے کے بعد میرے گھر کی بے برکتی ختم ہوگئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس راستے سے ایک بے نمازی گزرا تھا اور تمہارے گھر پر پردہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نظر تمہارے گھر کے اندر پڑجاتی تھی جس کی وجہ سے تمہارے گھر میں بے برکتی تھی۔ اب پردے کی وجہ سے اس کی نظر تمہارے گھر کے اندر پڑھنے سے رک گئی۔اس لیے بے برکتی ختم ہوگئی۔
یہ روایت بھی خود ساختہ اور من گھڑت ہے۔اس لے کہ اس مبارک اور پاکیزہ زمانے میں اس قسم کی بے نمازیوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:۔
وَلَقَدْ رَاَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْہَا ( ای الجماعۃ) اِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ۔
[ (صحیح مسلم بحوالہ فضائل نماز ص ٥١)
(صحیح مسلم:رقم الحدیث: ٦٥٤)
( سنن النسائی : رقم الحدیث: ٨٥٠)
( سنن ابن ماجہ : رقم الحدیث:٧٧٧)
کہ ہم تو اپنا حال یہ دیکھتے تھے کہ جو شخص کھلم کھلا منافق ہوتا تو وہ جماعت کی نماز سے رہ جاتا ورنہ کسی کو جماعت چھوڑنے کی ہمت بھی نہ ہوتی۔
لہذا اس روایت کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(نوٹ: موضوع حدیث کی نشان دہی، اس سے ہوتی کہ وہ عقائدِ صحیحہ و صریح احادیث کے خلاف ہوتی، پش جو ہو، موضوع ہے)
جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔