سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ١٠
اگر تم واقعی صلح پسند ہوتے تو تم اور تمہارے جیسے لوگ اہل سنت کو اختلافی مسائل میں نہ الجھاتے اور خود حکیم سالکوٹی صاحب اور ان جیسے دوسرے مصنفین اور حاشیہ نگار اپنی کتابیں لکھ کر فروعی اختلافی مسائل کو نہ اچھالتے ۔ اور یہ آخر میں تم نے بسم اللہ اونچی اور آہستہ پڑھنے کی بابت اپنے علما کا موقف ذکر کیا ہے تو اس موقعہ پر مولانا سیالکوٹی کی صلاۃ الرسول کے دو حاشیہ نگاروں کا تبصرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا:
خـانہ جنگی : صلاۃ الرسول ؐ “ کا ایک حاشیہ نگار تسہیل الوصول میں لکھتا ہے کہ حکیم محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ و دیگر علما سے حدیث کا یہ فیصلہ بالکل صحیح ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم آ ہستہ اور پکار کر پڑھنا دونوں طرح جائز ہے (ص:۱۵۸) جبکہ صلاۃ الرسول کا دوسرا حاشیہ نگار القول المقبول میں لکھتا ہے:
” علامہ صنعانی ؒ کا کہنا کہ آپ بھی جہراً پڑھتے اور کبھی سراً ‘‘ مگر ان کے اس دعوے پر کوئی صریح صحیح دلیل نہیں غالباً انہوں نے مختلف روایات کو جمع کرنے کی خاطر یہ کہا، جبکہ بسم اللہ جہراً پڑھنے کے بارے میں کوئی صحیح صریح دلیل نہیں‘‘۔ (ص:٣٥٦)
ایک ہی کتاب اور ایک ہی مسلک کے دو حاشیہ نگار جو پندرھویں صدی میں بقید حیات میں انہوں نے اپنے مقلدین و قارئین کو نماز کی بسم اللہ ہی میں الجھا دیا تو نماز کے بقیہ مسائل میں وہ ان کی کیا رہنمائی کر میں گئے؟ دونوں میں سے کون سی ہے اور کون غلط؟
رہ حیات میں جو بھٹک رہے ہیں ہنوز
بزعمِ خویش وہ اٹھے میں رہبری کیلئے
اور غیر مقلدین کے مقلد عوام تو بے بس و بے کس میں ان پر تو ہمیں ترس آتا ہے۔
ع الہی یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں؟
میں موقّر فیصلہ کمیٹی سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مسئلہ میں اپنا فیصلہ صادر فرمائیں۔
کمیٹی کا فیصلہ
گذشتہ گفتگو کو سن کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اہل حدیث مدّعی باجماعت جہری نماز میں امام کے اونچی بسم اللہ پڑھنے پر صیح بخاری و مسلم سے کوئی دلیل پیش نہیں کر سکا، بلکہ وہاں اس کے موقف کے خلاف دلیلیں موجود ہیں حتی کہ مدّ مقابل نے اسے سہولت دی کہ حدیث کی کسی بھی کتاب سے صحیح حدیث پیش کر دے لیکن وہ پیش نہ کر سکا۔
(۱) مدّعی نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کیا، جبکہ اپنے ہی طے شدہ اصول کے مطابق وہ صحابہ کے قول و عمل کو دلیل نہیں مانتا پھر یہ دلیل پیش کرنا کیسا؟
(۲) حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی عربی روایت کو دیکھ کر واضح ہو گیا کہ اس کے ترجمہ میں’’یعنی جہر سے‘‘ کے الفاظ اصل روایت میں نہیں۔
مدّعی کو خود بھی اعتراف ہے کہ اونچی بسم اللہ پڑھنے کی تمام روایات ضعیف اور من گھڑت ہیں۔
آخر میں مدّعی نے بسم اللہ اونچی اور آہستہ دونوں طرح پڑھنے کو درست کہہ کر اختلاف میں نہ پڑنے کی تلقین کی ہے تو یہ اس کی شاطرانہ چال ہے ۔ اگر یہ واقعی اتنے ہی روادار ہوتے تو امت کو فروعی مسائل میں الجھا کر کمزور و پریشان نہ کرتے ۔
نیز صلاۃ الرسول کے دو حاشیہ نگاروں کی خانہ جنگی نے اس چال کو بھی کمزور ومشکوک بنا دیا۔ نیز جہاں مدّعی کا موقف کمزور ہو وہاں و وه اتفاق و اتحاد کا داؤ استعمال کرتا ہے ۔
لہذا ہم اتفاق رائے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ مدّعی اپنے موقف کو ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔
سنی: شکریہ، میں موقر فیصلہ کمیٹی کی اجازت سے ایک دلچسپ بات پیش کرنا چاہوں گا۔
بسم اللہ اونچی پڑھنے کی بابت مدّعی کے دلائل کی کیا حیثیت ہے؟ وہ گذشتہ صفحات میں سامنے آ گئی۔ اس کے باوجود غیر مقلد مصنف کس جرات سے اپنے دلائل کی حقیقت چھپا کر عام لوگوں پر جعلی رعب جماتے ہیں اس کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:
مشہور غیر مقلد مولا نا عبداللہ روپڑی اپنی کتاب ’’امتیازی مسائل‘‘ کے ص ۳۶ پر مولانا تھانوی ؒ پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” کم سے کم جو جہر کی حدیث ہے اس کو رد کرنا چاہئے تھا لیکن مولوی اشرف علی نے ایسا نہیں کیا بلکہ صرف نہ پکار کر پڑھنے کی حدیث ذکر کر کے چلتے ہے۔ باقی اللہ اللہ خیر صلّا ، خیر ہم بھی اس کو نہیں چھوڑ کر ساتواں مسئلہ لکھتے ہیں ۔
غیر مقلد: ابھی تو آغاز ہے آگے چل کر جب ہمارے مشہور زمانہ مسائل شروع ہونگے تو دلائل کا پتہ چلے گا۔
سنی: جو لوگ اپنی نماز کی بسم اللہ ہی صحیح دلیل سے ثابت نہ کر سکے وہ آگے چل کر کیا کریں گے؟
فیصلہ کمیٹی اس گفتگو کو روک کر اگلے مسئلے پر گفتگو شروع کی جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔