علم کی صحیح پہچان ترقی و بلندی

1

         علم کی صحیح پہچان ترقی و بلندی

علم کی فضیلت و افادیت کا انکار کیسے ہو سکتا ہے! علم انسان (وجود) کی ان ضرورتوں میں سے ہے جس کی عدمیت سے آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ علم اللہ کی وراثت ہے جس کے مقتسم انبیا ہوتے ہیں اور ختمیت کے ازیں ورثۂ انبیا۔ جو قوم باعتبار حالات اپنے آپ کو نہ ڈھلے تو وہ مترقی قطعی نہیں کہلائی جاسکتی۔ ایک المیہ یہ ہے کہ کچھ اشخاص یہ جتلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سائنسی علوم،ماڈرن ٹیکنالوجی کے علوم کو اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جس چیز سے یہ ذہن بن چکا ہے اصل میں اس کی تاریخ یوں ہے۔ ہزاروں سال پہلے جب سائنس کی ترقی اقوام باطلہ کے ہاتھ لگی تو  ابتداء میں ناقص تحقیقات اور غلط مشورے دینے کی وجہ سے قرون وسطیٰ(بلکہ قرون اولیٰ، کہہ سکتے ہیں جب سے دنیا وجود پذیر ہوئی ہے تب سے سائنس بھی موجود ہے۔ کیونکہ سائنس ہر چیز کے متعلق بات کرتی ہیں اور ہر ایک چیز میں سائنس ہے) کے اسلاف نے اس سے انحراف کیا پر تعاون دیتے رہے اور مستفید ہوتے رہے۔ کیونکہ وجودِ سائنس اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے رونما ہوا ہے۔  جس یورپ کی ہم یہ دیں سمجھتے ہیں اُس سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ جیسے جی بی ٹرینیڈ میں بڑی صاف گوئی سے لکھا ہے کہ ” دور حاضر کے ہسپانوی مورخین کے علی الرغم یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ یورپ جن دنوں مادی اور روحانی طور پر تنزل کا شکار تھا اس وقت ہسپانیہ کے مسلمان فاتحین ایک عظیم الشان تہذیب کی عمارت قائم کر چکے تھے۔ انہوں نے ایک منظم اقتصادی زندگی کی بنیاد رکھ دی تھی اور وہ علوم و فنون،فلسفہ اور تعمیرات کے میدان میں نئی نئی مثالیں قائم کر رہے تھے۔ ہسپانیہ کے مسلمان فاتحین کی بلندیٔ فکر کے اثرات  یورپ پر ہر حیثیت سے پڑے اور اگلے برسوں تک پڑھتے رہیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم اسپین نے یورپ کو ہر میدان میں روشنی دکھائی ہے ہے۔“ اور اب ہمارا رسمی اور باقی ان کا تعلق رہا ہے۔ 


ماڈرن علوم کو اسلام سے جدا سمجھنا میرے خیال سے الحاد ہے (ان کے بغیر جو انسانیت کے لیے مضر ثابت ہو) اسلام میں بڑے بڑے مشاہیر علم و سائنس پیدا کیے جن کی ایک لمبی فہرست ہے ان میں سے چند ایک جو آفتاب علم وسائنس پر چمکے وہ ہیں شاطبی، قرطبی، ابن عربی، ابن طعیل، ابن خرم ،ابن جیر ، ابن زہر، ابن بیطار ، ابن ماجہ، ابن رشد، الکندی ،الفارابی ، الغزالی جماعت اخوان الصفا وغیرہ وغیرہ ۔ ان میں سے اگر صرف ایک قاضی ابو الید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن احمد بن رشد الاندلسی(۵۲۰ھ) کوہی اگر لیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ صرف ان کے نقش قدم پر یورپ نے نشاۃ ثانیہ کی ایک ایسی عظیم الشان عمارت تعمیر کی جو آج بھی عقل و مشاہدہ کے مضبوط ستون پر قائم ہے۔


تاریخ کی طرف جانا مقصود نہیں ہے ورنہ وہ ضرورتِ وقت کی کون سی شیٔ تھی جو مسلمان نے ایجاد نہ کی تھی۔


ع   ضرورت ہی ایجاد کی ماں ہوتی ہے


 جیسے ہوائی جہاز،قطب نما، گڑھی، پیپر،پانی کا جہاز، بارود، وغیرہ وغیرہ۔ 

صد افسوس کہ اگر یہ میراث بھی ہم نے منتقل کی ہوتی تو آج وہ علمی ترقی میں یورپ سے کہیں آگے ہوتے اور وہ انقلاب جو یورپ میں رونما ہوا ہمارے گھروں سے جگمگاتے۔

اب بھی مستبعد نہیں، ہمیں اس کی طرف منعطف ہونا چاہیے پر ہمیشہ معیار قرآن کو رکھنا ضروری ہیں کیونکہ وہ کلام ہیں عالم العلوم  کا، جس سے عمیم علوم کی اصول صادر ہوئے ہیں۔


ابن رشد قرآنِ کریم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کتاب محترم پر نظر ڈالنے سے تین طرح کی آیتوں کا پتہ چلے گا۔ایک خطاطی یعنی وہ آیتیں جن کا مقصد عامۃ الناس کی تعلیم و تفہیم ہے۔ دوسرا جدلی یعنی وہ آیتیں جو مشترکہ طور پر اکثر انسان کے لیے پیش کی گئی ہیں۔ اور تیسری برہانی، یعنی وہ خاص طریقے جو اعلیٰ علم والوں کے لیے پیش کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک قرون اولیٰ کے لوگ زیادہ دانش مند تھے جنہوں نے مذکورہ بالا طریقہ پر پوری طرح عمل کیا۔


جس طرح محدث اور فقہی الگ ہے پر جدا نہیں، اسی طرح علوم دینیہ، علم  سائنس سے الگ ہے پر جدا نہیں۔  علما جس قدر علوم دینیہ کو سیکھنے کی مشقیں کرتے ہیں۔ اور ان کا ذہن اور دماغ اس قدر ذہین اور بلندی پر فائز ہوتا ہے کہ کسی سائنسدان سے کم نہیں۔ ان کو بس راستہ اور اسباب دیجئے یہ دنیا کو آپ کے قدموں کے نیچے لا کر رکھ دیں گے۔اس کے تمثیلات ہمارے روبرو ہے۔


پس اگر ضرورت ہے کسی چیز کی تو فکر و تفکر کی، جس طرح قرآنِ کریم میں صادر ہوا ہے کہ تم عقل سے کیوں کام نہیں لیتی ہو، کیوں تم غور و فکر نہیں کرتے ہو۔

خدا کرے اب ہمیں ہوش آئے اور عقل کے ناخن لیں، اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کی راہ کھو نہ دیں اور اپنے اسلاف کی طرح علم وسائنس خوب خوب محنت ومشقت کر کے امتِ مسلمہ کو پھر اس مقام پر لے جائیں جس کا قرآن و سنت نے وعدہ کیا ہے۔  غم نہ کھا، مت گھبرا ، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو۔ آمین و کوشاں از تغیرِ حالت۔

ماجد کشمیری


تبصرے

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں