تجارت میں حلال و حرام کی تمیز نہ کر پانے کی وجوہات۔

0

تجارت میں حلال و حرام کی تمیز نہ کر پانے کی وجوہات۔

تجارت میں حلال و حرام کی تمیز نہ کر پانے کی وجوہات۔


شقاوتًا یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ تجارت میں دور حاضر و زمانۂ قریب کے مسلمان کسی اچھی پوزیشن پر نہیں ہیں۔ ہمارے لاشعوری حصے میں یہ بات مسلط کی گئی ہے کہ شعبہ جات کی فلاحی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، غیروں کے ہی شعبہ جات کو ترقی کے عرش پر پہنچانا ہے، جس کے عوض وہ ہمیں گھٹلی دیں گے اور خود آم کھائیں گئے۔


‎معروف رصافی نے کیا ہی گہری بات کی ہے۔


ناموا ولا تستيقظوا، ما فاز إلاّ النُوَّم ۔ خوابِ علفت میں ہی رہوں! جاگنا مت!، کامیابی کا راز یہی ہے


‎غلامی بھلا کیوں کر مسلمان کی طبعیت میں رکھی گئی ہوگئی؟ آپ اس گھٹلی کو لے کر اپنا شعبہ تو قائم کر سکتے ہی ہیں۔ نیز رزاق تعالی نے ہمیں زمین کا وارث تو بنایا ہی ہے، جس طرح دنیاوی مفلحین کو بنایا ہے ۔ جب وہ بزنس کر سکتے ہیں تو جن مسلمانوں کو ان کے دین نے تجارت کی ترغیب دی ہے اور قواعدِ تجارت اور اس کے ذرائع سے بھی آگاہ کیا گیا ہے، جس سے وہ کامیاب ہو جائیں۔ وہ بھلا کاروبار سے کس دلیل سےبھاگتے ہیں۔


مجھے اس کی افادیت پر کلام نہیں لکھنا ہے، کیوں کہ مخاطبین اس کے منفعت بخش ہونے کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ میران کی فہارس میں انٹرپرنروں (تاجروں ) کو دیکھتے ہیں۔ مگر خود اس غریبی مکت اور نبوی کام کو کرنے سےکتراتے ہیں۔ اس کی بہت وجوہات ہوتی ہیں؛ کچھ کا ذکر کرکے جانبِ مقصود لب کشائی کرتا ہوں ۔ سب سے بڑی رکاوٹ جو بن جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہاتھ میں انویسٹمنٹ (سرمایہ) نہیں ہوتا ہے۔ سرمایہ رقمِ غفیر کا نام نہیں ہے۔ بل کہ یہ وہ رقم ہے جو اپ کو دلاسا دیتی ہے۔ اس لیے آپ دیکھتے ہوں گیے کہ لون ( جو خود کی رقم نہیں ہوتی، بس بہانے) سے کاروبار شروع ہوتا ہے۔


 ہمیں کون رقم دے گا؟ جب آپ کا کردار و عزم اور پریزنٹیشن ایسی نہ ہو کہ آپ پر کوئی ساہوکار (قرض دہندہ ) بھروسا کرنے سے قبل سوچیں، تو پہلے خود کو تیار کریں ۔


‎ان قرض دہندگان یا سرمایہ کاروں سے رابطے کریں، جو آپ کے ساتھ منافعے میں شریک ہو کر آپ کو رقم و تجربہ دیں۔ اور باقی جو آج کل رائج طریقے ہیں، جیسے سرمایہ کسی کا اور محنت کسی اور کی، اور منفعت مقدارًا تقسیم وغیرہ ۔


 یہ سب تدبیرات تب کام آ سکتی ہے، جب آپ کے اندر کی غلامیت دم توڑ چکی ہو اور عزم آوری اور پلان اچھا اور تجربہ کاروں کے مشوروں کے ساتھ چلانے کی ایسی وسعت و ہمت جو خالی از کبر و نخوت ہوں۔


‎اب اس کی جانب مراجعت کرتے ہیں، جو مقصود ہے اعنی تجارت میں حلال و حرام کی تمیز کیوں نہیں رکھی جار رہی ہے؟ اس کی مضبوط اور پہلی وجہ تو یہ ہےکہ جو بزنس مین ہمارا رول ماڈل ہے یعنی جاگیردار ، ان کے ناقص و حرام کاروباری اصول میں حلت و حرمت کا کوئی باب ہے ہی نہیں، اور ہم انہی کی تقلید کرتے ہیں، جس کے باعث ہماری طبیعت بھی مادی، خود غرض بن چکی ہے، یعنی جو تقاضاءِ تجارت کے منافی ہے اور یہی سوءِ فہم گھر کر چکی کہ جاگیرداری کے ورے دھندا نہیں چل سکتا ہے، نہ فائدہ ہے۔ جب کہ حقیقی و صحیح کاروبار کی شرط اول ہے، اپنے اور دوسروں کی ادائیگی کا پورا صلہ دیا جائے۔ اور یہی ہے وہ جس کو برانڈنگ کہا جاتا ہے، یعنی جہاں خرچ ہونے والی رقم ضائع و فضول نہ لگے۔


دوسری وجہ : اس کی طرف ، ہمیں متنبہ کرنے والے بہت کم بل کہ کمترین دھیان دیتے ہیں۔ اپنی عمر میں نے بابِ اقتصادیات کے تبیان میں مسائل زکات کے ورے کچھ نہیں پایا ہے۔ جب کہ پیت کو سیراب کرنے والی چیزوں کا حرامی ہونا، بہیمیت کو تقویت اور ملکیت کو کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ہے اور یہی بہیمیت ہمیں باقی اعمال صالحہ کو نہ کرنے اور اعمال طالحہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ لہذا، اولین ترجیح والی ابواب میں، اس کو بھی شمار کرنا چاہیے۔ اللہ توفیق دے۔


تیسرا سبب مع حل: جیسے اسٹارٹ اپ پلان کو تشکیل دیا جاتا ہے اور اس میں کاروباری تصور، مارکیٹ کا تجزیہ، عملی منصوبہ اور مالی منصوبہ و تخمینہ ضروری ہے۔ بعینہ قوانین شریعہ کو پلان کا سرتاج بنانا چاہیں، یعنی اس کی حدود میں انتخابِ راہِ رزق اعنی حلال انڈسٹری کو منتخب کر کے قانون عمر ؓ کا پالن کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے، یعنی بیع اور ربا میں تفریق کا مبادی علم ہونا چاہیے اور وقتًا فوقتًا اور خصوصًا مشکوک صورت پر متنبہ کرنے والے کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ فلاح دارین مل جائیں ، جو مقصودِ ازلی ہے۔


 چوتھی بمعیت حل کے: ہمیں نہیں ملتا راسخ العمل نمونے جن کی ہم اقتدا کرتے مگر قلیل، رفعِ ھذا کے لیے شائقین علما کو اپنے اقتصادی علوم کے داعیہ کے موافق تجارت کرنی چاہی تاکہ وہ نمونہ شرعی قرار پائیں۔


آخری مگر لازمی : مادیت دلوں میں سیرات نہ کر پائے، یہ قوی وجہ ہے کہ جب یہ اندر گھس جائیں تو ہمیں مجبور کر دیتی ہے یہ کہنے پر: بیع مثلِ ربا ہے یعنی حلال و حرام تو یکساں ہے، اس میں کچھ فرق نہیں، اور ہر جگہ یہی ہوا ہے، زبان اضطرارًا ایسے تاویلی جملے کہنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔


خلاصۂ کلام : تجارت کو فروغ محراب و ممبروں سے دیا جائے، معیشت و اقتصادیت کے بابوں کی تشریح و توضیح بھی اپنی شرعی ذمہ داری سمجھیں جیسے کہ یہ ہے۔ اور جس طرح ہر سال صلات و صوم کی ترغیب اور فضائل بیان کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ طبیعت بن جائے بعنیہ تجارت کے اصول بھی دہرائیں تاکہ وہ فطرت بن جائے اور عمل کرنا تن آسان ہو جائیں ۔


نیز ، عوام کو اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اپنی عقلی اصولوں کے بجائے شرعی اصولوں کی پابندی کرنی چاہیے۔ واللہ اعلم۔


 نہیں قدرت ہے ہمیں اس پر، گر وہ دلوں کو پھیرنے والا اس مقناطیسی میلان سے متنفر نہ کر دے، ہم طالبِ رحمت و رزق و توفیق ہے ۔ رب العالمین ہمیں نوازے، آمین۔


ماجد کشمیری

٢١ شوال المکرم ١٤٢٥

پی ڈی ایف حاصل کریں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں