ترمذی شریف کی روایت بتحقیق حضرت علامہ سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ۔
حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث حدثنا عمر بن إبراهيم عن قتادة عن الحسن عن سمرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لما حملت حواء طاف بها إبليس وكان لا يعيش لها ولد، فقال سميه عبد الحارث، فسمته عبد الحارث، فعاش ذلك، وكان ذلك من وحي الشيطان وأمره.
ترندی (۱۳۳:۲) اور حاکم وغیرہ کی روایات میں ہے کہ دادی حواء نے اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھا تھا ( حارث شیطان کا نام بتایا جاتا ہے ) اور یہ نام رکھنا شیطان کے فریب دینے کی وجہ سے تھا، جس پر مذکورہ آیت میں شدید نکیر آئی ہے کہ یہ آدم و حواء نے شرک کیا۔ معلوم ہوا کہ غیر اللہ کی طرف عبدیت کی نسبت کر کے نام رکھنا شرک ہے۔
فائدہ: امام ترمذی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کو حسن کہا ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ مگر یہ روایت قطعاً باطل ہے۔ وجوہ درج ذیل ہیں:
(۱) یہ عمر بن ابراہیم بصری کی روایت ہے عن قتادة عن الحسن، عن سمرة ، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں عمر کو صدوق یعنی معمولی درجہ کا ثقہ راوی قرار دیا ہے مگر لکھا ہے کہ قتادہ رحمہ اللہ سے روایت میں یہ راوی ضعیف ہے۔
(۲) یہ حدیث مرفوع ہے یا حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے؟ اس میں اضطراب (اختلاف) ہے۔ غرض یہ روایت قطعی طور پر مرفوع نہیں۔
(۳) حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے لقاء اور سماع مختلف فیہ ہے، گو راحج ثبوت سماع ہے۔
(۴) حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے آیت کی جو تفسیر مروی ہے وہ اس مرفوع روایت کے خلاف ہے۔ پس اگر حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس یہ روایت ہوتی تو ان کی تفسیر اس کے خلاف نہ ہوتی ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ نے یہ تفسیر کی ہے قال : كان هذا في بعض أهل الملل، ولم يكن بآدم ( ابن كثیر )
(۵) علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان روایات کو قطعی طور پر اسرائیلی قرار دیا ہے۔ اور اس پر مفصل کلام کیا ہے۔
(۲) شرعاً اور عقلاً یہ بات ممکن نہیں کی نبی شرک کا ارتکاب کرے، چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی ؟! اور روایت میں یہ صراحت ہے کہ آدم و حواء علیہما السلام نے مل کر یہ نام رکھا تھا ( الدر المنثور (۱۵۱:۳) غرض یہ روایت عصمتِ انبیاء کے بنیادی عقیدہ کے خلاف ہے، اس لئے مردود ہے۔
( رحمت اللہ الواسعہ ص: 631)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔