مساجد کے حمام میں نماز و تلاوت کامسئلہ سوال:

0

 

سوال:-عموماً لوگ حمام کے غسل خانوں میں بغیر طہارت کے داخل ہوتے ہیں۔ کیا اس جگہ نماز یا کلمات پڑھنا جائز ہوگا؟  

منظور احمد قریشی۔سرینگر

جواب: -کشمیر میں مساجد میں غسل خانوں سے ملحق پتھر کی سلوں کا وہ حصہ جس کو حمام کہا جاتاہے ،دراصل اس کو حمام کہنا ہی غلط ہے او ریہ غلط العوام کی وہ قسم ہے جس سے شرعی مسائل تک متاثر ہو جاتے ہیں ۔ حمام کے معنی غسل خانے کے ہیں ۔ چنانچہ جہاں گرم پانی سے نہانے کا انتظام ہو اور ایک بڑے ہال کو چاروں طرف سے بند کردیا گیا ہو پھر چاروں طرف گرم پانی کے نلکے ہوںیا گرم پانی کا حوض ہو اُس ہال میں داخل ہوکر نہانے کا ،بدن کوگرم کرنے کا کام لیا جاتاہے ۔ اسی کو حمام کہا جاتا ہے۔ حمام دراصل صرف نہانے کا ہوٹل ہے ۔ شرح ترمذی۔ احادیث میں جس حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے وہ یہی حمام ہے ۔ یہاں کشمیر میں مساجد یا گھروں میں جو حصہ پتھر کی سلوں سے تیار شدہ ہوتا ہے اس کا اصلی نام صفّہ ہے جس کو یہاں کے شرفاء ’’صوفہ ‘‘کہا کرتے تھے ، جو مسجد نبوی کے صفّہ سے ماخوذ ہے ۔ اُس صوفہ پر نماز ، تلاوت ، تسبیح وغیرہ سب جائز ہے ۔ مساجد میں جو صفہ یعنی یہاں کے عرف میں حمام ہے اُس میں یقینا بے وضو وغسل آدمی داخل ہوتا ہے مگر اُس کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع قرار نہیں پائے گا۔ جیسے کہ اپنے گھروں میں میاں بیوی کے مخصوص کمرے میں بھی انسان بے وضو وبے غسل ہوتا ہے تو اُس وجوہ سے وہاں نماز پڑھنا ممنوع نہیں ہوتا ۔اسی طرح مساجد کے صفہ(حمام)کا معاملہ ہے کہ یہ مسجد کا حصہ بھی ہے مگر مسجد کے حکم میں نہیں ۔اُس گرم حصہ پر اگر صف بچھائی جائے اور اس صف پر سنتیں ، نوافل ،تلاوت ،تسبیح ، ذکر وغیرہ کیا جائے تو یقینا یہ جائز ہے ۔ بلکہ اس کی وجہ سے وہ لغو باتوں کے بجائے محل عبادت بن سکتا ہے ۔ ورنہ یہ صفہ طرح طرح کی لغویات کا مرکز بن جاتاہے ۔

صدر مفتی نذیر احمد قاسمی دامت برکاتہم العالیہ

ماخذ: کشمیری عظمیٰ


سنت مؤکدہ کا اصرار کے ساتھ ترک کرنا باعث گناہ ہے|

0

 سنت مؤکدہ کا اصرار کے ساتھ ترک کرنا باعث گناہ ہے


مفتی امانت علی قاسمیؔ

استاذ ومفتی دار العلوم وقف دیوبند


شریعت میں دو قسم کے احکام ہیں کچھ کا تعلق کرنے سے ہے اور کچھ کا تعلق نہ کرنے سے ہے۔


پہلی قسم کے احکام کے مختلف درجات ہیں ، فرض ، واجب ، سنت مؤکدہ ، سنت غیر مؤکدہ اور مستحب ،اسی طرح دوسری قسم کے احکام کے مختلف درجات ہیں ، حرام ، مکروہ تحریمی ، مکروہ تنزیہی ، اور خلاف اولی وغیرہ ۔ یہ درجہ بندی نصوص کے ثبوت اور دلائل کے اعتبار سے کی گئی ہے،

چنانچہ وہ دلائل جو ثبوت و دلالت دونوں اعتبار سے قطعی ہوں جیسے قرآن کی وہ آیات جو محکم اور واضح الدلالت ہیں ،اسی طرح وہ احادیث جو تواتر کے ساتھ منقول ہیں اوران کے مفاہیم بھی قطعی ہیں ان سے ثابت ہونے والا حکم جانب امر میں فرض ہوتا ہے اور جانب نہی میں حرام ۔

اور وہ دلائل جو ثبوت کے اعتبار سے تو قطعی ہوں لیکن مفہوم کے عتبار سے ظنی ہو جیسے وہ آیت جو موؤل ہیں ،اسی طرح وہ دلائل جو ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوں البتہ مفہوم کے اعتبار سے قطعی و یقینی ہوں جیسے اخبار آحاد کے ثبوت میں ایک گونہ شبہ ہوتا ہے البتہ دلالت کے اعتبار سے قطعی ہوتے ہیں ان دونوں سے جانب امر میں ثابت ہونے والا حکم واجب اور جانب نہی میں ثابت ہونے والا حکم مکروہ تحریمی کہلاتا ہے


اور وہ دلائل جو ثبوت اور دلالت دونوں کے اعتبار سے ظنی ہوں جیسے اخبار آحاد جو اپنے مفہوم پر دلالت کرنے میں بھی ظنی ہیں اس سے جانب امر میں سنت اور مستحب اور جانب نہی میں کراہت تنزیہی کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔علامہ شامی لکھتے ہیں : ان الادلۃ السمعیۃ اربعۃ : الاول قطعی الثبوت و الدلالۃ کنصوص القرآن المفسرۃ أو المحکمۃ و السنۃ المتواترۃ التی مفہومہا قطعی الثانی : قطعی الثبوت ظنی الدلالۃ کلآیات الموؤلۃ الثالث : عکسہ کاخبار لآحاد التی مفہومہا قطعی الرابع ظنیہما کأخبار الآحاد التی مفہومہا ظنی فبألاول یثتب الافتراض و التحریم و بالثانی و الثالث الایجاب و کراہۃ التحریم و بالرابع تثبت السنیۃ و الاستحباب (رد المحتار : ۹/۴۰۹)

خلاصہ یہ کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ چاروں ںقسم کے دلائل سے ایک ہی طرح کے ا حکام ثابت نہیں ہوں گے ، بلکہ جس طرح دلائل میں تفاوت ہے اسی طرح احکام میں بھی تفاوت ہوتا ہے ۔


وہ کام جس کو نبی کریم ﷺ نے اور صحابہ کرام نے کیا ہو اور اس کی تاکید کی ہو یا ترغیب دی ہو اس کو سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے سنت مؤکدہ وہ ہے جس کو حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے ہمیشہ کیا ہو یا کرنے کی تاکید کی ہو اور بلا عذر کبھی ترک نہ کیا ہو یہ حکم میں عملا واجب کی طرح ہے اس کا بلا عذر کے ترک پر اصرار کرنا یہ گناہ کا باعث اور شفاعت سے محرومی کا سبب ہے ۔

اور سنت غیر مؤکدہ وہ ہے جس پر آپ ﷺ نے پابندی نہ فرمائی ہو کبھی کیا اور کبھی ترک کردیا ہو، یا یہ کہ آپ نے اس کو بطور عادت کے کیا ہو اس کا کرنا ثواب کا باعث ہے ترک کرنا گنا ہ کا باعث نہیں ہے ۔

البحرالرائق میں ہے : سنۃ مؤکدۃ قریبۃ من الواجب حتی اطلق بعضہم علیہ الوجوب و لہذا قال محمد لو اجتمع اہل بلد علی ترکہ قاتلناہم علیہ و عند ابی یوسف یحسبون و یضربون و ہو یدل علی تاکدہ لا وجوبہ ( البحرالرائق ۳/۶)


🍂 علامہ شامی لکھتے ہیں :

 لہذا کانت السنۃ قریبۃ من الواجب فی لحوق الاثم کما فی البحر و یستوجب تارکہا التضلیل و اللوم کما فی التحریر ای علی سبیل الاصرار بلا عذر ( ( فتاوی شامی ۲/ ۱۲)علامہ شامی نے صاحب بحر کاقول نقل کیا ہے : والذی ظہر للعبد الضعیف ان السنۃ ما واظب علیہ النبی ﷺ لکن ان کانت لا مع الترک فہی دلیل السنۃ المؤکدۃ وان کانت مع الترک احیانا فہی دلیل غیر المؤکدۃ وان اقترنت بالانکار علی من یفعلہ فہی دلیل الوجوب فافہم فان بہ یحصل التوفیق ( فتاوی شامی ۱/ ۲۲۲)


🍂 سنت مؤکدہ کا بلا عذر ترک کرنا اور ترک پر اصرار کرنا یہ باعث گنا ہ ہونے کے ساتھ ساتھ شفاعت سے محرومی کا باعث ہے اس لیے کہ جس کا کو آپ ﷺ اہتمام سے کیا ہو، اوراس کے کرنے کی تاکید ہو پھر بلا عذر کے اس کو ترک کرنا بہت بڑی محرومی اور شقاوت کی بات ہے ، حضرات فقہاء نے تصریح کی ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک پر اصرار یہ گناہ کا باعث ہے؛ اس لیے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : من ترک سنتی لم تنلہ شفاعتی ( فتح القدیر ، کتاب الضحیۃ :۹/۵۰۹)

 جس نے میری سنت کو ترک کردیا وہ میری شفاعت نہیں پائے گا۔

 ایک حدیث میں ہے آپ نے فرمایا : 

من رغب عن سنتی فلیس منی(صحیح ابن خزیمۃ حدیث نمبر : ۱۹۷) جو میری سنت سے اعراض کرے وہ میرے طریقہ پر نہیں ہے۔

امام مکحول حدیث کے بڑے امام گزے ہیں وہ لکھتے ہیں : 

السنۃ سنتان :سنۃ اخذہا ہدی و ترکہا ضلالۃ و سنۃ اخذدہا حسن و ترکہا لا بأس بہ (اصول السرخسی ۱/۱۱۴))

🍂سنت کی دو قسمیں ہیں

 ایک وہ سنت ہے جس پر عمل کرنا ہدایت اور ترک کرنا گمراہی ہے

 اور ایک وہ ہے جس پر عمل کرنا ہدایت ہے اور ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 الاحکام التکلیفی فی الشریعۃ الاسلامیۃ کے مصنف نے سنت مؤکدہ کے تارک کے لیے گنا ہ گار ہونے کو مختلف دلائل سے ثابت کیا ہے ۔

چنانچہ وہ عبد اللہ بن مسعود کا قول نقل کرتے ہیں : عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ :

 جس کو اس سے خوشی ہو کہ کل قیامت میں وہ اللہ تعالی سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملاقات کرے ان کو چاہیے کہ وہ ان نمازوں پر پابندی کرے کیوں کہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی کریم کے لیے کچھ سنن ہدی کو مشروع کیا ہے اور یہ نمازیں سنن ہدی میں سے ہیں -آگے ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اگر تم نے اپنے نبی کی ان سنتوں کو ترک کردیا تو تم راہ راست سے ہٹ گئے ۔ دیکھئے ابن مسعود نے سنت کے ترک کرنے کو ضلالت سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ نے سنت کے ترک پر وعید بیان کی ہے ایک حدیث میں ہے کہ نماز میں صفوں سیدھی رکھو ورنہ اللہ تعالی تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا ۔اسی طرح ایک اعرابی بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتا تھا اور سنت کے ترک پر اصرار کرتا تھا آپ نے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھأنا کھاؤ اس نے کہا میں نہیں کھا سکتاتو آپ نے اس کے لیے بددعا کی کہ تم نہیں کھاسکو گے اس کے بعد اس شخص کا دایاں ہاتھ کبھی اس کے منھ تک نہیں پہونچ سکا ۔ 

اس کو نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں اگر سنت پر عمل کرنے کی اتنی اہمیت نہ ہو تی تو آپ ﷺ جو کہ بڑے شفیق و مہربان تھے کبھی اس کے لیے بد دعا نہ کرتے (الاحکام التکلیفی ص: ۱۷۴)


🍂علامہ شاطبی الموافقات میں لکھتے ہیں :

 مندوبات ( سنن) کا بالجملہ ترک کرنا دین کے ضائع ہونے میں مؤثر ہے جب کہ یہ ترک دائمی ہو ہاں اگر کسی وقت ترک کردیا جائے تو اس کے ترک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اذا کان الفعل مندوبا بالجزء کان واجبا بالکل کالاذان فی المساجد الجوامع وصلاۃ الجماعۃ و صلاۃ العیدین صدقۃ التطوع و النکاح والوتر و سائر النوافل الرواتب۔فالترک لہا جملۃ مؤثر فی أوضاع الدین اذا کان دائما أما اذا کان فی بعض الأوقات فلا تأثیر لہ فلا محظور فی الترک ( کتاب ا لموافقات ۲/ ۲۶۸وزارۃ الاوقاف قطر )


🍂مذکورہ تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سنت مؤکدہ کا ترک کسی عذر کی ووجہ سے یا کبھی کبھا کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے ترک کا معمول بنانا درست نہیں ہے ایسا کرنے والا والا گنہ گا ر ہوگا ۔

اصول فقہ کی کتابوں میں احکام کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں فرض اور نفل، یہاں پر نفل ،فرض کے مقابلہ میں ہوتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے زائد یعنی یہ فرض سے زائد ہے لیکن فقہاء پھر اس نفل کی تقسیم کرتے ہیں واجب ، سنت مؤکدہ ،سنت غیر موکدہ اور مستحب کے ذریعہ سے۔ پھر ہر ایک کا الگ الگ حکم بیان کیا جاتا ہے جیسا کہ ماقبل میں مامعلوم ہوگیا کہ واجب کا ترک کرنا بھی گنا ہ ہے اسی طرح سنت مؤکدہ کا ترک کرنے کو معمول بنانا گنا ہ ہے تاہم دونوں کے فرق ہے سنت کے ترک کا گنا ہ واجب سے کم تر درجہ کا ہے اور یہ ایک عقلی اور بدیہی بات ہے اللہ کا حکم نہ ماننا ، یہ بھی برا ہے اور رسول اللہ کا حکم نہ ماننا یہ بھی برا ہے اسی طرح باپ اور بڑے بھائی کا حکم نہ مامنا یہ بھی برا ہے ہاں لیکن نسبت کے اعتبار سے درجہ میں فرق ہے ۔


🍂حال میں ایک تحریر شائع ہوئی جس کا عنوان تھا'' نوافل پڑھنا بہتر ہے لیکن نہ پڑھنے کا گناہ نہیں'' ۔

 اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ فرض کے علاوہ تمام نمازیں نفل ہیں چاہے وہ سنت مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ ہو اس پر عمل کرنا باعث ثواب ہے لیکن عمل نہ کرنا گنا ہ نہیں ہے ۔

 تراویح پڑھ لیں تو بہت اچھاہے نہ پڑھیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

یہ تحریر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کی ہے ، موصوف جماعت اسلامی کے مؤقر لوگوں میں ہیں اورجماعت اسلامی کے شریعہ اکیڈمی کے ذمہ دار ہیں ، کثرت سے لکھتے ہیں اور سہل نگار واقع ہیں ان کی تحریریں پڑھی جاتی ہیں ، ادھر چند دنوں سے مولانا محترم کی بعض فقہی تحریریں ایسی آرہی ہیں جن سے راقم کو اختلاف ہے ، مولانا موصوف جس رائے کو بہتر سمجھتے ہیں اسے آزادی سے لکھتے ہیں اس لیے میں بھی اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے رکھوں ، آراء کا اختلاف پہلے بھی رہا ہے ، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ قارئین کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی واضح ہوجائے ۔

مولانا موصوف نے جو لکھا بعد میں ان کے بعض دوستوں نے ان سے رابطہ کیا اور معلوم کیا ہے کہ کیا فجر کی سنت کے ترک پر بھی کوئی گنا ہ نہیں ہوگا تو آپ کا جواب تھا کہ فرض کے علاوہ سب نفل ہے ،کسی نے یہ معلوم کیا کہ یہ تقسیم کہاں سے کی ہے تو جواب تھا کہ اصول فقہ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں ، خوشی ہوئی کہ موصوف اصول فقہ کی کتاب کے مطالعہ کا مشورہ دے رہے ہیں ، یہ نہیں کہا کہ حدیث میں دیکھ لیں ، واقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے اوپر بھی لکھا کہ احکام کی دو قسم فرض اور نفل ہے لیکن ہمارے معاشرے میں جو نفل استعمال ہوتا ہے

 وہ اصطلاحی نفل استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمارے درمیان جو نفل رائج ہے وہ سنت غیر مؤکدہ ہے ، اس طرح مولانا نے فقہاء کے نفل کی تشریح نہیں کی ہے کہ فقہاء کے یہاں نفل کے ضمن میں واجب ، سنت مؤکدہ بھی داخل ہے اور اس کا حکم الگ ہے بلکہ انہوں نے معاشرے میں رائج نفل اور اصول فقہ کے نفل کو خلط ملط کرکے لوگوں کو مغالطہ میں ڈالاہے


 🍂مولانا نے سنت مؤکدہ کے جواب میں بھی یہی کہا کہ اس کے ترک پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ہے حالاں کہ اوپر علامہ شاطبی ، علامہ شامی ، ابن الہمام ، امام مکحول وغیرہ کے علاوہ عبد اللہ بن مسعود کے اقوال پر اگر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک کا معمول بنانا درست نہیں ہے اس سے آدمی گنہ گار ہوتا ہے ۔

حدیث سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے جماعت میں شریک ہونا زیادہ تر فقہاء کے یہاں سنت ہے لیکن اس میں شریک ہونے والے کے لیے آپ نے اظہار ناراضگی کے طور پر فرمایا : میرا جی چاہتا ہے کہ ان کے گھروں کو آگ لگادوں ۔


🍂میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ فجر کی سنت یا ظہر کی سنت کو سنت مؤکدہ سمجھتے ہیں اور سنت مؤکدہ کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں ایسے ماحول میں یہ تشریح کرکے کہ فرض کے علاوہ تمام نمازیں بشمول وتر کے نفل ہیں اسے پڑھ لیا جائے تو بہت اچھاہے قرب خداوندی کا ذریعہ ،

 فرض کی تکمیل ہوتی ہے لیکن اگر نہ پڑھے تو کوئی گناہ نہیں ہوگا اس کے ذریعہ مولانا نے لوگوں کو تراویح یا دوسری سنت مؤکدہ کے اہتمام پر ابھارا ہے یا ترک پرابھارا ہے؟ 

جو لوگ مولانا کی تحریر پڑھیں گے وہ یہی سمجھیںگے کہ اب تک ہم اس کو ضروری سمجھتے تھے اب معلوم ہوگیا کہ ضروری نہیں ہے پڑھ لیں تو اچھا ہے نہ پڑھیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ظاہر ہے ایسی صورت میں عمل کی رغبت کم ہوگی اور دوسری طرف معاشرے میں انتشار بھی پیدا ہوگا۔ حالاں کہ قرآن و حدیث کا اسلوب یہ بتاتا ہے کہ بعض مرتبہ اصل حکم سے ہٹ کر تہدید کے لیے اور ڈرانے کے لیے سخت حکم بیان کیا جاتا ہے اگر چہ وہ مقصود نہ ہو ، 


🍂آپ ﷺ نے فرمایا :

من ترک الصلاۃ متعمدا فقد کفرجس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دیا وہ کافر ہوگیا ، مسلمان جھوٹ نہیں بولتا ہے، جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے ، ان تمام احادیث میں حدیث کا ظاہر مراد نہیں ہے بلکہ محدثین کہتے ہیں کہ یہ تشدید اور تہدید کے طور پر ہے ۔

رمضان المبارک میں وتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے یا تنہا رات کے آخری پہر میں پڑھنا افضل ہے ؟

 حضرات صحابہ کا عمل یہی تھا کہ رمضان میں وتر کی نماز جماعت سے پڑھتے تھے ،

 حضرت علی وتر کی جماعت کی امامت کرتے تھے اس لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا افضل ہے ،

 لیکن مولانا رضی الاسلام صاحب نے اپنی ایک دوسری تحریر میں لکھتے ہیں کہ اگر کسی کو رات کے اخیر میں بیدار ہونے کا یقین ہو تو رات میں تنہا وتر پڑھنا افضل ہے ، اس لیے کہ حدیث میں حضور نے فرمایا ہے کہ اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ اس حدیث کی بنا پر رات کے اخیر میں تنہا پڑھنا افضل ہے ۔ان کی اس تحریرسے بھی بہت سے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ حضرات صحابہ کرام کے سامنے بھی یہ حدیث تھی ، اور حضرات صحابہ کرام سے زیادہ نہ کوئی دین سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دین پر عمل کرسکتا ہے ، اور نہ ہی حضرات صحابہ کرام سے زیادہ کوئی دین دار ہوسکتاہے اور نہ ہی نبی ﷺ کے مزاج سے واقف اور نہ ہی کوئی صحابہ کرام سے زیادہ نبی کا عاشق ہوسکتا ہے اگر صحابہ میں کسی کا انفرادی عمل ہوتا تو یہ گنجائش ضرور ہوتی لیکن صحابہ کا اجماع ہو اس کو چھوڑ کرحدیث کی ایسی تشریح کرنا جس سے یہ ثابت ہو کہ صحابہ کرام کا عمل حدیث کے خلاف تھا اعلی درجہ کی جرأت اور بددیانتی ہے ؟ 

جن صحابہ کرام نے وہ حدیث بیان کی ان کی حدیث تو لیتے ہیں لیکن صحابہ کرام کے اجماعی عمل کا انکار کردیتے ہیں ،

 کیا حضرات صحابہ کرام نبی ﷺکے اس عمل سے واقف نہیں تھے ، پھر تو تراویح کو یہ کہہ کر چھوڑ دینا چاہیے کہ حضورﷺ سے پورے رمضان جماعت کے ساتھ تراویح کا اہتمام ثابت نہیں ہے اورصحابہ کا عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام، ہمارے اور نبیﷺ کے درمیان واسطہ ہیں ، دین کے سلسلے میں ان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور حضرات خلفاء راشدین کے عمل کو آپ ﷺ نے سنت سے تعبیر کیا ہے ؛اس لیے صحابہ کرام کا عمل نبی کے عمل کی تشریح و توضیح کہلائے گا نبیﷺ کے عمل کے خلاف نہیں کہلائے گے۔  

علم کی صحیح پہچان ترقی و بلندی

1

         علم کی صحیح پہچان ترقی و بلندی

علم کی فضیلت و افادیت کا انکار کیسے ہو سکتا ہے! علم انسان (وجود) کی ان ضرورتوں میں سے ہے جس کی عدمیت سے آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ علم اللہ کی وراثت ہے جس کے مقتسم انبیا ہوتے ہیں اور ختمیت کے ازیں ورثۂ انبیا۔ جو قوم باعتبار حالات اپنے آپ کو نہ ڈھلے تو وہ مترقی قطعی نہیں کہلائی جاسکتی۔ ایک المیہ یہ ہے کہ کچھ اشخاص یہ جتلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سائنسی علوم،ماڈرن ٹیکنالوجی کے علوم کو اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جس چیز سے یہ ذہن بن چکا ہے اصل میں اس کی تاریخ یوں ہے۔ ہزاروں سال پہلے جب سائنس کی ترقی اقوام باطلہ کے ہاتھ لگی تو  ابتداء میں ناقص تحقیقات اور غلط مشورے دینے کی وجہ سے قرون وسطیٰ(بلکہ قرون اولیٰ، کہہ سکتے ہیں جب سے دنیا وجود پذیر ہوئی ہے تب سے سائنس بھی موجود ہے۔ کیونکہ سائنس ہر چیز کے متعلق بات کرتی ہیں اور ہر ایک چیز میں سائنس ہے) کے اسلاف نے اس سے انحراف کیا پر تعاون دیتے رہے اور مستفید ہوتے رہے۔ کیونکہ وجودِ سائنس اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے رونما ہوا ہے۔  جس یورپ کی ہم یہ دیں سمجھتے ہیں اُس سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ جیسے جی بی ٹرینیڈ میں بڑی صاف گوئی سے لکھا ہے کہ ” دور حاضر کے ہسپانوی مورخین کے علی الرغم یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ یورپ جن دنوں مادی اور روحانی طور پر تنزل کا شکار تھا اس وقت ہسپانیہ کے مسلمان فاتحین ایک عظیم الشان تہذیب کی عمارت قائم کر چکے تھے۔ انہوں نے ایک منظم اقتصادی زندگی کی بنیاد رکھ دی تھی اور وہ علوم و فنون،فلسفہ اور تعمیرات کے میدان میں نئی نئی مثالیں قائم کر رہے تھے۔ ہسپانیہ کے مسلمان فاتحین کی بلندیٔ فکر کے اثرات  یورپ پر ہر حیثیت سے پڑے اور اگلے برسوں تک پڑھتے رہیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم اسپین نے یورپ کو ہر میدان میں روشنی دکھائی ہے ہے۔“ اور اب ہمارا رسمی اور باقی ان کا تعلق رہا ہے۔ 


ماڈرن علوم کو اسلام سے جدا سمجھنا میرے خیال سے الحاد ہے (ان کے بغیر جو انسانیت کے لیے مضر ثابت ہو) اسلام میں بڑے بڑے مشاہیر علم و سائنس پیدا کیے جن کی ایک لمبی فہرست ہے ان میں سے چند ایک جو آفتاب علم وسائنس پر چمکے وہ ہیں شاطبی، قرطبی، ابن عربی، ابن طعیل، ابن خرم ،ابن جیر ، ابن زہر، ابن بیطار ، ابن ماجہ، ابن رشد، الکندی ،الفارابی ، الغزالی جماعت اخوان الصفا وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں سے اگر صرف ایک قاضی ابو الید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن احمد بن رشد الاندلسی(۵۲۰ھ) کوہی اگر لیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ صرف ان کے نقش قدم پر یورپ نے نشاۃ ثانیہ کی ایک ایسی عظیم الشان عمارت تعمیر کی جو آج بھی عقل و مشاہدہ کے مضبوط ستون پر قائم ہے۔


تاریخ کی طرف جانا مقصود نہیں ہے ورنہ وہ ضرورتِ وقت کی کون سی شیٔ تھی جو مسلمان نے ایجاد نہ کی تھی۔


ع   ضرورت ہی ایجاد کی ماں ہوتی ہے


 جیسے ہوائی جہاز،قطب نما، گڑھی، پیپر،پانی کا جہاز، بارود، وغیرہ وغیرہ۔ 

صد افسوس کہ اگر یہ میراث بھی ہم نے منتقل کی ہوتی تو آج وہ علمی ترقی میں یورپ سے کہیں آگے ہوتے اور وہ انقلاب جو یورپ میں رونما ہوا ہمارے گھروں سے جگمگاتے۔

اب بھی مستبعد نہیں، ہمیں اس کی طرف منعطف ہونا چاہیے پر ہمیشہ معیار قرآن کو رکھنا ضروری ہیں کیونکہ وہ کلام ہیں عالم العلوم  کا، جس سے عمیم علوم کی اصول صادر ہوئے ہیں۔


ابن رشد قرآنِ کریم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کتاب محترم پر نظر ڈالنے سے تین طرح کی آیتوں کا پتہ چلے گا۔ایک خطاطی یعنی وہ آیتیں جن کا مقصد عامۃ الناس کی تعلیم و تفہیم ہے۔ دوسرا جدلی یعنی وہ آیتیں جو مشترکہ طور پر اکثر انسان کے لیے پیش کی گئی ہیں۔ اور تیسری برہانی، یعنی وہ خاص طریقے جو اعلیٰ علم والوں کے لیے پیش کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک قرون اولیٰ کے لوگ زیادہ دانش مند تھے جنہوں نے مذکورہ بالا طریقہ پر پوری طرح عمل کیا۔


جس طرح محدث اور فقہی الگ ہے پر جدا نہیں، اسی طرح علوم دینیہ، علم  سائنس سے الگ ہے پر جدا نہیں۔  علما جس قدر علوم دینیہ کو سیکھنے کی مشقیں کرتے ہیں۔ اور ان کا ذہن اور دماغ اس قدر ذہین اور بلندی پر فائز ہوتا ہے کہ کسی سائنسدان سے کم نہیں۔ ان کو بس راستہ اور اسباب دیجئے یہ دنیا کو آپ کے قدموں کے نیچے لا کر رکھ دیں گے۔اس کے تمثیلات ہمارے روبرو ہے۔


پس اگر ضرورت ہے کسی چیز کی تو فکر و تفکر کی، جس طرح قرآنِ کریم میں صادر ہوا ہے کہ تم عقل سے کیوں کام نہیں لیتی ہو، کیوں تم غور و فکر نہیں کرتے ہو۔

خدا کرے اب ہمیں ہوش آئے اور عقل کے ناخن لیں، اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی راہ کھو نہ دیں اور اپنے اسلاف کی طرح علم وسائنس خوب خوب محنت ومشقت کر کے امتِ مسلمہ کو پھر اس مقام پر لے جائیں جس کا قرآن و سنت نے وعدہ کیا ہے۔  غم نہ کھا، مت گھبرا ، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو۔ آمین و کوشاں از تغیرِ حالت۔

ماجد کشمیری


دارالعلوم رحیمیہ کشمیر کا پہلا سفر

0

 ایک ایسا دن جب میری امیدیں رنگ لیتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ پانچ سالوں کی محنت رنگ لانے کو تھی، میرے عزائم میں سے ایک عزم پورا ہونے کو تھا۔ پہلی دفع جب اہل خانہ راضی ہوئیں۔۔وہ دن: جب میں دارالعلوم رحیمیہ کشمیر میں داخلہ کے لیے گیا، اس روز میں اپنے کمرے میں تشریف فرما تھا اور تدابیر اور تراکیب کو عملی جامہ پہنانے کی سعی کررہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی: کون

: میں ہوں، امی، آئیں۔ بابا کہہ رہے ہیں آپ کو آنا ہے تو اٹھو، کہاں، مدرس: میں پھولے نہ سمایا، ایسا لگا کہ یہ ظریفانہ کہہ رہیں ہیں، پر سنجیدگی کے آثار نظر آ رہے تھیں، آخر، میں اٹھا اور نیچے گیا تو بابا جان بات کہہ رہیں ہیں بڑے بھائی سے: چلیں کوئی ڈرائیور دیکھ لیں، ہم اپنی گاڑی میں جائیں گے تاکہ تاخیر اور تھکاوٹ محسوس نہ ہو، لمبا سفر ہے۔ انکی نظر میں کوئی نہیں آیا پر راقم الحروف نے اپنے عزیز دوست مزمل کو فون گھمایا، اور انھیں عاجزانہ درخواست کی کیا آپ مصروف تو نہیں ہے آپ ہمارے ساتھ چل سکتے ہے سفرِ عظیم (ہمارے لیے تو سفر عظیم ہے)  پر، شقاوت سے انہیں مصروفیات تھی،انہیں، الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دیں رہیں تھیں،۔۔۔۔ اور امی نے کہا کہ کیا بولیں۔۔۔ کچھ نہیں وہ مصروف ہے۔۔۔۔ بابا نکل گئیں اور مزمل بھائی کا فون آیا کہ چلیں ہم عملِ حال کو مؤخر کر رہے ہے ہم آپ کے ساتھ ہی چلیں گے۔ پر والد صاحب ابھی واپس نہیں آئیں تھیں اور میں نے ان سے کہا، روکیں! بابا یہاں نہیں وہ باہر نکلیں ہیں، ہم انتظار کرتے ہے، ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ابو آئیں اور بولیں اٹھو! ہم نکلتے ہیں اب ہم ٹرین سے جاتے ہیں۔۔۔۔بڑے بھائی نے ٹرین اسٹیشن تک چھوڑا اور ہم نے ٹکٹ نکالی۔۔۔۔انت ناگ سے سوپورہ تک۔۔۔۔۔اسٹیشن پہ والد صاحب کے خالہ زادہ۔۔۔۔ ملیں۔ ان سے بابا نے گفتگو کی وہ مدارس سے واقف تھے اور۔۔۔۔ آخر میں والد سے بولیں: اب دیکھنا اور محسوس کرنا کہ کس قدر وسیع اور کیسا تعلیمی نظام ہے۔۔۔ 

 ٹرین میں بھیڑ کی وجہ سے ایک جگہ نشست نہ ملی تو میں تھوڑا دور بیٹھ گیا۔ میں خود تشویش میں مبتلا تھا اور والد محترم کا چہرہ بھی مایوس نظر آ رہا تھا جیسے کہ عمیق سوچ میں ڈوب گیا ہیں۔ ۔۔۔ پھر بھیڑ سری نگر میں کم ہوئی اور ابو میرے پاس آئیں۔۔۔میرے پاس ایک چاچا تھے ان سے بات کرنی شروع کی۔۔۔۔میں جس تشویش میں گیر تھا اس میں اضافہ ہوا اور دروازے پر بیٹھ گیا ہوا لینے کے لئے۔۔۔۔۔ اور مجھے محسوس ہوا میں والدین کا گناہگار اور مجرم ، گلٹی فیل ہوا ۔۔۔۔۔۔آخر۔۔۔ سوپورہ پہنچ گئے وہاں سے بانڈی پورہ کی گاڑی لی۔۔۔۔۔ اور اپنی منزل پر پہنچ گئیں یعنی دارالعلوم رحیمیہ، وقت نماز کا تھا ہم نے غسل خانے کی جانب رک کیا، وضو کرنے سے پہلے ایک سریلی آواز اپنی طرف مبذول کرنے لگی: مولانا صاحب طلبا کو بیدار کر رہے تھیں: اٹھو، اٹھو آپ ابھی بھی سو رہے ہو، ذرا اس کو دیکھو، ذرا اِس کو دیکھو ۔ کتنی سریلی اور جذبہ ایمان کو بڑھانے والی صدا تھیں۔۔۔۔ نماز ادا کرنے کے غرض سے عمیم طلبا اور ہم مسجد شریف کی طرف قدوم بڑھاتے ہوئے ۔۔۔۔ اور پھر سنتیں ادا کرنے کے بعد دبر کی طرف دیکھا تو علامات مسلمانی سے لبریز چہرے دیکھنے کو ملیں۔۔۔۔ اور دیر بعد وقتِ نماز آ پہنچا ادارے کے مہتممِ (دارالعلوم رحیمیہ کشمیر) کے بھائی جان جو موصوف کے چہرے کے ساتھ بہت مماثلت رکھتیں ہیں، انہوں نے نماز ادا کروائی اور انفرادی دعائیں مانگنے کے ازیں ہم العبد وسیم اکرم دامت برکاتہم العالیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔  معمولاً میں کتب خانہ کی طرف منعطف ہوتا ہوں مجھے رحیمیہ کا کتب خانہ نظر آیا۔۔۔میں اس جانب مبذول ہوا تو ۔۔۔۔ اچانک ان کا فون آیا اور معلوم کر رہیں تھیں کہ کہاں آپ تشریف فرما ہے۔۔۔ میں واپس آیا۔۔۔ان سے ملاقات کے شرف سے مشرف ہوئے اور ہم مہمان خانے کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔۔۔کچھ گونا گوں باتوں کے ازیں۔۔۔۔ کھانا لایا گیا اور ہم نے تناول کے لیے (تب سے مجھے بھوک سی لگ رہی ہیں)، جس کا میں تبرکاً فریفتہ ہوا ۔۔۔۔۔ پھر داخلہ کے کاروائی کا عنفوان ہوا.... محکمہ داخلہ کے منتظم سے تنوع باتوں کے ساتھ انہوں انگریزی میں محاورہ ارشاد فرمایا جس کا مطلب:” خدا مدد ان کی کرتا ہیں جو خود کی مدد کرتے ہیں“ ۔۔۔خیر داخلہ فارم دینا کے  بعد مفتی دامت برکاتہم العالیہ کے پاس امتحان دینے کے لیے جانا تھا۔۔۔ انہوں نے تعارف کے بعد سابقہ مطالعہ شدہ کتب کو نوشت کرنے کا حکم دیا ۔۔۔۔۔۔ اور ایسا ہی کیا گیا ۔۔۔پھر قرآن کی روانگی و ادائیگی کا جائزہ لیا ۔۔۔۔ آخر الحمد مشکلاً کامیابی حاصل ہوئی ۔۔۔۔ پھر بابا سے باتیں ہوئیں۔۔۔۔ اور دیر کے سبب ہم  روانہ ہوئے ۔۔۔۔ دلِ مسرور کی حالت ہی نہ پوچھئے۔۔۔۔ جاری 

معراج جسمانی ہوئی یا روحانی| نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات روحانی ہیں یا جسمانی۔

0

 معراج قسطہ ۵

ملفوظات گھمن ۵

معراج جسمانی ہوئی ہے!


بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج جسمانی کا انکار کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ معراج روحانی ہوئی ہے یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم اطہر نہیں گیا بلکہ فقط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک گئی ہے ۔ جبکہ اہل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف روحانی معراج نہیں بلکہ جسمانی معراج ہوئی ہے، اس لئے کہ روحانی معراج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال نہیں ہے ۔ کوئی بندہ یہاں سویا ہوا ہو اور دیکھے کہ میں آسمان پر گیا ہوں ، میں عرش پر گیا ہوں ، میں مکہ گیا ہوں ، میں مدینہ گیا ہوں تو یہ کوئی کمال نہیں ہے کیوں کہ صرف روح تو عام بندے کی بھی جاسکتی ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعزاز اور اعجاز یہ ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف روح نہیں بلکہ جسم بھی ساتھ جائے ۔ اس لئے ہمارے علماء کہتے ہیں کہ آج کے دور میں جب کوئی کہے کہ ہم معراج مانتے ہیں تو ان سے یہ پوچھیں کہ معراج مانتے ہو یا معراج جسمانی مانتے ہو؟ کیوں کہ وہ کہے گا معراج اور نیت کرے گا روحانی کی ، روحانی پر اختلاف نہیں ہے اختلاف تو معراج جسمانی پر ہے۔


بالکل اسی طرح جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موت کے بعد قبر مبارک میں زندہ ہیں ۔ اگر کوئی بندہ کہے کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوزندہ مانتے ہیں تو آپ نے پوچھنا ہے کہ حیات روحانی مانتے ہو یا جسمانی مانتے ہو؟ ورنہ لوگ دھوکہ دیں گے حیات کہہ کر اور روحانی مان کر ڈنڈی مار جائیں گے ۔ معراج کہیں گے اور روحانی مان کر ڈنڈی مار لیں گے ۔


ہم وفات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بھی جسمانی مانتے ہیں اور مکہ سے عرش تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج بھی جسمانی مانتے ہیں۔


کتبہ ماجد کشمیری

ماہ شعبان کی فضیلت|نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیا ہے ؟

0

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تعالی ہمارے  پورے شعبان میں برکتیں نصیب اور  رمضان تک پہنچائے۔

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال:  کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا دخل رجب قال : اللہم باریک لینا فی رجب وشعبان وبلغنا رمضان۔ 

المعجم الاوسط للطبرانی،رقم الحدیث:3939

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں ماہِ رمضان تک پہنچا۔


ماہ شعبان کی فضیلت: 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے چاند اور اس کی تاریخ ہو کہ حساب کا بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔ 

عن ابی هریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احصوا جلال شعبان لرمضان۔

جامعہ ترمذی: رقم الحدیث 687

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کی چاند ( تاریخوں) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھو تاکہ رمضان کی آمد کا حساب لگانا آسان ہو سکے۔

یعنی رمضان کی صحیح حساب کے لئے شعبان کا چاند اور اس کی تاریخوں کو خصوصیت سے یاد رکھا جائے۔جب شعبان کی آخری تاریخ ہو تو رمضان کا چاند دیکھنے میں پوری کوشش کی جائے۔

رمضان کا مقدمہ: 

شعبان آٹھواں اسلامی مہینہ ہے جو رمضان المقدس سے پہلے آتا ہے۔اس مہینے کو اللہ تعالی نے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے، جس کی عظیم وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینے میں ماہ رمضان کے روزوں،تواریخ اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے،رمضان جو اپنے برکتوں،رحمت اور عنایات ربانی کا موسم بہار ہے اس کی تیاری کا ماہ شعبان سے شروع ہونا اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔گویا شعبان کو رمضان کا مقدمہ کہنا چاہیے۔


ماہِ شعبان کے روزے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے،بلکہ رمضان کے بعد ماہ شعبان میں روزوں کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ 

1: عن عائشہ رضی اللہ عنہا  قالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم حتی نقول لا یفطر و یُفطر حتی نقول لا یصوم فما رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استکمل صیام شھر الا رمضان و مارایتہ اکثر صیاما منہ فی شعبان


صحیح البخاری: رقم الحدیث 1969

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو (غیر رمضان میں) شعبان کے مہینے سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا تھے۔

یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان کے روزے رکھا  کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر کل کا اطلاق کردیا جاتا ہے۔

3: المسغوبات من الصیام انواع اولھا صوم المحرم والثانی صوم رجب والثالث صوم شعبان و صوم عاشوراء۔

فتاوی عالمگیری،ج:1،ص:202

ترجمہ: مستحب روزں کی کئی قسمیں ہیں: محرم کے روزے،رجب کے روزے،شعبان کے روزے اور عاشوراء کے (دو)روزے۔

نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھنے کی تحقیق: 

عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذابقی نصف من شعبان فلا تصوموا۔

جامع الترمذی،رقم الحدیث :738

ترجمہ: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے تو روزی نہ رکھا کرو۔

اس ریوایت کے پیش نظر فقہاءِ کرام نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ قرار دیا ہے،ساحل البتہ چند صورتوں کو متثنی فرمایا ہے کہ ان میںنے پندرہ شعبان کے بعد روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ صورتیں یہ ہیں:

1: کسی کے ذمہ قضائر روزہ ہو یا واجب (کفارہ وغیرہ کے) روزے ہوں اور وہ انہیں انعام رکھنا چاہتا ہو۔

2: ایسا شخص جو شروع شعبان سے روزہ رکھتا چلا آرہا ہو۔

3: ایسا شخص کی جس کی عادت یہ ہے کہ مخصوص دنوں یا تاریخوں کے روزے رکھتا ہے،  اب وہ دنیا طاری شعبان کے آخری دن میں آ رہی ہوں تو روزہ رکھنے میں کوئی  حرج نہیں بشرطیکہ ایسی کمزوری کا خطرہ نہ ہو گی جس سے رمضان کے روزوں کا حرج ہونے کا اندیشہ ہو۔ ملخص: درسِ ترمذی: ج:2، ص:579


نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیا ہے ؟

 حکیم الامت ماہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”میرا تو ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان شریف میں جو جاگنا ہو گا اس شب کا جاگنا اس کا نمونہ ہے اور یہ صوم ایام رمضان شریف کا نمونہ ہے ۔ پس دونوں نمونے رمضان کے ہیں ، ان نمونوں سے اصل کی ہمت ہو جاوے گی۔ پھر اس صوم کے بعد جو صوم سے منع فرمایا اس میں حقیقت میں رمضان کی تیاری کے لیے فرمایا ہے کہ جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ مت رکھو۔ مطلب یہ کہ سامان شروع کرو رمضان کا یعنی کھاؤ، پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاؤ اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے “ 

خطبات حکیم الامت: ج:7،ص: 391

رد غیر مقلدیت| اہل حدیث کی تحریفات

0

 سلسلہ رد غیر مقلدیت نمر ۲۱

تحریف مفہوم کا دوسرا نمونہ: آپ کے مشہور مصنف محمد اقبال کیلانی صاحب اپنی کتاب الصلاۃ میں لکھتے ہیں عن ابی هریرۃ رض اللہ عنہ أن النبی ﷺ امره أن یخرج فینادی لاصلاۃ إلا بقراءۃ فاتحۃ الکتاب فما زاد . (ص۸۰)

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس سے زیادہ جتنا کوئی چاہے پڑھے۔(ص ۸۰)۔

حدیث میں سورۃ فاتحہ اور فمازاد کا ایک ہی حکم بیان کیا گیا ہے جبکہ مترجم نے ترجمہ میں تحریف کر کے فاتحہ اور فمازاد کا حکم علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ کیا یہ تحریف کی بدترین مثال نہیں ہے؟ پھر بھی تمہیں اصرار ہے کہ تم اہل حدیث ہو ۔ آج امانت کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے دیانت کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ ہم رور ہے میں چِلّا رہے ہیں لیکن ہماری آواز ہے کہ صدا بصحرا۔ 


    میرے بس میں ہو تو غیر مقلدوں کی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر انہیں تحریف کا یہ نمونہ دکھا دوں ۔ ان کے دماغوں سے مسلکی جمود کے پردے ہٹا کر انہیں حدیث کا صحیح ترجمہ سکھا دوں ۔ ان کے کانوں سے اندھی تقلید کی تھونسی ہوئی انگلیاں نکال کر انہیں آنحضور ﷺ کا اصلی اور سچا پیغام سنادوں۔


دیکھو خود تمہارے ہی مولانا اسماعیل سلفی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں : سورہ فاتحہ و مازاد کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔( رسول اکرم کی نماز ۲۸ ) دونوں ترجموں میں کتنا واضح فرق ہے؟


چنگیاں لیتی ہے فطرت چیخ اٹھتا ہے ضمیر

 کوئی کتنا ہی حقیقت سے گریزاں کیوں نہ ہو


اس واضح تحریف اور دغا کے باوجود تم اپنی تحریروں میں یہ شعر لکھتے ہو  اور تقریروں جھوم جھوم کر پڑھتے ہو:

 ما اہل حدثیم دغا رانہ نشنا سیم 

با قول نبیﷺ قول فقہا رانہ نشنا سیم

 (ترجمہ ) ہم اہل حدیث ہیں جو دھوکہ فریب نہیں جانتے نبی ﷺ کے قول کے ساتھ فقہاء کے قول کو نہیں جانتے ۔اب خود ہی بتاؤ تم نے مندرجہ بالا حدیث کے ترجمہ و تشریح میں حدیث پر جو ہاتھ صاف کیا ہیں اس کا کیا عنوان دوں گے؟ اور آقائے مکی و مدنی علیہ الصلوۃ والسلام کو کیا جواب دو گے؟

غیر مقلد: آپ نے تو مجھے حیران ہوا پریشان کر دیا ہے۔یہ تو ہماری مرکزی دلیل ہے لیکن اس کے بہت سے پہلو ہم سے مخفی رکھے گئے تھے۔اور ہم طوطے کی طرح بغیر تفصیلات سمجھے اس کی رٹ لگاتے رہے۔

سنی: میں نے نہیں بلکہ آپ کے طریقہ کار نے آپ کو پریشان کیا ہے۔ جب تم صحابہ کے قول و فعل کو چھوڑ کر چودھویں پندرہویں صدی کے لوگوں پر اعتماد کرو گے تو وہ تمہارا علمی و فکری استحصال نہیں کریں گے تو اور کیا؟

    

جب تم احادیث کو صحابہ کے حوالے سے نہیں سمجھو گے اور ان کے فہم کو مسترد کرکے چودھویں صدی کے آپ نے ان لوگوں کے فہم پر اعتماد کرو گے تو پھر وہ تمہیں مندرجہ بالا طریقے سے ہی حدیث سمجھائیں گے۔ 

غلط بیانی کا نمونہ: آپ کو تعجب ہوگا کہ آپ کی عظیم شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی صاحب اپنے فرقے کے لوگوں کو بارو کرنا چاہتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام کے مصلے میں غیر مقلد حدیثوں پر عمل کرتے ہیں، جبکہ حنفی اس کے مقابلے میں امام کو بنیاد بناتے ہیں۔ جب کہ اصل صورت حال آپ دیکھ چکے ہیں۔ شیخ موصوف لکھتے ہیں۔ بزرگوں کا احترام اچھی بات ہے لیکن آنحضرت ﷺ کے اقوال گرامی میں سب سے زیادہ قابل احترام ہیں، اقوال ائمہ کی تاویل ہو سکے تو ہو جانے چاہیے احادیث نبویہ کے لئے ائمہ کے اقوال و مذاہب کو معیار نہیں کرا دینا چاہیے۔ ( رسول ﷺ کی نماز:ص ۷۲)

غلط بیانی کا دوسرا نمونہ: حکیم صادق سیالکوٹی صاحب نے ( سبیل الرسول ص:۵۰) پر لکھا ہے کہ ” فاتحہ نہ پڑھنے والے کو یو چھو تو کہتے ہیں: ابو حنیفہ نے روکا ہے“

اس عبارت میں موصوف نے سینہ زوری کرتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ہم تو حدیث پر عمل کرتے ہیں،جبکہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والوں کے پاس کوئی حدیث نہیں۔بلکہ وہ تو حدیث کے مقابلے میں اپنے امام کے قول کو بنیاد بناتے ہیں۔ نیز تمہارے مولانا عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں کہ : ” حنفیہ کا مسئلہ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ یہ صریح حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور یہ کہتے ہیں کہ یہ ہوتی ہے “( امتیازی مسائل ص ۵۱) 

جب کہ آپ گزشتہ گفتگو میں سن چکے ہیں کہ ہماری دلیل کتنی مضبوط ہے اور۔۔۔۔جاری 


© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں