جاب یا تجارت| کاروبار یا ملازمت

2

 اس دور معشوق میں نوجوانِ قوم پر جو معاصرانہ دباؤ ہے اس سے نہ انفرادی نہ قومی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ ہر ملک میں سب سے زیادہ نوجوانوں سے پوچھا گیا سوال یہی ہو سکتا ہے کہ پڑھو، تعلیم حاصل کرو۔ ہر نوجوان کا ولی ناقص التحقیق سے تنبیہ کرتا ہے تاکہ اس کا بیٹا اچھی سی نوکری کر سکیں۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ جاب ( نوکری) کرنا برا کام نہیں ہے پر میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ کمزور دل اور ایک ہی راستہ کو متعین کرنے والا ناقص الفہم شخص ضرور ہو سکتا ہے۔ اس پہلو کو اگر اسلامی نظریے سے دیکھا جائے تو اسلام میں غلامی کو چھوڑ کر کاروبار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر تجارت پر تحقیقی روشنی ڈالی جائے تو یہ عیاں ہو جاتا ہے میران تجارت سے ہی بنے ہوئے ہیں۔ عرب کے میران تاجروں سے آپ بہت زیادہ واقف نہ ہوں گے اس لیے میں آپ کو اپنے ملک کے کچھ امیر اشخاص کا تذکرہ کرتا ہوں۔ ہندوستان کے سب سے امیر شخص مکیش امبانی کا نام آپ نے سنا ہی ہوگا جو امیروں کی فہرست میں صف اول میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہاں ایک نوکری کرنے والے شخص کی جتنی سالوں کی بچت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ مکش امبانی کو اتنے کروڑ کی بچت  ہوتی جیسے ایک رپورٹ سے پتہ چلا کہ ان کو 613500 کروڑ بچت ہے ۔میں نے ایک رپوٹ پڑی جو ہندوستان کے سب سے امیر ترین لوگوں کی تھی جس میں کہیں پر غلطی سے بھی نوکری کرنے والے شخص کا تذکرہ نہیں ملتا۔ صرف یہ ایک نہیں ہے 142 کروڑ پتی رواں سال میں شمار کیے گئے ہیں۔ تمام ذی شعور انسان اس بات کو تسلیم کرتیں ہے نوکری سے بہتر تجارت ہے۔ پر کہیں رسموں میں الجھے ہے، کہیں فیملی کے دباؤ، کہیں اپنی اضمحلال میں ہے۔ بس عامیانہ ذہن بن چکا ہے کرنی ہے تو بس نوکری۔ بڑی عجیب بات ہے نا جو کام آپ دوسروں کے لئے کر سکتی ہوں آپ خود کے لیے کیوں نہیں کر سکتے ہو۔


تجارت کرنے کے لئے ہمیں رقم کی ضرورت ہے؟

تجارت کو یک طرفہ رکھیں آپ ہمیں بتائیں کہ کون سے چیز ہے جس کے لیے پیسے نہیں لگتے ہیں۔ کیا نوکری کرنے کے لیے رقم خرچ نہیں ہوتی؟ کیا تعلیم حاصل کرنے کے لیے پیسے خرچ نہیں ہوتیں؟ آپ اس مضمون کا مطالعہ کر رہیں ہیں اس کے لئے بھی آپ پیسے خرچ کر چکے ہیں۔ آپ ذرا غور کریں صرف تجارت کرنے پر ہی کیوں سوال اٹھایا جاتا ہے۔ دراصل راز کچھ اور ہے۔ کمزور اشخاص جس چیز سے ڈر رہے ہیں وہ نقصان ہے ۔ وہ یہ تصور کرتے ہیں کی تجارت کرنے میں نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ پر نقصان وہی اٹھاتے ہیں جو حلال تجارت اور بہترین طریقہ (اسلامی قوانین) سے تجارت کو انجام نہیں دیتے ہیں۔ 


اب سوال ہے کہ تجارت کے لیے رقم لگانی پڑتی ہیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے۔ میں یہاں پر ضرور اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ پیسے دو طریقے سے کمائے جا سکتے ہیں۔ اولاً پیسے تجارت میں لگائے جائے اور اس سے منافع حاصل کیا جائے۔ ثانیاً دوسروں کو منافع کما کے دے دینا اور اپنی مزدوری لینا۔ دونوں طرف کچھ نہ کچھ خرچ ہو جاتا ہے تجارت میں آپ کے لگائے ہوئے پیسے منافعے کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ اور جاب( نوکری) میں آپ جنسی رقم خرچ کر کے تھوڑی بہت مزدوری حاصل کر لیتے ہیں۔ بہترین اور معزز طریقہ کوسا ہے آپ جود متعین کیجیے۔ 


اس تلخ حقیقت سے کون انحراف کر سکتا ہے کہ کوشاں کبھی ناکامیاب ہو سکتا ہے۔ آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں وہ دورِ تجاریت ہے۔ پر ہم مغربیت سے آلودہ ہے ہمارا ذہن ابھی غلامیت سے انکار نہیں کرتا ہے۔ یہ مغربیت کی روش ہے کہ ہم غلامیت کے عادی بن چکے ہے۔ مغربیت کے مکر و فریب میں اکثر افراد شکار ہوتے ہیں وہ لوگوں کے ذہنوں میں نوکری، غلامی کی حسرت کو اجاگر کرتے ہے اور خود تجارت میں بے حد مصروف ہے۔ وہ تجارت کی طاقت سے آشنا ہے۔ پر ہم اسے دور بھاگتے ہیں۔ للہ تعالا ہمیں تفہیم کی توفیق عطا کریں اور کونین میں کامیاب فرمائیں۔ امین 

ماجد کشمیری

تبصرے

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں