بسم الله الرحمٰن الرحیم
اسلام دینِ فطرت ہے ۔ براہین
ألحمد لله ألذي وحده وألصلأه وألسلأم علي من لأ نبي بعده أمأ بعد أعوذ بألله من ألشيطأن ألرجيم بسم ألله ألرحمن ألرحيم قأل تبأرك وتعألي في سورة ألروم فِطرت ألله ألتي فَطَرَ ألنَّأسَ عليها
اسلام میں مذہب کے لیے دین کا لفظ مستعمل ہے۔ ان الدین عند اللہ الاسلام (سورۃ آلِ عمران ۱۹)۔ اصولاً قرآن کی تفسیر پر قلم اٹھانا ہو تو اولاً رجوع الی القرآن کرنا چاہیے۔ مذکورہ آیت میں قرآن شرح ورا: یقینا دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ اللہ کا پسندیدہ اور اللہ کے یہاں منظور شدہ دین ایک ہی دین ہے اور وہ اسلام ہے۔ دین اسلام بہتر ین دین ہے، تو کیا باقی ادیان باطلہ قابل قبول ہیں؟ قرآن کہتا ہے:
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (سورہ آلِ عمران۸۵آیت )
ترجمہ:جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا، تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا، اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔
اس آیت کریمہ سے توضیح ہو جاتی ہے کہ اگر اسلام کے بغیر کوئی اور دین اختیار کرنا چاہیں، تو وہ ہرگز درخورِ اعتنا نہیں اور اس میں کوئی کامیابی نہیں ہوگی۔ صرف اس آیت کریمہ سے اس کا اثبات نہیں پایا جاتا ہے بلکہ کثیر التعداد آیات، جن کے نصوص سے اسکا ثبوت ملتا ہے ۔ جیسے سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ہیں:
أَفَغَيۡرَ دِيۡنِ أللّٰهِ يَبۡغُوۡنَ وَ لَه أَسۡلَمَ مَنۡ فِي ألسَّمٰوٰتِ وَ ألۡأَرۡضِ طَوۡعًأ وَّ كَرۡهًأ وَّ أِلَيۡهِ يُرۡجَعُوۡنَ ﴿۸۳﴾
ترجمہ:اب کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش میں ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں ان سب نے اللہ ہی کے آگے گردن جھکا رکھی ہے، ( کچھ نے ) خوشی سے اور ( کچھ نے ) ناچار ہوکر، اور اسی کی طرف وہ سب لوٹ کر جائیں گے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال بن سکتا ہے کہ آپ اس دین کو مانتے ہو جس کو صرف 1441سال ہوئے۔ آپ کا دعوٰی تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسمعٰیلؑ، حضرت اسحاق ؑ ، حضرت یعقوبؑ، حضرت موسیؑ تا آدم ، انبیاءؑ پہلے آئے ہے، کیا وہ اس دین پہ نہیں تھےآپ اُس دین کو مانتے ہو جس کوصرف 1441سال ہوئے۔ میرے عزیز بھائیو! شاندنے کی ضرورت، ان تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا، قرآن کریم کا ارشاد ہے:
قُلۡ أٰمَنَّأ بِأللّٰهِ وَ مَأۤ أُنۡزِلَ عَلَيۡنَأ وَ مَأۤ أُنۡزِلَ عَلٰۤي أِبۡرٰهِيۡمَ وَ أِسۡمٰعِيۡلَ وَ أِسۡحٰقَ وَ يَعۡقُوۡبَ وَ ألۡأَسۡبَأطِ وَ مَأۤ أُوۡتِيَ مُوۡسٰي وَ عِيۡسٰي وَ ألنَّبِيُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّهِمۡ ۪ لَأ نُفَرِّقُ بَيۡنَ أَحَدٍ مِّنۡهُمۡ ۫وَ نَحۡنُ لَه مُسۡلِمُوۡنَ ﴿سورہ آل عمران۸۴﴾
ترجمہ:کہہ دو کہ : ہم ایمان لائے اللہ پر اور جو ( کتاب ) ہم پر اتاری گئی اس پر، اور اس ( ہدایت ) پر جو ابراہیم ، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ( ان کی ) اولاد پر ان کے پروردگار کی طرف سے اتاری گئی، اور ان باتوں پر جو موسیٰ، عیسیٰ اور (دوسرے) پیغمبروں کو عطا کی گئیں ۔ ہم ان ( پیغمبروں ) میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی ( ایک اللہ ) کے آگے سر جھکائے ہوئے ہیں۔
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو بھی انبیاء علیہ الصلاۃ والسلام آئے ان کا دین خالص اسلام تھا۔ نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے سوال کیا، جواباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس سے یہ اشکال رفع ہو جاتا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَألَ قَألُوأ يَأ رَسُولَ أللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ ألنُّبُوَّةُ قَألَ وَآدَمُ بَيْنَ ألرُّوحِ وَألْجَسَدِ۔ (جامع ألترمذي: أَبْوَأبُ ألْمَنَأقِبِ عَنْ رَسُولِ أللَّهِ ﷺ: رقم ألحديث 3609
ترجمہ: ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا:
جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔( یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہور ہی تھی)۔
عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کے نزدیک ضرور اس وقت نبی تھا آدم اپنے مٹی کے بدن میں پڑے تھے۔ (یعنی ابھی روح نہیں ڈالی گئی تھی) بیہقی۔احمد ۔حاکم ۔بحوالہ سیرت محمدیہ اردو ترجمہ مواہب المدینہ ۱۳۴۲ھ صــ۷ (بحوالہ اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔۔۔!)
حضرت انصبی سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے پوچھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کب نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس وقت ضرور نبی تھا کہ آدم روح اور جسم کے درمیان تھے (امام احمد : بحوالہ اگر اب بھی نہ جاگے تو۔۔۔!) اس صحیح احادیث پر اگر غور کیا جائے، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت آدم علیہ الصلاۃ السلام سے پہلے مل گئی تھی تو کیا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کا دین اسلام کے سوا کوئی اور ہو سکتا ہے۔ نہیں ! اسلام میں جتنے انبیاء علیہ السّلام آئے ہیں ان سب کا دین اسلام ہی تھا ۔
(تنبیہ: عمیم بلا شریعتوں میں سب سے اولی و اعلی شریعت، شریعتِ محمدی ہے اور باقیہ عمیم شریعتیں منسوخ ہے اور نبی آخرالزماں والمکاں والمرتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ہمیشہ ناسخ ہے۔)
دین کی اصولی تعلیمات اور بنیادی عقائد تو آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت خاتم النّبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک طرح کے ہیں، صرف احکامِ شرعیہ میں فرق رہا ہے اور باعتبار عقائد اسلام کا وجود آدم علیہ السلام کے زمانہ ہی سے رہا ہے، خواہ اسے اسلام کے نام سے موسوم نہ کیا جاتا ہو( فتویٰ دارالعلوم دیوبند)
اسلام دین ِفطرت ہے
(Islam is the DEEN of nature)
الحمد للہ اسلام کی حقانیت اور جنابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کے بے شمار اور لا تعداد دلائل ہیں: تاہم درج ذیل دلائل کسی منصف ، عاقل اور مکمل دل جمعی و اخلاص کے ساتھ تلاش حق میں مگن شخص کو قائل کرنے کیلیے کافی ہیں۔
اول فطری دلائل: اسلام فطرتِ سلیمہ سے مکمل مطابقت رکھتا ہے، اسی کی جانب اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ۔
ترجمہ: لہذا یکسو ہو کر اپنا رخ دین پر مرتکز کر دو۔ یہی فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی اس خلقت میں کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا یہی درست دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ [الروم:30 ]
اسلام فطرت کے خلاف نہیں ہے بلکہ فطرت ہی اسلام ہے۔ آگے اس کی وضاحت آئے گی اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(کوئی بھی نومولود [دینِ ]فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کہ جانور سے صحیح سالم جانور پیدا ہوتا ہے ،کیا ان میں سے کوئی کان کٹا بھی ہوتا ہے!) (بخاری و مسلم 1358،2658)
حدیث شریفہ کے الفاظ: " تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح جانور سلیم الاعضاء اور مکمل پیدا ہوتا ہے اس میں کوئی عیب نہیں ہوتا ، اور کان وغیرہ کاٹنے کے مراحل اس کی پیدائش کے بعد ہوتے ہیں۔
بالکل اسی طرح ہر انسان فطری طور پر مسلمان پیدا ہوتا ہے، اس کا اسلام سے کسی بھی قسم کا انحراف درحقیقت فطرت سے انحراف پیدا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں ایسا کوئی بھی عمل نہیں پایا جاتا ہے، جو کہ فطرت سے متصادم ہو، بلکہ اسلام کے عقائد، عملی عبادات سب کچھ فطرتِ سلیمہ سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں، جبکہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں ایسے نظریات اور عقائد موجود ہیں جو کہ فطرت سے یکسر متصادم ہیں، یہ غور و فکر کرنے والوں کیلیے بالکل عیاں ہے۔
دوُم عقلی دلائل: شرعی نصوص نے عقل کو بہت زیادہ مخاطب کیا ہے، اور عقل کی رہنمائی کی ہے کہ وہ عقلی دلائل و براہین پر غور و فکر کریں، اسلام کی حقانیت پر دلالت کرنے والے قطعی دلائل پر غورو فکر کرنے کی دعوت قرآن مجید میں کئی بار دی گئی ہے جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آَيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ۔
ترجمہ: ہم نے بابرکت کتاب آپ کی جانب نازل کی ہے تاکہ اس کی آیات پر عقل والے غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔[ص:29]
یہی وجہ ہے کہ کتاب و سنت کے اندر ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے، جسے عقل ناممکن سمجھے یا مسلَم نہ کرتی ہو۔ اس کے ادراک کے لیے ذیل کا واقعہ نکتۂ فکر ہے:
حضرت مولانا سجاد نعمانی دامت برکاتہم العالیہ کا سائنس دان سے ملاقات کا واقعہ: بیان فرماتے ہیں۔ ایک امریکن سائنسدان اِس دور میں گزرے ہیں، بہت بڑے بائیو کیمسٹری کے سائنسدان رہے ہیں ۔ دنیا کے بڑے سا ئنسدانوں میں ایک سائنسدان ہیں۔ اس وقت مجھے اُن کا ایک واقعہ یاد آگیا بہت عرصے پہلے لکھنؤ میں جو Central Drug Research Institute (CDRI) ، اس کی ایک انٹرنیشنل سا ئٹیفِک کانفرنس ہوئی تھی، اس میں آپ جیسے مسلم ریسرچ اسکالرس جو اس ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں تھے، ان سے انہوں نے کہا کہ میں اسلام کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
آپ مجھے کسی اسلامک اسکالر(عالم ) سے ملائیں، تب اُنہوں نے مجھ سے تذکرہ کیا کہ پروفیسر آپ سے ملنا چاہتے ہیں، خوشی کی بات تھی پھر وقت مقرر ہوا اور وہ آئے لیکن جب وہ آئے، میں ذہنی طور پرتیار ہوا تھا کہ ایک سائنسدان سے میری ملاقات ہونی والی ہے۔ تو میں سائنس کے راستے سے ان کو اسلام کے بارے میں کچھ بات کرونگا، پر جب وہ آئے تو وہ پیلا لباس زیبِ تن کئے تھے، سرمنڈوا ہوا تھا اور سائیں بابا بنگلور والے، وہ تو دوسرے جہاں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ اس وقت وہ زندہ نہ تھے، اس کی ایک تصویر لٹکائی تھی۔
تو جب ان سے تعارف کیا تو انہوں نے کہا کہ اصل میں چار مہینوں سے وئدان(سائیں بابا) کا فلسفہ پڑھ رہا ہوں اور میں بہت متاثر ہو گیا، میں نے اسے قبول کیا لیکن میں ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کا بھی مطالعہ کرتا ہوں، اس لئے میں اسلام کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تو جو کہ میں اس وئدان یعنی سائیں بابا کے فلسفے سے واقف تھا، تو مجھے اندازہ ہوا یہ کس عالم میں ہے، تو میں نے ان سے پوچھا آپ نے جو سیکھا ہے ،اس کا خلاصۃ چندجملوں میں سمجھا دیجئے۔
انھوں نے کہا اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک ایک انسان اپنی فطری خواہشات نش نہ کردیں، ختم نہ کر دیں تب تک وہ کامیاب نہیں ہوگا۔ جہاں تک میری محدود معلومات کا تعلق ہے، تو میں نے اُن سے پوچھا پروفیسر جان کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کس اِسٹیٹ میں رہتے ہیں؟ انہوں کہا کہ میں شِکاگو(Chicago) میں رہتا ہوں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کےاسٹیٹ میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس فلسفہ پر عمل کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک بندہ بھی نہیں
(not a single man or woman)۔ تب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے سائنسدان، آپ نے یہ بات کیسے قبول کی، آپ خود ہی کہہ رہے ہیں، جی کوئی نہیں کر سکتا، اس کا مطلب کوئی نہیں کر سکتا لہذا کوئی کامیاب نہیں ہوگا۔ تو انہوں نے کہا ہاں لوگ کہاں کہاں بھٹک جاتے ہیں!
آپ نے مجھے واقعی پریشانی میں ڈال دیا۔ میں نے ان سے کہا میرا ارادہ پریشانی میں ڈالنے کا نہیں، پریشانی سے نکالنے کا ہے، آپ مجھ پر بھروسا کریں، لیکن اس وقت میں آپ کو واقعی ایپریشیٹ (appreciate) کرتا ہوں کہ، آپ مجھے حقیقت سے آگاہ کریں!
پلیز! آپ اس پر غور کریں۔ ہاں میں غور کروں گا، پر مصیبت یہ ہے کہ مجھے پرسوں واپس جانا ہے، میرے پاس صرف ایک دن ہے۔ تو آپ مجھے اسلام کے بارے میں جانکاری دیجئے۔ میں نے ان کے ہاتھ میں ایک ڈائری دیکھی، تو میں نے کہا آپ دو کالم بنائیں ایک کالم میں اپنی فطری خواہشات ( natural desire) ہیں، ان کولکھیں اور مجھے نہ بتائیں خود لکھیں آپ کی فطرت کن چیزوں کو پسند کرتے ہے اور کن چیزوں کو نا پسند کرتے ہیں یعنی like , dis-like ، کے کالم بنا لیں ۔ تقریبا ََچالیس منٹ کے بعد انہوں نے کہا جتنی چیزیں یاد آئیں ان کو میں نے لکھ دیا ہے۔
میں نے ان سے کہا اب ایک ایک کرکے مجھے بتائیں، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اسلام کس کو ناپسندکرتا ہے اور کس کو پسند کرتا ہے ۔ جب وہ پورا لکھ چکے تھے، تو میں نے ان سے کہا اب آپ cross check کیجیے کہیں پر کوئی چیز ہے جو آپ کی فطرت لائیک likeکرتی ہے اور اسلام اسے ڈس لائکdis-like کرتا ہے۔ تو انہوں نے کہا آپ کیا بتانا چاہتے ہیں مولانا نعمان صاحب! (What did you mean? )
تو میں نے ان سے کہا میں یہ بتلانا چاہتا ہوں:
Islam is nothing but pure natural way of life
یعنی اسلام خالص فطری طرز زندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہ تو انسان کےباطن کی آواز ہے۔ یہ تو اس مالک کا کرم ہے کہ انسان کے باطن کی آواز کو انہوں نے الفاظ دیے، اس نے ہمیں کوئی چیز باہر سے نہیں دی ما سوائے مظاہرِفطرت کے جو کہ چہار سُو موجود ہے۔
فطرت أللّٰهِ ألَّتِيۡ فَطَرَ ألنَّأسَ عَلَيۡهَأ ، لَأ تَبۡدِيۡلَ لِخَلۡقِ أللّٰهِ، ذٰلِكَ ألدِّيۡنُ ألۡقَيِّمُ (سورۃ الروم ۳۰)
ترجمہ: لہذا تم یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم رکھو ۔ اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو ،جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی، یہی بالکل سیدھا راستہ ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
کیا مطلب ہےاس کا؟ اُدۡعُ اِلٰی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالۡحکمة (سورۃ النحل ۱۲۵) اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ دعوت دو ۔ آپ کو خوشی ہوگی یہ سن کر، آپ کی پیشانی سے ایمان کا نور چھلکتا ہے اس وقت تو وہ بندہ چلا گیا پر تقریبا دو ماہ کے بعد اس شخص کا فون آیا اور انہوں نے کہا میں اس وقت شکاگو کے اسلامک ریسرچ سنٹر سے بات کر رہا ہوں اور میں نے ابھی کلمہ شہادت کو قبول کرلیا۔ اللہ اکبر یہ ہے اسلام کی طاقت، اس دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سچائی کی تلاش میں ہے۔
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ہم ہی نے اپنا قومی فریضہ، ہم ہی نے اپنے اصل مشن کو چھوڑ کر، ہم ہی نے انسانوں کو ترچھی نظر سے دیکھنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔
اسلام دینِ فطرت ہے تو کچھ فطری اعمال کا تذکرہ تمثیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ پہ واضح ہو جائے کہ اسلام دین فطرت ہے، انسان کی فطرت اسے تسلیم کرے گی کہ میں جھوٹ بولوں؟نہیں! ۔فطرت کبھی یہ قبول نہیں کر سکتی اور اسلام اسی کو پسند کرتا ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے صفحے پر ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
ولهم عذاب الیم بماکانوا یکذبون (سورہ البقرہ ۱۰)
ترجمہ: اور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّ اللَّهَ لا يَهدي مَن هُوَ مُسرِفٌ كَذّابٌ(سورہ المومن ۲۸)
ترجمہ:اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گذر جانے والا ( اور ) جھوٹ بولنے کا عادی ہو۔ دینِ اسلام میں جھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں ہے۔
کیا انسان کی فطرت اسے محبوب رکھ سکتی ہے؟ کہ میں ایفائے عہدکرے اور پھر اُس کے خلاف جائے؟ ہرگز نہیں، انسان کی فطرت ہمیشہ پسند کرتی ہے کہ وعدے نبھانا چاہیے۔ اسلام بھی اسی کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالٰی مسلمان کو مخاطب کر کے مسلمان کی صفات بیان کرتے ہے، اس میں ایک صفت وعدہ پورا کرنا بھی شامل ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَالَّذينَ هُم لِأَماناتِهِم وَعَهدِهِم راعونَ (سورۃ المومنون ۱۰، سورہ معارج ۳۲)
ترجمہ : اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔
انسان کی فطرت پسند کرتی ہے کہ لوگوں کو گالیاں دیتے پھرے!، نہیں فطرت یہ بھی پسند نہیں کرتی اور اسلام بھی اسی کو پسند کرتا ہےکہ ۔۔۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
وَالَّذينَ هُم عَنِ اللَّغوِ مُعرِضونَ (سورہ المومنون)
اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں، یعنی مسلمان گالیاں نہیں دیتے ہے۔
دوسری جگہ پر قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَقُل لِعِبادي يَقولُوا الَّتي هِيَ أَحسَنُ إِنَّ الشَّيطانَ يَنزَغُ بَينَهُم إِنَّ الشَّيطانَ كانَ لِلإِنسانِ عَدُوًّا مُبينً ﴿سورہ بنی اسرائیل۵۳﴾
ترجمہ:میرے ( مسلمان ) بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہا کریں جو بہترین ہو ۔ درحقیقت شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے ۔ شیطان یقینی طور پر انسان کا کھلا دشمن ہے ۔
حدیث مبارکہ میں ہے: اللہ تعالٰی اس شخص سے عداوت رکھتا ہے، جو فحش گوئی َکرتا ہے۔
أَنَّ ألنَّبِيَّ صَلَّى أللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَألَ مَأ شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَأنِ ألْمُوْمِنِ يَوْمَ ألْقِيَأمَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ وَإِنَّ أللَّهَ لَيُبْغِضُ ألْفَأحِشَ ألْبَذِيء جامع الترمذی: رقم الحدیث ۲۰۰۲)
ترجمہ: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:' قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاقِ حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اوراللہ تعالیٰ بے حیا بدزبان سے نفرت کرتا ہے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے
(من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه وفي رواية إن من حسن إسلام المرء قلة الكلام فيما لا يعنيه)
فطرت زناکاری پسند کرتی کر سکتی؟ ہرگز نہیں چاہے وہ کوئی بھی مذہب ہو زناکاری کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اسلام میں تو اسے گناہ کبیرہ کہا گیاہے ۔
جیسے اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے ۔
وَلا تَقرَبُوا الزِّنا إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَساءَ سَبيلًا (سورہ بنی اسرائیل ۳۲)
ترجمہ: اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو ۔ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بےراہ روی ہے۔
امثال تو بے شمار دی جا سکتی ہیں پر منصف انسان کے خاصہ ہے، اختصاراً کچھ مزید تمثیلات کا تذکرہ کرتے تاکہ اشتباہ کی گنجائش نہ رہے: ماں باپ کی عزت ، اللہ تعالیٰ نےان کی عزت و احترام کرنے کا حکم اپنی تتبع کے ساتھ ذکر کیا جس کے بعد ھذا کسی تائید کے مستمد نہیں رہتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےجامع الفاظ کے ساتھ اس کی تائید کرتے ہوئے فرمایااللہ کی رضا، والدین کی رضامندی میں ہے۔ بترتیب دیکھیں:
وَقَضى رَبُّكَ أَلّا تَعبُدوا إِلّا إِيّاهُ وَبِالوالِدَينِ إِحسانًا إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَرهُما وَقُل لَهُما قَولًا كَريمًا (الاسراء)
رضي الرب في رضا الوالد وسخط الرب في سخط الوالد (ترمذي)
آپس میں امتزاج کے ساتھ رہنے کی تلقین، غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ بھی عدل وانصاف اور آمیزش کے ساتھ رہنا اسلام کا تقاضا ہے، ظلم کرنے سے، ناحق قتل کرنے سے، شراب نوشی سے، بلکہ جانوروں سے حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین اسلام کرتا ہے۔ (أفضل الصدقة أن تشبع كبدًا جائعًا: بیہقی)
خلاصہ یہ ہے کہ ہر کوئی چیز جو فطرت کو پسند ہے۔اسلام کو بھی وہی پسند ہیں ۔ اسلام تو نام ہی ہے دینِ فطرت کا تو دینِ اسلام فطرت کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی بات فطری ترازو میں تولیں، اسلام کے بر خلاف نہیں ہوگی۔
اگر ہم غور و فکر کریں گے۔ تو ہمیں وہ فطری راستہ مل ہی جائیں گا۔ جس سے ہم سب کامیاب و کامران اس دنیا اور اس کے بعد کی زندگی میں بھی ہوسکتے ہیں۔ انسانیت کی رہنمائی کے لیے واحد راستہ ہے وہ ہے فطری راستہ یعنی راہِ اسلام۔ جو چیز فطرت کے خلاف ہو بلا اسے انسانیت کامیاب و کامران کیسے ہو سکتی ہے،
اس لیے ہمیں دینِ فطرت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی اپنی زندگی اُس کے حوالے بلا خوف کردینی چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی برحق ﷺ نے سالم ضمیر کو سب سے بڑا قاضی اور مفتی یعنی فیصلہ کرنے والا بتایا ہے۔
کما قالَ رسول اللہ ﷺ " الاثم ما حاک فی صدرک و کرھت ان یطلع علیہ الناس۔
اسلام ایک دینِ فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ قدرت کے قانون اٹل اور غیر متبدل ہیں ۔ انسان خود کے بنائے قوانین میں طبقاتی تقسیم کا خیال رکھتا ہے جب کہ اللہ کے بنائے قوانین تمام انسانوں کے لیے یکساں و مساوی حثیت رکھتے ہیں ۔ بلا شبہ اس ذات باری تعالیٰ کے نظام ِ قدرت میں ساری مخلوق کے لیے بغیر کسی امتیازی سلوک کے مفادِ عامہ اور نشونما شامل ہے ۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعا کرتےہیں۔ اے انسان کو پیدا کرنے والے رب ، ہمیں اس راستے کو دریافت (کھوج) کرنے کی توفیق عطا فرما اور پھر دریافت ہونے کے بعد اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرما ۔ آمین
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
ماجد کشمیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔