ابوجہل کو دین اسلام کی دعوت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ابوجہل کو دین اسلام کی دعوت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ابوجہل کو دین اسلام کی دعوت سو بار دی گئی

0

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوجہل کو دین اسلام کی دعوت دینا کی تحقیق۔

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر ١٦



اس بارے میں دو روایتیں عموماً گردش کرتی ہیں۔

 ایک یہ کہ آپ نے ابوجہل کو ننانوے یا سو مرتبہ دین کی دعوت دی۔

 دوسری یہ کہ آپ نے ایک مرتبہ سخت بارش اور سردی میں ابوجہل کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ابوجہل نے کہا کہ اتنی سخت بارش اور سردی میں ضرور کوئی بہت ہی حاجت مند شخص میرے گھر کادروازہ کھٹکھٹا ہے، میں ضرور اس کی حاجت پوری کروں گا ۔ چنانچہ جب اس نے دروازہ کھولا تو آپ صلی اللہ علیہ کو سامنے کھڑا تھے لیکن ابوجہل نے پھر بھی آپ کی دعوت کوٹھکرا دیا

یہ دونوں روایتیں ذخیرۂ احادیث میں بہت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، حدیث کی انسائیکلوپیڈیا میں بھی یہ حدیث نہیں مل پائے۔اور جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے، اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ کی جانب صرف ایسا کلام و واقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے، جو معتبر سند سے ثابت ہو۔

ذیل میں زیر بحث واقعہ سے ملتی جلتی دو روایات لکھی جائیں گی،

 علامہ ابن عراق نے ”تنزیہ الشریعۃ“ میں حافظ ذہبی کے حوالے سے ٭رتن ہندی کذاب٭ کی سند سے کیا ہے، آپ لکھتے ہیں:

حدثنا رتن بن نصر بن کربال الہندی........... "قال صلی اللہ علیہ وسلم: لو ان للیہودی حاجۃ الی ابی جہل وطلب منی قضاء ہا، لترددت الی باب ابی جہل مائۃ مرۃ"[ تنزیۃ الشریہ المرفوعۃ :ص ٣٩]

       آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی یہودی کا بھی حق ابو جہل پر ہو اور وہ میرے ذریعے سے طلب کرے، تو میں ابو جہل کے دروازے پر حصول حق کے لئے سو مرتبہ بھی جاؤں گا۔


        آگے علامہ ابن عراق [لابی الحسن علی بن محمد بن عراق الکنانی] مذکورہ روایت اور اس جیسی دوسری روایت کے متعلق حافظ ذھبی کا کلام لکھتے ہیں: 

"قال الذہبی: فاظن ان ہذہ الخرافات من وضع موسی ہذا الجاہل، او وضعہا لہ من اختلق ذکر رتن، وہو شیء لم یخلق، ولئن صححنا وجودہ و ظہورہ بعد سنۃ ستمائۃ، فہو اما شیطان تبدی فی صورۃ بشر، فادعی الصحبۃ وطول العمر المفرط، وافتری ہذہ الطامات، او شیخ ضال اسس لنفسہ بیتا فی جہنم بکذبہ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم"[ تنزیۃ الشریہ المرفوعۃ:ص، ٣٩]

حافظ ذہبی بیان فرماتے ہیں: میرا گمان یہ ہے کہ یہ خرافات اس جاہل موسی [سند میں موجود راوی] نے گھڑی ہیں، یا اس شخص نے گھٹری ہے جس نے رتن کا نام ایجاد کیا ہے، اور رتن ایسی چیز ہے جو پیدا ہی نہیں ہوئی [ اس نام کے شخص کی طرف منسوب روایات خود ساختہ ہونے کے ساتھ ساتھ، یہ رتن بھی خود ساختہ فرد ہے جس کا کوئی وجود حقیقت میں نہیں ہے] اگر اس کا وجود اور چھ سو سال کے بعد اس کا ظاہر ہونا مان لیا جائے، پھر یا تو وہ شیطان تھا جو انسانی صورت میں ظاہر ہوا، اور صحابیت ، طویل عمر کا دعوی کیا اور ان بے اصل باتوں کو گھڑا، یا وہ گمراہ سٹیایا ہوا شخص تھا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بول کر اپنے لیے جہنم میں گھر بنایا۔

[سلیمان بن موسی الدمشقی الاموی پر امام بخاری کی جرح میں کفایت اللہ صاحب کا تعاقب :

امام بخاری رحمۃ اللہ نے کہا:

عندہ مناکیر (الضعفاء للبخاری: ۱۴۸)]

ان کے حوالے سے منکر روایات منقول ہیں۔

علامہ ابن ہشام نے ”السیرۃ النبویۃ" میں "محمد بن اسحاق عن عبد الملک بن عبد اللہ ثقفی" کی سند سے ایک واقعہ نقل کیا ہے: 

 ایک اراشی شخص نے ابو جہل کے ہاتھ اپنا مال فروخت کیا ابوجہل اس کا حق دینے میں ٹال مٹول کرنے لگا، وہ شخص قریش کے سرداروں کے پاس گیا اور ابو جہل کی شکایت کی، انہوں نے استہزاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ تمہارا حق دلوائے گا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور حق دلوانے کا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر ابو جہل کے دروازے پر گئے، ابو جہل باہر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اراشی کا حق دینے کے لئے کہا، وہ فور اندر گیا اور اراشی کا حق دے دیا، سرداران قریش نے ابو جہل کو اس پر ملامت کیا، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم !جب انہوں نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک رعب دار آواز آئی، جب میں باہر آیا تو سامنے ایک بڑا اونٹ کھڑا تھا، اگر میں حق دینے سے انکار کر دیتا تو وہ اونٹ مجھے کھا جاتا۔

علامہ ابن ہشام کی مذکورہ سند میں موجود راوی محمد بن اسحاق کے بارے میں حافظ ذہبی "دیوان الضعفاء“ میں لکھتے ہیں: 


”ثقۃ - ان شاء اللہ - صدوق، احتج بہ خلف من الائمۃ، ولاسیما فی المغازی..


       ان شاء اللہ ثقہ ہیں، صدوق ہیں، متقدمین ائمہ نے ان کی روایات سے استدلال کیا ہے، خاص طور پر مغاری کے باب میں ....“۔

  البتہ واضح رہے کہ بعض محدثین نے محمد بن اسحاق پر خاص جہت سے جرح بھی کی ہے.

 سند میں مذکور "عبد الملک بن عبد اللہ بن ابی سفیان ثقفی" کو حافظ ابن حبان نے '’ثقات “ میں لکھا ہے، البتہ سند منقطع ہے،


جمع و ترتیب: ماجد ابن فاروق کشمیری 

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں