سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٨
غیر مقلد: ہمارے مایہ ناز شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ اپنی کتاب” رسول اکرم ﷺ کی نماز کے ص۷۳ پر لکھتے ہیں’’آنحضرت ﷺ جہری نمازوں میں بسم اللہ عموماً آہستہ پڑھتے تھے قرأت عموماً الحمد للہ رب العالمین سے شروع فرماتے ۔ اس عموماً والی بات سے معلوم ہوا کے آپ کبھی کبھی بسم اللہ اونچی بھی پڑھتے تھے، جیسا کہ مولانا مزید لکھتے ہیں: آنحضرت ﷺ کا عام معمول تو وہی تھا کہ بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے لیکن کبھی جہر بھی فرماتے اس لیے بھی درست ہے ۔ (ص۷۴)
سنی: حضرت شیخ الحدیث لوگوں کو یہی باور کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا کوئی ایک صحیح حدیث دکھا سکیں گے جس میں عموماً والی بات کا ثبوت ہو؟
غیر مقلد: مندرجہ بالا کتاب میں مصنف موصوف نے اس کا حوالہ تو نہیں دیا،لیکن وہ شیخ الحدیث تھے ان کے پاس اس کا کوئی حوالہ تو ہوگا۔
سنی: محترم ہم یہاں ہوا میں گھوڑے دوڑانے کے لئے نہیں بیٹھے، آپ دلیل کی زبان میں بات کریں ،اور زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے، آپ میرے سامنے چودھویں صدی کے حکیم سیالکوٹی صاحب کے اضافہ شدہ بریکٹ اور مولانا اسماعیل صاحب کی تحریر میں سے لفظ کبھی سے استدلال کرنے کی بجائے یہ صحیح بخاری وصحیح مسلم لیں اور اس سے اپنائی دعویٰ ثابت کریں۔
غیر مقلد: یہ عر بی والی صحیح بخاری ومسلم اپنے پاس رکھیں، میرے پاس اردو ترجمہ والے نسخے میں ابھی آپ کو دلیل نکال کر دکھاتا ہوں چونکہ ہمارے مسلک کی بنیاد ہی بخاری و مسلم پر ہوتی ہے۔۔۔(پھر منہ میں کچھ کہتے ہوئے) صحیح بخاری میں تو کچھ نہیں ملا اب صحیح مسلم میں ڈھونڈتا ہوں۔
سنی: آپ صحیح بخاری و مسلم کئی بار بار ورق گردانی کرتے ہوئے جب ایک حدیث پر پہنچے تو آپ کا رنگ فق ہو جاتا ہے اور اب جھٹ سے اس کو ہاتھ سے چھپا لیتا ہے اور سرقہ پلٹ دیتے ہیں، اس میں کیا راز ہے؟ کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے۔
غیر مقلد: آپ کو غلط فہمی ہورہی ہے ایسی کوئی بات نہیں۔
سنی: محترم یہ صحیح بخاری کے باب م یقول التکبیر اور صحیح مسلم حجۃ من لایجھر بالبسملۃ کے ذیل میں کیا لکھا ہے؟ ذرہ اوچی آواز سے پڑھیں۔
غیر مقلد: یہاں تو لکھا ہے کہ:
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول حضرت ابوبکر ؓ اور عمر ؓ
نماز الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔ (صحیح بخاری٧٤٣)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ حضرت ابوبکر ؓاور عمر ؓ وعثمان ؓ کے پیچھ نماز پڑھی اُنمیں کسی ایک سے بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں سنی۔(صحیح مسلم حدیث٨٩٠)
سنی: لیجئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا کہ پیارے پیغمبر ﷺ سے سورۃ فاتحہ سے پہلے اونچی بسم اللہ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
اب ایک طرف صحیح بخاری و مسلم ہے اور دوسری طرف آپ کا مسلک ہے،صحیح بخاری و مسلم کی طرف آؤ تو تمہارا مسلک جاتا ہے، مسلک پر قائم رہوگے تو صحیح بخاری و مسلم کے سائے شفقت سے محروم ہوتے ۔اب میں دیکھا تا ہوں کہ تم کدھر جاتے ہو؟
عجب الجھن میں ہےدرزی جو کف ٹانکا تو چاک ادھڑا
ادھر ٹانکا ادھر ادھڑا ادھر ٹانکا ادھر ادھڑا
غیر مقلد: حکیم صادق صاحب صلاۃ الرسول ص ۱۹۴ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ بسم اللہ آہستہ پڑھنے کی بھی کئی صحیح حدیثیں ہیں‘‘ اس عبارت میں ’’ بھی‘‘ کے لفظ سے پتا چلتا ہے کہ اصل دلائل تو اونچی بـسم اللہ پڑھنے کے ہیں ،البتہ آہستہ پڑھنے کے بھی کچھ ہیں اگر صحیح بخاری ومسلم میں نہیں تو دوسری حدیث کی کتابوں میں ہوں گے ان کود یکھ لیتے ہیں۔
سنی: (۱) صحیح بخاری ومسلم سے آپ اونچی بسم اللہ کا ثبوت نہیں دے سکے اب آجا کے لفظ بھی اور لفظ بھی کو بطور دلیل پیش کر رہے ہو۔
(٢ن) صحیح بخاری ومسلم میں آپ کے اس دعوے کے خلاف احادیث موجود ہیں جو ابھی آپ نے میرے کہنے پر پڑھ کر سنائیں.
(۲) آپ کے طے شدہ اصول کے مطابق آپ کو صحیح مسلم و بخاری کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے تھا۔ چونکہ آپ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ بخاری مسلم کی روایت ایک طرف ہو اور دوسری کتابوں کی روایت دوسری طرف ہوتو بخاری مسلم والی روایت پر عمل کریں گے، اس لئے کہ وہ زیادہ قوی ہے ،لیکن اب آپ انہیں خود ہی نظر انداز کر کے دوسری حدیث کی کتابوں میں دلیل ڈھونڈ نا چاہتے ہیں۔
اب اگر فیصلہ کمیٹی کی منظوری ہو تو میں آپ کو ڈھیل دیتا ہوں کہ چلیں آپ بقیہ کتابوں سے ہی کوئی صحیح حدیث مرفوع پیش کردیں جس میں بسم اللہ اونچی پڑھنے کی صراحت ہو۔
آقا ﷺ آہستہ پڑھتے تھے بسم اللہ فاتحہ سے پہلے
من گھڑت حدیث اپناتے ہیں ٹھکرا کے بخاری کی باتیں
اس کوشش کے بعد آپ کو صادق صاحب کی صداقت کا اندازہ ہو جائے گا جس کی طرف انہوں نے ’’ بھی‘‘ کے لفظ سے اشارہ کیا ہے۔ اب فرمائے حدیث کی کونسی کتاب پیش کروں؟
غیر مقلد: آپ کے پاس تو کتب حدیث کے عربی نسخے ہیں ۔ میں اردو نسخوں سے مطالعہ کرنا چاہتا ہوں، نیز اپنے علماء سے بھی استفادہ کر کے آئندہ نشست میں آپ کو جواب دوں گا ۔ آپ مجھے ایک دن کی مہلت دیں۔
فیصلہ پينل : آپ نے جن اصولوں پر دستخط کیے ہیں نام تو ان اصولوں کے مطابق فیصلہ کے پابند ہیں اور اس کے مطابق صورت حال بالکل واضح ہے کہ مدعی اپنے موقف پر سیح بخاری و مسلم کی کوئی حدیث پیش نہ کر سکا ۔ پھر بھی ہم نے مدعی کو ڈھیل دے کر ان کے طے شدہ معیار سے کم درجہ کے دلائل پیش کر نے کا موقع دیا لیکن وہ کوئی صحیح حدیث پیش نہ کر سکا، اب اگر آپ انہیں مزید ڈھیل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں تا کہ واضح ہو جائے کہ ان کے دامن کی کل پونی کیا کچھ ہے؟
غیر مقلد: آپ کا بہت شکریہ اور اجازت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔