الحمد لله رب العالمين و الصلاة والسلام على النبي الذي أعد الصحابة ليكونوا نوراً يهتدي به الأمة.
کچھ ایام سے دو چراغوں کی روشنی کے باوجود اختلاف سے خالی راہ نمایاں نہیں ہو رہی اور دونوں حلقوں میں معاملات تذبذب کا شکار ہیں -اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کی محرم الحرام میں وہ کمیونٹی جو اپنے آپ کو دنیاوی سزا دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ وہ صحابہ اکرام کی شب و روز گستاخیاں کرنے کی وجہ سے خود کو اخروی سزا کے مستحق بناتے ہیں۔
یہ اپنی بد عقیدگی اور جہل کی وجہ سے کیا کرتے ہیں! اس کی مخالفت کرنا حرف دوم ہے ۔ مگر ان کو الزامی جواب دینا اور ان کے خلاف مقدمات اور اقدامات کرنا نہ صرف ہمارا عقیدہ ہے بلکہ ذمہ داری بھی ہے۔
ان سے اختلاف نہیں بلکہ ان کی کھلی مخالفت کی جانی چاہیے وہ اپنی خصوصیات سے باطل ہیں اور باطل سے اختلاف نہیں مخالفت کی جاتی ہے۔
مگر یہ رویہ اختیار نہ کرنے کے باوجود سکونِ ماحول کے لیے موافقت کا نعرہ بلند کرنا کسی بھی حال میں صحیح نہیں ہے۔
ان کے اجلاس میں جا کر صحابہ اکرام کی شان کے بارے گستاخیاں نہیں ہونی چاہیے اور اس پر اول وہلہ زور دینا یہ بھی شیر کا جگرا رکھنے والے ہی کرتے ہیں۔
مگر ایک سوال خالی الجواب ہے ان سے وجہ مخالفت میں بڑا سبب کہ یہ تبرہ کرتے ہیں صحابہ پر اب یہ فطرت پر آ کے صحابہ پر زبان درازی کرنا ( اور ان سےغلط اور غیر مستند چیزیں منسوب کرنا بھی ) بند کریں تو ان سے اس مسئلے میں اتحاد ہو سکتا ہے یا ہمیں صحابہ کے معاملے میں کمپرومائز کر کے ان کی مشابہ ہونا ہوگا۔ اور یہ تخریجِ اہل السنہ والجماعہ کے عقیدے کے مترادف ہے۔
رہا پہلا تو تابعین کے زمانے سے آج تک انہوں نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا گویا کہ ان میں اتحاد محال ہے۔ اب وہ کہ جو خیال آپ کے من میں کہ پھر ان کو ساتھ لے کے کیوں چلتے ہیں تو یاد رکھیں جو حد سے تجاوز کرتے ہیں ان میں، ہم ان کو ساتھ نہیں لے کے چلتے ہیں تکفیر کرتے ہیں۔ اور جو غالی نہیں ہے ان سے تو ہم روایات لیتے ہیں۔
اگر اتحاد کی بات کی جا سکتی ہے تو وہ انہی غیر تکفیر شدوں سے ہو سکتی ہے۔ مگر یہ صفت حال کے گرم ماحول میں معدوم تھیں۔ تو تجمیع بخاطر اتحاد اپنے عقیدے کو ڈھیلا کرنے کے مرادف ہیں۔ *محافظوں کا نعرہ حد سے تجاوز بھی نہ کرنے دیں گے نہ گرنے دیں گے* تو ایسی صورت حال میں اتحاد وہ بھی محرم الحرام میں ہی کیوں اور کیسے کیا جا سکتا ہے!
ابھی مسئلہ دو شخصیات کا نہیں ہے بلکہ دو نظریات کا ہے۔ اس لیے نظریے پر کام کیا جائے کیونکہ جب نظریہ اضعف ہو جائے تو بالکل چھلکا اترنے کے بعد مغز دِکھ جاتا ہے۔
اور اب رہا امیر صاحب کا مسئلہ تو وہ اپنی وسعتِ لیاقت یا فہم و فراست کی حدود میں حق ادا کر چکے ہیں (اگرچہ حق ہے کہ حق ادا نہ ہوا ) اب پلنگ افگن کو میدان میں حق ادا کرنا ہے کہ حلقوں میں فہمائش کریں کہ سیاہ شیعی کس سفید چلمن کے دبر میں رہتا ہے۔
باہم نہ کریں گفتگو ہو باطل سے جستجو
ہے یہ مسئلہ گومگو نہ بنیں جنگجو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔