بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بے دینی کا ایک عبرت انگیز واقعہ
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتےمری نماز جنازہ پڑھائی غیروں نے
مستندیت ہی ہمارا عنفوان ہے
از: ماجد ابن فاروق کشمیری
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتےمری نماز جنازہ پڑھائی غیروں نے
آقائے مدنی آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ کو مؤرخین نے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور پیدائش سے نبوت تک، دوسرا دور دعوی نبوت سے ہجرت تک اور تیسرا دور ہجرت سے وصال تک۔
قسط نمبر 2
پیدائش سے بعثت تک
ولادت کے بارویں سال: اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ ملک شام کا پہلا تجارتی سفر فرمایا۔
سفر میں آپ ﷺ مال کو بحیر اراہب نے دیکھا، نبوت کی پیشینگوئی کی کہ یہ سید العالمین ہیں ،رب العالمین کے رسول ہیں جن کو اللہ نے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
ولادت کے بیسویں سال: آپ ﷺ نے اپنے چچا کیساتھ حرب فجار میں شرکت کی مگر قتال نہیں کیا۔
آپ ﷺ نے اپنے چچاؤں کیساتھ حرب فجار کے چار ماہ بعد حلف الفضول میں شریک ہوئے۔
ولادت کے پچیسویں سال: حضرت خدیجہ کا مال لے کر آپ ﷺ نے شام کا سفر فرمایا۔ آپ ﷺ کا یہ دو سرا ملک شام کا سفر تھا۔
آپ ﷺ کا حضرت خدیجہ سے نکاح ہوا، آپ کی عمر ۴۰ سال تھی۔
ولادت کے اڑتیسویں سال: نبوت کے ابتدائی مراحل کا آغاز ہوا، آپ ﷺ نے غار حرا میں عبادت فرمانے لگے ۔ سچے خوابوں کے ذریعے نبوت کی بشارت ہوئی۔
سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ١٠
اگر تم واقعی صلح پسند ہوتے تو تم اور تمہارے جیسے لوگ اہل سنت کو اختلافی مسائل میں نہ الجھاتے اور خود حکیم سالکوٹی صاحب اور ان جیسے دوسرے مصنفین اور حاشیہ نگار اپنی کتابیں لکھ کر فروعی اختلافی مسائل کو نہ اچھالتے ۔ اور یہ آخر میں تم نے بسم اللہ اونچی اور آہستہ پڑھنے کی بابت اپنے علما کا موقف ذکر کیا ہے تو اس موقعہ پر مولانا سیالکوٹی کی صلاۃ الرسول کے دو حاشیہ نگاروں کا تبصرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا:
خـانہ جنگی : صلاۃ الرسول ؐ “ کا ایک حاشیہ نگار تسہیل الوصول میں لکھتا ہے کہ حکیم محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ و دیگر علما سے حدیث کا یہ فیصلہ بالکل صحیح ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم آ ہستہ اور پکار کر پڑھنا دونوں طرح جائز ہے (ص:۱۵۸) جبکہ صلاۃ الرسول کا دوسرا حاشیہ نگار القول المقبول میں لکھتا ہے:
” علامہ صنعانی ؒ کا کہنا کہ آپ بھی جہراً پڑھتے اور کبھی سراً ‘‘ مگر ان کے اس دعوے پر کوئی صریح صحیح دلیل نہیں غالباً انہوں نے مختلف روایات کو جمع کرنے کی خاطر یہ کہا، جبکہ بسم اللہ جہراً پڑھنے کے بارے میں کوئی صحیح صریح دلیل نہیں‘‘۔ (ص:٣٥٦)
ایک ہی کتاب اور ایک ہی مسلک کے دو حاشیہ نگار جو پندرھویں صدی میں بقید حیات میں انہوں نے اپنے مقلدین و قارئین کو نماز کی بسم اللہ ہی میں الجھا دیا تو نماز کے بقیہ مسائل میں وہ ان کی کیا رہنمائی کر میں گئے؟ دونوں میں سے کون سی ہے اور کون غلط؟
رہ حیات میں جو بھٹک رہے ہیں ہنوز
بزعمِ خویش وہ اٹھے میں رہبری کیلئے
اور غیر مقلدین کے مقلد عوام تو بے بس و بے کس میں ان پر تو ہمیں ترس آتا ہے۔
ع الہی یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں؟
میں موقّر فیصلہ کمیٹی سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مسئلہ میں اپنا فیصلہ صادر فرمائیں۔
گذشتہ گفتگو کو سن کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اہل حدیث مدّعی باجماعت جہری نماز میں امام کے اونچی بسم اللہ پڑھنے پر صیح بخاری و مسلم سے کوئی دلیل پیش نہیں کر سکا، بلکہ وہاں اس کے موقف کے خلاف دلیلیں موجود ہیں حتی کہ مدّ مقابل نے اسے سہولت دی کہ حدیث کی کسی بھی کتاب سے صحیح حدیث پیش کر دے لیکن وہ پیش نہ کر سکا۔
(۱) مدّعی نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کیا، جبکہ اپنے ہی طے شدہ اصول کے مطابق وہ صحابہ کے قول و عمل کو دلیل نہیں مانتا پھر یہ دلیل پیش کرنا کیسا؟
(۲) حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی عربی روایت کو دیکھ کر واضح ہو گیا کہ اس کے ترجمہ میں’’یعنی جہر سے‘‘ کے الفاظ اصل روایت میں نہیں۔
مدّعی کو خود بھی اعتراف ہے کہ اونچی بسم اللہ پڑھنے کی تمام روایات ضعیف اور من گھڑت ہیں۔
آخر میں مدّعی نے بسم اللہ اونچی اور آہستہ دونوں طرح پڑھنے کو درست کہہ کر اختلاف میں نہ پڑنے کی تلقین کی ہے تو یہ اس کی شاطرانہ چال ہے ۔ اگر یہ واقعی اتنے ہی روادار ہوتے تو امت کو فروعی مسائل میں الجھا کر کمزور و پریشان نہ کرتے ۔
نیز صلاۃ الرسول کے دو حاشیہ نگاروں کی خانہ جنگی نے اس چال کو بھی کمزور ومشکوک بنا دیا۔ نیز جہاں مدّعی کا موقف کمزور ہو وہاں و وه اتفاق و اتحاد کا داؤ استعمال کرتا ہے ۔
لہذا ہم اتفاق رائے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ مدّعی اپنے موقف کو ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔
سنی: شکریہ، میں موقر فیصلہ کمیٹی کی اجازت سے ایک دلچسپ بات پیش کرنا چاہوں گا۔
بسم اللہ اونچی پڑھنے کی بابت مدّعی کے دلائل کی کیا حیثیت ہے؟ وہ گذشتہ صفحات میں سامنے آ گئی۔ اس کے باوجود غیر مقلد مصنف کس جرات سے اپنے دلائل کی حقیقت چھپا کر عام لوگوں پر جعلی رعب جماتے ہیں اس کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:
مشہور غیر مقلد مولا نا عبداللہ روپڑی اپنی کتاب ’’امتیازی مسائل‘‘ کے ص ۳۶ پر مولانا تھانوی ؒ پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” کم سے کم جو جہر کی حدیث ہے اس کو رد کرنا چاہئے تھا لیکن مولوی اشرف علی نے ایسا نہیں کیا بلکہ صرف نہ پکار کر پڑھنے کی حدیث ذکر کر کے چلتے ہے۔ باقی اللہ اللہ خیر صلّا ، خیر ہم بھی اس کو نہیں چھوڑ کر ساتواں مسئلہ لکھتے ہیں ۔
غیر مقلد: ابھی تو آغاز ہے آگے چل کر جب ہمارے مشہور زمانہ مسائل شروع ہونگے تو دلائل کا پتہ چلے گا۔
سنی: جو لوگ اپنی نماز کی بسم اللہ ہی صحیح دلیل سے ثابت نہ کر سکے وہ آگے چل کر کیا کریں گے؟
فیصلہ کمیٹی اس گفتگو کو روک کر اگلے مسئلے پر گفتگو شروع کی جائے۔
سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٩
دوسری ملاقات
السلام علیکم وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
سنی: کیا نئی معلومات لائے ہیں؟
غیر مقلد: جس روایت میں بھی آنحضور ﷺ کے بسم اللہ اونچی آواز میں پڑھنے کا تذکرہ ہے تو جب میں نے اس کی سند کی جانچ پھٹک کی تو وہ ضعیف بلکہ بہت ہی ضعیف نکلی
(۱) امام ابن تیمیہ ؒ پر ہمارے حضرات کافی اعتماد کرتے ہیں انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ : اہل علم کا اتفاق ہے کہ بسم اللہ اونچی پڑھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود ہیں اور جن میں اونچی پڑھنے کا ذکر ہے وہ موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ (مختصر فتاوی ابن تیمیہ (٤٨،٤٦)
(٢) پھر ان کے شاگرد علامہ ابن قیم ؒ کی تحقیق پر ہمارے لوگ اعتماد کرتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ صحیح احادیث میں بسم اللہ اونچی پڑھنے کا ذکر نہیں اور جن میں اونچا پڑھنے کا ذکر ہے وہ صحیح نہیں ۔(زادالمعاد ٢٠٧/١)
(۳) حتی کہ ہمارے فرقے کے کرتا دھرتا نواب صدیق حسن خان صاحب ؒ نے بھی اعتراف کرلیا کہ نماز کو الحمد للہ سے شروع کرنا اور بسم اللہ کو اونچی نہ پڑھنا ہی آنحضرت سے صحیح طور پر ثابت ہے (مسک الختام ٣٧٩/١)
(۴) نیز ہمارے شیخ الحدیث مولانا جانباز صاحب نے لکھا ہے کہ بسم اللہ جہر سے پڑھنے کے بارے میں بعض ضعیف اور متعدد سخت ضعیف اور من گھڑت قسم کی روایات سنن دارقطنی وغیرہ میں موجود ہیں ۔(صلاۃ المصطفی ؐ (ص ۱۵۹ نیز القول المقبول ۳۵۵)
(۵) ہمارے سندھو صاحب القول المقبول صفحہ ۳۵۳ پر لکھتے ہیں: ” راحج اور قوی مذہب کے مطابق بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سراً ہی پڑھنا چاہیے“۔
مجھے تعجب اور حیرت ہے کہ ایسی صورتحال میں ہمارے مولانا سیالکوٹی صاحب نے اپنی تحریر میں لفظ ’’بھی‘‘ اور شیخ الحدیث مولانا اسماعیل صاحب نے اپنی تحریر میں ’’عموماً ‘‘ کا لفظ لکھ کر اپنے مسلک کے لوگوں کو غلط تاثر کیوں دیا ؟ ہاں البتہ ہمارے مولانا سیالکوٹی صاحب نے اس بحث میں بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ ”پس اگر جہری نمازوں میں کوئی امام بسم اللہ پکار کر پڑھے تو انکار نہ کر میں اور نہ ہی اس چیز کو بحث کا موضوع بنائیں‘‘ ( صلاۃ الرسول ص۱۹۴)
نیز شیخ الحدیث مولانا جانباز صاحب لکھتے ہیں: بسم اللہ آہستہ یا بلند دونوں طرح جائز ہے پڑھنے والے کو اختیار ہے خواہ آہستہ پڑھے خواہ جہر سے ۔ (صلاۃ المصطفی ص ۱۵۵)
ہمارے فتاوی اہل حدیث ۱۳٨/۲ پر بھی ہے کہ بسم اللہ دونوں طرح درست ہے خواہ سرّی پڑھے یا جہری۔
مولانا اسماعیل سلفی لکھتے ہیں: آنحضرت ﷺ کا عام معمول تو وہی ہے کہ بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے لیکن کبھی جہر بھی فرماتے ۔(رسول اکرم ﷺ کی نماز ۷۴ )
مولانا عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں : نماز میں بسم اللہ پکار کر نہ پڑھے شافعی پکار کر پڑھتے ہیں اہل حدیث کا دونوں پرمل ہے کیونکہ دونوں طرف احادیث ہیں ۔ ( امتیازی مسائل ۷۶)
لہذا میرے پیارے دوست ہمیں ان فروعی اختلافات میں الجھنا نہیں چاہیے، آپ اپنی جگہ صحیح ہم اپنی جگہ صحیح ۔
سنی: بڑے ہوشیار بنتے ہو! جب دیکھا کہ صحیح بخاری ومسلم سے تمہارا دعویٰ ثابت نہ ہوسکا بلکہ تم کوئی بھی صحیح وصریح اور مرفوع حدیث پیش کرنے سے عاجز آ گئے تو تمہارا فرض تھا کہ صحیح بخاری ومسلم کی حدیث کے مطابق نظریہ کوقبول کرو۔
تعصب کو بالائے طاق رکھ کر اپنے گروہی نظریہ سے برأت کا اعلان کرو اور بسم اللہ آہستہ پڑھو اور تسلیم کرلو کہ نماز کی جن اردو کتابوں کو پڑھ کر اور پنجابی واعظوں کی تقریر میں سنکر تم اچھلتے کودتے ہو ان مصنفوں اور واعظوں نے اپنے مسلک کے لوگوں کو حقیقت واقعہ سے اوجھل رکھا ہے، لیکن دلائل سے عاجز آنے کے بعد تم صلح پسند بن گئے ہو اور پھر بھی اصرار کر تے ہو کہ بلا دلیل ہی تمہارا موقف بھی میچ ہو جائے۔
جو چاہیں حدیث صحیح چھوڑ جائیں
ضعیف اور موضوع گلے سے لگائیں
اگر تم واقعی صلح پسند ہوتے تو تم اور تمہارے جیسے لوگ اہل سنت کو اختلافی مسائل میں نہ الجھاتے اور خود حکیم سالکوٹی صاحب اور ان جیسے دوسرے مصنفین اور۔۔۔
سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٨
غیر مقلد: ہمارے مایہ ناز شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ اپنی کتاب” رسول اکرم ﷺ کی نماز کے ص۷۳ پر لکھتے ہیں’’آنحضرت ﷺ جہری نمازوں میں بسم اللہ عموماً آہستہ پڑھتے تھے قرأت عموماً الحمد للہ رب العالمین سے شروع فرماتے ۔ اس عموماً والی بات سے معلوم ہوا کے آپ کبھی کبھی بسم اللہ اونچی بھی پڑھتے تھے، جیسا کہ مولانا مزید لکھتے ہیں: آنحضرت ﷺ کا عام معمول تو وہی تھا کہ بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے لیکن کبھی جہر بھی فرماتے اس لیے بھی درست ہے ۔ (ص۷۴)
سنی: حضرت شیخ الحدیث لوگوں کو یہی باور کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا کوئی ایک صحیح حدیث دکھا سکیں گے جس میں عموماً والی بات کا ثبوت ہو؟
غیر مقلد: مندرجہ بالا کتاب میں مصنف موصوف نے اس کا حوالہ تو نہیں دیا،لیکن وہ شیخ الحدیث تھے ان کے پاس اس کا کوئی حوالہ تو ہوگا۔
سنی: محترم ہم یہاں ہوا میں گھوڑے دوڑانے کے لئے نہیں بیٹھے، آپ دلیل کی زبان میں بات کریں ،اور زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے، آپ میرے سامنے چودھویں صدی کے حکیم سیالکوٹی صاحب کے اضافہ شدہ بریکٹ اور مولانا اسماعیل صاحب کی تحریر میں سے لفظ کبھی سے استدلال کرنے کی بجائے یہ صحیح بخاری وصحیح مسلم لیں اور اس سے اپنائی دعویٰ ثابت کریں۔
غیر مقلد: یہ عر بی والی صحیح بخاری ومسلم اپنے پاس رکھیں، میرے پاس اردو ترجمہ والے نسخے میں ابھی آپ کو دلیل نکال کر دکھاتا ہوں چونکہ ہمارے مسلک کی بنیاد ہی بخاری و مسلم پر ہوتی ہے۔۔۔(پھر منہ میں کچھ کہتے ہوئے) صحیح بخاری میں تو کچھ نہیں ملا اب صحیح مسلم میں ڈھونڈتا ہوں۔
سنی: آپ صحیح بخاری و مسلم کئی بار بار ورق گردانی کرتے ہوئے جب ایک حدیث پر پہنچے تو آپ کا رنگ فق ہو جاتا ہے اور اب جھٹ سے اس کو ہاتھ سے چھپا لیتا ہے اور سرقہ پلٹ دیتے ہیں، اس میں کیا راز ہے؟ کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے۔
غیر مقلد: آپ کو غلط فہمی ہورہی ہے ایسی کوئی بات نہیں۔
سنی: محترم یہ صحیح بخاری کے باب م یقول التکبیر اور صحیح مسلم حجۃ من لایجھر بالبسملۃ کے ذیل میں کیا لکھا ہے؟ ذرہ اوچی آواز سے پڑھیں۔
غیر مقلد: یہاں تو لکھا ہے کہ:
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول حضرت ابوبکر ؓ اور عمر ؓ
نماز الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔ (صحیح بخاری٧٤٣)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ حضرت ابوبکر ؓاور عمر ؓ وعثمان ؓ کے پیچھ نماز پڑھی اُنمیں کسی ایک سے بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں سنی۔(صحیح مسلم حدیث٨٩٠)
سنی: لیجئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا کہ پیارے پیغمبر ﷺ سے سورۃ فاتحہ سے پہلے اونچی بسم اللہ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
اب ایک طرف صحیح بخاری و مسلم ہے اور دوسری طرف آپ کا مسلک ہے،صحیح بخاری و مسلم کی طرف آؤ تو تمہارا مسلک جاتا ہے، مسلک پر قائم رہوگے تو صحیح بخاری و مسلم کے سائے شفقت سے محروم ہوتے ۔اب میں دیکھا تا ہوں کہ تم کدھر جاتے ہو؟
عجب الجھن میں ہےدرزی جو کف ٹانکا تو چاک ادھڑا
ادھر ٹانکا ادھر ادھڑا ادھر ٹانکا ادھر ادھڑا
غیر مقلد: حکیم صادق صاحب صلاۃ الرسول ص ۱۹۴ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ بسم اللہ آہستہ پڑھنے کی بھی کئی صحیح حدیثیں ہیں‘‘ اس عبارت میں ’’ بھی‘‘ کے لفظ سے پتا چلتا ہے کہ اصل دلائل تو اونچی بـسم اللہ پڑھنے کے ہیں ،البتہ آہستہ پڑھنے کے بھی کچھ ہیں اگر صحیح بخاری ومسلم میں نہیں تو دوسری حدیث کی کتابوں میں ہوں گے ان کود یکھ لیتے ہیں۔
سنی: (۱) صحیح بخاری ومسلم سے آپ اونچی بسم اللہ کا ثبوت نہیں دے سکے اب آجا کے لفظ بھی اور لفظ بھی کو بطور دلیل پیش کر رہے ہو۔
(٢ن) صحیح بخاری ومسلم میں آپ کے اس دعوے کے خلاف احادیث موجود ہیں جو ابھی آپ نے میرے کہنے پر پڑھ کر سنائیں.
(۲) آپ کے طے شدہ اصول کے مطابق آپ کو صحیح مسلم و بخاری کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے تھا۔ چونکہ آپ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ بخاری مسلم کی روایت ایک طرف ہو اور دوسری کتابوں کی روایت دوسری طرف ہوتو بخاری مسلم والی روایت پر عمل کریں گے، اس لئے کہ وہ زیادہ قوی ہے ،لیکن اب آپ انہیں خود ہی نظر انداز کر کے دوسری حدیث کی کتابوں میں دلیل ڈھونڈ نا چاہتے ہیں۔
اب اگر فیصلہ کمیٹی کی منظوری ہو تو میں آپ کو ڈھیل دیتا ہوں کہ چلیں آپ بقیہ کتابوں سے ہی کوئی صحیح حدیث مرفوع پیش کردیں جس میں بسم اللہ اونچی پڑھنے کی صراحت ہو۔
آقا ﷺ آہستہ پڑھتے تھے بسم اللہ فاتحہ سے پہلے
من گھڑت حدیث اپناتے ہیں ٹھکرا کے بخاری کی باتیں
اس کوشش کے بعد آپ کو صادق صاحب کی صداقت کا اندازہ ہو جائے گا جس کی طرف انہوں نے ’’ بھی‘‘ کے لفظ سے اشارہ کیا ہے۔ اب فرمائے حدیث کی کونسی کتاب پیش کروں؟
غیر مقلد: آپ کے پاس تو کتب حدیث کے عربی نسخے ہیں ۔ میں اردو نسخوں سے مطالعہ کرنا چاہتا ہوں، نیز اپنے علماء سے بھی استفادہ کر کے آئندہ نشست میں آپ کو جواب دوں گا ۔ آپ مجھے ایک دن کی مہلت دیں۔
فیصلہ پينل : آپ نے جن اصولوں پر دستخط کیے ہیں نام تو ان اصولوں کے مطابق فیصلہ کے پابند ہیں اور اس کے مطابق صورت حال بالکل واضح ہے کہ مدعی اپنے موقف پر سیح بخاری و مسلم کی کوئی حدیث پیش نہ کر سکا ۔ پھر بھی ہم نے مدعی کو ڈھیل دے کر ان کے طے شدہ معیار سے کم درجہ کے دلائل پیش کر نے کا موقع دیا لیکن وہ کوئی صحیح حدیث پیش نہ کر سکا، اب اگر آپ انہیں مزید ڈھیل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں تا کہ واضح ہو جائے کہ ان کے دامن کی کل پونی کیا کچھ ہے؟
غیر مقلد: آپ کا بہت شکریہ اور اجازت
سنی: اس سلسلے میں آپ کا موقف کیا ہے؟
غیر مقلد: جہری نماز میں امام کے لئے سورۃ فاتحہ سے پہلے اونچی آواز سے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے۔ دیکھیے ہمارے نواب صدیق حسن خان صاحب ؒ ’’الروضۃ الندیہ میں لکھتے ہیں کہ بسم اللہ جہری نمازوں میں جہراً اور سری نمازوں میں آہستہ پڑھی جائے گی (۱۰۱٫۱ )۔ یہی بات ان کے بیٹے نواب نور احسن خان ؒ نے ’’عرف الجادی‘‘ ( ص۳۶) پرلکھی ہے جبکہ یونس دہلوی’’ دستور المتقی ‘‘ میں لکھتے ہیں : جہری نمازوں میں پکار کر اور سری نمازوں میں آہستہ سے پڑھنا بہتر ہے (ص:۹۲) صلاۃ الرسول کا حاشیہ نگار لکھتا ہے کہ: حکیم محمد صادق و دیگر علماء حدیث کا یہ فیصلہ بالکل صحیح ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آ ہستہ اور پکار کر پڑھنا دونوں طرح جائز ہے۔ (تسہیل الوصول ص: ۱۵۸)
سنی: اب آپ اس کی دلیل پیش کریں صحیح بخاری یا صحیح مسلم سے۔
غیر مقلد: یہ دیکھنے میرے ہاتھ میں حکیم صادق سیالکوٹی کی کتاب ہے اس میں صحیح بخاری ومسلم کی تو کوئی حدیث موجود نہیں، اگر ہوتی تو وہ ضرور لکھتے البتہ مولانا ابرہیم میر سیالکوٹیؒ نے اپنی کتاب صلاۃ النبی ﷺ میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ " غرض بسم اللہ اور آمین قرأت کے تابع ہیں ، جس طرح قرأت پڑھے ویسے ہی ان كو بھی پڑھے یہ صحیح حدیثوں کا خلاصہ ہے، اس کے خلاف جو کچھ بھی ہے وہ ضعیف ہے (ص ۳۰ ) اس میں ہمارے اس موقف کو صحیح حدیثوں کا خلاصہ اور آپ حضرات کے موقف کے دلائل کو کمز ورلکھا گیا ہے۔
سنی: ذرہ وہ حدیثیں مجھے بھی دکھاد میں۔
غیر مقلد: ضرور جی ضرور لیکن اس کتاب میں صفحہ ۳۰ پر تو کوئی دلیل درج نہیں ہے البتہ ’’صلاۃ الرسول“ کے صفحہ ۱۹۴ کے حاشیہ پر اس کی دلیل موجود ہے، وہ لکھتے میں ’’نسائی اور ابن خزیمہ کی روایت بلوغ المرام میں ہے کہ نعیم مجمر نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی، پھر سورۃ فاتحہ پڑھی (یعنی جہر سے ) پس اگر جہری نماز میں کوئی امام بسم اللہ پکار کر پڑھے تو انکار نہ کر میں ‘‘
سنی: (۱) جو کچھ آپ نے پیش کیا ہے وہ ایک صحابی حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا عمل ہے۔ اور صحابی کا عمل آپ کے یہاں دلیل اور حجت نہیں پھر یہاں اس سے استدلال کیسا؟
(۲) اس روایت کے ترجمہ میں بریکٹ میں يعنی جہر سے اصل روایت میں نہیں ہے۔ حکیم سیالکوٹی صاحب کے اپنے الفاظ میں آپ اس اضافہ کو کیا عنوان دیں گے؟
(۳) آپ کے شیخ الحدیث جانباز صاحب نے لکھا ہے کہ: شیخ البانی نے سعید بن ابی بلال کی وجہ سے اس حدیث کی سند میں کلام کیا ہے مگر مجھے ان سے اتفاق نہیں بہرحال یہ حدث تو صحیح ہے لیکن اس میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا اضافہ محل نظر ہے۔ (صلاۃ المصطفی ﷺ ۱۵۹) بعینہ یہی الفاظ صلاۃ الرسول کے حاشیہ نگار عبد الرؤف صاحب نے بھی دہرائے ہیں ( القول المقبول ۳۵۵)
یہاں قابل توجہ ہے کہ شیخ البانی نے تو سعید بن ابی ہلال کی وجہ سے اس کی سند میں کلام کیا ہے لیکن سعید بن ابی بلال کی توثیق نقل کیئے بغیر یہ کہنا کہ مجھے ان سے اتفاق نہیں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ نیز جب شیخ جانباز صاحب اور عبد الرؤف صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا اضافہ محل نظر ہے تو پھر بسم اللہ اونچی پڑھنے کے استدلال اور موقف میں کیا جان باقی ہی؟
سرورق پر ہہی ہے لکھا
کہ سب احادیث ہیں صحیہ
کتاب کھولی تو میں نے دیکھا
بھری روامات میں ضعیفہ
غیر مقلد: ۔۔۔۔۔
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر تصور کریں، ایک ایسا شخص جو خوشحال زندگی کے ہر پہلو سے نوازا گیا تھا۔ والدین کی دعاؤں کے سائے، دو بیٹے جو جوان ہوکر کما...
علامہ انور شاہ کی عظمت کا نہیں جواب، حق کے علمبردار، تھے علم کے آفتاب۔ کادیانیت کے خلاف کھڑی کی دیوارِ کمال، حق و باطل کے بیچ کھینچی ایسی مث...
|
قوال حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا انسائیکلوپیڈیا ..... کتاب کا تحقیقی جائزہ (اقوال حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا انسائیکلوپیڈیا) اس کتاب ...
|
کشمیر میں اضمحلالِ علما اس عنوان کے تحت بتلایا گیا کہ علماءِ کشمیر نے فہمائش نہیں کی ان کی جو غیر متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والے تھے جیس...
|
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر تصور کریں، ایک ایسا شخص جو خوشحال زندگی کے ہر پہلو سے نوازا گیا تھا۔ والدین کی دعاؤں کے سائے، دو بیٹے جو جوان ہوکر کما...
|
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ کچھ دن قبل ساتویں جماعت کی نصابی کتاب میں ایک واقعہ منسوب کیا گیا تھا نبی برحق ﷺ سے، جس میں ایک "عجوز...
|
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی قادۃ الدنیا والآخرۃ امابعد ترقی یافتہ دَور میں جہاں ہر شئی اپنی شکل میں تغیر کرتی ہوئی نظر آرہی ہ...
|
الحمد للہ رب العالمین الصلاہ والسلام علی من لانبی بعدہ اما بعد دینِ اسلام اپنے اندر ایک وسیع معنیٰ رکھتا ہے۔اس لئے تمام مذاہب میں خالص ...
|
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوجہل کو دین اسلام کی دعوت دینا کی تحقیق۔ السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ سلسلۃ تخریج الاحادیث نمبر ١٦ اس بارے م...
|
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔ کشمیر یونی ورسٹی : اسلامک اسٹیڈیز (6th semester) کی نصابی کتاب میں درج کی گئی ایک حدیث (روایت) ، جو نظر سے...
|
اعتکاف: خلوت میں جلوت کا راز اسے کیسے گزاریں! اے اہلِ اعتکاف! خوش نصیبی کے دیپ جلا لو کہ تمہیں وہ لمحے میسر آئے ہیں، جن میں رحمتیں برستی ہیں...
|
© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں