غیر مقلد اور سنی کے درمیان گفتگو، غیر مقلدوں کو محمدی کیوں کہلاتے ہے۔ رد غیر مقلدیت

0

سلسلہ رد غیر مقلدیت نمبر ۴


غیر مقلد: جی ہاں مسلک اہل حدیث کے بانی نواب صدیق حسن خان صاحب ؒ کے بیٹے نواب نور الحسن خاں صاحب ؒ  نے اس نظریہ کو ہمارا اصول قرار دیا ہے وہ اپنی کتاب ’’عرف الجادی‘‘ ص ۱۰۱ میں لکھتے ہیں’’ چہ در اصول تقرر باشد کہ قول صحابی حجت نیست‘‘ یہ بات اصول میں طے ہے کہ صحابی کا قول دلیل نہیں ہے۔


سنی: آپ کی اس بات نے تو مجھے اور زیادہ حیران کر دیا کہ صحابہؓ کے قول وفعل کو نہ ماننے کا موقف تمہارے اصولوں میں شامل ہے۔


غیر مقلد: دراصل ہم ہر بات میں حدیث اور دلیل کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔اس لئے بعض مسائل میں ہمارے علماء نے صحابہؓ کے خلاف بھی فیصلے سنائے ہیں اس سلسلے میں مولانا محمد جونا گڑھی صاحب کی درج ذیل عبارت ملاحظہ ہو:


  وہ اپنی کتاب طریق محمدی ص ۳۰ پر لکھتے ہیں ””پس آؤ سنو بہت صاف صاف اور موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم ؒنے اس میں غلطی کی“ وہ اس کتاب کے صفحہ ۴۰ پر لکھتے ہیں ”ان مسائل کے دلائل سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے خبر تھے ۔ وہ اسی کتاب میں صفحہ ۴۲ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بابت لکھتے ہیں ۔ پھر بھی ان موٹے موٹے مسائل میں جو روزمرہ کے میں دلائل شرعیہ آپ سے مخفی رہے ۔


سنی: مجھے یقین نہیں آرہا کہ کوئی شخص اپنے خود ساختہ مسلکی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے خلیفہ راشد، خلیفہ عادل، ’’لو کان بعدی نبیا لکان عمر‘‘ کے بارے میں ایسی بات لکھے۔ وہ عمر جن کی تائید میں قرآن کی بعض آیات نازل ہوئیں وہ عمر کہ شیطان جن سے دور بھاگتا تھا۔ بقول شاعر :

انہیں بدگمانی سے فرصت کہاں 

کہ اصحابؓ کا وہ کریں احترام

بخبر بد زبانی نہ سیکھا ہے کچھ

 لگائیں وہ کیونکر زبان کو لگام

غیر مقلد : میں ہوائی باتیں نہیں کر رہا دیکھئے مولانا محمد جونا گڑھی کی کتاب طریق محمدی کے مذکورہ بالاصفحات وفقرات...

سنی: مولانا محمد جونا گڑھی کون صاحب ہیں؟


غیر مقلد: آپ کے سوالات طویل ہوتے جار ہے ہیں۔ ہمیں تو نماز کے موضوع پر گفتگو کرنی ہے۔


سنی: مجھے بھی اس کا احساس ہے، دراصل آپ کے وسیع مطالعہ نے مجھے متاثر کیا ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ اس موضوع کے اہم پہلو میرے بھی سامنے ہوں۔ 


غیر مقلد: جونا گڑھ میں مولانا محمد صاحب ہمارے بہت بڑے عالم گزرے ہیں بہت بڑے خطیب وادیب تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں طریق محمدی، سراج محمدی، نکاح محمدی ہیں الغرض ان کی اکثر کتب محمدی نسبت سے معروف ہیں۔ وہ سنہ ۱۸۹۰ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۴۱ء میں وفات پائی۔ ان کی وفات پر جامعہ سلفیہ ہندوستان کے مدیر مختار ندوی نے شاد اعظمی کا یہ شعر نقل کیا ہے:

لقدمات فی الوطن المبارک وفقہ

سمی رسول اللہ شیخ محمد

خطبات محمدی ص ۱۰ ( ترجمہ ) مبارک وطن میں رسول اللہ ﷺ کے ہم نام شیخ محمد فوت ہو گئے ۔

سنی: کیا یہ محمدی نسبت محمد ﷺ کی طرف ہے؟


غیر مقلد : ہمارے مولانا کا اپنا نام محمد تھا تو انہوں نے اپنی کتابوں کی نسبت اپنے نام کی طرف کی جس کی واضح علامت یہ ہے کہ وہ ایک اخبار نکالتے تھے اس کا نام بھی اخبار محمدی‘‘ تھا اب ظاہر ہے کہ یہ اخبار پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کا تو نہیں تھا۔ اس کی مزید وضاحت یوں سمجھیں کہ ہمارے اکابر کی بہت سی تصانیف انہی کے نام سے منسوب ہیں جیسے تفسیر ثنائی اور فتاوی شنائیہ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی طرف منسوب ہیں ۔ فتاوی نذیر سید میاں نذیر حسین صاحب ؒ کی طرف منسوب ہے۔ فتاوی ستاریہ مولانا عبد الستار کی طرف منسوب ہے ۔ الغرض مولا نا محمد جونا گڑھی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور وہ ہماری مرکزی وعلمی شخصیت ہیں ، جس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ہم سب اس دور سے اپنی نسبت ان کی طرف کر کے محمدی کہلاتے ہیں اور ہمیں اس نسبت پر بجا طور پر فخر ہے۔


سنی: بہت شکریہ آپ نے میری معلومات میں اضافہ کیا کہ آپ کی محمدی نسبت محمد جونا گڑھی صاحب کی وجہ سے ہے ۔ میں تو آج تک مغیث تھا کہ آپ محمد ﷺ کی طرف نسبت کر کے اپنے آپ کو محمدی کہلاتے ہیں۔


غیر مقلد۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اگلا صفحہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ویب گاہ کی بہتری کے لیے آپ کی قیمتی رائے ہمارے لیے اہم اور اثاثہ ہے۔

© 2023 جملہ حقوق بحق | اسلامی زندگی | محفوظ ہیں