غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو،سورة فاتحہ سے پہلے بسم اللہ...اونچی یا آہستہ؟

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٧


 سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ...اونچی یا آہستہ؟


سنی: اس سلسلے میں آپ کا موقف کیا ہے؟


غیر مقلد: جہری نماز میں امام کے لئے سورۃ فاتحہ سے پہلے اونچی آواز سے بسم اللہ پڑھنا سنت ہے۔ دیکھیے ہمارے نواب صدیق حسن خان صاحب ؒ ’’الروضۃ الندیہ میں لکھتے ہیں کہ بسم اللہ جہری نمازوں میں جہراً اور سری نمازوں میں آہستہ پڑھی جائے گی (۱۰۱٫۱ )۔ یہی بات ان کے بیٹے نواب نور احسن خان ؒ نے ’’عرف الجادی‘‘ ( ص۳۶) پرلکھی ہے جبکہ یونس دہلوی’’ دستور المتقی ‘‘ میں لکھتے ہیں : جہری نمازوں میں پکار کر اور سری نمازوں میں آہستہ سے پڑھنا بہتر ہے (ص:۹۲) صلاۃ الرسول کا حاشیہ نگار لکھتا ہے کہ: حکیم محمد صادق و دیگر علماء حدیث کا یہ فیصلہ بالکل صحیح ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آ ہستہ اور پکار کر پڑھنا دونوں طرح جائز ہے۔ (تسہیل الوصول ص: ۱۵۸)


سنی: اب آپ اس کی دلیل پیش کریں صحیح بخاری یا صحیح مسلم سے۔


غیر مقلد: یہ دیکھنے میرے ہاتھ میں حکیم صادق سیالکوٹی کی کتاب ہے اس میں صحیح بخاری ومسلم کی تو کوئی حدیث موجود نہیں، اگر ہوتی تو وہ ضرور لکھتے البتہ مولانا ابرہیم میر سیالکوٹیؒ نے اپنی کتاب صلاۃ النبی ﷺ میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ " غرض بسم اللہ اور آمین قرأت کے تابع ہیں ، جس طرح قرأت پڑھے ویسے ہی ان كو بھی پڑھے یہ صحیح حدیثوں کا خلاصہ ہے، اس کے خلاف جو کچھ بھی ہے وہ ضعیف ہے (ص ۳۰ ) اس میں ہمارے اس موقف کو صحیح حدیثوں کا خلاصہ اور آپ حضرات کے موقف کے دلائل کو کمز ورلکھا گیا ہے۔


سنی: ذرہ وہ حدیثیں مجھے بھی دکھاد میں۔


غیر مقلد: ضرور جی ضرور لیکن اس کتاب میں صفحہ ۳۰ پر تو کوئی دلیل درج نہیں ہے البتہ ’’صلاۃ الرسول“ کے صفحہ ۱۹۴ کے حاشیہ پر اس کی دلیل موجود ہے، وہ لکھتے میں ’’نسائی اور ابن خزیمہ کی روایت بلوغ المرام میں ہے کہ نعیم مجمر نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی، پھر سورۃ فاتحہ پڑھی (یعنی جہر سے ) پس اگر جہری نماز میں کوئی امام بسم اللہ پکار کر پڑھے تو انکار نہ کر میں ‘‘


سنی: (۱) جو کچھ آپ نے پیش کیا ہے وہ ایک صحابی حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا عمل ہے۔ اور صحابی کا عمل آپ کے یہاں دلیل اور حجت نہیں پھر یہاں اس سے استدلال کیسا؟


(۲) اس روایت کے ترجمہ میں بریکٹ میں يعنی جہر سے اصل روایت میں نہیں ہے۔ حکیم سیالکوٹی صاحب کے اپنے الفاظ میں آپ اس اضافہ کو کیا عنوان دیں گے؟


(۳) آپ کے شیخ الحدیث جانباز صاحب نے لکھا ہے کہ: شیخ البانی نے سعید بن ابی بلال کی وجہ سے اس حدیث کی سند میں کلام کیا ہے مگر مجھے ان سے اتفاق نہیں بہرحال یہ حدث تو صحیح ہے لیکن اس میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا اضافہ محل نظر ہے۔ (صلاۃ المصطفی ﷺ ۱۵۹) بعینہ یہی الفاظ صلاۃ الرسول کے حاشیہ نگار عبد الرؤف صاحب نے بھی دہرائے ہیں ( القول المقبول ۳۵۵)


یہاں قابل توجہ ہے کہ شیخ البانی نے تو سعید بن ابی ہلال کی وجہ سے اس کی سند میں کلام کیا ہے لیکن سعید بن ابی بلال کی توثیق نقل کیئے بغیر یہ کہنا کہ مجھے ان سے اتفاق نہیں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ نیز جب شیخ جانباز صاحب اور عبد الرؤف صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا اضافہ محل نظر ہے تو پھر بسم اللہ اونچی پڑھنے کے استدلال اور موقف میں کیا جان باقی ہی؟ 

سرورق پر ہہی ہے لکھا

کہ سب احادیث ہیں صحیہ 

کتاب کھولی تو میں نے دیکھا

بھری روامات میں ضعیفہ



غیر مقلد: ۔۔۔۔۔ 


اگلا صفحہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں