0

درسگاہ خلفائے راشدین چولگام از مکتبِ ہواند

اہتمام کندہ ماجد کشمیری 

سوال نمبر 1 : فرائض وضو کی تعریف لکھیں اور مستحباتِ وضو کتنے ہیں۔


سوال نمبر 2: غسل میں سنت کا کیا حکم ہے، نیز غسل کی کتنی سنتیں ہیں؟


سؤال نمبر 3: نواقضِ وضو سے کیا مراد ہے اور ان کی تعداد کتنی ہے؟ 


سوال نمبر 4: نواقضِ وضو اور مکروہاتِ وضو قلم بند کریں؟ 


سوال نمبر 5 : فرائض غسل کتنے ہیں اور کیا کیا ہے۔


ایک لفظ میں جواب لکھیں 


سوال نمبر 6: اگر بدن کے کسی جگہ سے خون یا پیپ آئیں تو وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟


سوال نمبر 7:  وضو میں مسواک کرنا فرض ہے؟


سؤال نمبر 8 : دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا؟ 


سوال نمبر 9: غسل میں زیادہ پانی استعمال کرنا؟ 


سوال نمبر 10: وضو یا غسل میں خلافِ سنت کام کرنا کیسا ہے۔


موت کے وقت کلمہ زبان پر جاری نہ ہونا

2


سوال :ایک


واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک صحابی حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کی موت کے وقت ان کی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہو رہا تھا تو آپ علیہ السلام نے ان کی ماں کو بلوا کر دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ وہ ماں کا نافرمان ہے اور ماں اسکو معاف کرنے پر راضی نہیں، لیکن جب آپ علیہ السلام نے اسکو جلانے کا کہا تو ماں نے معاف کردیا …کیا یہ واقعہ درست ہے؟

الجواب باسمہ تعالی

یہ روایت اگر چہ امام احمد رحمہ اللہ نے ابتداء اپنی کتاب “مسند احمد”  میں ذکر کی لیکن بعد میں اس روایت کو اپنی کتاب سے نکال دیا کیوں کہ اس کی سند انتہائی کمزور ہے.


ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ: ﻭﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ ﺃﺑﻲ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﻫﺎﺭﻭﻥ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﻳﻘﻮﻝ:‏ ﺟﺎﺀ ﺭﺟﻞ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ! ﺇﻥ ﻫﺎﻫﻨﺎ ﻏﻼﻣﺎً ﻗﺪ ﺍﺣﺘﻀﺮ؛ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ: ﻗﻞ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ، ﻓﻼ ﻳﺴﺘﻄﻴﻊ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻟﻬﺎ. ﻗﺎﻝ: ﺃﻟﻴﺲ ﻗﺪ ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻟﻬﺎ ﻓﻲ ﺣﻴﺎﺗﻪ؟ ﻗﺎﻝ: ﺑﻠﻰ، ﻗﺎﻝ: ﻓﻤﺎ ﻣﻨﻌﻪ ﻣﻨﻬﺎ ﻋﻨﺪ ﻣﻮﺗﻪ؟ (ﻓﺬﻛﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺑﻄﻮﻟﻪ) ﻟﻢ ﻳﺤﺪﺙ ﺃﺑﻲ ﺑﻬﺬﻳﻦ ﺍﻟﺤﺪﻳﺜﻴﻦ (ﺣﺪﻳﺜﻴﻦ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﺎﺋﺪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ) ﺿﺮﺏ ﻋﻠﻴﻬﻤﺎ ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺑﻪ؛ ﻷﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﺮﺽ ﺣﺪﻳﺚ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻭﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪﻩ ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ… ﺍﻧﺘﻬﻰ ﺍﻟﻨﻘﻞ ﻣﻦ “ﺍﻟﻤﺴﻨﺪ”…

ﻭﺃﻣﺎ ﺑﻘﻴﺔ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻛﻤﺎ ﺟﺎﺀﺕ ﻓﻲ ﺍﻟﻤﺼﺎﺩﺭ ﺍﻷﺧﺮﻯ ﺍﻟﺘﻲ ﺫﻛﺮﺗﻪ، ﻓﻬﻲ ﻛﺎﻟﺘﺎﻟﻲ:

ﻗﺎﻝ: ‏ﻓﻨﻬﺾ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻧﻬﻀﻨﺎ ﻣﻌﻪ ﺣﺘﻰ ﺃﺗﻰ ﺍﻟﻐﻼﻡ ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﻏﻼﻡ! ﻗﻞ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ. ﻗﺎﻝ: ﻻ ﺃﺳﺘﻄﻴﻊ ﺃﻥ ﺃﻗﻮﻟﻬﺎ، ﻗﺎﻝ: ﻭﻟﻢ؟ ﻗﺎﻝ: ﻟﻌﻘﻮﻕ ﻭﺍﻟﺪﺗﻲ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺣﻴﺔ ﻫﻲ؟ ﻗﺎﻝ: ﻧﻌﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺭﺳﻠﻮﺍ ﺇﻟﻴﻬﺎ، ﻓﺄﺭﺳﻠﻮﺍ ﺇﻟﻴﻬﺎ؛ ﻓﺠﺎﺀﺕ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻬﺎ النبی ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺍﺑﻨﻚ ﻫﻮ؟ ﻗﺎﻟﺖ: ﻧﻌﻢ. ﻗﺎﻝ: ﺃﺭﺃﻳﺖ ﻟﻮ ﺃﻥ ﻧﺎﺭﺍً ﺃﺟﺠﺖ؛ ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻚ: ﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﺸﻔﻌﻲ ﻟﻪ ﻗﺬﻓﻨﺎﻩ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻨﺎﺭ. ﻗﺎﻟﺖ: ﺇﺫﻥ ﻛﻨﺖ ﺃﺷﻔﻊ ﻟﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺄﺷﻬﺪﻱ ﺍﻟﻠﻪ، ﻭﺃﺷﻬﺪﻳﻨﺎ ﻣﻌﻚ ﺑﺄﻧﻚ ﻗﺪ ﺭﺿﻴﺖ. ﻗﺎﻟﺖ: ﻗﺪ ﺭﺿﻴﺖ ﻋﻦ ﺍﺑﻨﻲ، ﻗﺎﻝ: ﻳﺎ ﻏﻼﻡ! ﻗﻞ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ. ﻓﻘﺎﻝ: ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ. ﻓﻘﺎﻝ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺍﻟﺬﻱ ﺃﻧﻘﺬﻩ ﻣﻦ ﺍﻟﻨﺎﺭ‏.

اس روایت کو نقل کرنے والے دیگر محدثین کرام:

١ . امام عقیلی: ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺍﻟﻌﻘﻴﻠﻲ ﻓﻲ “ﺍﻟﻀﻌﻔﺎﺀ ﺍﻟﻜﺒﻴﺮ” ‏3/461

٢ . ابن جوزی: ﻭﻣﻦ ﻃﺮﻳﻘﻪ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺠﻮﺯﻱ ﻓﻲ “ﺍﻟﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ” 3/87

٣ . طبرانی: ﻭﻋﺰﺍﻩ ﻏﻴﺮ ﻭﺍﺣﺪ ﻟﻠﻄﺒﺮﺍﻧﻲ.

٤ . خرائطی: ﻭﺭﻭﺍﻩ ﺍﻟﺨﺮﺍﺋﻄﻲ ﻓﻲ “ﻣﺴﺎﻭﺉ ﺍﻷﺧﻼﻕ” ﺭﻗﻢ:251

٥ . بیہقی: ﻭﺍﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻓﻲ “ﺷﻌﺐ ﺍﻹﻳﻤﺎﻥ”6/197 ﻭﻓﻲ “ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﺓ” 6/205

٦ . قزوینی: ﻭﺍﻟﻘﺰﻭﻳﻨﻲ ﻓﻲ “ﺍﻟﺘﺪﻭﻳﻦ ﻓﻲ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﻗﺰﻭﻳﻦ” 2/369

ان تمام محدثین نے اس روایت کو فائد بن عبد الرحمن کی سند سے نقل کیا ہے.

ﺟﻤﻴﻌﻬﻢ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ.

فائدبن عبدالرحمن  اس راوی کے بارے میں محدثین کرام کے اقوال:

١.  امام احمد کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے.

ﻗﺎﻝ ﻓﻴﻪ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﻤﺪ: ﻣﺘﺮﻭﻙ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ

٢.  ابن معین کہتے ہیں کہ یہ کسی قابل نہیں۔

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ: ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲﺀ

٣.  ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے کہ یہ گیا گذرا راوی ہے،  اس کی روایات نہ لکھی جائیں،  ابن ابی اوفی سے اس کی نقل کردہ روایات باطل ہیں جن کی کوئی اصل نہیں۔۔۔۔ اگر اس کی روایات کے جھوٹ ہونے پر قسم کھائی جائے تو غلط نہ ہوگا۔

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﺎﺗﻢ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻰ ﻳﻘﻮﻝ: ﻓﺎﺋﺪ ﺫﺍﻫﺐ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻻ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ، ﻭﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﻮﺍﻃﻴﻞ ﻻ ﺗﻜﺎﺩ ﺗﺮﻯ ﻟﻬﺎ ﺃﺻﻼ، ﻛﺄﻧﻪ ﻻ ﻳﺸﺒﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺃﻭﻓﻰ، ﻭﻟﻮ ﺃﻥ ﺭﺟﻼ ﺣﻠﻒ ﺃﻥ ﻋﺎﻣﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻛﺬﺏ ﻟﻢ ﻳﺤﻨﺚ.

٤ . امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ:  ﻣﻨﻜﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ. ﺍﻧﻈﺮ: “ﺗﻬﺬﻳﺐ ﺍﻟﺘﻬﺬﻳﺐ” 8/256

٥. ابن حبان نے ان کی روایات کو ناقابل اعتماد قرار دیا.

ﻭﻗﺎﻝ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ: ﻛﺎﻥ ﻣﻤﻦ ﻳﺮﻭﻯ ﺍﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﺸﺎﻫﻴﺮ، ﻭﻳﺄﺗﻲ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺑﺎﻟﻤﻌﻀﻼﺕ، ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺍﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ. [“ﺍﻟﻤﺠﺮﻭﺣﻴﻦ” ‏(2/203)]

٦. امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ ابن ابی اوفی سے من گھڑت روایات نقل کرتا ہے۔

ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺤﺎﻛﻢ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ: ﻳﺮﻭﻱ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ. (ﺍﻟﻤﺪﺧﻞ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺼﺤﻴﺢ:‏155)

خلاصہ کلام

اس روایت کی اسنادی حیثیت انتہائی کمزور اور ناقابل اعتبار ہے،  لہذا اس واقعے کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا یا اسکو بیان کرنا درست نہیں.


واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبد الباقی اخونزادہ


دارالعلوم دیوبند و بنوریہ ٹاون سے بھی یہی حکم صادر کیا ہے۔ 

اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے میں یا دین، یا قرآن

0

 اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے میں یا دین؟




السلام علیکم ورحمت اللہ 

 سلسلہ تخریج الاحادیث نمبر ۱١

 حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا کہ اللہ کو آپ زیادہ محبوب ہیں یا عرش ؟آپ نے فرمایا کہ میں۔ پھر سوال کیا کہ اللہ کو میں زیادہ محبوب ہوں یا آپ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو میں زیادہ محبوب ہوں۔ پھر پوچھا کہ اللہ کو آپ زیادہ محبوب ہیں یا دین؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دین“کیونکہ دین کی خاطر مجھے بھیجا گیا  اور دین کی خاطر سارے انبیاء نے تکلیف برداشت کی ہے۔

یہ حدیث بیانات وغیرہ میں کثرت سے بیان کی جاتی ہے ، بہت تلاش کے باوجود اس کی بنیاد یا اس کے اصل ماخذ کا پتہ نہ چل سکا ، از اختلف دار الافتاء سے اس روایت کے سلسلے میں رجوع کیا گیا توان کی طرف سے اس حدیث کے ثبوت کی نفی کی گئی ، چنانچہ ہفت روزہ ضرب مومن “ کے شرعی مسائل میں اس حدیث کی صحت کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو اس کا جواب " دار الافتاء والارشاد کراچی کی طرف سے یوں دیاگیا ہے ۔ یہ بات ہم نے حدیث کی کتابوں میں کہیں نہیں پڑھی اور نہ ہی کسی معتمد عالم دین سے کیا ہے ، اس مضمون سے ملتی جلتی کوئی حدیث بھی ہماری نظر سے نہیں گزری ، اس لیے اس بات کو بطور حدیث بیان کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ اس کا معتبر حوالہ پیش کرے ، بغیر معتبر حوالہ کے ہرگز اس کو آگے بیان نہ کرے ۔

[آپ کے مسائل کا حل،مندرجہ ضرب مؤمن ،جلد ١٧،شمارہ ٢،جمعہ ٧ تا جمعرات ١٣ صفر ١٤٣٤ء]

اسی طرح دارالعلوم دیوبند سے جاری ہونے والے جدید فتاوی جات میں اس حدیث کے متعلق لکھا ہے :۔ ہماری نظر سے ایسی کوئی حدیث نہیں گزری ۔

[دار الافتاء دیوبند (جواب نمبر: 31553 28-Aug-2020)]

فتویٰ دیکھیں 



لہذا اس حدیث کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے

جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 

بچے کا نام محمد رکھنا کی نیت کرنے سے لڑکا پیدا ہونے کی تحقیق۔

0

 بچے کا نام محمد رکھنا کی نیت کرنے سے لڑکا پیدا ہونے کی تحقیق۔

    السلام  علیکم  ورحمۃ  وبرکاتہ

    سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر  ١٠

ما من مسلم دنا من زوجتہ وہو ینوی ان حبلت منہ ان یسمی محمدا الا رزقہ اللہ ولدا ذکرا۔۔۔

ترجمہ : جو مسلمان اپنی بیوی سے صحبت کرے اور یہ نیت کرے کہ اگر اس محبت سے حمل ٹہر گیا ، تو اس کا نام محمد رکھے گا ، تو اللہ تعالی اس کو نرینہ اولاد عطا فرمائیں گے ۔

اس روایت کو ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ محمد بن خلیل القاء قجی الطرابلسی رحمۃ اللہ علیہ  نے موضوع قرار دیا ہے.

[ بالترتیب دیکھیں:

 الموضوع  الکبیری:ص ٣١، رقم ١١٩٣ 

اللؤلؤ المرصوع : ص ١٦٤ رقم ٤٨٨]

حافظ ذہنی  رحمۃ اللہ علیہ  اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :۔ 

حدیث موضوع وسندہ مظلم [ تنزیۃ الشریہ الموفوعۃ، ١/١٧٤]


 نیز علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد

 لا یصح [اللالی المصنوعۃ ١/١٠٦]

 یعنی یہ حدیث  نہیں ہے.

واضح رہے  کہ ایسی کتب جن میں مصنفین نے صرف موضوع یا ضعیف روایات جمع کرنے کا التزام کیا ہو ، ان میں جب کسی حدیث پر لا یصح کا حکم لگایا جاتا ہے ، تو ہاں  صحیح سے مراد اصطلاحی صحیح نہیں ہوتا ، جو کہ حسن اور ضیف کے مقابلے میں آتا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی طرف صحیح نہیں اور یہ حدیث موضوع ہے ۔ اور عصر حاضر کے محقق عالم و محدث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے  ہیں :۔

فقولہم فی الحدیث ”لا یصح “ او " لایثبت “ او ” لم یصح او لم یثبت “ او ” او  یثبت “ او  لیس  بصحیح  او لیس الثابت"  غیر ثابت او لا یثبت فیہ شی ونحو ہذہ التعابیر ، اذا قالوہ فی کتب الضعفاء او الموضوعات فالمراد بہ ان الحدیث المذکور موضوع ، لا یتصف بشیء من الصحۃ ( مقدمۃ ، المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع ، رقم : ۲۷ ، ص : ۳۵)

 ترجمہ : محدثین کا کسی حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ " یہ صحیح نہیں ہے یا ثابت نہیں ہے " ( اس سے کتے جلتے الفاظ ) جب کسی حدیث کے بارے میں محدثین یہ الفاظ ضعیف یا موضوع روایات پر مشتمل کتابوں میں استعمال کریں ، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث من گھڑت ہے اور اس میں صحت کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ 

لہذا علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا مندرجہ بالا حدیث پر ’ لا یصح کا حکم لگانا اس حدیث کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی دلیل ہے ۔

جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 


عقل کے سو حصوں میں سے ننانوے حصے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے ہیں والی روایت کی تحقیق

0

 السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ 

سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر: ٩

عقل کے سو حصوں میں سے ننانوے حصے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے۔

 خلق اللہ العقل ، فقال لہ ادبر “ فادبر ثم قال لہ : اقبل فاقبل ، ثم قال : ما خلقت خلقا احب الی منک ، فاعطی اللہ محمدا تسعۃ وتسعین جزءا ، ثم قسم بین العباد جزءا واحدا۔

ترجمہ : اللہ تعالی نے عقل کی تخلیق کی ، پھر اس کو حکم دیا کہ پیچھے ہوجا ، وہ پیچھے ہوگئی ، پھر اس کو حکم دیا : اگے ہو جاؤ وہ آگے ہوگئی ، پھر اللہ تعالی نے اس میں سے ننانوے حصے حضرت محمد صلی اللہ علیہ کو عطا کیے اور ایک حصہ باقی بندوں میں تقسیم کیا ۔

اس حدیث کے بارے میں مشہور محدث ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:-


 انہ کذب موضوع اتفاقا [ المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع،رقم:٤٨،ص:٦٢]


یعنی یہ حدیث بلا اتفاق موضوع اور من گھڑت ہے۔

ان کے علاوہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نیز حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ،حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عجلونی جیسے بلند پایہ محدثین نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔

[بالترتیب دیکھیں:فتح الباری :٦/۳٣٤ 

المقاصد الحسنۃ ، رقم : ۲۳۳ ، ص : ١٢٥ 

اللالی المصنوعۃ : ۱/۱۲۹ ، المنار المنیف ، رقم : ١٢٠ ، ص : ٦٦ ، کشف الخفاء ، رقم : ٧٢٣ ، ص : ۲۷۱]


یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مندرجہ بالا ائمہ حدیث نے اس روایت کا پہلا حصہ یعنی ” لماخلق اللہ العقل “ سے لے کر ” احب الی منک نقل کر کے اس حصے کو موضوع قرار دیا ہے ، جبکہ روایت مذکورہ کا وہ حصہ جو زیادہ مشہور ہے ( یعنی عقل کے سو حصوں میں سے نانوے ھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیئے گئے اور ایک حصہ باقی لوگوں پر تقسیم کیا گیا ) حدیث کے اس ٹکڑے کو مندرجہ بالا ائمہ میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا ۔ حتی کہ علامہ سیوطی نے اس روایت کے تمام طریق ذکر کیے ہیں ، لیکن کی طریق میں بھی یہ دوسرا حصہ مذکور نہیں ہے ، روایت کا یہ حصہ صرف مشہور شیعہ مصنف باقر علی نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے  اس کی سند کو ملاحظہ فرمائیں: 

(5 - المحاسن: علی بن الحکم، عن ہشام، قال: قال ابو عبد اللہ (علیہ السلام): لما خلق اللہ العقل قال لہ اقبل فاقبل، ثم قال لہ ادبر فادبر، ثم قال: وعزتی وجلالی ما خلقت خلقا ہو احب الی منک، بک آخذ، وبک اعطی، وعلیک اثیب.

6 - المحاسن: ابی، عن عبد اللہ بن الفضل النوفلی، عن ابیہ، عن ابی عبد اللہ (علیہ السلام) قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ): خلق اللہ العقل فقال لہ ادبر فادبر، ثم قال لہ اقبل فاقبل، ثم قال: ما خلقت خلقا احب الی منک، فاعطی اللہ محمدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) تسعۃ وتسعین جزءا، ثم قسم بین العباد جزءا واحدا.

7 - غوالی اللئالی: قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ): اول ما خلق اللہ نوری.

8 - وفی حدیث آخر انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) قال: اول ما خلق اللہ العقل.

9 - وروی بطریق آخر ان اللہ عز وجل لما خلق العقل قال لہ اقبل فاقبل، ثم قال لہ ادبر فادبر، فقال تعالی: وعزتی وجلالی ما خلقت خلقا ہو اکرم علی منک، بک اثیب وبک اعاقب، وبک آخذ وبک اعطی**  [بحار الانوار - العلامۃ المجلسی - ج ١ - الصفحۃ ٩٧] 

 تاہم روایت کا یہ حصہ بھی پہلے حصے کی طرح موضوع اور من گھڑت ہے کیوں کہ عقل کے بارے میں جتنی بھی روایات ہے  ان جملہ روایت کے بارے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:- 

احادیث العقل کلہا کذب [الموضوعات الکبیری،ص:١٧]

یعنی عقل والے تمام روایات جھوٹی ہیں ۔

نیز اگر چہ باقر مجلسی نے اس ٹکڑے کو اپنی سند کے ساتھ نقل بھی کیا ہے۔لیکن باقر مجلسی کاغو پر مبنی رفض و تشیع بھی قطعاً ان سے روایت لینے کی اجازت نہیں دیتا۔چناچہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ روافض کی روایت کے بارے میں حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :- 

واما البدعۃ الکبری کالرفض الکامل ، والغلو فیہ والحط عن الشیخین . ابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما- فلا . ولا کرامۃ . لا سیما ولست استحضر الآن من ہذا الضرب رجلا صادقا ولا مامونا ، بل الکذب شعارہم والنفاق والتقیۃ دثارہم فکیف یقبل من ہذا حالہ 

[(مقدمۃ فی فتح الملہم روایت اہل المبدع والاہواء ص ١٧٢) 

فتح المعیث ج ٢،ص:٦٣ بحوالہ: المیزان ٤/١ ،ولسانہ٩/١ ]


ترجمہ: اگر کسی راوی میں بدعتِ کبریٰ پائی جائے جیسے کوئی راوی غالی رافضی اور شیعہ ہو اور حضرات شیخین بین حضرت ابوبکر صدی اور حضرت عمر فاروق کو ان کے مقام سے نچے دکھانے کی کوشش کرتا ہوں تو ان کی روایت قابل قبول نہیں ، کیونکہ ابھی تک میں نے اس قبیل کے لوگوں میں کسی کو صادق اور امین نہیں پایا جبکہ جھوٹ،منافقت اور تقیہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے تو ایسے شخص کی روایت کیونکر قبول کی جاسکتی ہے ؟ 

لہذا محض اس سند سے مروی اس روایت کو بیان کرنا درست نہیں بالخصوص جب کہ دیگر محدثین اس کو موضوع بھی قرار دے چکے ہیں۔


جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری 

ہر نبی کو چالیس برس میں نبوت ملنے کی تحقیق : | ما من نبی نبی الا بعد الاربعین

0

 ہر نبی کو چالیس برس میں نبوت ملنے کی تحقیق


سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر: ٨


ما من نبی نبی الا بعد الاربعین 


[ (علی حسن علی الحبی مکتوب بہذہ المراجع فی موسوعۃ الحادیث والاثار الضعیفۃ والموضوعۃ) الاسرار المرفوعۃ  (٤٢١) ، اسنی المطالب ( ۱۲۸۹ ) ، التمییز ( ۱٥۰ ) ، الفوائد الموضوعۃ ( ۹۸ ) ، الدرر المنتشرۃ ( ۳۰۹ ) ، الشفرۃ (٨٤٤ ) ، الغماز ( ۲۰۰ ) ، الکشف الالہی ( ۸۷۰ ) ، کشف الخفاء ( ۲۲۹۸ ) ، اللؤلؤ المرصوع ( ٤٩٠) ، مختصر المقاصد (٩١١ ) ، المصنوع ( ۲۹۱ ) ، المقاصد الحسنۃ (۹۸٥ ) ، النخبۃ ( ۳۰٤)]



ترجمہ ہر نبی کو چالیس برس کے بعد نبوت ملی ہے۔

 اس حدیث کا معنی و مفہوم بھی لوگوں میں مشہور و معروف ہے کہ: ہر نبی کو چالیس برس کے بعد نبوت  عطا کی گئی ہے، حالانکہ محدثین نے اس کو موضوع اور نفس الامر کے خلاف قرار دیا ہے،

 چنانچہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ [ الدرر المتثرۃ ،رقم:٣٦]

حافظ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے  ہیں:

انہ موضوع ،الان عیسی علیہ السلام نبی ورفع الی السماء وہو ابن ثلاثۃ وثلاثین سنۃ، فاشتراط الاربعین فی حق الانبیاء لیس بشیء [المقاصد الحسنۃ رقم،٩٨٥،ص ٣٧٨]

ترجمہ: یہ روایت من گھڑت ہے،کیونکہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو تینتیس برس کی عمر میں آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا،جب کہ اس واقعے سے پہلے ان کو نبوت مل چکی تھی۔لہذا انبیاء کرام کی نبوت کے لئے چالیس برس کو شرط قرار دینا درست نہیں ۔


اس طرح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے اور اس کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ یہ حدیث قرآن کریم کی ان آیات کے خلاف ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا یحییٰ علیہ السلام کو بچپن ہی میں نبوت مل گئی تھی۔ [ الموضوعات الکبیری: رقم ٨٠٨،ص: ٢٠٥]

جیسے حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت یحیی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام .


 قال انی عبد اللہ آتانی الکتاب وجعلنی نبیا ۔

 (سورۃ مریم ) 

قال جل جلالہ : اِذ قالَتِ المَلائِکَۃُ یا مَریَمُ اِنَّ اللَّہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِنہُ اسمُہُ المَسیحُ عیسَی ابنُ مَریَمَ وَجیہًا فِی الدُّنیا وَالآخِرَۃِ وَمِنَ المُقَرَّبینَ۔  وَیُکَلِّمُ النّاسَ فِی المَہدِ وَکَہلًا وَمِنَ الصّالِحینَ۔ (ال عمران٤٥-٤٦)

 قال جل شانہ :  اِذ قالَ اللَّہُ یا عیسَی ابنَ مَریَمَ اذکُر نِعمَتی عَلَیکَ وَعَلی والِدَتِکَ اِذ اَیَّدتُکَ بِروحِ القُدُسِ تُکَلِّمُ النّاسَ فِی المَہدِ وَکَہلًا (المائدہ.١١٠)


 اشارت الآیتان الی نزولہ ، وذلک بذکرہما انہ یکلم الناس بالدعوۃ الی اللہ ، وہو کہل ، وقد رفع الی السماء وہو ابن . ثلاث وثلاثین سنۃ علی الصحیح ، والکہولۃ فوق ہذہ السن الکہل : من جاوز الثلاثین وخطہ الشیب . وقیل : من جاوز الاربعین 

روی الطبری فی تفسیرہ عن ابی زید قال : کلمہم عیسی علیہ السلام فی المہد ، وسیکلمہم اذا قتل الدجال ، وہو . یومئذ کھل

فالظاہر انہ رفع وہو ابن ثلاثین او ابن ثلاث وثلاثین علی الراجح

 وہو فی السماء الثانیۃ علی الراجح والصحیح ایضا کما فی . حادثۃ الاسراء والمعراج وغیرہا من السنۃ ، واللہ اعلم 

وستجد ایضا تحدید وتصریح سن رفعہ فی سیرتہ فبکتاب قصص الانبیاء لابن کثیر وغیرہ ممن سردوا الاحادیث والآثار . فی ہذا ، واللہ اعلم


 وقال الحسن البصری : کان عمر عیسی علیہ السلام یوم رفع اربعا وثلاثین سنۃ ، وفی الحدیث : « ان اہل الجنۃ یدخلونہا . « جردا مردا مکحلین ابناء ثلاث وثلاثین 


وفی الحدیث الآخر علی میلاد عیسی وحسن یوسف . وکذا قال حماد بن سلمۃ ، عن علی بن زید ، عن سعید بن المسیب انہ .قال : رفع عیسی وہو ابن ثلاث وثلاثین سنۃ


 فاما الحدیث الذی رواہ الحاکم فی ( مستدرکہ ) ویعقوب بن سفیان الفسوی فی (تاریخہ ) عن سعید بن ابی مریم ، عن نافع بن یزید ، عن عمارۃ بن غزیۃ ، عن محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن عثمان ان امہ فاطمۃ بنت الحسین حدثتہ : ان عائشۃ کانت  تقول:


 اخبرتنی فاطمۃ ان رسول اللہ اخبرہا : انہ لم یکن نبی کان بعدہ نبی الا عاش الذی بعدہ نصف عمر الذی کان قبلہ ، وانہ اخبرنی ان عیسی بن مریم عاش عشرین ومائۃ سنۃ ، فلا ارانی الا ذاہب علی راس ستین . ہذا لفظ الفسوی فہو حدیث .غریب.


 قال الحافظ ابن عساکر : والصحیح ان عیسی لم یبلغ ہذا العمر ، وانما اراد بہ مدۃ مقامہ فی امتہ ، کما روی سفیان بن عیینۃ ، عن عمرو بن دینار ، عن یحیی بن جعدۃ قال : قالت فاطمۃ : قال لی رسول اللہ : ان عیسی بن مریم مکث فی بنی .اسرائیل اربعین سنۃ . وہذا منقطع


 وقال جریر ، والثوری ، عن الاعمش : ان ابراہیم مکث عیسی فی قومہ اربعین عاما . ویروی عن امیر المؤمنین علی : ان عیسی علیہ السلام رفع لیلۃ الثانی والعشرین من رمضان ، .وتلک اللیلۃ فی مثلہا توفی علی بعد طعنۃ بخمسۃ ایام البدایہ والنھایہ

چالیس سال میں نبوت سے سرفراز ہونے کی بات کلی نہیں ؛ بلکہ اکثری ہے ، سیدنا حضرت عیسی ویحین علیہما السلام کے متعلق قرآن کریم میں صراحت ہے کہ انہیں بچپن میں نبوت سے سرفراز کردیا گیا تھا ، حضرت یحین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے { وآتیتاۃ الحکم صبیا } مریم : ۱۲ ]

اور حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدائش کے بعد جب پہلا کلام کیا اس میں یہ بھی فریاما : { وجعلنی نبیا } لہذا ان دونوں حضرات کی نبوت پر کوئی اشکال نہ ہونا. چاہئے ۔

وآتیناہ الحکم صبیا ، اعلم ان فی الحکم اقوالا : الاول : انہ الحکمۃ ،والثانی : انہ العقل . والثالث : انہ النبوۃ . فان اللہ تعالی احکم عقلہ فی صباہ واوحی الیہ ، وذلک لان اللہ تعالی بعث یحیی وعیسی علیہما السلام وہما صبیان ، لا کما بعث موسی ومحمدا علیہما السلام ، وقد بلغا الاشد . ( تفسیر رازی بیروت ( ۲۱۵ ، ۱۹۲ ٫ ۱۱ وقیل : النبوۃ وعلیہ کثیر . قالوا : اوتیہا وہو ابن سبع سنین ، ولم ینبا اکثر الانبیاء علیہم السلام قبل الاربعین . ( تفسیر روح المعانی ۱۰۵ ٫ ۹ ، معارف القرآن ۶ , ۲۴ ، جلالین شریف مع الہامش ۲۵۴ ) فقط واللہ تعالی اعلم.

 

جمع و ترتیب : ماجد ابن فاروق کشمیری


لولاک ما خلفت الافلاک : والی روایت کا حکم | اگر آپ نہ ہوتے، تو میں اس کائنات کی تخلیق نہیں کرتا : والی حدیث کی تحقیق

0

  السلام علیکم ورحمت وبرکاتہ

سلسلۂ تخریج الاحادیث نمبر 7


”لولاک ما خلفت  الافلاک“ 


ترجمہ : اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے، تو میں اس کائنات کی تخلیق نہیں کرتا۔

اس حدیث کو حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے موضوع قرار دیا ہے۔ 

[بالترتیب دیکھیں:

فتاوی عزیزی: ١/١٢٢

امداد الفتاوی:٧٩/٤]

تاہم اکثر محدثین اس حدیث کو معنی ومفہوم  کو درست اور ثابت کر دیا ہے، جن میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ حافظ عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ قاوقجی رحمۃ اللہ علیہ شامل ہے۔

[بالترتیب دیکھیں:

(الموضوعات الکبیری،١٩٤،رقم ٧٥٥)

(کشف الخفاء، ج٢،رقم :٢١٢٣،ص:١٩١)

(اللؤلؤ المرصوع  رقم:٤٥٢،ص١٥٤)]

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مفہوم کی ایک مرفوع روایت بھی ذکر کی ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

" قال الصغانی انہ موضوع ، کذا فی الخلاصۃ ، لکن معناہ صحیح و فقد روی الدیلمی عن ابن عباس مرفوعۃ ، اتانی جبریل فقال یا محمد : لولاک ما خلقت الجنۃ ولولاک ما خلقت النار “[الموضوعات الکبیری:ص١٩٤،رقم ٧٥٥]


ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائیے،چنانچہ انہوں نے کہا کہ ( اللہ تعالی نے فرمایا) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ نہ ہوتے تو جنت اور جہنم پیدا نہ کرتا۔

اسی طرح ایک اور روایت حافظ شہردار بن شیرویہ دیلمی اپنی کتاب مسند الفردوس“ میں اس طرح سے ذکر فرماتے ہیں:


      "عبید اللہ بن موسی القرشی، حدثنا الفضیل بن جعفر بن سلیمان، عن عبد الصمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس، عن ابیہ، عن ابن عباس: یقول اللہ عز وجل: وعزتی وجلالی، لولاک ما خلقت الجنۃ، ولولاک ما خلقت الدنیا“


ترجمہ : اللہ رب العزت نے فرمایا: میری عزت کی قسم ! میرے جلال کی قسم! اگر آپ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو نہ میں جنت کو پیدا کرتا نہ دنیا کو۔

زیر بحث روایت عبد اللہ بن عباس موقوفا یا مرفوعاً بسند عبد الصمد بن علی کا متن سابقہ تمام سندوں کی طرح علامہ عبد الحی لکھنوی اور علامہ محمد بن خلیل المشیشی کے اقوال کے تناظر میں من گھڑت ہے، اس لئے یہ روایت مذکورہ سند سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرنا درست نہیں ہے۔

 حضرت عمر بن الخطاب (مرفوع طر یق)۔ 

② حضرت سلمان فارسی (مرفوع طریق)۔

③ حضرت عبد اللہ ابن عباس (موقوفا دو مختلف سندوں سے)۔ 


      زیر بحث روایت مذکورہ تمام طرق کے ساتھ شدید ضعیف یا من گھڑت ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب اس روایت کو منسوب کرنا درست نہیں ہے۔


تتمہ: ذیل میں ان علماء کے نام لکھے جارہے ہیں، جنہوں نے مختلف سندوں سے یا سند ذکر کیے بغیر مطلقا زیر بحث روایت کو من گھڑت کہا ہے۔


 ①. حافظ صغانی

 حافظ صغانی کے قول کو ان حضرات نے اکتفاء نقل کیا ہے:

ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی، علامہ عجلونی،  علامہ شوکانی، 

② حافظ ابن الجوزی

③ حافظ ابن تیمیہ

④ حافظ ذہبی 

⑤ حافظ ابن حجر (اکتفاء علی قول الذہبی )

⑥ حافظ سیوطی (اکتفاء علی قول ابن الجوزی)

⑦ حافظ ابن عراق

⑧ علامہ محمد بن خلیل بن ابراہیم 

⑨ المشیشی الطرابلسی

⑩ علامہ عبد الحی لکھنوی

جمع و ترتیب : خادم الاسلام ماجد ابن فاروق کشمیری 


تخریج آخری 

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں