ایک ایسا دن جب میری امیدیں رنگ لیتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ پانچ سالوں کی محنت رنگ لانے کو تھی، میرے عزائم میں سے ایک عزم پورا ہونے کو تھا۔ پہلی دفع جب اہل خانہ راضی ہوئیں۔۔وہ دن: جب میں دارالعلوم رحیمیہ کشمیر میں داخلہ کے لیے گیا، اس روز میں اپنے کمرے میں تشریف فرما تھا اور تدابیر اور تراکیب کو عملی جامہ پہنانے کی سعی کررہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی: کون
: میں ہوں، امی، آئیں۔ بابا کہہ رہے ہیں آپ کو آنا ہے تو اٹھو، کہاں، مدرس: میں پھولے نہ سمایا، ایسا لگا کہ یہ ظریفانہ کہہ رہیں ہیں، پر سنجیدگی کے آثار نظر آ رہے تھیں، آخر، میں اٹھا اور نیچے گیا تو بابا جان بات کہہ رہیں ہیں بڑے بھائی سے: چلیں کوئی ڈرائیور دیکھ لیں، ہم اپنی گاڑی میں جائیں گے تاکہ تاخیر اور تھکاوٹ محسوس نہ ہو، لمبا سفر ہے۔ انکی نظر میں کوئی نہیں آیا پر راقم الحروف نے اپنے عزیز دوست مزمل کو فون گھمایا، اور انھیں عاجزانہ درخواست کی کیا آپ مصروف تو نہیں ہے آپ ہمارے ساتھ چل سکتے ہے سفرِ عظیم (ہمارے لیے تو سفر عظیم ہے) پر، شقاوت سے انہیں مصروفیات تھی،انہیں، الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دیں رہیں تھیں،۔۔۔۔ اور امی نے کہا کہ کیا بولیں۔۔۔ کچھ نہیں وہ مصروف ہے۔۔۔۔ بابا نکل گئیں اور مزمل بھائی کا فون آیا کہ چلیں ہم عملِ حال کو مؤخر کر رہے ہے ہم آپ کے ساتھ ہی چلیں گے۔ پر والد صاحب ابھی واپس نہیں آئیں تھیں اور میں نے ان سے کہا، روکیں! بابا یہاں نہیں وہ باہر نکلیں ہیں، ہم انتظار کرتے ہے، ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ابو آئیں اور بولیں اٹھو! ہم نکلتے ہیں اب ہم ٹرین سے جاتے ہیں۔۔۔۔بڑے بھائی نے ٹرین اسٹیشن تک چھوڑا اور ہم نے ٹکٹ نکالی۔۔۔۔انت ناگ سے سوپورہ تک۔۔۔۔۔اسٹیشن پہ والد صاحب کے خالہ زادہ۔۔۔۔ ملیں۔ ان سے بابا نے گفتگو کی وہ مدارس سے واقف تھے اور۔۔۔۔ آخر میں والد سے بولیں: اب دیکھنا اور محسوس کرنا کہ کس قدر وسیع اور کیسا تعلیمی نظام ہے۔۔۔
ٹرین میں بھیڑ کی وجہ سے ایک جگہ نشست نہ ملی تو میں تھوڑا دور بیٹھ گیا۔ میں خود تشویش میں مبتلا تھا اور والد محترم کا چہرہ بھی مایوس نظر آ رہا تھا جیسے کہ عمیق سوچ میں ڈوب گیا ہیں۔ ۔۔۔ پھر بھیڑ سری نگر میں کم ہوئی اور ابو میرے پاس آئیں۔۔۔میرے پاس ایک چاچا تھے ان سے بات کرنی شروع کی۔۔۔۔میں جس تشویش میں گیر تھا اس میں اضافہ ہوا اور دروازے پر بیٹھ گیا ہوا لینے کے لئے۔۔۔۔۔ اور مجھے محسوس ہوا میں والدین کا گناہگار اور مجرم ، گلٹی فیل ہوا ۔۔۔۔۔۔آخر۔۔۔ سوپورہ پہنچ گئے وہاں سے بانڈی پورہ کی گاڑی لی۔۔۔۔۔ اور اپنی منزل پر پہنچ گئیں یعنی دارالعلوم رحیمیہ، وقت نماز کا تھا ہم نے غسل خانے کی جانب رک کیا، وضو کرنے سے پہلے ایک سریلی آواز اپنی طرف مبذول کرنے لگی: مولانا صاحب طلبا کو بیدار کر رہے تھیں: اٹھو، اٹھو آپ ابھی بھی سو رہے ہو، ذرا اس کو دیکھو، ذرا اِس کو دیکھو ۔ کتنی سریلی اور جذبہ ایمان کو بڑھانے والی صدا تھیں۔۔۔۔ نماز ادا کرنے کے غرض سے عمیم طلبا اور ہم مسجد شریف کی طرف قدوم بڑھاتے ہوئے ۔۔۔۔ اور پھر سنتیں ادا کرنے کے بعد دبر کی طرف دیکھا تو علامات مسلمانی سے لبریز چہرے دیکھنے کو ملیں۔۔۔۔ اور دیر بعد وقتِ نماز آ پہنچا ادارے کے مہتممِ (دارالعلوم رحیمیہ کشمیر) کے بھائی جان جو موصوف کے چہرے کے ساتھ بہت مماثلت رکھتیں ہیں، انہوں نے نماز ادا کروائی اور انفرادی دعائیں مانگنے کے ازیں ہم العبد وسیم اکرم دامت برکاتہم العالیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ معمولاً میں کتب خانہ کی طرف منعطف ہوتا ہوں مجھے رحیمیہ کا کتب خانہ نظر آیا۔۔۔میں اس جانب مبذول ہوا تو ۔۔۔۔ اچانک ان کا فون آیا اور معلوم کر رہیں تھیں کہ کہاں آپ تشریف فرما ہے۔۔۔ میں واپس آیا۔۔۔ان سے ملاقات کے شرف سے مشرف ہوئے اور ہم مہمان خانے کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔۔۔کچھ گونا گوں باتوں کے ازیں۔۔۔۔ کھانا لایا گیا اور ہم نے تناول کے لیے (تب سے مجھے بھوک سی لگ رہی ہیں)، جس کا میں تبرکاً فریفتہ ہوا ۔۔۔۔۔ پھر داخلہ کے کاروائی کا عنفوان ہوا.... محکمہ داخلہ کے منتظم سے تنوع باتوں کے ساتھ انہوں انگریزی میں محاورہ ارشاد فرمایا جس کا مطلب:” خدا مدد ان کی کرتا ہیں جو خود کی مدد کرتے ہیں“ ۔۔۔خیر داخلہ فارم دینا کے بعد مفتی دامت برکاتہم العالیہ کے پاس امتحان دینے کے لیے جانا تھا۔۔۔ انہوں نے تعارف کے بعد سابقہ مطالعہ شدہ کتب کو نوشت کرنے کا حکم دیا ۔۔۔۔۔۔ اور ایسا ہی کیا گیا ۔۔۔پھر قرآن کی روانگی و ادائیگی کا جائزہ لیا ۔۔۔۔ آخر الحمد مشکلاً کامیابی حاصل ہوئی ۔۔۔۔ پھر بابا سے باتیں ہوئیں۔۔۔۔ اور دیر کے سبب ہم روانہ ہوئے ۔۔۔۔ دلِ مسرور کی حالت ہی نہ پوچھئے۔۔۔۔ جاری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔