کتب کی بھرمار سے ہو پریشان
آسمان چھوتی قیمت سے ہو پشیمان
سکول ایڈمیشن کے ایام میں اکثر تنقید کی جاتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، کیونکہ تنقید وہ شے ہے جو انسان کو پاک اور محفوظ کرتی ہے۔ سب سے زیادہ محفوظ اور پاک جس چیز کو ہونا چاہیے، وہ ہمارا تعلیمی نظام ہے۔ آج ہمیں جس تنقید پر بات کرنی ہے، وہ ہے چھوٹے بچوں کے لیے 3200 روپے کی کتابیں۔
اولا: موادِ کتاب وہ سرمایہ ہے جس کی قیمت لگانا مشکل ہے بلکہ اس کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ ایک طالب علم جب یک سالہ استعمال ہونے والی کتب خریدتا ہے تو وہ صرف اسی سال ان کا استعمال کرتا ہے، جو صحیح طریقہ نہیں۔ وہ چاہے تو ان کتابوں کو اپنی ذاتی لائبریری میں رکھ سکتا ہے اور بعد میں بھی ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جیسے کہ ایس ایس سی وغیرہ کے امتحانات کے لیے ہمیں چھٹی جماعت سے سلیبس دوبارہ پڑھنا پڑتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کتاب خریدنا رائگاں یا اکارت نہیں ہوتا۔
دوسری بات: کتابوں کی بھرمار سے نہ تو شاگردوں کو اور نہ ہی ان کے والدین کو پریشان ہونا چاہیے۔ البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کتاب کی قیمت زیادہ تو نہیں رکھی گئی۔
ہم جانتے ہیں کہ کتاب کی اصل قیمت اس کے مواد کی ہوتی ہے، جو درحقیقت بےمول ہے۔ جو قیمت لگتی ہے وہ اس مواد کو شاگرد تک پہنچانے کے اخراجات (مثلاً کاغذ، چھپائی، اور ڈیزائننگ وغیرہ) کی ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں کی کتابوں میں رنگین تصاویر اور مزین انداز زیادہ ہوتا ہے، جو بچوں کو پڑھنے اور سیکھنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، مگر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
کتاب کی قیمت کم کرنے کے طریقے:
1. پبلشرز کو چاہیے کہ وہ مناسب منافع پر اکتفا کریں اور قومی خدمت کے جذبے سے، اللہ کی خوشنودی کے لیے، کتابوں کی قیمت کم کریں۔
2. سکول کو چاہیے کہ کتابوں پر اپنا منافع نہ رکھیں۔ اگر مکتب یا پبلشر سے کتب ایک ہی بار خریدی جائیں تو قیمت کم ہو سکتی ہے۔
3. ہر سکول کو اپنا پبلشنگ پوائنٹ قائم کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف کتابوں کی قیمت کم ہوگی بلکہ شاگردوں کو بہتر سہولیات مل سکیں گی۔
4. حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں موثر کاروائی کرے اور کنٹرول برقرار رکھے۔
5. اللہ کا خوف رکھنے والی قیادت اور تجارت ضروری ہے۔ اگر زیادہ قیمتیں ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دلوں سے اللہ کا خوف اٹھ چکا ہے۔ اس لیے قوم کے افراد کو ایسی تجارت میں حصہ لینے کی ترغیب دی جانی چاہیے جو عوامی خدمت کے جذبے پر مبنی ہو۔
نتیجہ: تنقید ایک آئینہ ہے جو انسان کو صاف کرتا ہے۔ اگر اوپر بیان کردہ تجاویز پر عمل کیا جائے تو نہ صرف کتابوں کی قیمت میں کمی ممکن ہے بلکہ مواد کا معیار بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال ہمیں علمائے اسلام کی کتب سے ملتی ہے، جن کا مواد تحقیقی اور جدید ہوتا ہے، مگر قیمت بہت کم رکھی جاتی ہے، کیونکہ ان کا مقصد منافع نہیں بلکہ علم کی اشاعت ہوتا ہے۔ اسلام ہی واحد حل ہے۔
ماجد کشمیری
24 Dec 2024
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔