غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو، مولانا سیالکوٹی اور اسماعیل نے اپنی تحریر میں لفظ بھی اور عموماً سے لوگوں غلط میں تاثر کیون دیا

0

 سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ٩


دوسری ملاقات   

السلام علیکم        وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ 

 

 سنی: کیا نئی معلومات لائے ہیں؟ 


غیر مقلد: جس روایت میں بھی آنحضور ﷺ کے بسم اللہ اونچی آواز میں پڑھنے کا تذکرہ ہے تو جب میں نے اس کی سند کی جانچ پھٹک کی تو وہ ضعیف بلکہ بہت ہی ضعیف نکلی


(۱) امام ابن تیمیہ ؒ پر ہمارے حضرات کافی اعتماد کرتے ہیں انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ : اہل علم کا اتفاق ہے کہ بسم اللہ اونچی پڑھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود ہیں اور جن میں اونچی پڑھنے کا ذکر ہے وہ موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ (مختصر فتاوی ابن تیمیہ (٤٨،٤٦)


(٢) پھر ان کے شاگرد علامہ ابن قیم ؒ کی تحقیق پر ہمارے لوگ اعتماد کرتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ صحیح احادیث میں بسم اللہ اونچی پڑھنے کا ذکر نہیں اور جن میں اونچا پڑھنے کا ذکر ہے وہ صحیح نہیں ۔(زادالمعاد ٢٠٧/١)


(۳) حتی کہ ہمارے فرقے کے کرتا دھرتا نواب صدیق حسن خان صاحب ؒ نے بھی اعتراف کرلیا کہ نماز کو الحمد للہ سے شروع کرنا اور بسم اللہ کو اونچی نہ پڑھنا ہی آنحضرت سے صحیح طور پر ثابت ہے (مسک الختام ٣٧٩/١)

(۴) نیز ہمارے شیخ الحدیث مولانا جانباز صاحب نے لکھا ہے کہ بسم اللہ جہر سے پڑھنے کے بارے میں بعض ضعیف اور متعدد سخت ضعیف اور من گھڑت قسم کی روایات سنن دارقطنی وغیرہ میں موجود ہیں ۔(صلاۃ المصطفی ؐ (ص ۱۵۹ نیز القول المقبول ۳۵۵)


(۵) ہمارے سندھو صاحب القول المقبول صفحہ ۳۵۳ پر لکھتے ہیں: ” راحج اور قوی مذہب کے مطابق بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سراً ہی پڑھنا چاہیے“۔

مجھے تعجب اور حیرت ہے کہ ایسی صورتحال میں ہمارے مولانا سیالکوٹی صاحب نے اپنی تحریر میں لفظ ’’بھی‘‘ اور شیخ الحدیث مولانا اسماعیل صاحب نے اپنی تحریر میں ’’عموماً ‘‘ کا لفظ لکھ کر اپنے مسلک کے لوگوں کو غلط تاثر کیوں دیا ؟ ہاں البتہ ہمارے مولانا سیالکوٹی صاحب نے اس بحث میں بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ ”پس اگر جہری نمازوں میں کوئی امام بسم اللہ پکار کر پڑھے تو انکار نہ کر میں اور نہ ہی اس چیز کو بحث کا موضوع بنائیں‘‘ ( صلاۃ الرسول ص۱۹۴)


نیز شیخ الحدیث مولانا جانباز صاحب لکھتے ہیں: بسم اللہ آہستہ یا بلند دونوں طرح جائز ہے پڑھنے والے کو اختیار ہے خواہ آہستہ پڑھے خواہ جہر سے ۔ (صلاۃ المصطفی ص ۱۵۵)


ہمارے فتاوی اہل حدیث ۱۳٨/۲ پر بھی ہے کہ بسم اللہ دونوں طرح درست ہے خواہ سرّی پڑھے یا جہری۔


مولانا اسماعیل سلفی لکھتے ہیں: آنحضرت ﷺ کا عام معمول تو وہی ہے کہ بسم اللہ آہستہ پڑھتے تھے لیکن کبھی جہر بھی فرماتے ۔(رسول اکرم ﷺ کی نماز ۷۴ )


مولانا عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں : نماز میں بسم اللہ پکار کر نہ پڑھے شافعی پکار کر پڑھتے ہیں اہل حدیث کا دونوں پرمل ہے کیونکہ دونوں طرف احادیث ہیں ۔ ( امتیازی مسائل ۷۶)


لہذا میرے پیارے دوست ہمیں ان فروعی اختلافات میں الجھنا نہیں چاہیے، آپ اپنی جگہ صحیح ہم اپنی جگہ صحیح ۔


 سنی: بڑے ہوشیار بنتے ہو! جب دیکھا کہ صحیح بخاری ومسلم سے تمہارا دعویٰ ثابت نہ ہوسکا بلکہ تم کوئی بھی صحیح وصریح اور مرفوع حدیث پیش کرنے سے عاجز آ گئے تو تمہارا فرض تھا کہ صحیح بخاری ومسلم کی حدیث کے مطابق نظریہ کوقبول کرو۔


 تعصب کو بالائے طاق رکھ کر اپنے گروہی نظریہ سے برأت کا اعلان کرو اور بسم اللہ آہستہ پڑھو اور تسلیم کرلو کہ نماز کی جن اردو کتابوں کو پڑھ کر اور پنجابی واعظوں کی تقریر میں سنکر تم اچھلتے کودتے ہو ان مصنفوں اور واعظوں نے اپنے مسلک کے لوگوں کو حقیقت واقعہ سے اوجھل رکھا ہے، لیکن دلائل سے عاجز آنے کے بعد تم صلح پسند بن گئے ہو اور پھر بھی اصرار کر تے ہو کہ بلا دلیل ہی تمہارا موقف بھی میچ ہو جائے۔


جو چاہیں حدیث صحیح چھوڑ جائیں

ضعیف اور موضوع گلے سے لگائیں




 اگر تم واقعی صلح پسند ہوتے تو تم اور تمہارے جیسے لوگ اہل سنت کو اختلافی مسائل میں نہ الجھاتے اور خود حکیم سالکوٹی صاحب اور ان جیسے دوسرے مصنفین اور۔۔۔


اگلا صفحہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں