نماز میں آنکھیں بند کرنے کا مسئلہ

0

نماز میں آنکھیں بند کرنے کا مسئلہ


الحمدللہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی امابعد۔


 میں علماؤں کی تتبع میں چند گزارشات آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں۔


یاد رہیں! انسان کے اوپر اللہ تعالی  کے جو عبادات ہیں (عبادات کا معنی گرچہ وسیع وعریض ہے) ان میں سے نَماز ایک عظیم الشان حثیت و خصوصیت رکھتی ہیں۔  جس سے کسی اور عبادت کا تقابل کرنا مشکل ہے۔ یہاں تک وارد ہوا ہے کہ ماننے والے اور نہ ماننے والے کے مابین جو فرق ہے وہ نماز کا ہے۔ نماز کے عمیم بنیادی مسائل معلوم ہونا چاہیے۔ یہ ہم پر واجب ہے۔


نماز کا تقاضا کیا ہے: وہی نماز اللہ کے یہاں مقبول ہیں، جس میں خشوع و خضوع پایا جاتا ہوں۔ وارد ہوا ہے کہ نماز خشوع و خضوع کے بغیر نامکمل ہے: گر چہ اس پر فتویٰ نہیں ہیں۔ ہم میں سے بہت سارے عابدین، عاجزین اور نماز گزار ایسے ہے جو نماز میں خشوع و خضوع سے بھی عاجز ہیں۔ مقبولیت کی علامت یہی ہے اور اصل تقاضہ یہی ہے ۔


 اس پر میں ایک جملہ کہا کرتا ہوں کہ نماز کے تین منزل ہیں۔ نماز پہلے ریاکاری میں شامل ہوتی ہیں، اس کے بعد عادت بن جاتی ہیں اور یہی عادت پھر عبادت بن جاتی ہیں۔ ان مراحل سے اس کو گزرنا پڑتا ہے۔ جب تک یہ ان درجوں سے گزر  نہ جاتی تب تک عبادت کے درجے میں فائز نہیں ہوتی۔ (اگرچہ ابتدائی منزلین کی نماز بھی اللہ تبارک و تعالیٰ قبول کرتا ہے اور ہم اسی کی دعا کرتے ہیں۔) پر کہیں نہ کہیں عبادت کے اصل تقاضے کی نفی اور خلجان محسوس ہوتی ہے۔ جیسے میں عرض کر رہا ہوں کہ نماز میں خشوع وخضوع کا ہونا ضروری ہے اس کا عظیم  ہونا، بھاری ہونا ضروری، کیونکہ جب اس کو احسان کی ترازو میں تولا جائے گا تب اس کا عظیم ہونا ضروری ہے یعنی اس میں بھاری پن ہونا ضروری ہیں۔ اگر یہ نماز ہلکی ہوئی تو ہم گھاٹے کی طرف جا رہے ہیں۔ پر  نماز میں خیال آنے کا انکار نہیں کیا جا سکتا، پر خیال سے بچنا بھی ضروری ہے، اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں: الذین ھم  فی صلاتہم خاشعون۔ وہ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع سے ملنسار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے اندر خشوع و خضوع کو پیدا کرنے کے لیے تدابیر استعمال کرتے ہیں تو کر لیں۔ کیونکہ خوش و خضوع کا ہونا، عبادت کا اصل تقاضا ہے۔  اسی طرح نماز میں آنکھیں بند کرنے کا مسئلہ ہے: یہ کرنا، انہیں  منزلین میں پایا جاتا ہے جن کو ریاکاری  اور عادت کے نام سے موسوم کیا تھا۔ پر ان کو طلب ہوتی ہے کہ اس کو عبادت بنائیں ۔ عبادت بنانی ہے تو اس میں خشوع و خضوع کا لانا لازم ہے۔ انہیں ابتدائی دور میں ہمیں آنکھیں بند کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔  اب مسئلے کا حکم جان لیجئے:


 نماز میں آنکھیں بند کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے، پر خوش و خضوع کا ہونا ضروری ہے اس لیے ابتدائی منزلین میں کراہت رفع ہوتی ہے اس مقصد سے کہ ہمیں نماز میں آنکھیں بند کرنے سے خشوع و خضوع سے حاصل ہوں۔ 


کتبہ: ماجد کشمیری

ساری چیزیں حلال کیوں نہیں ہیں| بعض چیزیں حرام کیوں ہیں

0

 ساری چیزیں حلال کیوں نہیں ہیں۔


سوال: اللہ تبارک و تعالی فرماتیں :ھو الذی خلق لکم مافی الارض جمیعا: اسی نے تمہارے فائدے کے لئے وہ تمام چیزیں پیدا کیں جو زمین میں ہیں۔” جب زمین کی تمام چیزیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں تو سب چیزیں حلال ہونی چاہئیں، بعض چیزیں حرام کیوں ہیں؟“


جواب: حلت و حرمت کا مدار نفع و ضرر ہے،شکر انسان کے لئے بنتی ہے، مگر شکر والے کو ڈاکٹر شکر سے منع کرتا ہیں، مٹی کھانا حرام ہے، حالانکہ پاک ہے سنکھیا (زہر) کوئی نہیں کھاتا، مگر دواؤں پر پڑتا ہے، پس اخلاقی خرابیوں یا جسمانی ضرر سے بچنے کے لئے شریعت نے بعض چیزیں حرام کی ہیں، مگر وہ بھی انسان کے لئے ہے گو ابھی اس کا نفع انسان کو معلوم نہ ہے۔ (تفسیر ہدایت القرآن از شیخ الحدیث علامہ سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ)


مرتب: ماجد کشمیری


پردہ اور مختلف مذاہب کی تعلیمات!| حجاب ہند دھرم میں| حجاب یہودیت میں| ہندوستان حکومت اور حجاب

0


پردہ اور مختلف مذاہب کی تعلیمات!


از: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

ماجذ: شمع فروزاں

___________________________


عورتوں کے لئے پردہ کا تصور قریب قریب ہر مذہب میں رہا ہے، مغرب نے جب مذہب سے بغاوت کی اور نفس کی آسودگی کے لئے عورت کو بازار میں لے آیا تو اس مسئلہ میںبھی اسلامی شریعت کو ہدف بنایا گیا ؛ حالاں کہ پردہ کا حکم صرف عورتوں کے لئے نہیں ہے، مردوں کے لئے بھی ہے ، مردوں کے حق میں لازمی حکم یہ ہے کہ ناف سے لے کر ٹخنہ تک کا حصہ چھپایا جائے ، فقہاء اسلام نے اس کی صراحت کی ہے :عورۃ الرجل ما بین سرتہ الیٰ رکبتیہ (المبسوط للسرخی:۱۰؍۱۴۶) ’’ یعنی مرد کا حصۂ ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے‘‘۔

 یہ تو مردوں کے لئے ستر کا لازمی حکم ہے ؛ لیکن مستحب طریقہ یہ ہے کہ گردن سے کمر تک کا حصہ بھی چھپا ہوا ہو ؛ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے دو کپڑوں کا استعمال فرماتے تھے، ایک : تہبند جو کمر کے نیچے کے حصہ کو ڈھانک لے، دوسرے : وہ کپڑا جس سے اس سے اوپر کا حصہ چُھپ جائے، ایک بار آپ ﷺ نے صرف ایک تہبند میں نماز پڑھی تو دیکھنے والے صحابی کے لئے یہ بات حیرت کا باعث ہوگئی، آپ ﷺ نے ان کا استعجاب دور کرنے کے لئے فرمایا :کیا میری اُمت کے تمام لوگوں کے پاس دو چادریں ہوں گی ؟ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۶۲۸۷) مقصد یہ تھا کہ اُمت میں ایسے غریب افراد بھی ہو سکتے ہیں ، جن کو دو چادریں میسر نہ ہوں ، ان کے پاس ایک ہی چادر ہو ، ایسی صورت میں وہ نماز سے محروم نہ ہو جائیں ، اس سے معلوم ہوا کہ عام طور پر کمر سے نیچے اور کمر سے اوپر دونوں حصے چھپائے جاتے تھے ، عربوں کا جبہ اسی روایت کا تسلسل ہے ، جس کو مرد استعمال کرتے ہیں ، اور جو گردن سے پاؤں تک پورے جسم کو چھپائے ہوا ہوتا ہے۔


 عورتوں کے لئے پردہ کی زیادہ رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :


 (الف) مَحرم ( جس سے نکاح کرنا حرام ہے) کے لئے چہرہ، ہاتھ، بازو ، گردن سے متصل حصہ ، پنڈلی اور پیٹھ ستر میں شامل نہیں ہے ، جسم کے باقی حصہ کا ستر ضروری ہے ، (تکملہ البحر الرائق:۸؍۲۲۱)اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محرم کے سامنے خواتین ان تمام اعضاء کو کھول کر رکھیں ؛ بلکہ منشاء یہ ہے کہ اصل میں تو چہرہ اور ہاتھ محرم کے سامنے کھولنا چاہئے ؛ لیکن اگر یہ اعضاء بھی کھل جائیں یا معمولی ضرورت کی بناء پر کھولے جائیں تو اس کی گنجائش ہے ۔ (المبسوط للسرخسی:۱۰؍۱۳۹)

 (ب) ایسے غیر محرم جن سے بار بار سامنا ہونے کی نوبت آتی ہو ، جیسے ہندوستانی معاشرہ میں ایک ہی گھر میں دو بھائیوں یا دو بہنوں کی اولاد کا قیام ہوتا ہے اور چچا زاد ، خالہ زاد، ماموں زاد بھائی بہنوں میں مکمل پردہ دشوار ہوتا ہے، تو اس صورت میں چہرہ اور ہتھیلی کے بقدر ہاتھ نیز پاؤں کھلے رکھنے کی گنجائش ہے ، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع سے آپ کی چچا زاد بہن حضرت اُم ہانی بنت ابی طالبؓ آپ کے سامنے ہوئی ہیں ، (حاشیہ علی مسند احمد: ۴۴؍۴۵۵) یا حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ آپ کے سامنے ہوتی رہی ہیں ، (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۱۸۱۸) مگر یہ حکم اسی وقت ہے جب کہ ان کے ایک دوسرے کے سامنے آنے میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ، فتنہ سے مراد ہے : گناہ میں مبتلا ہو جانے کا شدید اندیشہ، (ردالمحتار:۱؍۴۰۶) 

 (ج ) جو عورتیں عمر دراز ہوں ، یعنی ان کی عمر پچاس سال سے اوپر ہو چکی ہو ، پردہ کے معاملہ میں ان کا حکم مردوں کے لئے محرم عورتوں کا سا ہے ۔ (ہدایہ:۴؍۳۶۸) یعنی وہ چہرہ کھول سکتی ہیں۔

 (د) عورت کے لئے عورت سے پردہ اسی قدر ہے ، جتنا مرد کا حصۂ ستر ہے ۔ (تکملہ البحر الرائق:ٌ؍۲۱۹)

 دو صورتیں ایسی ہیں جن میں مردوں اور عورتوں کا حکم یکساں ہے ، ایک : ازدواجی رشتہ ، اس میں نہ شوہر کے لئے بیوی سے ستر ضروری ہے اور نہ بیوی کے لئے شوہر سے ؛ البتہ شوہر وبیوی کے لئے بھی بہتر ہے کہ بلا وجہ ایک دوسرے کے سامنے اپنے صنفی اعضاء کو نہ کھولیں ، یہ حیاء کے خلاف ہے؛ آپ ﷺ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے : (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۹۲۱)

 دوسرا موقع ہے ضرورت کا ، ضرورت دو طرح کی ہے ، ایک وہ جو زندگی کے عام مسائل میں پیش آتی ہو ، اس میں چہرہ کھولنے کی گنجائش ہے؛ رسول اللہ ﷺ سے بہت سی صحابیات ملاقات کیا کرتی تھیں اور مسائل دریافت کرتی تھیں، خود حضور ﷺ کا حضرت ام سلیطؓ اورحضرت بریرہؓ کے یہاں جانا ثابت ہے ، (عمدۃ القاری:۱۴؍۱۶۸، نیز دیکھئے: سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۲۲۳۱) حج کے موقع سے ایک خثعمی خاتون نے آپ سے مسئلہ دریافت کیا، اس وقت حضرت فضل بن عباسؓ آپ کے ساتھ اونٹنی پر سوار تھے، آپ ﷺ نے ان کا چہرہ موڑ دیا ، (مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۸) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے مواقع پر عورت کے لئے چہرہ کھولنے کی گنجائش ہے؛ چنانچہ جس عورت کو نکاح کے ارادہ سے پیغام دیا گیا ہو، اس کو دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے، نیز فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر عورت گواہ یا مدعیہ یا مدعی علیہا ہو تو قاضی اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے، (ہدایہ: ۴؍۳۶۸-۳۶۹) 

 دوسری ضرورت ہے ’’ علاج‘‘ اگر مرض کی تشخیص کے لئے زبانی کیفیت بتانا کافی ہو جائے، تو واجب ہے کہ جسم کو کھولنے سے بچا جائے، یہ حکم مردوں کے لئے بھی ہے اور عورتوں کے لئے بھی؛ لیکن اگر مرض کی تشخیص کے لئے جسم کا معائنہ ضروری ہو تو پہلی ترجیح یہ ہے کہ مرد، مرد معالج اور عورت، عورت معالج سے رجوع ہو، اگر اپنی جنس کا معالج موجود نہ ہو تو بدرجۂ مجبوری مخالف جنس معالج کو احتیاط کے ساتھ مرض کی جگہ دکھائی جا سکتی ہے۔

 غرض کہ پردہ کے احکام مردوں کے لئے بھی ہیں اور عورتوں کے لئے بھی ؛ البتہ اس کے حدود الگ الگ ہیں؛ اسی طرح مردوں اور عورتوں دونوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ غضِّ بصر سے کام لیں ، یعنی صنف مخالف کو تاکنے، جھانکنے، نظر جما نے اور لذت اندوز ہونے سے بچیں ، قرآن مجید نے جہاں نگاہ کو پست رکھنے کا حکم دیا ہے ، وہاں عورتوں سے پہلے مردوں کو خطاب کیا گیا ہے ؛ البتہ عورتوں کو دوپٹے کا بھی حکم دیا گیا ہے، جو سر، گردن اور سینہ کو چھپائے ہوا ہوتا ہے، (نور: ۳۰-۳۱)

 اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید نے جو پردہ کا حکم دیا ہے، اس میں سر اور چہرہ بھی شامل ہے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ عورتیں جب کسی ضرورت سے گھر سے باہر جائیں تو ان کے لئے حکم ہے کہ سر کے اوپر سے گھونگھٹ (جلباب) ڈال کر چہرہ کو چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں (تفسیر طبری: ۲۰؍ ۳۲۴)

 پردہ کی حدود مردوں کے مقابلہ عورتوں کے لئے زیادہ کیوں رکھی گئی؟


یہ بالکل واضح ہے اور فطرت کی آواز ہے، اللہ تعالیٰ نے تخلیقی طور پر عورتوں کے اندر مردوں کے مقابلہ زیادہ کشش رکھی ہے ؛ اسی لئے دنیا کے تمام ہی مذاہب میں اس کی رعایت ہے ، ہندو مذہب میں سیتاجی کو ایک آئیڈیل خاتون مانا گیا ہے، جنھوں نے دشمنوں کے بیچ رہ کر بھی اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کی اور اپنی آبرو پر کوئی دھبہ لگنے نہیں دیا، سیتا جی کے بارے میں ہندو مذہبی مآخذ میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ جب شری رام جی کے بھائی لکشمن کو کہا گیا کہ وہ سیتا جی کا چہرہ دیکھ کر ان کو پہچانیں تو انھوں نے کہا کہ میں نے کبھی اپنی بھاوج کے قدموں سے اوپر نگاہ نہیں اُٹھائی اور ان کا چہرہ نہیں دیکھا ؛ چنانچہ انھوں نے سیتا جی کے پازیب دیکھ کر ان کو پہنچانا ؛ اسی لئے عام طور پر ہندو بھائیوں کے یہاں دیویوں کی تصویر اس طرح بنائی جاتی ہے کہ ان کا سارا بدن سوائے چہرہ کے ڈھکا ہوتا ہے اور سرپر آنچل ہوتا ہے ، ہندوؤں کے بہت سے خاندانوں، خاص کر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں عورتوں کے گھونگھٹ لٹکانے کا قدیم رواج رہا ہے ، اور بہت سی جگہوں پر آج بھی موجود ہے ، یہ گھونگھٹ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سر ، چہرہ اور سینہ کا حصہ اچھی طرح چھپ جاتا ہے ؛ بلکہ ہندو دھرم کی بنیادی کتاب وید میں پردہ کا بہت واضح حکم ملتا ہے :

چوں کہ برہم (خدا) نے تمہیں عورت بنایا ہے ؛ اس لئے اپنی نظریں نیچی رکھو، اوپر نہیں ، اپنے پیروں کو سمیٹے ہوئے رکھو ، اور ایسا لباس پہنو کہ کوئی تمہارا جسم دیکھ نہ سکے ۔ (رگ وید:۸؍۱۹-۳۳)

 تورات کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی مذہب میں بھی عورتوں کے لئے پردہ کا حکم تھا ، عیسائیوں کے یہاں حضرت مریم علیہا السلام کی شخصیت آئیڈیل اور نمونہ ہے ، ان کی تصویریں بھی اس طرح بنائی جاتی ہیں کہ سوائے چہرہ کے پورا جسم چھپا رہتا ہے ، آج بھی چرچ کی راہبات سوائے چہرہ کے پورے جسم کو چھپانے والا ڈھیلا ڈھالا لباس پہنتی ہیں ، جن مغربی ملکوں میں برقعہ یا حجاب پر پابندی لگائی گئی ہے ، وہاں بھی نَنوںکو اپنا بدن ڈھانک کر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ، راہبات کے لئے تو سر چھپانا ان کے یہاں واجب ہے ہی ؛ لیکن اس کے علاوہ بعض عیسائی فرقوں جیسے : آمیش اور مینونایت کے نزدیک عورت کے لئے سرچھپانا ضروری ہے ؛ بلکہ ۱۹۱۷ء تک کیتھولک چرچوں میںعورتوں کے لئے سر چھپانا ضروری سمجھا جاتا تھا ۔ (دیکھئے: وکی پیڈیا، مادہ: غطاء الرأس فی المسیحیۃ)

 غرض کہ یہودی اور عیسائی مذہب میں بھی پردہ کے سلسلہ میں مردوں اور عورتوں کے احکام یکساں نہیں ہیں ؛ اسی لئے تورات نے عورت کو مرد کا اورمرد کو عورت کا لباس پہننے سے منع کیا ہے ؛ چنانچہ تورات میں ہے :

عورت مرد کا لباس نہ پہنے اور نہ مرد عورت کی پوشاک پہنے ؛ کیوں کہ جو ایسے کام کرتا ہے ، وہ خداوند کے نزدیک مکروہ ہے ۔ (استثناء:۲۱:۵) 

 یہودیوں کے یہاں یہودی علماء کے اجتہاد واستنباط سے جو فقہی کتاب مرتب ہوئی ہے اور جس کو پوری دنیا کے یہودی مسائلِِ زندگی کے لئے معتبر مانتے ہیں، وہ ’’ تلمود‘‘ ہے ، اس کتاب میں خاص طور پر عورت کے بال سے متعلق بحث گئی ہے ؛ چنانچہ مایر شلّر(Mayer Schiller) نے نقل کیا ہے :

فقہاء یہود کا اس بات پر اجماع ہے کہ شادی شدہ یہودی عورت سڑک پر سر کے پورے بال نہیں کھول سکتی … کوئی بھی نص یا فقیہ کا معتبر قول نہیں ہے ، جو شادی شدہ عورت کو عام مقامات پر پورے بال کھلے رکھنے کی اجازت دیتا ہو۔(نیٹ سے: 104-405 M,Schiller op cit:)

 یہ جو بات کہی گئی ہے کہ پورے سر کے بال کھلے رکھنے کی ممانعت پر اجماع ہے ، اس کا پس منظر یہ ہے کہ یہودیوں کے بعض فرقے جیسے سفار دیم اور بعض علماء جیسے موشی فائنسٹاین (Moshe Feinstein ) جو امریکہ کے یہودیوں کے درمیان مقبول عالم ہیں ؛ کی رائے ہے کہ عورت سر کے اگلے حصے سے صرف انگشت کے بقدر بال کھلا رکھ سکتی ہے :Jerusalem Feldheim Pullishers 1992, P:122-123.

 بعض علماء یہود سے منقول ہے کہ شادی شدہ عورت کو سر چھپانا چاہئے ؛ یعنی غیر شادی شدہ کے لئے یہ ضروری نہیں ہے ؛ مگر یہ متفق علیہ قول نہیں ہے ؛ چنانچہ بعض یہودی علماء جیسے موسیٰ بن میمون نے لکھا ہے :

اسرائیلی عورتوں کے لئے کھلے سر بازار جانا جائز نہیں ہے ، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ۔ (Maimonieles:21/17)

 بعض علماء نے اس یہودی قانون کی تشریح کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ جن حضرات نے غیر شادی شدہ عورت کو سرکھلا رکھنے کی اجازت دی ہے، ان کا مقصد یہ ہے کہ نابالغ لڑکیوں کے لئے سر چھپانا ضروری نہیں ہے؛ چنانچہ تلمود میں سر چھپانے کے احکام اس طرح بیان کئے گئے ہیں :

مرد کبھی اپنے سر چھپا بھی سکتے ہیں اور کبھی کھلا بھی رکھ سکتے ہیں ؛ لیکن عورتیں ہمیشہ اپنا سر چھپائیں گی، اور نابالغ بچیاں سر نہ چھپائیں ۔((Group 2005 p:44

 اسی بناء پر یہودی علماء نے کہا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو کھلے سر اپنے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھے تو وہ کافر (Bodless) ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ اس کو طلاق دیدے ۔ ((1Alvin Schmidt op cit P : 13

 بلکہ بال چھپانے کے حکم میں علماء یہود کے نزدیک اتنی سختی ہے کہ ان کے بعض فرقے شادی کے موقع سے دُلہن کے بال منڈا دیتے ہیں؛ کیوں کہ شادی کے موقع سے بال کو چُھپاکر رکھنا دشوار ہوتا ہے ، اسپین ، یوکرین اور فلسطین کے مذہبی یہودی خاندانوں میں رواج ہے کہ وہ بال منڈا کر سر پر کوئی کپڑا لپیٹ لیتی ہیں ، بعض یہودی علماء نے بھی اس نامعقول عرف کی پوری قوت کے ساتھ تائید کی ہے ۔ ( دیکھئے: منقول از نیٹ: M. Schiller,op,cit pp. 101,102)

 جب بال کے سلسلے میں اس درجہ سخت احکام ہیں تو اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جسم کے دوسرے اعضاء کا لوگوں کے سامنے کھولنا بھی ان کے نزدیک جائز نہیں ہوگا ؛ چنانچہ تلمود کے ایک بڑے عالمRavad of Pasqiures کہتے ہیں :

عورت کی کسی بھی جگہ کو دیکھنا ممنوع ہے، چاہے چھوٹی انگلی ہو یا پھر بال ہی کیوں نہ ہو۔ 

Cited in Hidelushei ha Rashba, Berakhuted N.M. Harbits, Jerusalem, 1979, Quated by, Shmuel Her feld op, cit) . (منقول از : نیٹ

 تلمود میں ایک یہودی عالم ششت کی بات نقل کی گئی ہے :

اگر کوئی شخص عورت کی چھوٹی انگلی کو بھی گھورتا ہے تو گویا اس نے اس کی شرمگاہ کو گھور کر دیکھا ۔ (Berachoth:24a ،منقول از نیٹ)

 بلکہ یہودی مذہب میں چہرہ کو شامل کرتے ہوئے عورت کے مکمل پردہ کا تصور پایا جاتا ہے ؛ چنانچہ ڈاکٹر Menachem M Brayer نے اپنی کتاب’’ عبرانی ادب میں یہودی عورتیں‘‘ میں لکھا ہے :

یہودی خواتین کا طریقہ تھا کہ وہ سر ڈھک کر باہر نکلتی تھیں اور بعض دفعہ ایک آنکھ کو چھوڑ کر پورا چہرہ بھی ڈھانکے ہوئے ہوتی تھیں ( Menachem m.brayer.op.cit.p.239 ، نیٹ سے)

 ایک بڑے یہودی عالم اور تورات کے مفسر دانیال قومیصی نے بعض یہودی علماء پر سخت تنقید کی ہے کہ انھوں نے یہودی عورت کو یہودی مرد کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت دی تھی ۔ 

 ان تصریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہودیوں کے یہاں پردہ کے قریب قریب وہی احکام ہیں،جو مسلمانوں کے یہاں ہیں۔

 یہ تو مذہبی نقطۂ نظر ہے، جہاں تک ملکی قانون کی بات ہے تو ہمارے دستور میں شخصی آزادی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، ہر شہری کو اپنی پسند کے مطابق لباس پہننے کا حق حاصل ہے، حد تو یہ ہے کہ خواتین کھیل کے میدان میں بہت ہی مختصر ، ہیجان انگیز لباس میں اترتی ہیں، اب ایسا لباس پہننے کی تو آزادی ہو مگر ڈھکا چھپا لباس جس میں عورت کا بھی تحفظ ہو اور سماج میں بھی بے راہ روی کو روکا جا سکے، پر اعتراض کیا جائے، کیا اس میں کوئی معقولیت ہو سکتی ہے؟

 حقیقت یہ ہے کہ پردہ خواتین کے لئے نعمت ہے ، جو ان کو وقار عطا کرتا ہے ، اور پردہ کو ختم کر دینا بہت سی معاشرتی برائیوں کا سبب بنتا ہے ، جن میں سب سے اہم زنا کی کثرت اورعورتوں کو زیادہ سے زیادہ برہنہ کرنا ہے ، زنا اگرچہ دو طرفہ فعل ہے ؛ لیکن اس کا زیادہ نقصان عورت کو اُٹھانا پڑتا ہے ، اگر وہ زنا کی وجہ سے بچے کی ماں بن گئی تو اسے اپنا ہی نہیں اپنے بچہ کا بوجھ بھی اُٹھانا پڑتا ہے ، اور اگر بے قید تعلق کا معاملہ آگے بڑھا اور مختلف مردوں سے اس کا رابطہ ہوا تو پہلے وہی ایڈس کی مریض ہوتی ہے ، پھر مرد ہوتا ہے ، اور اس کی زندگی دُکھ بھری زندگی بن جاتی ہے ، جب عورت کی عریاں تصویر لی جاتی ہے تو اگرچہ مرد بھی اس عمل میں شریک ہوتا ہے ؛ لیکن رُسوائی اس عورت ہی کی زیادہ ہوتی ہے ، اگر وہ آئندہ اپنی پاکیزہ زندگی شروع کرنا چاہے تو اس سے قاصر رہتی ہے ، مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کا شکار اکثر وہی عورتیں بنتی ہیں ، جو بر سرِ عام اپنے جسم کی نمائش کرتی ہیں ، نیم برہنہ لباس پہنتی ہیں ، یاایسے چست ملبوسات کا استعمال کرتی ہیں ، جن سے جسم کا نشیب وفراز نمایاں ہو جائے ، جو عورتیں ڈھکا چھپا اور ڈھیلا ڈھالا لباس استعمال کرتی ہیں ، ان کے ساتھ زیادتی کے واقعات کم پیش آتے ہیں اور زیادہ تر وہ عیاش مردوں کی ہوسناک نظروں سے محفوظ رہتی ہیں۔


مرتب ماجد کشمیری

قرآن کریم سب کے لیے راہ نما پھر متقین کی تخصیص کیوں| ایمان والوں کی علامت| ناکام لوگوں کی علامت

0

قرآن مجید اگر سب کے لیے راہ نما کتاب ہے پھر ہدًی للمتقین کیوں؟


 سوال(١) قرآنِ کریم تو سب کے لئے راہ نما کتاب ہے، آگے (آیت ۱۸۵) میں ہے: (ہدًے للناس) پھر متقین کی تخصیص کیوں کی۔ 


جواب:اگر متقین کے معنی ہیں: اللہ سے ڈرنے والے تو متقین عام ہے، جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے قرآن اس کو راستہ دکھاتا ہے، چاہے وہ ایمان لایا ہو یا نہ لایا ہو، اسی کو طاعت کا فکر اور معصیت کا ڈر ہوگا۔ اور وہی قرآن کی باتوں پر کان دھرے گا اور ایمان لائے گا، ہاں نڈر لوگ نکل جائیں گے، نکل جانے دو ان کو ! ان سے کسی چیز کی امید ہی نہیں!


 اور اگر متقین سے نیک مؤمنین مراد ہیں تو پھر اس میں اشارہ ہے کہ اللہ کی کتابوں کی راہ نمائی سے کوئی مستغنی نہیں، انبیاء اور اولیاء بھی اللہ کی راہ نمائی کے محتاج ہیں، کیونکہ دنیا بھول بھلیاں ہے، بڑے شہر کے رہنے والے کو بھی شہر میں گھومنے کے لئے گائڈ بک کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح متنقی بھی قرآن کی راہ نمائی کے محتاج ہیں۔ 

( قرآن کریم کا راز (بھید) 

اور الم کو حروف مقطعات کہتے ہیں، یہ بھید ہیں، بوجہ مصلحت ان کے معانی کھولے نہیں گئے، اور بعض اکابر نے جو ان کے معانی بیان کئے ہیں وہ تاویل ہیں، اور متشابہات کی تاویل جائز ہے مگر اس کو مراد خداوندی نہیں کہیں گے۔ الم ذلک الکتب لا ریب فيه هدى للمتقین 


ترجمہ: الف لام میم، اس کتاب میں کوئی شک نہیں، اللہ سے ڈرنے والوں کو راہ بتلانے والی ہے!


ہیز گاروں کے پانچ اوصاف


اللہ سے ڈرنے والوں میں پانچ باتیں ہوتی ہیں:


ا- وہ پسِ پردہ جو حقائق ہیں ان کا مشاہدہ کئے بغیر محض مخبر صادق کی اطلاع سے مانتے ہیں۔

۲. وہ نماز قائم کرتے ہیں یعنی ہمیشہ رعایتِ حقوق کے ساتھ وقت پر نماز ادا کرتے ہیں۔ 


۳- وہ اللہ کے بخشے ہوئے مال میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں، یعنی زکات نکالتے ہیں اور دوسری خیراتیں کرتے ہیں۔


 ۴ - وہ اللہ کی تمام کتابوں کو بشمولِ قرآنِ کریم مانتے ہیں کہ سب اللہ کی کتابیں برحق ہیں، کیونکہ وہ سب ایک چشمہ سے نکلی ہوئی نہریں ہیں، البتہ وہ عمل قرآن پر کرتے ہیں، کیونکہ سابقہ کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں۔

۵- وہ آخرت کو بھی مانتے ہیں کہ اس دنیا کے بعد دوسری دنیا آئے گی جس میں جزاو سزا ہوگی۔


(ناکام لوگوں کی علامت)

جن لوگوں میں یہ پانچ باتیں پائی جاتی ہیں وہ ہدایت یافتہ اور کامیاب ہیں، اور جو نعمتِ ایمان اور اعمالِ حسنہ سے محروم میں ان کی دنیاو آخرت دونوں برباد ہیں۔ 

ہدایات القرآن: از شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ

مرتب: ماجد کشمیری حفظہ اللہ

میں مسلمان ہوں میں ویلنٹائن ڈے نہیں مناتا! |ویلنٹائن ڈے کا تاریخی پس منظر |اسلامی معاشرے میں حیا کی اہمیت|اسلام کی امتیازی علامت

0

میں مسلمان ہوں میں ویلنٹائن ڈے نہیں مناتا! 


انسان کا سب سے قدیم ، شاطر ، چالاک ، عیار اور خطرناک دشمن شیطان ہے ۔ وہ اس کو ہر اس کام پر ابھارتا ہے بلکہ مزین کر کے پیش کر تا ہے جو عقلی و حسی اور شرعی طور پر بر اور فحش ہو ۔ جس پر قرآنی شہادت إنما یأمرکم بالشوء و الفحشاء کے الفاظ سے موجود ہے کہ شیطان تمہیں برائی اور بے حیائی پر آمادہ کرنے کے لیے زور لگاتا ہے ۔ ان بے شمار کاموں میں سے ایک غیر اسلامی ، غیر شرعی، غیر فطری اور غیر اخلاقی محبت کا اظہار بھی ہے ۔ جسے ” ویلنٹائن ڈے “ کے منحوس نام سے جانا جا تا ہے جو اخلاق باختگی اور بے ہودگی کی انتہاء پر پہنچ کر ہی منایا جا تا ہے ۔


 ویلنٹائن ڈے کا تاریخی پس منظر :


اس کے بارے میں کئی داستانیں رقم کی گئی ہیں ان میں سے ایک مشہور داستان یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلن ٹائن نامی ایک عیسائی پادری تھے جو ایک راہبہ سے عشق کر بیٹھے ، چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا اس لیے ایک دن ویلن ٹائن نے اپنی راہبہ سے کہا کہ مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری ایک مبارک دن ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب اور راہبہ جنسی و صنفی ملاپ بھی کر لیں تب بھی اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے اس خواب کی تعبیر کو پورا کرنے میں راہب کا مکمل ساتھ دیا اور یوں وہ سب کچھ کر گزرے جس سے انہیں عیسائیت روکتی تھی۔ چنانچہ ان کا بھی وہی حشر ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد لوگوں نے ویلن ٹائن کو شہید محبت قرار دیا اور اس کی یاد میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جانے لگا۔ 


جنسیت زدہ لوگوں کے خواہشات کی تکمیل:


گزشتہ ادوار میں ہر سال 14 فروری کو جنسیت زدہ غیر مسلم اقوام ناجائز خواہشات کی تسکین و تکمیل کے لیے اسے منانے کا اہتمام کرتے تھے۔ قطع نظر اس سے کہ ان داستانوں میں کہاں تک واقعیت کو دخل ہے ؟ ہم اس غیر ضروری بحث میں الجھے بغیر اس کے چند معاشرتی و شرعی مفاسد پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ حیا کے بارے اسلامی نقطہ نظر واضح کیا جائے۔


اسلامی معاشرے میں حیا کی اہمیت:


عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الایمان بضع وستون شعبۃ والحیاء شعبۃ من الایمان۔

 صحیح البخاری، رقم الحدیث:9

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کے ساٹھ سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا عظیم شعبہ ہے ۔


اسلام کی امتیازی علامت:


عن انس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لکل دین خلقا وخلق الاسلام الحیاء

سنن ابن ماجہ ،رقم الحدیث: 4171


ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ہر دین کی امتیازی علامت ہوتی ہے اور اسلام کی امتیازی علامت حیا ہے۔ 


خیر کا پیش خیمہ حیا ہے:


عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم الحیاء لا یاتی الا بخیر


صحیح البخاری، رقم الحدیث:6117


ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیا ہمیشہ خیر ہی کے وجہ آتی ہے ۔ 


ویلنٹائن ڈے فحش تہوار:


ویلنٹائن ڈے ایک فخش تہوار ہے اور بے حیائی پھیلانے والوں کی قرآن و سنت میں بہت سخت مذمت بیان کی گئی ہے۔


فحاشی پھیلانے والوں کو دردناک عذاب:


ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لہم عذاب الیم فی الدنیا و الآخرۃ واللہ یعلم و انتم لا تعلمون 

سورۃ النور در قم الآیۃ:19


ترجمہ: یقینا جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں فحاشی و بے حیائی پھیل جائے ان کیلیے دنیاو آخرت میں انتہائی دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔


غیر محرم مردو عورت کے ساتھ تیسر اشیطان:


عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم .. ومن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلا یخلون بامراۃ لیس معہا ذو محرم منہا فان ثالثہما الشیطان


مسند احمد ،رقم الحدیث:14651

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے (یعنی تمام ایمانیات اور ان کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہے تو ) اسے چاہیے کہ کسی عورت سے اس کے محرم کے بغیر تنہائی میں نہ ملے اس لیے کہ ان دونوں تنہائی میں ملنے والے مرد اور عورت کے ساتھ تیسر اشیطان ہو تا ہے۔


میں مسلمان ہوں ویلنٹائن ڈے نہیں مناتا

 از متکم اسلام مولنا الیاس گھمن قدس سرہ العزیز

مرتب از ماجد کشمیری



تنقید کے متعلق اصول یاد رکھیں|متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

0

الحمد للہ وحدہ لا شریک لہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعد و علی اٰلہٖ وأصحابہ الذین وعوفوا وحدہ 


 ہم اپنے عقائد کو، اپنے اعمال کو دلائل کے ساتھ، اعتدال کے ساتھ، اخلاص کے ساتھ بیان کرتے رہے۔ بلا وجہ کسی پر تنقید کی ضرورت نہیں ہے اور جو لوگ تنقید کرنے والے ہیں، میں ان کی خدمت میں گزارش کروں گا، یا دوسروں پر تنقید نہ کریں اور اگر دوسروں پر تنقید کرنی ہے، تو اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو برداشت بھی کریں۔ لوگ دوسروں پر تنقید کر لیتے ہے جب تنقید ہوتی ہے تو برداشت نہیں کرتے ہیں۔


 میں اس پر ایک جملہ کہا کرتا ہوں کہ جو اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو سہنے کی ہمت اور طاقت نہیں رکھتا اور دوسروں پر تنقید کرنے کی حماقت ہرگز نہ کرے۔

میری بات توجہ سے سنیں! جو شخص اپنے اوپر تنقید سننے کی ہمت، طاقت اور برداشت نہیں رکھتا وہ دوسروں پر تنقید کرنے کی حماقت کبھی نہ کرے۔ جب آپ نے کسی پر تنقید کرنی ہے، تو آپ پر تنقید ہونی ہے، یا تنقید کرنی چھوڑ دیں اور یا تنقید شوق سے برداشت بھی کرے۔ ہم اپنے عقائد کو دلائل سے، اعتدال سے، للہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں، اخلاص سے کر رے ہیں، مسلسل لگے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز، اللہ تعالی نے توفیق عطا فرمائے تو موت تک ہم اس کام میں لگے رہیں گے، اللہ تعالی لگے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 


متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

مرتب ماجد کشمیری

اسلام دین فطرت ہے | کیا اسلام فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟

0


بسم الله الرحمٰن الرحیم
اسلام دینِ فطرت ہے ۔ براہین
     ألحمد لله ألذي وحده وألصلأه وألسلأم علي من لأ نبي بعده أمأ بعد أعوذ بألله من ألشيطأن ألرجيم بسم ألله ألرحمن ألرحيم قأل تبأرك وتعألي في سورة ألروم فِطرت ألله ألتي فَطَرَ ألنَّأسَ عليها
اسلام میں مذہب کے لیے دین کا لفظ مستعمل ہے۔ ان الدین عند اللہ الاسلام (سورۃ آلِ عمران ۱۹)۔ اصولاً قرآن کی تفسیر پر قلم اٹھانا ہو تو اولاً رجوع الی القرآن کرنا چاہیے۔ مذکورہ آیت میں قرآن شرح ورا: یقینا دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ اللہ کا پسندیدہ اور اللہ کے یہاں منظور شدہ دین ایک ہی دین ہے اور وہ اسلام ہے۔ دین اسلام بہتر ین دین ہے، تو کیا باقی ادیان باطلہ قابل قبول ہیں؟ قرآن کہتا ہے:
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (سورہ آلِ عمران۸۵آیت )
ترجمہ:جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا، تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا، اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔
اس آیت کریمہ سے توضیح ہو جاتی ہے کہ اگر اسلام کے بغیر کوئی اور دین اختیار کرنا چاہیں، تو وہ ہرگز درخورِ اعتنا نہیں اور اس میں کوئی کامیابی نہیں ہوگی۔ صرف اس آیت کریمہ سے اس کا اثبات نہیں پایا جاتا ہے بلکہ کثیر التعداد آیات، جن کے نصوص سے اسکا ثبوت ملتا ہے ۔ جیسے سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ہیں:
 أَفَغَيۡرَ دِيۡنِ أللّٰهِ يَبۡغُوۡنَ وَ لَه أَسۡلَمَ مَنۡ فِي ألسَّمٰوٰتِ وَ ألۡأَرۡضِ طَوۡعًأ وَّ كَرۡهًأ وَّ أِلَيۡهِ يُرۡجَعُوۡنَ ﴿۸۳﴾
ترجمہ:اب کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب نے اللہ ہی کے آگے گردن جھکا رکھی ہے، ( کچھ نے ) خوشی سے اور ( کچھ نے ) ناچار ہوکر، اور اسی کی طرف وہ سب لوٹ کر جائیں گے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال بن سکتا ہے کہ آپ اس دین کو مانتے ہو جس کو صرف 1441سال ہوئے۔ آپ کا دعوٰی تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسمعٰیلؑ، حضرت اسحاق ؑ ، حضرت یعقوبؑ، حضرت موسیؑ تا آدم ، انبیاءؑ پہلے آئے ہے، کیا وہ اس دین پہ نہیں تھےآپ اُس دین کو مانتے ہو جس کوصرف 1441سال ہوئے۔ میرے عزیز بھائیو! شاندنے کی ضرورت، ان تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا، قرآن کریم کا ارشاد ہے:
قُلۡ أٰمَنَّأ بِأللّٰهِ وَ مَأۤ أُنۡزِلَ عَلَيۡنَأ وَ مَأۤ أُنۡزِلَ عَلٰۤي أِبۡرٰهِيۡمَ وَ أِسۡمٰعِيۡلَ وَ أِسۡحٰقَ وَ يَعۡقُوۡبَ وَ ألۡأَسۡبَأطِ وَ مَأۤ أُوۡتِيَ مُوۡسٰي وَ عِيۡسٰي وَ ألنَّبِيُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّهِمۡ ۪ لَأ نُفَرِّقُ بَيۡنَ أَحَدٍ مِّنۡهُمۡ ۫وَ نَحۡنُ لَه مُسۡلِمُوۡنَ  ﴿سورہ آل عمران۸۴﴾
ترجمہ:کہہ دو کہ : ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو ( کتاب ) ہم پر اتاری گئی اس پر، اور اس ( ہدایت ) پر جو ابراہیم ، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ( ان کی ) اولاد پر ان کے پروردگار کی طرف سے اتاری گئی، اور ان باتوں پر جو موسیٰ، عیسیٰ اور (دوسرے) پیغمبروں کو عطا کی گئیں ۔ ہم ان ( پیغمبروں ) میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی ( ایک اللہ ) کے آگے سر جھکائے ہوئے ہیں۔  
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو بھی انبیاء علیہ الصلاۃ والسلام آئے ان کا دین خالص اسلام تھا۔ نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے سوال کیا، جواباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس سے یہ اشکال رفع ہو جاتا ہے۔ 
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَألَ قَألُوأ يَأ رَسُولَ أللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ ألنُّبُوَّةُ قَألَ وَآدَمُ بَيْنَ ألرُّوحِ وَألْجَسَدِ۔ (جامع ألترمذي: أَبْوَأبُ ألْمَنَأقِبِ عَنْ رَسُولِ أللَّهِ ﷺ: رقم ألحديث 3609
ترجمہ: ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا:
جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔( یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہور ہی تھی)۔ 
عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کے نزدیک ضرور اس وقت نبی تھا آدم  اپنے مٹی کے بدن میں پڑے تھے۔ (یعنی ابھی روح نہیں ڈالی گئی تھی) بیہقی۔احمد ۔حاکم ۔بحوالہ سیرت محمدیہ اردو ترجمہ مواہب المدینہ ۱۳۴۲ھ صــ۷ (بحوالہ اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔۔!)
حضرت انصبی سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے پوچھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کب نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس وقت ضرور نبی تھا کہ آدم روح اور جسم کے درمیان تھے  (امام احمد : بحوالہ اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔!) اس صحیح احادیث پر اگر غور کیا جائے، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت آدم علیہ الصلاۃ السلام سے پہلے مل گئی تھی تو کیا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کا دین اسلام کے سوا کوئی اور ہو سکتا ہے۔ نہیں ! اسلام میں جتنے انبیاء علیہ السّلام آئے ہیں ان سب کا دین اسلام ہی تھا ۔
(تنبیہ: عمیم بلا شریعتوں میں سب سے اولی و اعلی شریعت، شریعتِ محمدی ہے اور باقیہ عمیم شریعتیں منسوخ ہے اور نبی آخرالزماں والمکاں والمرتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ہمیشہ ناسخ ہے۔)
دین کی اصولی تعلیمات اور بنیادی عقائد تو آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت خاتم النّبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک طرح کے ہیں، صرف احکامِ شرعیہ میں فرق رہا ہے اور باعتبار عقائد اسلام کا وجود آدم علیہ السلام کے زمانہ ہی سے رہا ہے، خواہ اسے اسلام کے نام سے موسوم نہ کیا جاتا ہو( فتویٰ دارالعلوم دیوبند)
اسلام دین ِفطرت ہے
(Islam is the DEEN of nature)
الحمد للہ اسلام کی حقانیت اور جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کے بے شمار اور لا تعداد دلائل ہیں: تاہم درج ذیل دلائل کسی منصف ، عاقل اور مکمل دل جمعی و اخلاص کے ساتھ تلاش حق میں مگن شخص کو قائل کرنے کیلیے کافی ہیں۔
اول فطری دلائل: اسلام فطرتِ سلیمہ سے مکمل مطابقت رکھتا ہے، اسی کی جانب اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ۔
ترجمہ: لہذا یکسو ہو کر اپنا رخ دین پر مرتکز کر دو۔ یہی فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی اس خلقت میں کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا یہی درست دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ [الروم:30 ]
اسلام فطرت کے خلاف نہیں ہے بلکہ فطرت ہی اسلام ہے۔ آگے اس کی وضاحت آئے گی اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(کوئی بھی نومولود [دینِ ]فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کہ جانور سے صحیح سالم جانور پیدا ہوتا ہے ،کیا ان میں سے کوئی کان کٹا بھی ہوتا ہے!) (بخاری و مسلم 1358،2658) 
حدیث شریفہ کے الفاظ: " تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح جانور سلیم الاعضاء اور مکمل پیدا ہوتا ہے اس میں کوئی عیب نہیں ہوتا ، اور کان وغیرہ کاٹنے کے مراحل اس کی پیدائش کے بعد ہوتے ہیں۔
بالکل اسی طرح ہر انسان فطری طور پر مسلمان پیدا ہوتا ہے، اس کا اسلام سے کسی بھی قسم کا انحراف درحقیقت فطرت سے انحراف پیدا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں ایسا کوئی بھی عمل نہیں پایا جاتا ہے، جو کہ فطرت سے متصادم ہو، بلکہ اسلام کے عقائد، عملی عبادات سب کچھ فطرتِ سلیمہ سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں، جبکہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں ایسے نظریات اور عقائد موجود ہیں جو کہ فطرت سے یکسر متصادم ہیں، یہ غور و فکر کرنے والوں کیلیے بالکل عیاں ہے۔
 دوُم عقلی دلائل: شرعی نصوص نے عقل کو بہت زیادہ مخاطب کیا ہے، اور عقل کی رہنمائی کی ہے کہ وہ عقلی دلائل و براہین پر غور و فکر کریں، اسلام کی حقانیت پر دلالت کرنے والے قطعی دلائل پر غورو فکر کرنے کی دعوت قرآن مجید میں کئی بار دی گئی ہے جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آَيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ۔
ترجمہ: ہم نے بابرکت کتاب آپ کی جانب نازل کی ہے تاکہ اس کی آیات پر عقل والے غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔[ص:29]
یہی وجہ ہے کہ کتاب و سنت کے اندر ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے، جسے عقل ناممکن سمجھے یا مسلَم نہ کرتی ہو۔ اس  کے ادراک کے لیے ذیل کا واقعہ نکتۂ فکر ہے:
حضرت مولانا سجاد نعمانی دامت برکاتہم العالیہ کا سائنس دان سے ملاقات کا واقعہ: بیان فرماتے ہیں۔ ایک امریکن سائنسدان اِس دور میں گزرے ہیں، بہت بڑے بائیو کیمسٹری کے سائنسدان رہے ہیں ۔ دنیا کے بڑے سا ئنسدانوں میں ایک سائنسدان ہیں۔ اس وقت مجھے اُن کا ایک واقعہ یاد آگیا بہت عرصے پہلے لکھنؤ میں جو  Central Drug Research Institute (CDRI) ، اس کی ایک انٹرنیشنل سا ئٹیفِک کانفرنس ہوئی تھی، اس میں آپ جیسے مسلم ریسرچ اسکالرس جو اس ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں تھے، ان سے انہوں نے کہا کہ میں اسلام کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
آپ مجھے کسی اسلامک اسکالر(عالم ) سے ملائیں، تب اُنہوں نے مجھ سے تذکرہ کیا کہ پروفیسر آپ سے ملنا چاہتے ہیں، خوشی کی بات تھی پھر وقت مقرر ہوا اور وہ آئے لیکن جب وہ آئے، میں ذہنی طور پرتیار ہوا تھا کہ ایک سائنسدان سے میری ملاقات ہونی والی ہے۔ تو میں سائنس کے راستے سے ان کو اسلام کے بارے میں کچھ بات کرونگا، پر جب وہ آئے تو وہ پیلا لباس زیبِ تن کئے تھے، سرمنڈوا ہوا تھا اور سائیں بابا بنگلور والے، وہ تو دوسرے جہاں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ اس وقت وہ زندہ نہ تھے، اس کی ایک تصویر لٹکائی تھی۔
 تو جب ان سے تعارف کیا تو انہوں نے کہا کہ اصل  میں چار مہینوں سے وئدان(سائیں بابا) کا فلسفہ پڑھ رہا ہوں اور میں بہت متاثر ہو گیا، میں نے اسے قبول کیا لیکن میں ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کا بھی مطالعہ کرتا ہوں، اس لئے میں اسلام کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تو جو کہ میں اس وئدان یعنی سائیں بابا کے فلسفے سے واقف تھا، تو مجھے اندازہ ہوا یہ کس عالم میں ہے، تو میں نے ان سے پوچھا آپ نے جو سیکھا ہے ،اس کا خلاصۃ چندجملوں میں سمجھا دیجئے۔
انھوں نے کہا اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک ایک انسان اپنی فطری خواہشات نش نہ کردیں، ختم نہ کر دیں تب تک وہ کامیاب نہیں ہوگا۔  جہاں تک میری محدود معلومات کا تعلق ہے، تو میں نے اُن سے پوچھا پروفیسر جان کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کس اِسٹیٹ میں رہتے ہیں؟ انہوں کہا کہ میں شِکاگو(Chicago) میں رہتا ہوں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کےاسٹیٹ میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس فلسفہ پر عمل کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک بندہ بھی نہیں  
(not a single man or woman)۔ تب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے سائنسدان، آپ نے یہ بات کیسے قبول کی، آپ خود ہی کہہ رہے ہیں، جی کوئی نہیں کر سکتا، اس کا مطلب کوئی نہیں کر سکتا لہذا کوئی کامیاب نہیں ہوگا۔ تو انہوں نے کہا ہاں لوگ کہاں کہاں بھٹک جاتے ہیں!
 آپ نے مجھے واقعی پریشانی میں ڈال دیا۔ میں نے ان سے کہا میرا ارادہ پریشانی میں ڈالنے کا نہیں، پریشانی سے نکالنے کا ہے، آپ مجھ پر بھروسا کریں، لیکن اس وقت میں آپ کو واقعی ایپریشیٹ (appreciate) کرتا ہوں کہ، آپ مجھے حقیقت سے آگاہ کریں!
 پلیز! آپ اس پر غور کریں۔ ہاں میں غور کروں گا، پر مصیبت یہ ہے کہ مجھے پرسوں واپس جانا ہے، میرے پاس صرف ایک دن ہے۔ تو آپ مجھے اسلام کے بارے میں جانکاری دیجئے۔ میں نے ان کے ہاتھ میں ایک ڈائری دیکھی، تو میں نے کہا آپ دو کالم بنائیں ایک کالم میں اپنی فطری خواہشات ( natural desire) ہیں، ان کولکھیں اور مجھے نہ بتائیں خود لکھیں آپ کی فطرت کن چیزوں کو پسند کرتے ہے اور کن چیزوں کو نا پسند کرتے ہیں یعنی like , dis-like ، کے کالم بنا لیں ۔ تقریبا ََچالیس منٹ کے بعد انہوں نے کہا جتنی چیزیں یاد آئیں ان کو میں نے لکھ دیا ہے۔
 میں نے ان سے کہا اب ایک ایک کرکے مجھے بتائیں، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اسلام کس کو ناپسندکرتا ہے اور کس کو پسند کرتا ہے ۔ جب وہ پورا لکھ چکے تھے، تو میں نے ان سے کہا اب آپ cross check کیجیے کہیں پر کوئی چیز ہے جو آپ کی فطرت لائیک likeکرتی ہے اور اسلام اسے ڈس لائکdis-like کرتا ہے۔ تو انہوں نے کہا آپ کیا بتانا چاہتے ہیں مولانا نعمان صاحب! (What did you mean? )
تو میں نے ان سے کہا میں یہ بتلانا چاہتا ہوں:
 Islam is nothing but pure natural way of life
 یعنی اسلام خالص فطری طرز زندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہ تو انسان کےباطن کی آواز ہے۔ یہ تو اس مالک کا کرم ہے کہ انسان کے باطن کی آواز کو انہوں نے الفاظ دیے، اس نے ہمیں کوئی چیز باہر سے نہیں دی ما سوائے مظاہرِفطرت کے جو کہ چہار سُو موجود ہے۔
فطرت أللّٰهِ ألَّتِيۡ فَطَرَ ألنَّأسَ عَلَيۡهَأ ، لَأ تَبۡدِيۡلَ لِخَلۡقِ أللّٰهِ، ذٰلِكَ ألدِّيۡنُ ألۡقَيِّمُ  (سورۃ الروم ۳۰)
ترجمہ: لہذا تم یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم رکھو ۔ اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو ،جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی، یہی بالکل سیدھا راستہ ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
کیا مطلب ہےاس کا؟  اُدۡعُ اِلٰی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالۡحکمة (سورۃ النحل ۱۲۵) اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ دعوت دو ۔ آپ کو خوشی ہوگی یہ سن کر، آپ کی پیشانی سے ایمان کا نور چھلکتا ہے اس وقت تو وہ بندہ چلا گیا پر تقریبا دو ماہ کے بعد اس شخص کا فون آیا اور انہوں نے کہا میں اس وقت شکاگو کے اسلامک ریسرچ سنٹر سے بات کر رہا ہوں اور میں نے ابھی کلمہ شہادت کو قبول کرلیا۔ اللہ اکبر یہ ہے اسلام کی طاقت،  اس دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سچائی کی تلاش میں ہے۔
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے 
ہم ہی نے اپنا قومی فریضہ، ہم ہی نے اپنے اصل مشن کو چھوڑ کر، ہم ہی نے انسانوں کو ترچھی نظر سے دیکھنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔ 
اسلام دینِ فطرت ہے تو کچھ فطری اعمال کا تذکرہ تمثیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ پہ واضح ہو جائے کہ اسلام دین فطرت ہے، انسان کی فطرت اسے تسلیم کرے گی کہ میں جھوٹ بولوں؟نہیں! ۔فطرت کبھی یہ قبول نہیں کر سکتی اور اسلام اسی کو پسند کرتا ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے صفحے پر ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ 
ولهم عذاب الیم بماکانوا یکذبون (سورہ البقرہ ۱۰) 
ترجمہ: اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لا يَهدي مَن هُوَ مُسرِفٌ كَذّابٌ(سورہ المومن ۲۸) 
ترجمہ:اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گذر جانے والا ( اور ) جھوٹ بولنے کا عادی ہو۔ دینِ اسلام میں جھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں ہے۔
 کیا انسان کی فطرت اسے محبوب رکھ سکتی ہے؟ کہ میں  ایفائے عہدکرے اور پھر اُس کے خلاف جائے؟ ہرگز نہیں، انسان کی فطرت ہمیشہ پسند کرتی ہے کہ وعدے نبھانا چاہیے۔ اسلام بھی اسی کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالٰی مسلمان کو مخاطب کر کے مسلمان کی صفات بیان کرتے ہے، اس میں ایک صفت وعدہ پورا کرنا بھی شامل ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ 
وَالَّذينَ هُم لِأَماناتِهِم وَعَهدِهِم راعونَ (سورۃ المومنون ۱۰، سورہ معارج ۳۲)
ترجمہ : اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔ 
انسان کی فطرت پسند کرتی ہے کہ لوگوں کو گالیاں دیتے پھرے!، نہیں فطرت یہ بھی پسند نہیں کرتی اور اسلام بھی اسی کو پسند کرتا ہےکہ ۔۔۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
 وَالَّذينَ هُم عَنِ اللَّغوِ مُعرِضونَ (سورہ المومنون)
اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں، یعنی مسلمان گالیاں نہیں دیتے ہے۔ 
دوسری جگہ پر قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَقُل لِعِبادي يَقولُوا الَّتي هِيَ أَحسَنُ إِنَّ الشَّيطانَ يَنزَغُ بَينَهُم إِنَّ الشَّيطانَ كانَ لِلإِنسانِ عَدُوًّا مُبينً ﴿سورہ بنی اسرائیل۵۳﴾
ترجمہ:میرے ( مسلمان ) بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہا کریں جو بہترین ہو ۔ درحقیقت شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے ۔ شیطان یقینی طور پر انسان کا کھلا دشمن ہے ۔
 حدیث مبارکہ میں ہے: اللہ تعالٰی اس شخص سے عداوت رکھتا ہے، جو فحش گوئی َکرتا ہے۔
أَنَّ ألنَّبِيَّ صَلَّى أللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَألَ مَأ شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَأنِ ألْمُوْمِنِ يَوْمَ ألْقِيَأمَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ وَإِنَّ أللَّهَ لَيُبْغِضُ ألْفَأحِشَ ألْبَذِيء جامع الترمذی: رقم الحدیث ۲۰۰۲) 
ترجمہ: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:' قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاقِ حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اوراللہ تعالیٰ بے حیا بدزبان سے نفرت کرتا ہے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے
(من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه وفي رواية إن من حسن إسلام المرء قلة الكلام فيما لا يعنيه)
فطرت زناکاری پسند کرتی کر سکتی؟ ہرگز نہیں چاہے وہ کوئی بھی مذہب ہو زناکاری کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اسلام میں تو اسے گناہ کبیرہ کہا گیاہے ۔
جیسے اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے ۔ 
 وَلا تَقرَبُوا الزِّنا إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَساءَ سَبيلًا (سورہ بنی اسرائیل ۳۲) 
 ترجمہ: اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو ۔ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بےراہ روی ہے۔ 
امثال تو بے شمار دی جا سکتی ہیں پر منصف انسان کے خاصہ ہے، اختصاراً کچھ مزید تمثیلات کا تذکرہ کرتے تاکہ اشتباہ کی گنجائش نہ رہے: ماں باپ کی عزت ، اللہ تعالیٰ نےان کی عزت و احترام  کرنے کا حکم اپنی تتبع کے ساتھ ذکر کیا جس کے بعد ھذا کسی تائید کے مستمد نہیں رہتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےجامع الفاظ کے ساتھ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایااللہ کی رضا، والدین کی رضامندی میں ہے۔ بترتیب دیکھیں:
وَقَضى رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالوالِدَينِ إِحسانًا إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَرهُما وَقُل لَهُما قَولًا كَريمًا (الاسراء)
رضي الرب في رضا الوالد وسخط الرب في سخط الوالد (ترمذي)
آپس میں امتزاج کے ساتھ رہنے کی تلقین، غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ بھی عدل وانصاف اور آمیزش کے ساتھ رہنا اسلام کا تقاضا ہے، ظلم کرنے سے، ناحق قتل کرنے سے، شراب نوشی سے، بلکہ جانوروں سے حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین اسلام کرتا ہے۔ (أفضل الصدقة أن تشبع كبدًا جائعًا: بیہقی)
خلاصہ یہ ہے کہ ہر کوئی چیز جو فطرت کو پسند ہے۔اسلام کو بھی وہی پسند  ہیں ۔ اسلام تو نام ہی ہے دینِ فطرت کا تو دینِ اسلام فطرت کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی بات فطری ترازو میں تولیں، اسلام کے بر خلاف نہیں ہوگی۔ 
اگر ہم غور و فکر کریں گے۔ تو ہمیں وہ فطری راستہ مل ہی جائیں گا۔ جس سے ہم سب کامیاب و کامران اس دنیا اور اس کے بعد کی زندگی میں بھی ہوسکتے ہیں۔ انسانیت کی رہنمائی کے لیے واحد راستہ ہے وہ ہے فطری راستہ یعنی راہِ اسلام۔ جو چیز فطرت کے خلاف ہو بلا اسے انسانیت کامیاب و کامران کیسے ہو سکتی ہے،
 اس لیے ہمیں دینِ فطرت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی اپنی زندگی اُس کے حوالے بلا خوف کردینی چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی برحق ﷺ نے سالم ضمیر کو سب سے بڑا قاضی اور مفتی یعنی فیصلہ کرنے والا بتایا ہے۔
کما قالَ رسول اللہ ﷺ " الاثم ما حاک فی صدرک و کرھت ان یطلع علیہ الناس۔
اسلام ایک دینِ فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ قدرت کے قانون اٹل اور غیر متبدل ہیں ۔ انسان خود کے بنائے قوانین میں طبقاتی تقسیم کا خیال رکھتا ہے جب کہ اللہ کے بنائے قوانین تمام انسانوں کے لیے یکساں و مساوی حثیت رکھتے ہیں ۔ بلا شبہ اس ذات باری تعالیٰ کے نظام ِ قدرت میں ساری مخلوق کے لیے بغیر کسی امتیازی سلوک کے مفادِ عامہ اور نشونما شامل ہے ۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعا کرتےہیں۔ اے انسان کو پیدا کرنے والے رب ، ہمیں اس راستے کو دریافت (کھوج) کرنے کی توفیق عطا فرما اور پھر دریافت ہونے کے بعد اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرما ۔ آمین
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
ماجد کشمیری

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں