کشمیر میں اتداد اسباب و تدارک

0

کشمیر میں ارتداد: اسباب، اثرات اور تدارک


کشمیر، جو ایک غالب مسلم معاشرہ ہے، بدقسمتی سے ارتداد کے فتنہ سے دوچار ہو رہا ہے۔ ارتداد کی خبریں وقفے وقفے سے سامنے آتی ہیں، جس کی وجہ سے ہم اس مسئلے کی حساسیت اور سنگینی کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اگرچہ ارتداد کے کچھ اسباب بالکل واضح ہیں، لیکن ہم ان کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے میں غفلت کا شکار ہیں۔ ہم ان اسباب کا جائزہ لیں گے اور ان کے سدباب کے لیے عملی تجاویز پیش کریں گے۔

ارتداد کے اسباب اور ان کی نشاندہی

کشمیر میں ارتداد کے بڑھتے ہوئے رجحان کی کئی وجوہات ہیں۔ ایم وجوہ یہ ہیں ۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی بے راہ روی، نامناسب تعلیم، اور دینی شعور کی اضمحلالی ، ان عوامل میں شامل ہیں جو ارتداد کا باعث بن رہے ہیں.


ہندوستانی مسلم معاشروں کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت

ہندوستان کے ان علاقوں میں جہاں مسلم آبادی اکثریت میں ہے، جب ارتداد کا فتنہ پھیلنے لگا تو وہاں کے علماء کرام نے فوری اقدامات کیے۔ ان علماؤں نے والدین کو سمجھایا اور انہیں مکاتب میں بچوں سمیت بٹھایا تاکہ انہیں دین کی بنیادی تعلیم دی جا سکے اور ان سوالات کے جوابات فراہم کیے جا سکیں جو انہیں تعلیم گاہوں میں اٹھائے گئے تھے۔

ہندوستان کے برعکس، کشمیر میں تعلیمی نظام نسبتاً مضبوط ہے، مگر یہاں کے نوجوان جاب کے پیچھے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس، ہندوستان میں تعلیم کی کمی کے باوجود ، وہاں کا نصاب نہ صرف غیر شعوری طور پر اسلام کی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے بلکہ یہ ایک منظم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں چونکہ نسبتا مضبوط ہے تو اپ اندازہ لگائیں یہاں پر کس طرح ماثر بنتا ہوگا ، خیر ہندوستانی علماؤں نے اس کا تدارک دینی تعلیم کے ذریعے کیا، جس کا بہترین ذریعہ مکاتب ہیں۔


مکاتب کی اہمیت اور ہمارے معاشرے میں ان کی کمی


 ہمارے معاشرے میں مکاتب کو بون میرو کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، ہمارے مکاتب میں تربیت کی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔ ہندوستان کے مقابلے میں ہمارے مکاتب میں تعلیمی سرگرمیاں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کو ناظرہ پڑھا کر چھوڑ دیا جاتا ہے، جو کہ شعور پیدا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

اصلاح کی ضرورت 

 اس بات کی ہے کہ ہمارے مکاتب میں موثر نصاب متعارف کرایا جائے تاکہ بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت ممکن ہو سکے۔ اس کے لیے ہمیں ہندوستانی مسلم معاشرے کی طرح عملی اقدامات کرنے ہوں گے، جہاں مکاتب نے معاشرتی بگاڑ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کو وہ کتابیں پڑھائی جائے جن کی وجہ سے معاشرے کے سازشوں سے نہ صرف بچے بلکہ ان کا جواب بھی دے سکے ایسے افراد جب مکاتب میں پیدا ہونے لگیں گے ارتداد کا عکس ہونے لگے گا ان شاءاللہ تعالی۔


خلاصہ: کشمیر میں ارتداد کا فوری حل ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس مسئلے کے اسباب کی نشاندہی کریں اور ان کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کریں۔ مکاتب کے نظام کو بہتر بنانا اس جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہو سکتا ہے، تاکہ ہم اپنے بچوں کو دین سے جوڑ سکیں اور معاشرے کو اس فتنے سے محفوظ رکھ سکیں۔


موخری شادی اور ارتداد: ایک خطرناک ربط


    ارتداد کی دوسری وجہ کہ ایک نیا رواج بن چکا ہے، اس نے معاشرے کے خواص کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ موخری شادی نے ارتداد کے پھیلاؤ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب نفسانی خواہشات بے قابو ہو جاتی ہیں، تو لوگ حرام تعلقات میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ جب یہ تعلقات اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں، تو اسے حلال بنانے کے لیے شادی کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس شادی کی راہ میں مذہب رکاوٹ بن جائے، تو تبديل مذہب پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بظاہر یہ ایک "محبت" کا معاملہ دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے ایک گہری سازش چھپی ہوتی ہے۔ یہ سازش صرف عارضی خوشیوں کا وعدہ کرتی ہے، جبکہ حقیقت میں یہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں پہلا قدم محبت، دوسرا تبديل مذہب، اور پھر دنیاوی و ابدی کی طویل داستان ہے۔

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم حقیقی محبت کی تلاش میں حلال اور دینی راستے اختیار کریں۔ شادی کو موخر کرنے کے بجائے، جلد از جلد مناسب رشتہ تلاش کرے اور اسے نیک بنائیں جو ہمیں اللہ کے ساتھ جوڑنے میں مددگار ہو۔ اس کے لیے ہمیں اپنے کنویں کو تبدیل کرنا ہوگا، یعنی اپنی محبت کی جستجو کو دین کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔


اگر ہم دین کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور اپنے نکاح کو جلد مکمل کریں، تو ہمیں محبت اور راحت حاصل ہوگی۔ جب کہ اگر ہم غیر اسلامی راستوں پر چلیں گے، تو وقتی لذت کے بعد صرف تکلیفیں ہی ہمارا مقدر بنیں گی۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اس کنویں کے پانی کو ترک کر دیں جو بظاہر میٹھا لگتا ہے مگر حقیقت میں زہر ہے۔ اس کے بجائے، وہ راستہ اختیار کریں جو ہمیں دین کے ساتھ جوڑے رکھے اور ابدی خوشیوں کی ضمانت بنے۔


خلاصہ: موخری شادی اور حرام تعلقات کا مسئلہ ایک سنگین چیلنج ہے، جس کا حل بروقت نکاح میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں خود بھی اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا اور دوسروں کو بھی اس بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم اس فتنے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔

غیر محارم کے ساتھ تعلیم اور تربیت کا فقدان: ایک سنگین مسئلہ


ارتداد کی تیسری بڑی وجہ: محارم کے بغیر تعلیم حاصل کرنے اور تربیت کے فقدان کے ساتھ تعلیم کے لیے بچوں کو اپنے سے دور بھیجنا ہے۔ جب بچوں کو تعلیمی اداروں یا ہاسٹلز میں محارم کے بغیر بھیجا جاتا ہے، تو وہ مختلف لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کا ذہن چونکہ ابھی کچا اور ناتجربہ کار ہوتا ہے، جب ایک ایسے ماحول میں جاتے ہیں جہاں انہیں طرح طرح کے لوگ ملتے ہیں۔ ان لوگوں میں کچھ ان کے ہم عمر ہوتے ہیں، اور کچھ بالکل مختلف افکار و نظریات کے حامل ہوتے ہیں۔

 ایسی صورت حال میں، جب بچوں کے پاس کوئی دینی یا اخلاقی تربیت نہیں ہوتی، تو وہ بآسانی گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے ناتجربہ کار ذہن کو ورغلانا آسان ہوتا ہے، اور یوں وہ ارتداد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض اوقات ان بچوں کے ساتھ سازشیں بھی کی جاتی ہیں، جن کا مقصد انہیں دین سے دور کرنا ہوتا ہے۔

ہم نے صرف اشارات کیے ہیں جو قادریں انہیں مناسب سمجھیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور جتنا ہو سکے فہمائش کرتے رہیں۔ معاشرہ عوام سے بنتا ہے اس لیے اس کی اصلاح میں عام و خاص کی حاجت ہوتی ہیں۔

تجزیہ و تبصرہ ماجد کشمیری

  


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں